Wednesday, March 29, 2023

غزل ( ایس کے شاہد ) کوٹ مومن

 ایس کے شاھد

کوٹ مومن


جو کہنا سی کہہ نہیں ھویا

چپ وی سجنا رہ نہیں ھویا


سارے دکھڑے سہ لئے نے پر

تیرے غم نوں سہہ نہیں ھویا 


تیرے شہر چ فر فر چناں

سوکھا ساہ وی لے نہیں ھویا


غیرت غرضاں نالوں ودھ سی

جگ دے پیریں ڈھہہ نہیں ھویا


سچ دا پلڑا چھڈ کے شاھد

جوٹھ سمندرے لیھہ نہیں ھویا


اسلوب اور اسلوب نگار ( تحریر : ساجد علی امیر )

 اُسلوب اور اُسلوب نگار


تحریر :ساجد علی امیر


اُسلوب کے متعلق مختلف آراء ملتی ہیں ۔لیکن ان تمام آراء میں یہ بات مشترک ہے کہ اُسلوب اُسلوب نگار کی شخصیت کا  مظہر ہوتا ہے۔اس میں اُسلوب نگار کی شخصیت اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ اس طرح سے جلوہ گر ہوتی ہے کہ اس کی ذات کی تمام داخلی اور خارجی کیفیات اور واردات کا بھر پور اظہار ہوجاتا ہے۔اُسلوب شخصی صفت ہے جو اُسلوب نگار کی شخصیت کا مجموعی تاثر پیش کرتے وقت اس کے افکارو خیالات اور جذبات و احساسات کو  تخلیقی طور پر دریافت کرتی ہے۔اُسلوب شخصی اور انفرادی استعداد کا مطالعہ ہوتا ہے۔ڈاکٹر عبادت بریلوی اُسلوب سے مراد ایساطرزِِ اظہار لیتے ہیں جو انسان اور اس کی شخصیت کا آئینہ ہوتا ہے۔فرانسیسی نقاد بوفان "اُسلوب خود انسان ہے"کا داعی ہے جبکہ پروفیسر مرے مصنف کی مکمل شخصیت کو اُسلوب کہتا ہے۔ادبی اظہار کے لیے اسلوب زیور کا کام دیتا ہے اور زبان و بیان کے ان تمام وسائل کو بروئے کار لاتا ہے جن کی مدد سے  تخیل یا موضوع کو موثر طور پر پیش کیا جا سکتا ہے ۔ڈاکٹر سید عبداللہ کے نزدیک:

"اُسلوب سے مراد بات کو بلیغ انداز میں پیش کرنا ہے اور وہ تمام وسائل کو استعمال کرنا مراد ہے, جن سے کوئی ادبی تحریر موثر ثابت ہو سکتی ہے۔"(١)

اُسلوب خاص قسم کا طرزِتحریر ہے جو ادبی تخلیق کے ان تمام خصائص سے تعلق رکھتا ہے جو خیال یاموضوع کا اظہاروابلاغ کرنے میں معاون ہوتے ہیں۔اُسلوب ہی اُسلوب نگار کو انفرادیت سے نوازتا ہے ۔جس کے بل بوتے پر وہ اپنے معاصرین میں نمایاں مقام حاصل کرتا ہے اور اپنی شناخت بناتا ہے۔اُسلوب کی تشکیل میں ان سیاسی ,سماجی,تہذیبی,ثقافتی اور مذہبی حالات واقعات کابڑا عمل دخل ہوتا ہے جو اُسلوب نگار کی شخصیت پر بالواسطہ یا بلاواسطہ اثر انداز ہوتے ہیں۔اگر اُسلوب نگار اپنی شخصیت اور اس سے وابستہ حالات و واقعات کو منہا کرنا چاہے بھی تو نہیں کر سکتا کیونکہ اُسلوب کا کوئی نہ کوئی زاویہ اس کی شخصیت کی مختلف جزئیات اور اسے پیش آنے والے سیاسی ,سماجی اوردیگر واقعات کے مابین ربط تلاش کر لیتا ہے ۔جس سے اس کی شخصیت کی بھر پور عکاسی ہوتی ہے۔ اُسلوب تجربے یا خیال اور اس تجربے یا خیال کو بیان کرنے کے لیے جو الفاظ استعمال ہوتے ہیں ان کے امتزاج سے وجود میں آتا ہے۔تجربے یا خیال کا تعلق شخصیت کی فکری گہرائی,ذہنی وسعت,دینی نظریات و افکار اور ذہنی میلانات سے ہوتا ہے۔ جب ان کو الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے تو یہ محض تجربہ, مشاہدہ یا تخیل نہیں ہوتا بلکہ شخصیت کے اندرون کی الفاظ کے ذریعے خارجی ہئیت تخلیق کی جارہی ہوتی ہے۔یوں اس کے خدوخال وضع ہو جاتے ہیں۔ڈاکٹر عبادت بریلوی اپنی کتاب "اقبال کی اردو نثر "میں رقم طراز ہیں:

"اور یہ صورت حال اس وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ لکھنے والا اپنے اُسلوب کے ذریعے سے اپنے خیالات و نظریات کی وضاحت کرتا ہے۔یہ خیالات و نظریات در حقیقت لکھنے والے کے جذباتی اور ذہنی تجربات کی صورت میں سامنے آتے ہیں"۔(٢)


گورکھ دھندہ ( ناز خیالوی)

 تم اک گورکھ دھندا ہو ۔ ناز خیالوی


تمہاری دید کی خاطر کہاں کہاں پہنچا

غریب مٹ گئے ، پامال ہو گئے لیکن

کسی تلک نہ تیرا آج تک نشاں پہنچا

ہو بھی نہیں اور ہر جا ہو

تم اک گورکھ دھندہ ہو

تم اک گورکھ دھندہ ہو


ہر ذرے میں کس شان سے تو جلوہ نما ہے

حیراں ہے مگر عقل میں کیسا ہے تو کیا ہے

تجھے دیر و حرم میں میں نے ڈھونڈا تو نہیں ملتا

مگر تشریف فرما تجھ کو اپنے دل میں دیکھا ہے

جب بجز تیرے کوئی دوسرا موجود نہیں

پھر سمجھ میں نہیں آتا تیرا پردہ کرنا

تم اک گورکھ دھندہ ہو


کوئی صف میں تمہاری کھو گیا ہے

اسی کھوئے ہوئے کو کچھ ملا ہے

نہ بت خانے نہ کعبے میں ملا ہے

مگر ٹوٹے ہوئے دل میں ملا ہے

عدم بن کر کہیں تو چھپ گیا ہے

کہیں تو ہست بن کر آ گیا ہے

نہیں ہے تو تو پھر انکار کیسا

نفی بھی تیرے ہونے کا پتہ ہے

میں جس کو کہہ رہا ہوں اپنی ہستی

اگر وہ تو نہیں تو اور کیا ہے

نہیں آیا خیالوں میں اگر تو

تو پھر میں کیسے سمجھا تو خدا ہے

تم اک گورکھ دھندہ ہو


حیران ہوں

میں حیران ہوں اس بات پہ تم کون ہو ، کیا ہو

ہاتھ آؤ تو بت ، ہاتھ نہ آؤ تو خدا ہو

اصل میں جو مل گیا ، لا الہ کیونکر ہوا

جو سمجھ میں آگیا پھر وہ خدا کیونکر ہوا

فلسفی کو بحث میں اندر خدا ملتا نہیں

ڈور کو سلجھا رہا ہے اور سرا ملتا نہیں

چھپتے نہیں ہو ، سامنے آتے نہیں ہو تم

جلوہ دکھا کے جلوہ دکھاتے نہیں ہو تم

دیر و حرم کے جھگڑے مٹاتے نہیں ہو تم

جو اصل بات ہے وہ بتاتے نہیں ہو تم

حیراں ہوں میرے دل میں سمائے ہو کس طرح

حالانکہ دو جہاں میں سماتے نہیں ہو تم

یہ معبد و حرم ، یہ کلیسا و دہر کیوں

ہرجائی ہو جبھی تو بتاتے نہیں ہو تم

بس تم اک گورکھ دھندہ ہو

تم اک گورکھ دھندہ ہو


نت نئے نقش بناتے ہو ، مٹا دیتے ہو

جانے کس جرم تمنا کی سزا دیتے ہو

کبھی کنکر کو بنا دیتے ہو ہیرے کی کنی

کبھی ہیروں کو بھی مٹی میں ملا دیتے ہو

زندگی کتنے ہی مردوں کو عطا کی جس نے

وہ مسیحا بھی صلیبوں پہ سجا دیتے ہو

خواہش دید جو کر بیٹھے سر طور کوئی

طور ہی ، بن کے تجلی سے جلا دیتے ہو

نار نمرود میں ڈلواتے ہو خود اپنا خلیل

خود ہی پھر نار کو گلزار بنا دیتے ہو

چاہ کنعان میں پھینکو کبھی ماہ کنعاں

نور یعقوب کی آنکھوں کا بجھا دیتے ہو

بیچو یوسف کو کبھی مصر کے بازاروں میں

آخر کار شہ مصر بنا دیتے ہو

جذب و مستی کی جو منزل پہ پہنچتا ہے کوئی

بیٹھ کر دل میں انا الحق کی صدا دیتے ہو

خود ہی لگواتے ہو پھر کفر کے فتوے اس پر

خود ہی منصور کو سولی پہ چڑھا دیتے ہو

اپنی ہستی بھی وہ اک روز گنوا بیٹھتا ہے

اپنے درشن کی لگن جس کو لگا دیتے ہو

کوئی رانجھا جو کبھی کھوج میں نکلے تیری

تم اسے جھنگ کے بیلے میں اڑا دیتے ہو

جستجو لے کے تمہاری جو چلے قیس کوئی

اس کو مجنوں کسی لیلیٰ کا بنا دیتے ہو

جوت سسی کے اگر من میں تمہاری جاگے

تم اسے تپتے ہوئے تھر میں جلا دیتے ہو

سوہنی گر تم کو “مہینوال” تصور کر لے

اس کو بپھری ہوئی لہروں میں بہا دیتے ہو

خود جو چاہو تو سر عرش بلا کر محبوب

ایک ہی رات میں معراج کرا دیتے ہو

تم اک گورکھ دھندہ ہو

تم اک گورکھ دھندہ ہو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ناز خیالوی



Monday, March 27, 2023

جگر مراد آبادی ( نعتیہ مشاعرہ)

 "اجمیر شریف میں نعتیہ مشاعرہ" 

 فہرست بنانے والوں کے سامنے یہ مشکل تھی کہ جگر مرادآبادی صاحب کو اس مشاعرے میں کیسے بلایا جائے۔ وہ کھلے رِند تھے اور نعتیہ مشاعرے میں ان کی شرکت ممکن نہیں تھی۔ اگر فہرست میں ان کا نام نہ رکھا جائے تو پھر مشاعرہ ہی کیا ہوا۔ منتظمین کے درمیان سخت ‏اختلاف پیدا ہوگیا۔

کچھ ان کے حق میں تھے اور کچھ خلاف۔

دراصل جگرؔ کا معاملہ تھا ہی بڑا اختلافی۔

بڑے بڑے شیوخ اور عارف باللہ اس کی شراب نوشی کے باوجود ان سے محبت کرتے تھے۔ انہیں گناہ گار سمجھتے تھے لیکن لائقِ اصلاح۔ شریعت کے سختی سے پابند علماء حضرات بھی ان سے نفرت کرنے کے ‏بجائے افسوس کرتے تھے کہ ہائے کیسا اچھا آدمی کس برائی کا شکار ہے۔ عوام کے لیے وہ ایک اچھے شاعر تھے لیکن تھے شرابی۔ تمام رعایتوں کے باوجود علماء حضرات اور شاید عوام بھی یہ اجازت نہیں دے سکتے تھے کہ وہ نعتیہ مشاعرے میں شریک ہوں۔

آخر کار بہت کچھ سوچنے کے بعد منتظمینِ مشاعرہ نے فیصلہ کیا کہ جگر ؔ کو مدعو کیا جانا چاہیے۔ یہ اتنا جرات مندانہ فیصلہ تھا کہ جگرؔ کی عزت کا اس سے بڑا اعتراف نہیں ہوسکتا تھا۔ جگرؔ کو مدعو کیا گیا تووہ سر سے پاؤں تک کانپ گئے۔ 

’’میں گنہگار، رند، سیہ کار، بد بخت اور نعتیہ مشاعرہ! 

" نہیں صاحب نہیں‘‘ 

اب منتظمین کے سامنے یہ مسئلہ تھا کہ جگر صاحب ؔکو تیار کیسے کیا جائے۔ ان کی تو آنکھوں سے آنسو اور ہونٹوں سے انکار رواں تھا۔ نعتیہ شاعر حمید صدیقی نے انہیں آمادہ کرنا چاہا، ان کے مربی نواب علی حسن طاہر نے کوشش کی لیکن وہ کسی صورت تیار نہیں ہوتے تھے، 

بالآخر اصغرؔ گونڈوی نے ‏حکم دیا اور وہ چپ ہوگئے۔ 

ایک دن گزرا، دو دن گزر گئے، وہ سخت اذیت میں تھے۔ نعت کے مضمون سوچتے جاتے تھے ۔ دوستوں سے کہہ دیا کہ کوئی ان کے سامنے شراب کا نام تک نہ لے۔ دل پر کوئی خنجر سے لکیر سی کھینچتا تھا، وہ بے ساختہ شراب کی طرف دوڑتے تھے مگر پھر رک جاتے تھے کہ مجھے نعت لکھنی ہے ۔اگر شراب کا ایک قطرہ بھی ‏حلق سے اترا تو کس زبان سے اپنے آقا کی مدح لکھوں گا۔ یہ موقع ملا ہے تو مجھے اسے کھونانہیں چاہیے، ممکن ہے  یہ میری بخشش کا آغاز ہو۔ شاید اسی بہانے میری اصلاح ہوجائے، شاید اللّه کو مجھ پر ترس آجائے!

ایک دن گزرا، دو دن گزر گئے، وہ سخت اذیت میں تھے۔ نعت کے مضمون سوچتے تھے اور غزل ‏کہنے لگتے تھے، سوچتے رہے، لکھتے رہے، کاٹتے رہے، لکھے ہوئے کو کاٹ کاٹ کر تھکتے رہے، آخر ایک دن نعت کا مطلع ہوگیا۔ 

پھر ایک شعر ہوا، پھر تو جیسے بارشِ انوار ہو گئی۔ نعت مکمل ہوئی تو انہوں نے سجدۂ شکر ادا کیا۔ مشاعرے کے لیے اس طرح روانہ ہوئے جیسے حج کو جارہے ہوں۔

کونین کی‏ دولت ان کے پاس ہو۔ جیسے آج انہیں شہرت کی سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچنا ہو۔ 

 مشاعرہ گاہ کے باہر اور شہرکے چوراہوں پر احتجاجی پوسٹر لگ گئے تھے کہ ایک شرابی سے نعت کیوں پڑھوائی جارہی ہے۔ لوگ‏ بپھرے ہوئے تھے۔ 


اندیشہ تھا کہ جگرصاحب ؔ کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے یہ خطرہ بھی تھا کہ لوگ اسٹیشن پر جمع ہوکر نعرے بازی نہ کریں۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے منتظمین نے جگر کی آمد کو خفیہ رکھا تھا۔ وہ کئی دن پہلے اجمیر شریف پہنچ چکے تھے جب کہ لوگ سمجھ رہے تھے کہ مشاعرے والے دن آئیں گے۔


جگر اؔپنے خلاف ہونے والی ان کارروائیوں کو خود دیکھ رہے تھے اور مسکرا رہے تھے؎


کہاں پھر یہ مستی، کہاں ایسی ہستی

جگرؔ کی جگر تک ہی مے خواریاں ہیں


آخر مشاعرے کی رات آگئی۔جگر کو بڑی حفاظت کے ساتھ مشاعرے میں پہنچا دیا گیا۔ 

اسٹیج سے آواز ابھری

’’رئیس المتغزلین حضرت جگر مرادآبادی!‘‘ ۔


اس اعلان کے ساتھ ہی ایک شور بلند ہوا، جگر نے بڑے تحمل کے ساتھ مجمع کی طرف دیکھا… اور محبت بھرے لہجے میں گویاں ہوئے۔۔


’’آپ لوگ مجھے ہوٹ کررہے ہیں یا نعتِ رسولِ پاک کو،جس کے پڑھنے کی سعادت مجھے ملنے والی ہے اور آپ سننے کی سعادت سے محروم ہونا چاہتے ہیں‘‘۔


شور کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔ بس یہی وہ وقفہ تھا جب جگر کے ٹوٹے ہوئے دل سے یہ صدا نکلی ہے…


اک رند ہے اور مدحتِ سلطان مدینہ

ہاں کوئی نظر رحمتِ سلطان مدینہ


جوجہاں تھا ساکت ہوگیا۔ یہ معلوم ہوتا تھا جیسے ان کی زبان سے شعر ادا ہو رہاہے اور قبولیت کا پروانہ عطا ہو رہا ہے۔


نعت کیا تھی گناہگار کے دل سے نکلی ہوئی آہ تھی،خواہشِ پناہ تھی، آنسوؤں کی سبیل تھی، بخشش کا خزینہ تھی۔ وہ خود رو رہے تھے اور سب کو رلا رہے تھے، دل نرم ہو گئے، اختلاف ختم ہو گئے، رحمتِ عالم کا قصیدہ تھا، بھلا غصے کی کھیتی کیونکر ہری رہتی

’’یہ نعت اس شخص نے کہی نہیں ہے، اس سے کہلوائی گئی ہے‘‘۔مشاعرے کے بعد سب کی زبان پر یہی بات تھی.

نعت یہ تھی..


اک رند ہے اور مدحتِ سلطانِ مدینہ

ہاں کوئی نظر رحمتِ سلطانِ مدینہ


دامانِ نظر تنگ و فراوانئِ جلوہ

اے طلعتِ حق طلعتِ سلطانِ مدینہ


اے خاکِ مدینہ تری گلیوں کے تصدق

تو خلد ہے تو جنت ِسلطانِ مدینہ


اس طرح کہ ہر سانس ہو مصروفِ عبادت

دیکھوں میں درِ دولتِ سلطانِ مدینہ


اک ننگِ غمِ عشق بھی ہے منتظرِ دید

صدقے ترے اے صورتِ سلطان مدینہ


کونین کا غم، یادِ خدا ور شفاعت

دولت ہے یہی دولتِ سلطانِ مدینہ


ظاہر میں غریب الغربا پھر بھی

یہ عالم شاہوں سے سوا سطوتِ سلطانِ مدینہ


اس امت عاصی سے نہ منہ پھیر خدایا

نازک ہے بہت غیرتِ سلطانِ مدینہ


کچھ ہم کو نہیں کام جگر اور کسی سے

کافی ہے بس اک نسبت ِسلطانِ مدینہ


منقول🙏


Sunday, March 26, 2023

خود ساختہ مہنگائی رمضان اور غریب عوام ( شاہد رشید )

 خود ساختہ مہنگائی ،رمضان اور غریب عوام  


تحریر 


شاہدرشید 


ماہ صیام کی آمد کے ساتھ ہی گراں فروش کمر کس لیتے ہیں انکی کوشش ہوتی ہے جتنا منافع کمانا ہے اسی مہینے کما لیں وہ سال بھر کی کسر اسی مہینے نکالنے کی مکمل کوشش کرتے ہیں۔ رمضان سے پہلے چیزیں پھر بھی سستی ہوتی ہیں رمضان کا مہینہ شروع ہوتے ہی  اشیا خورونوش کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں۔ سرکاری ریٹ لسٹ پر عمل درآمد بالکل بھی نہیں کیا جاتا سرکاری ریٹ کے برعکس ہی اشیا فروخت کی جاتی ہیں۔

ضلعی انتظامیہ اور پرائس کنٹرول کمیٹیز خود ساختہ مہنگائی کرنے والوں  کے خلاف کاروائی کرنے میں بے بس نظر آتی ہیں۔ گاہک سے منہ مانگے دام وصول کیے جاتے ہیں۔ رمضان میں ایک ہی شہر میں دو مختلف دکانوں پر آپ کو ایک ہی چیز مختلف ریٹ پر ہی ملتی ہے ۔ جسکا جتنا دل کرتا ہے وہ اتنا منافع کمانے کی کوشش کرتا ہے آگر  اس وقت پھلوں سبزیوں کی بات کریں تو انکی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں  بازار میں سبزی اور فروٹ لینے والے روزہ داروں کو جتنا ممکن ہو سکتا ہے لوٹا جا رہا ہے۔ خاص طور پر فروٹ تو اس قدر مہنگا بک رہا  ہے کہ عام آدمی تو بیچارہ پریشان ہی دکھائی دیتا ہے۔خود ساختہ مہنگائی کے علاؤہ  ناپ تول میں ڈنڈی مارنا، بھی رمضان میں معمول ہوتا ہے۔حکومت ہر رمضان میں رمضان بازار کے نام سے عوام کے لیے سہولت فراہم کرتی ہے  جو اشیا رمضان بازار میں ریلیف کے نام فروخت کی جاتی ہیں ان کا معیار اتنا گھٹیا ہوتا ہے کہ عام آدمی ان کو خریدنا بھی پسند نہیں کرتا ہے۔ آگر ہم دوسرے ممالک پر نظر ڈالیں تو کچھ اسلامی ممالک یہاں تک کے امریکہ کے اندر   ہر رمضان میں عوام کو جتنا ہو سکے ریلیف فراہم کیا جاتا ہے  رمضان میں عوام کو معیاری چیزیں کافی سستی ملتی  ہیں لیکن ہمارے پاکستان میں رمضان میں چیزیں ڈبل ہو  جاتی ہیں۔ حکومتوں کو رمضان میں کم سے کم عوام کو ریلیف ضرور دینا چاہیے تاکہ رمضان کے بابرکت مہینے میں  عوام کے لیے روزہ رکھنا اور کھولنا آسان ہو سکے آگر ہر دوکاندار یہ عہد کر لے  ہر رمضان میں ہم  نے مخلوق خدا کے لئے آسانیاں پیدا کرنی ہیں اور رمضان کے مہینے میں کم سے کم منافع کمانا ہے  کیا معلوم یہ ہماری زندگی کا آخری رمضان ہو پھر ہر رمضان میں عوام کو اشیا مناسب قمیت میں آ سانی سے مل سکتی ہیں اور ہر دکاندار اپنی دنیا اور آخرت دونوں  سنوار سکتا ہے۔


پیمپرز کے بچوں کی صحت پر نقصانات( تحریر : حافظ محمد نوید کمبوہ )

 پیمپرز کے بچوں کی صحت پہ نقصانات۔۔۔۔


تحریر حافظ محمد نوید کمبوہ 

پیمپر ایک لنگوٹ نما نیکر ہے جسے کیمیکلز اور پلاسٹک کی مدد سے تیار کیا جاتا ہے

آج کل کی خواتین سارا سارا دن بچوں کو یہ نیکر نما پیمپر چڑھا کر رکھتی ہیں تاکہ انہیں بار بار بچے کا گیلا پاجامہ چینج نہ کرنا پڑے حبکہ رات کو سوتے وقت بھی پیمپر پہنا کر سلاتی ہیں  کہ بستر گیلا نہ ہو اور انہیں پاجامہ چینج نہ کرنا پڑے اور صبح جاکر بچے کا پیمپر چنیج کیا جاتا ہے 

خواتین کے لیے تو یہ سہولت رہتی ہے مگر بچہ جس اذیت سے دوچار ہوتا ہے وہ بعد میں بیماریوں کی شکل  ظاہر ہوتی ہیں

 بچے کے پیشاب میں غلیظ جراثیم مثانہ کی نالیوں کے ذریعے اندر جاکر مرض پیدا کرتے ہیں اور پاخانہ کیے کتنے گھنٹے گزر جاتے ہیں اور اسکے گندے مادے واپس اندر جاکر اندرونی اعضاء کو نقصان پہنچاتے ہیں جس سے سکن ریشیز اور چنونے پیدا ہوکر بچے کو بےچین رکھتے ہیں بچوں کی سکن حساس ہونے کی وجہ سے وہاں چھوٹے چھوٹے دانے نکل اتے ہیں ایسی صورت میں بچے کو سرسوں کے تیل میں پانی مکس کر کے جھاگ بنا لیں اور جھاگ ریشیز پہ لگائیں اس سے بچہ پرسکون ہوجائے گا۔ 

پیمپرز کے گیلے پن سے بچوں کو نزلہ ،بخار،کھانسی ،ناک بند ہونا اور نمونیا ہوجاتا ہے  مگر یہ ظاہری اور عارضی مرض ہوتا ہے  ان علامات میں کشتہ بارہ سنگھا شہد میں ملا کر چٹائیں ۔کھانسی کے لیے  اجوائن توے پہ بھون کر پیس لیں اور شہد میں ملا کر چٹائیں ڈاکٹروں کے چکر لگتے ہیں بچے کو انجکشن یا نیلے پیلے سیرپ دے کر وقتی نجات مل جاتی ہے

مگر اصل مسائل تب سامنے اتے ہیں جب بچہ نوعمری میں قدم رکھتا ہے  بچہ خواہ لڑکا ہو یا لڑکی پیمپرز کے نقصانات دونوں کے لیے ہیں

لڑکیوں میں۔۔۔۔

لیکوریا

وجائنا کی خارش

رحم کا انفکشن

پیشاب کی تکالیف

بے اولادی وغیرہ

لڑکوں میں۔۔۔

سوزاک

جریان

احتلام

عضو کی کجی

اور چھوٹا رہ جانا جیسے امراض پیدا ہوجاتے ہیں

پیمپرز کو اج کل خواتین نے فیشن بنا لیا ہے کچھ ٹائم پیچھے چلے جائیں مائیں بچوں کو پیدائش سے لے کر ایک دو ماہ تک لنگوٹ باندھتی تھیں جو نرم کپڑے سے گھر میں تیار کئیے جاتے تھے بچوں کو لٹانے کے لیے نیچے نرم گدا بچھایا جاتا تھا بچہ جیسے ہی پیشاب کرتا ماں کو فورا پتہ چل جاتا اور بچے کا لنگوٹ چینج کر کے گدا بدل دیتی تھیں

اس وقت بچے نہ تو زیادہ بیمار ہوتے تھے نہ انکی صحت گرتی تھی جبکہ پیمپر میں کئی کئی گھنٹے بچہ مسلسل پیشاب پاخانہ کرتا ہے پھر کہیں جاکر اس کا پیمپر بدلا جاتا یے 

اکثر مائیں شکایت کرتی ہیں کہ بچہ دودھ ٹھیک پیتا ہے مگر سوتے وقت روتا ہے ضد کرتا ہے اور دن بدن کمزور ہوتا جارہا ہے اس کا اصل سبب گیلا پیمپر ہے جو بچے کو بے چین رکھتا ہے اس کے باوجود اگر بچہ بےچین ہے تو رات کو بچے کے پیروں کے تلووں پہ نیم گرم تیل کی مالش کریں دودھ پلا کر کندھے سے لگائیں جب تک بچہ ڈکار نہ لے کندھے سے لگائے رکھیں ڈکار سے پتہ چلتا ہے کہ بچے کا پیا دودھ ہضم ہوگیا ہے بچہ سکون سے سو جائے گا اور صحت بھی اچھی ہوگی

بچے کے جنسی ارگنز جو گروتھ کرنا چاہتے ہیں مگر پیمپرز رکاوٹ پیدا کرکے ان ارگنز کی نشونما نہیں ہونے دیتے اور بچے جنسی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں


سینکڑوں گھروں میں سحری پہنچائی جارہی ہے ( عبد المتین کمبوہ )

 کوٹ رادھا کشن: اَلْحَمْدُلِلّٰه عوام دوست اتحاد کی طرف سے ، چوہدری جاوید عثمان امیدوار PP 174 کی قیادت میں سینکڑوں گھروں میں صبح سحری پہنچائی جا رہی ہے۔


کوٹ رادھاکشن(نمائندہ خصوصی، عبدالمتین کمبوہ سے) 

تفصیلات کے مطابق یہ پروگرام چوہدری جاوید عثمان امیدوار PP 174 کی قیادت میں جاری و ساری ہے۔ یہ کام صرف اللہ کی رضا کے لئے کر رہے ہیں صبح 3 بجے ٹیمیں مختلف محلوں میں سحری کا کھانا لوگوں کے گھروں میں تقسیم کرتی ہیں اور ہر گھر سے دعائیں ملتی ہیں حقیقت میں اللہ والے لوگ حقیقت میں ملک و ملت کے غمخوار 

جنہیں گھر بار، آرام و سکون اور عیش و عشرت کی کوئی فکر نہیں۔ عوام پاکستان کو سمجھنا چاہیے کہ جس جماعت نے ازل سے لیکر ایام حاضرہ تک ہر مشکل گھڑی میں ہر قدرتی آفت میں پریشان حال لوگوں کو سہارا دیا اور زندگی جینے کی نئی کرنیں پیدا کیں۔ جنکے پاس نہ حکومتی عہدے نہ حکومتی وزارتیں نہ صدارتیں نہ حکومتی وسائل لیکن پھر بھی ہمہ وقت ہمہ قسم کی مصیبت میں گھرے لوگوں کے دل جیتے ہیں۔۔۔ قوم کو ترقی کی طرف لانے اور اسلام کو غالب کرنے میں یہی قرآن و سنت کے پروانے کام کر سکتے ہیں 

واللہ جب ملک و ملت کیلئے انکی خدمات پر نظر پڑتی دل رو کر دعا کرتا ہے اے اللہ! اس جماعت کو اس جماعت والوں کو تو ہمیشہ قائم رکھنا آمین


بارشیں ، ژالہ باری , گندم اور کسان کی حالت

 بارشیں، ژالہ باری،گندم  اور کسان کی حالت

تحریر :  یاسین یاس 



حالیہ ہونے والی بے موسمی بارشوں اور ژالہ باری نے کسانوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے تیار اور پکی ہوئی فصلیں تباہی و برباد ہوگئی ہیں جن میں سرسوں ،مکئی ،تربوز،سبزیاں اور گندم سرفہرست ہیں گندم ایسی فصل ہے جس کی ہمارے ہاں پہلے سی قلت چل رہی ہے آٹے کے لیے لوگ زلیل و خوار ہر رہے ہیں اوپر سے رہی سہی کسر ان بارشوں اور ژالہ باری نے نکال دی ہے کسان خود کشیوں پر مجبور ہورہے ہیں ان کے بارے سوچنا حکومت کی اولین ترجیح ہونا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ پانی سر سے گزر جائے خدارا مل بیٹھ کر کسان کا سوچیے۔

پنجاب کے  متعدد علاقوں میں کسان پکنے کے قریب گندم

 کی فصل کو دیکھ دیکھ کر جی رہے تھے دن رات محنت کرکے اپنا خون پسینہ ایک کرنے والا کسان ان کھیتوں میں گھوم  پھر رہا تھا اس وقت وہ اپنے آپ کو کسی راجہ مہاراجہ سے کم نہیں سمجھ رہا تھا لیکن پھر پل بھر  میں سب کچھ  بدل گیا گیاجیسے یہاں کچھ تھاہی نہیں ایک طوفانی بارش کے بعد کھیتوں کامنظرہی بدل گیا گندم کےخوشوں پر ژالہ باری ہورہی تھی تو یہ کسان کے دل چیرنے جیسا تھا کہاوت ہے کہ چیتر میں تو سونے کی کنی بھی سارے نہیں ہے یہ سینکڑوں ایکڑ پر کھڑی فصل تھی جو کسان کی آنکھوں کے سامنے تباہی و برباد ہو گئی ایک دو پودے تو تھے نہیں جنہیں کسان اپنےدامن میں سمیٹ لیتا یاخود انکے اوپر کھڑے ہو کر نوکیلی ژالہ باری کےزخم اپنےجسموں پر برداشت کرلیتا میرے گاؤں سے کوئی دو  تین کلو میٹر دور ایک کسان کی بیوی کافی دیر بے ہوش پڑی رہی جب امیدیں ٹوٹتی ہیں تو سانسوں کی ڈوری بھی جیسے ٹوٹتی نظرآتی ہے،خدا خدا کرکے کسان کی بیوی کی جان تو بچ گئی مگر ادھار کی کھاد ، زرعی ادویات اور دیگر اخراجات  کی گھٹڑی اپنے ناتواں کندھوں سے اٹھا کر کیسے ان کھیتوں سے نکلے گی یہ تو وہی جانے یا اس کا رب ۔۔

میری تو عادت ہے جو شاید ختم نہیں ہوگی اور خدا کرے ختم نہ ہو کبھی،کسان کے غم محسوس کرتا ہوں،

 اسےصفحہ قرطاس کی زینت بناتا ہوں اور کوشش ہمیشہ سے رہی ہے کہ کہیں نہ کہیں کسی غمزدہ کی آواز کو متعلقہ حکام تک پہنچاؤں یہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے شاید یہ اس لیے ہےکہ میں بھی ایک کسان کا بیٹاہوں کسان کے نقصان کا ازالہ کرنے کی ضرورت ہے وہیں  مستقل بنیادوں پر ایسی پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے جس سے کسان کو اس کی محنت کا پورا صلہ مل سکے اور کسان کی بات کرتے وقت حقیقی کسانوں کی مشاورت شامل کی جائے جاگیردار،سرمایہ دار،شوگراورفلورملز مالکان کو نہ تو  کسان کی پریشانی کا علم ہے نہ انہیں ان کا احساس ہے کچھ کرنا ہے توبراہ راست کریں اورمشاورت بھی براہ راست کسانوں سے  کریں تاکہ ملنے والا ریلیف کسانوں کو ہی ملے نہ کہ وڈیروں اور جاگیر داروں کو ایسا کرنے سے کسان دربارہ محنت کرےگا اور ہم جلد اس بحران سے نکل آئیں گے انشاء اللہ 

اعزاز عین غزل

 جے تو میرے بارے کوئی چنگی گل نیئں کرنی

سمجھ گیا ہوویں گا ۔ہن میں اگلی گل نئیں کرنی


میں پُچھیا اج کیوں سدّیا ای تے اوہ آکھن لگی 

اک دوجے نوں ویکھی جاناے کوئی گل نیئں کرنی


پہلی گل اے تیرا پیار حیاتی نالوں ودھ اے

 پہلی تے اتبار ای تے میں دوجی گل نیئں کرنی


پیار تے نفرت بارے تیتھوں تاں میں پُچھّن آیاں

تو تے سِدھا بندہ ایں تو پُٹھی گل نئیں کرنی


حسن تیرے تے صدقے ۔ تاہیوں پردے پائی پھرناں 

 تینوں ویکھ لیا تے لوکاں میری گل نئیں کرنی

 

عشق چ کِتھے،  کِنّے کِنیّاں کاہنوں پیڑاں جریاں 

عاشق لئی ایہ حد اے اوہنے ایہ وی گل نیئں  کرنی  


میری پیار کہانی بھانویں ادھوری رہ جاوے  

اوہدی میری گل ہوئی اے اوہدی گل نیئں کرنی 

 

جنّت دوزخ ہورے کیہ اے عین پتہ نیئں  مینوں 

اللہ میرا بیلی اے میں وڈّی گل نیئں کرنی  


          اعزاز عین


پاکستان کی شان نسٹ یونیورسٹی ( خالد غورغشی )

 پاکستان کی شان نسٹ یونی ورسٹی


خالد غورغشتی 


نسٹ یونی ورسٹی اسلام آباد میں واقع دنیا کی بہترین یونی ورسٹی ہے۔ اس کا شمار دنیا کی 500 عظیم یونی ورسٹیوں میں کیا جاسکتا ہے۔ یہ یونی ورسٹی جدید انجینئرنگ اور سائنس و ٹیکنالوجی میں دنیا میں اپنی مثال آپ ہے۔

کچھ دن قبل امریکہ میں دنیا کی بہترین 800 یونی ورسٹیوں کا مقابلہ برائے جدید سائنس و ٹیکنالوجی منعقد کیا گیا۔ جس میں پاکستان سے نسٹ یونی ورسٹی کے عملے نے اس مقابلے میں بھرپور شرکت کی۔ یونی ورسٹی آف ٹیکنالوجی منیجرز کے زیر اہتمام دنیا بھر کی 800 یونی ورسٹیوں نے ایسی 140 جدید سانئسی تحقیقات پیش کی۔ جن تحقیقات نے دنیا بھر میں مثبت اثرات مرتب کیے۔ 

نسٹ یونی ورسٹی آف جدید سانئس اینڈ ٹیکنالوجی کے طلبہ نے ایک ایسا آلہ پیش جو تھرتھراتی موجوں کے ذریعے آنزم اور دوسری دماغی بیماریوں کا محفوظ علاج کرتا ہے۔ ایسوسی ایشن آف یونی ورسٹی ٹیکنالوجی منیجرز کی ویب سائٹ کے مطابق اس پراجیکٹ نے 1100 سے زائد ووٹوں سے دنیا کی 800 یونی ورسٹیوں کے مقابلے میں یہ تحقیقی مقابلہ جیت کر یہ تاریخی کارنامہ اپنے نام کیا۔ نسٹ یونی ورسٹی کے تیار کردہ آلے کو ایکو کا نام دیا گیا تھا۔ اس آلے نے پہلے مقابلے کے تین بہترین آلات میں جگہ بنائی،  پھر اس نے مجموعی پراجیکٹ کو بھی جیتنے کا اعزاز حاصل کرلیا۔ ایکو آلہ دنیا بھر کی مارکیٹوں کی طرح جلد پاکستان بھر میں بھی نہایت کم قیمت پر عام مارکیٹوں میں دستاب ہوگا۔ جو دماغی مریضوں کے لیے نہایت مفید کارگر ثابت ہوگا۔

گزارش یہ کرنی تھی کہ نسٹ یونی ورسٹی اسلام آباد نہایت تیزی سے جدید سائنس و ٹیکنالوجی پر کام کررہی ہے۔ اس کا بھرپور ساتھ دیں۔ جلد اسی عظیم یونی ورسٹی سے ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور ڈاکٹر ثمر مبارک جیسے عظیم سائنس دان تیار ہوں گے۔ جو دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کریں گے۔ مگر دست بستہ عرض یہ ہے کہ بچوں کو بیرون ملک پڑھنے کےلیے بھیجنے کی بجائے نسٹ یونی ورسٹی میں داخل کروائیں۔


Saturday, March 25, 2023

جواب شکوہ بیوی ( قمر بن یامین )

 



⭕بیوی کا جوابِ شکوہ⭕


تیری بیوی بھی صنم تجھ پہ نظر رکھتی ہے

چاہے میکے ہی میں ہو تیری خبر رکھتی ہے


اُسکی سینڈل بھی میاں اتنا اثر رکھتی ہے

پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے


شعر تھا فتنہ گر و سرکش و چالاک ترا

دل، جگر چیر گیا نالہء بیباک ترا


آئی آواز ٹھہر تیرا پتا کرتی ہوں

تُو ہے اَپ سیٹ میں ابھی تیری دوا کرتی ہوں


میں تجھے پہلے بھی اکثر یہ کہا کرتی ہوں

ارے کمبخت! بہت تیری حیا کرتی ہوں


اور تو ہےکہ بڑی نظمیں ہے پڑھتا پھرتا

اپنے یاروں میں بڑا اب ہے اکڑتا پھرتا


میں دکھاتی ہوں ابھی تجھ کو بھی نقشہ تیرا

نہ کوئی قوم ہے تیری نہ ہے شجرہ تیرا


بھائی تیرے ہیں سبھی مجھ کو تو غُنڈے لگتے

یہ ترے کان کڑاہی کے ہیں کُنڈے لگتے


اپنی شادی پہ عجب رسم چلائی کس نے؟

نہ کوئی بس نہ کوئی کار کرائی کس نے؟


آٹو رکشے ہی پہ بارات بُلائی کس نے ؟

منہ دکھائی کی رقم میری چرائی کس نے ؟


کچھ تو اب بول ارے! نظمیں سنانے والے

مولوی سے میرا حق ِمہر چھڑانے والے


صاف کہہ دے مجھے کس کس پہ ہے اب کے مرتا؟

رات کے پچھلے پہر کس کو ہے کالیں کرتا ؟


کس کے نمبر پہ ہے سو سو کا تُو بیلنس بھرتا ؟

چل بتا دے مجھے‘ اب کاہے کو تُو ہے ڈرتا


ورنہ ابّے کو ابھی اپنے بُلاتی میں ہوں

آج جوتے سےمزا تجھکو چکھاتی میں ہوں


اپنی تنخواہ فقط ماں کو تھمائی تُو نے

آج تک مجھکو کبھی سیر کرائی تُو نے؟


کوئی ساڑھی، کوئی پشواز دلائی تُو نے؟

ایک بھی رسم ِوفا مجھسے نبھائی تو نے؟


لطف مرنے میں ہے باقی نہ مزا جینے میں

کتنے ارمان تڑپتے ہیں مرے سینے میں


بھول ابّا سے ہوئی اور سزا مجھ کو ملی

ماں بھی جان گئی کیسی بلا مجھ کو ملی


میں نے چاہی تھی وفا اور جفا مجھ کو ملی

میری تقدیر ہی دراصل خفا مجھ کو ملی


میرے میکے سے جو مہمان کوئی آتا ہے

رنگ ترے چہرے کا اسی وقت بدل جاتا ہے


سامنے آنے سے اّبا کے تُو کتراتا ہے

کتنا سادہ ہے کہتا ہے کہ ”شرماتا ہے“


تُو ہوا جس کا مخالف وہ تری ساس نہیں؟

میری عزت کا ذرا بھی تجھے احساس نہیں !


ہڈی پسلی میں تری توڑ کے گھر جاؤں گی

ارے گنجے! ترا سر پھوڑ کے گھر جاؤں گی


سَرّیا گردن کا تری موڑ کے گھر جاؤں گی

سارے بچوں کو یہیں چھوڑ کے گھر جاؤں  گی

  

یاد رکھنا ! میں کسی سے بھی نہیں ڈرتی ہوں

آخری بار خبردار تجھے کرتی ہوں..


Friday, March 24, 2023

شکوہ ( مزاحیہ شاعری) قمر بن یامین

 شکوہ


کیوں زیاں کار بنوں سود فراموش رہوں

زن مریدی ہی کروں میں اور مدہوش رہوں


طعنے بیگم کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں

ہم نوا میں کوئی بزدل ہوں کہ خاموش رہوں


جرات آموز مری تاب ِسخن ہے مجھکو

شکوہ اک زوجہ سے ! خاکم بدہن ہے مجھکو


تجھکو معلوم ہے لیتا تھا کوئی رشتہ ترا

سر پٹختے ہوئے پھرتا تھا کبھی اّبا ترا


کس قدر خوش تھا میں جس دن تیرا ڈولا نکلا

تیرا ڈولا تو مگر موت کا گولا نکلا


تو جو سوتی ہے تو سالن بھی پکاتا ہوں میں

ٹیپو روتا ہے تو فیڈر بھی بناتا ہوں میں


گڈی جاگے ہے تو جھولا بھی جھلاتا ہوں میں

پّپو اٹھ بیٹھے جو راتوں کو کھلاتا ہوں میں


پھر بھی مجھ سے یہ گلا ہے کہ وفادار نہیں

میں وفادار نہیں تو بھی تو دلدار نہیں


ھےبجا حلقہ ازواج میں مشہور ھوں میں

تیرا بیرا، تیرا دھوبی ، تیرا مزدور ھوں میں


زن مریدی کا شرف پاکے بھی رنجور ھوں میں

قصہ درد سناتا ھوں کہ مجبور ھوں میں


میری مخدومہ میرے غم کی حکایت سن لے

ناز بردار سے تھوڑی سی شکایت سن لے


زچہ بن بن کے بجٹ میرا گھٹایا تو نے

ھر نۓ سال نیا گل ھے کھلایا تو نے


رشتہ داروں نے تیرے ، جان میری کھائ ھے

فوج کی فوج میرے گھرمیں جو در آئی ھے


کوئ ماموں ، کوئ خالو ، کوئ بھائی ھے

بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ھرجائی ھے


کیسے غربت میں ، میں پالوں تیرے غمخواروں کو

ان ممولوں کو سمبھالوں یا چڑی ماروں کو


میں وہ شوھر ھوں کہ خود آگ جلائی جس نے

لا کے بستر پہ تجھے چاۓ پلائ کس نے


تو ھی کہہ دے تیرا حسن نکھارا کس نے

اس بلیک آؤٹ سے مکھڑے کو سنوارا کس نے


کون تیرے لیۓ درزی سے غرارا لایا

واسطہ دے کے غریبی کا خدارا لایا


پھر بھی مجھ سے گِلا کہ کماتا کم ھوں

لے کے شاپنگ کے لیۓ تجھ کو، میں جاتا کم ھوں


نوجوانی میں تجھے عیش کراتا کم ھوں

اور پلازا میں تجھے فلم دکھاتا کم ھوں


کاش نوٹوُں سے حکومت میری جیبیں بھردے

مشکلیں شوھرِ مظلوم کی آسان کر دے


محفلِ شعرو سخن میں تو چمک جاتا ھوں میں

تیری سرکار میں پہنچوں تو دبک جاتا ھوں میں


تو جو بلغم بھی کھنگارے تو ٹھٹک جاتا ھوں میں

گھور کر دیکھے تو پیچھے کو سرک جاتا ھوں میں


پھر بھی مجھ سے یہ گلا ھےکہ وفادار نہیں

توھے بیکار تیرے پاس کوئ کار نہیں....



Thursday, March 23, 2023

تنخواہ کو مہینے کی آخری تاریخ تک بچانے کا نسخہ ( عربی سے ترجمہ)

 تنخواہ(پیسوں)کو مہینے کی آخری تاریخ تک بچانے کا نسخہ

(عربی سے ترجمہ شدہ)


یہ واقعہ ایک سعودی نوجوان کا ہے ، یہ اپنی زندگی سے مطمئن نہیں تها ، اس کی تنخواہ صرف چار ہزار ریال تهی ، شادی شدہ ہونے کی وجہ سے اس کے اخراجات اس کی تنخواہ سے کہیں زیادہ تهے ، مہینہ ختم ہونے سے پہلے ہی اس کی تنخواہ ختم ہو جاتی اور اسے قرض لینا پڑتا ، یوں وہ آہستہ آہستہ قرضوں کی دلدل میں ڈوبتا جارہا تها اور اس کا یقین بنتا جا رہا تها کہ اب اس کی زندگی اسی حال میں ہی گزرے گی - باوجودیکہ اس کی بیوی اس کے مادی حالت کا خیال کرتی ، لیکن قرضوں کے بوجھ میں تو سانس لینا بهی دشوار ہوتا ہے -

ایک دن وہ اپنے دوستوں کی مجلس میں گیا ، وہاں اس دن ایک ایسا دوست بهی موجود تها جو صاحب رائے آدمی تها اور اس نوجوان کا کہنا تها کہ میں اپنے اس دوست کے مشوروں کو قدر کی نگاہ سے دیکهتا تها - 

کہنے لگا : میں نے اسے باتوں باتوں میں اپنی کہانی کہہ سنائی اور اپنی مالی مشکلات اس کے سامنے رکهیں ، اس نے میری بات سنی اور کہا کہ میری رائے یہ ہے کہ تم اپنی تنخواہ میں سے کچه حصہ صدقہ کے لیے مختص کرو - اس سعودی نوجوان نے حیرت سے کہا : جناب ، مجهے گهر کے خرچے پورے کرنے لیے قرضے لینے پڑتے ہیں اور آپ صدقہ نکالنے کا کہہ رہے ہیں ؟

خیر میں نے گهر آ کر اپنی بیوی کو ساری بات بتائی تو بیوی کہنے لگی : تجربہ کرنے میں کیا حرج ہے ؟ ہوسکتا ہے اللہ جل شانہ تم پر رزق کے دروازے کهول دے -

کہتا ہے : میں نے ماہانہ 4 ہزار ریال میں سے 30 ریال صدقہ کے لیے مختص کرنے کا ارادہ کیا اور مہینے کے آخر میں اسے ادا کرنا شروع کردیا -

سبحان اللہ ! قسم کها کر کہتا ہوں ، میری تو حالت ہی بدل گئی ، کہاں میں ہر وقت مالی ٹینشنوں میں اور سوچوں میں رہتا تها اور کہاں اب میری زندگی گویا پهول ہو گئی تهی ، ہلکی پهلکی آسان ، قرضوں کے باوجود میں خود کو آزاد محسوس کرتا تها ، ایک ایسا ذہنی سکون تها کہ کیا بتاوں !

پهر چند ماہ بعد میں نے اپنی زندگی کو سیٹ کرنا شروع کیا ، اپنی تنخواہ کو حصوں میں تقسیم کیا ، اور یوں ایسی برکت ہوئی جیسے پہلے کبهی نہی  ہوئی تهی - میں حساب لگالیا اور مجهے اندازہ ہوگیا کہ کتنی مدت میں اِنشاءاللہ قرضوں کے بوجھ سے میری جان چهوٹ جائی گی -

پهر اللہ جل شانہ نے ایک اور راستہ کهولا اور میں نے اپنے ایک عزیز کے ساتھ اس کے پراپرٹی ڈیلنگ کے کام میں حصہ لینا شروع کیا ، میں اسے گاہک لاکر دیتا اور اس پر مجهے مناسب پرافٹ حاصل ہوتا -

الحمدللہ ! میں جب بهی کسی گاہک کے پاس جاتا وہ مجهے کسی دوسرے تک راہنمائی ضرور کرتا -

میں یہاں پر بهی وہی عمل دوہراتا کہ مجهے جب بهی پرافٹ ملتا میں اس میں سے اللہ کے لیے صدقہ ضرور نکالتا -


اللہ کی قسم ! صدقہ کیا ہے؟ کوئی نہیں جانتا ، سوائے اس کے جس نے اسے آزمایا ہو -

صدقہ کرو ، اور صبر سے چلو ، اللہ کا فضل سے خیر و برکتیں اپنی آنکهوں برستے دیکهو گے -


نوٹ :

1. جب آپ کسی مسلمان کو تنخواہ میں سے صدقہ کے لیے رقم مختص کرنے کا کہیں گے اور وہ اس پر عمل کرے گا تو آپ کو بهی اتنا ہی اجر ملے گا جتنا صدقہ کرنے والے کو ملے گا ، اور صدقہ دینے والے کے اجر میں کوئی کمی واقع نہیں ہو گی -


سوچیے !!!

 آپ اس دنیا سے چلے جائیں گے اور آپ کے سبب آپ کے پیچهے کوئی صدقہ کر رہا ہوگا !


2. ایسے ہی اگر آپ نے یہ رسالہ (میسج) آگے نشرکیا اور کسی نے صدقہ دینے کا معمول بنا لیا تو آپ کے لیے بهی صدقہ دینے والے کے مثل اجر ہے-

(جیسے میں نے اس میسج کو پڑھ کر صدقہ کرنے کا معمول بنایا ، اور قسم کها کر کہتا ہوں ، سب سے زیادہ فرق میری ذہنی حالت پر پڑا ، ایک ایسا اطمینان محسوس ہوتا ہے کہ جس کا جواب نہیں - مترجم)


میرے عزیز!!!

اگرچہ آپ طالب علم ہیں ، اور آپ کو لگابندها وظیفہ ملتا ہے تب بهی آپ تهوڑا بہت جتنا ہوجائے کچھ رقم صدقہ کے لیے ضرور مختص کریں -


اگر صدقہ کرنے والا جان لے اور سمجھ لے کہ اس کا صدقہ فقیر کے ہاتھ میں جانے سے پہلے اللہ کے ہاتھ میں جاتا ہے تو یقینا دینے والے کو لذت لینے والے سے کہیں زیادہ ہو گی -


کیا آپ صدقہ کے فوائد معلوم ہیں ؟

خاص طور پر 17، 18، 19 کو توجہ سے پڑهیے گا -


سن لیں ! 

صدقہ دینے والے بهی اور جو اس کا سبب بنتے ہیں وہ بهی!!! 


1. صدقہ جنت کے دروازوں میں سے ایک دروازہ ہے -

2. صدقہ اعمال صالحہ میں افضل عمل ہے ، اور سب سے افضل صدقہ کهانا کهلانا ہے -

3. صدقہ قیامت کے دن سایہ ہو گا ، اور اپنے دینے والے کو آگ سے خلاصی دلائے گا -

4. صدقہ اللہ جل جلالہ کے غضب کو ٹهنڈا کرتا ہے ، اور قبر کی گرمی میں ٹهنڈک کا سامان ہے -

5. میت کے لیے بہترین ہدیہ اور سب سے زیادہ نفع بخش چیز صدقہ ہے ، اور صدقہ کے ثواب کو اللہ تعالی بڑهاتے رہتے ہیں -

6. صدقہ مصفی ہے ، نفس کی پاکی کا ذریعہ ، اور نیکیوں کو بڑهاتا ہے -

7. صدقہ قیامت کے دن صدقہ کرنے والے کے چہرے کا سرور اور تازگی کا سبب ہے -

8. صدقہ قیامت کی ہولناکی کے خوف سے امان ہے ، اور گزرے ہوئے پر افسوس نہیں ہونے دیتا -

9. صدقہ گناہوں کی مغفرت کا سبب اور سیئات کا کفارہ ہے -

10. صدقہ خوشخبری ہے حسن خاتمہ کی، اور فرشتوں کی دعا کا سبب ہے-

11. صدقہ دینے والا بہترین لوگوں میں سے ہے ، اور اس کا ثواب ہر اس شخص کو ملتا ہے جو اس میں کسی طور پر بهی شریک ہو -

12. صدقہ دینے والے سے خیر کثیر اور بڑے اجر کا وعدہ ہے -

13. خرچ کرنا آدمی کو متقین کی صف میں شامل کردیتا ہے ، اور صدقہ کرنے والے سے اللہ کی مخلوق محبت کرتی ہے -

14. صدقہ کرنا جود و کرم اور سخاوت کی علامت ہے -

15. صدقہ دعاوں کے قبول ہونے اور مشکلوں سے نکالنے کا ذریعہ ہے -

16. صدقہ بلاء (مصیبت) کو دور کرتا ہے اور دنیا میں ستر دروازے برائی کے بند کرتا ہے -

17. صدقہ عمر میں اور مال میں اضافے کا سبب ہے ،کامیابی اور وسعت رزق کا سبب ہے -

18.  صدقہ علاج بهی ہے ، دواء بهی اور شفاء بهی -

19. صدقہ آگ سے جلنے ، غرق ہونے، چوری اور بری موت کو روکتا ہے -

20. صدقہ کا اجرملتا ہے ، چاہے جانوروں اور پرندوں پر ہی کیوں نا ہو -


آخری بات : 

بہترین صدقہ اس وقت یہ ہے کہ آپ اس میسج کو صدقہ کی نیت سے آگے نشر کر دیں -


23 مارچ یوم پاکستان کے موقع پر ( فریدہ خانم لاہور )

 23 مارچ یوم پاکستان کے موقع پر .


کل جہان  , پاکستان 

زمیں آسماں , پاکستان 


ذرے ذرے میں خوشبو 

ہے گلستان  , پاکستان 


سینچی گئ لہو سے 

جو داستان  , پاکستان 


آزادی کا رکھوالا بھی 

اور پاسبان  , پاکستان 


میری ذات مری پہچان 

ہے میرا مان  , پاکستان 


کرہ ارضی پہ ذیشان 

آن شان ,  پاکستان 


میرا تن من دھن قربان 

میری جان  , پاکستان 


دنیا میں ہم سب کی خانم 

اک پہچان  , پاکستان 



فریدہ خانم   ....   لاہور  ,  پاکستان  .


Wednesday, March 22, 2023

مہنگا ترین رمضان ( تحریر : یاسین یاس )

 مہنگا ترین رمضان


تحریر :  یاسین یاس 

اس دفعہ ماہ رمضان میں مہنگائی اتنی زیادہ ہوگی کہ غریب اور سفید پوش طبقہ سو سال پہلے کی طرح رمضان گزارے گا  اس وقت بھی حالات کچھ ایسے ہی تھے پہلی بات غریب لوگوں کے پاس پیسہ ہی نہیں تھا اناج اگانے کے لیے زمینیں اور وسائل بھی نہیں تھے اور جن کے پاس تھوڑا بہت پیسہ ہوتا بھی تھا ان کو پیسوں کے عوض بھی گندم کا آٹا دستیاب نہیں تھا اس وقت لوگ جفاکش بھی تھے صبر والے تھے اور ان میں حوصلہ و قوت  بھی تھی میرے والد صاحب بتایا کرتے تھے ہمیں تین تین چار چار دن روٹی نہیں ملتی تھی ہم چنے ، گوشت ، چائے ، دودھ ، جو ، جوار اور ستو پی کر گذارا کیا کرتے تھے سحر و افطار  پانی ، لسی ، نمک وغیرہ سے ہوتا تھا   اب بھی وہی صورت حال ہے پھر ہم نے ترقی کیا کی ہے مطلب ہم تو وہیں کے وہیں  کھڑے ہیں جن کے پاس اس وقت پیسے نہیں تھے ان کے پاس اس وقت بھی پیسے  نہیں ہیں کیونکہ انہوں نے حق حلال کی کمائی کی  مزدوری کی ہے رزق حلال میں سکون و راحت تو ہے لیکن دولت کی ریل پیل نہیں ہے اس لیے وہ تب سے آج تک دال روٹی ہی پوری کررہے ہیں  اس طرح کے  بہت سارے لوگوں کا اس دفعہ مصنوعی مہنگائی کے دور میں سحری و افطاری جیسی نعمت سے محروم  رہ جانے کا خدشہ  ہے  اس لیے حکومت کو کوسنے کی بجائے ہمیں خود عملی اقدامات کرنے ہونگے یہ تو شکر ہے اس رب کریم کا جس نے رزق کی تقسیم اپنے پاس رکھی وہ رازق ہے اور پتھر کے اندر چھپے ہوئے کیڑے تک کو رزق دے رہا ہے اور دیتا رہے گا یہی اس کا خاصہ ہے  ورنہ اس مصنوعی مہنگائی میں جو حالات اس وقت چل رہے ہیں کوئی بھی صاحب ثروت کسی مزدور و غریب کو ایک نوالہ بھی نہ دیتا بلکہ اس کا حصہ بھی خود ہڑپ جاتا  ان حالات میں آپ اپنے سحر و افطار میں معمولی سے تبدیلی کرکے بے بہا ثواب و رحمتیں و برکتیں سمیٹ سکتے ہیں آپ کو صرف یہ کرنا ہے کہ سحری اور افطاری میں معمول بنا لیں کہ آپ نے ہر صورت کسی نہ کسی دوست ، قریبی ، رشتہ دار ، محلےدار ، پڑوسی کو  شامل کرنا ہے جیسے بھی ممکن ہو ضروری نہیں کہ لمبا چوڑا دسترخوان ہی سجانا ہے جو کچھ اپنے لئے بنائیں بھلے دو کھجوریں ہی کیوں نہ ہوں ایک سموسہ ہی کیوں نہ ہو ، ایک روٹی ہی کیوں نہ ہو، ایک گلاس پانی ہی کیوں نہ ہو،  وہی کسی پڑوسی کو گاؤں میں محلے میں مسجد میں جہاں بھی کوئی آپ بہتر سمجھیں روزانہ کی بنیاد پر دیں اور کوشش کریں کہ سادہ خوراک سے سحری و افطاری کریں تاکہ روزہ کی روح تک پنہچ سکیں یہ نہیں کہ افطاری میں دنیا جہان کی نعمتیں اکٹھی کیں اور وہیں کھاتے کھاتے ڈھیر ہوگئے ایک لطیفہ یاد آگیا  کسی نے مولوی صاحب کو افطاری پر بلا لیا اور مولوی مفت کا مال کھا کھا کر بے ہوش ہوگئے شاگرد اور گھر والے انہیں اٹھا کر ایک حکیم صاحب کے پاس لے گئے کہیں مولوی صاحب کا قتل ہمارے گلے نہ پڑ جائے حکیم صاحب نے نبض چیک کی اور ایک پڑیا پھکی اور آدھ گلاس پانی دیا تاکہ مولوی صاحب کو پھکی کھلائی جائے جب مولوی صاحب کو کھلانے لگے تو مولوی صاحب نے حکیم صاحب سے کہا حکیم صاحب اگر میرے پیٹ میں اتنی گنجائش ہوتی تو ایک پلیٹ حلوہ کی اور نہ کھا لیتا  تو احباب ایسا کرنے سے بہتر ہے سادہ اور روٹین کی خوراک سے سحر و افطار کریں نماز پنجگانہ کی پابندی کریں تلاوت کلام پاک کا معمول بنائیں اور اپنے اردگرد کے لوگوں سے مل بانٹ کر محبت و بھائی چارے کے ساتھ رمضان گزاریں  رمضان رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ ہے یقین مانیں اس دفعہ اگر آپ ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو یہ آپ کے لیے حقیقت میں رحمتوں اور برکتوں والا مہینہ ثابت ہوگا 

دھماسہ کیا ہے اور اس کے فائدے ( حکیم مختار احمد قادری )

 

حکیم مختار احمد قادری 



دھماسہ کے فوائد


دھماسہ یہ سب سے اچھا مصفّا خون ہے اور خون کے لوتھڑوں کو پگھلاکر خون کو پتلا کرتا ہے جس کی وجہ سے برین ہیمبرج، ہارٹ اٹیک، اور فالج وغیرہ سے حفاظت ہوتی ہے۔

۔۔ اس کے پھول اور پتیوں سے کینسر اور تھیلاسیمیا کی ہر قسم کا علاج ممکن ہے۔

۔۔ جسم کی کی گرمی کو زائل کرنے اور ٹھنڈک کے اثرات کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

۔۔ اس کے ذریعے ہیپاٹائٹس کی تمام اقسام کا علاج ممکن ہے۔

۔۔ جگر کو طاقت دے کر جگر کے کینسر کا بھی علاج کیا جا سکتا ہے۔

۔۔ دل اور دماغ کی صلاحیتوں میں بہتری لانے میں معاون ہے۔

۔۔ جسمانی دردوں کے علاج میں مددگار ہے۔

۔۔ مختلف قسم کی الرجی کا علاج ہے۔

۔۔ کیل، مہاسے، چھائیاں اور دیگر جلدکے امراض سے نجات دلاتا ہے۔

۔۔ معدہ کو تقویت دے کر بھوک بڑھاتا ہے۔

۔۔ اس سے قے، پیاس اور جلن، وغیرہ جیسی علامات ختم ہو جاتی ہیں۔

۔۔ کمزور جسم کو طاقت دے کر فربہ بناتاہے، اور موٹے افراد کے لئے وزن کو کنٹرول کرنے میں مددگار ہے۔

۔۔ منہ اور مسوڑھوں کے امراض علاج ہے۔

۔۔ بلڈ پریشر کو معمول پر لاتا ہے۔

۔۔ دمہ اور عمومی سانس لینے میں دشواری کا علاج ک

جس دھماسہ بوٹی سے میں نے دو مہینوں میں آخری سٹیج ۵۰% کینسر ختم ہوتے  دیکھا ہے وہ ہرے رنگ کا پاؤڈر ہے جو تازہ بوٹی توڑ کر صاف کرکے سکھاکر پسوایا گیا تھا۔ یادرہے کینسر پورے جسم میں معدے،پھیپھڑے،جگر حتٰی کہ ہڈّیوں تک پھیل گیا تھا۔ براہِ مہربانی اپنے  پیاروں کو کیمو کی تکلیف سے بچائیے  دھماسہ کھلائیے۔

کچھ لوگ دھماسہ کو غلطی سےجَوَاں، جواہیاں یا جَمَایَاں سمجھتے ہیں، لیکن حقیقت میں یہ علیحدہ پودہ ہے۔

دھماسہ کے پودے میں تھوڑے تھوڑے فاصلے پر چار چار کانٹوں کا ایک سیٹ ہوتا ہے جس میں ہر دو کانٹوں کے درمیان پتلا اور لمبوترا پتہ ہوتا ہے۔ یہ کانٹےتین بھی ہو سکتے ہیں، اور چار بھی۔ اس کی شاخیں بہت پتلی ہوتی ہیں، اس لئے یہ براہ راست بڑھ نہیں سکتے ہیں اور ایک چھوٹی سی جھاڑی کی شکل اختیار کر لیتے ہیں۔ یہ پودہ اٹلی، جرمنی، مشرق وسطیٰ کے ممالک، پاکستان اور بھارت میں بھی پایا جاتا ہے۔ یہ کینسر خاص طور پر خون اور جگر کے کینسر کے علاج کے طور پر مانا جاتا ہے۔

اس کے پھولوں کا رنگ ہلکاجامنی ہے۔ پھول جھڑنے کے بعد اس کے کانٹوں کے قریب 00 شکل کے چھوٹے بیج بڑی تعداد میں ہوتے ہیں۔


Tuesday, March 21, 2023

نائس ادبی فورم اور پاک برٹش آرٹس مشاعرہ صدارت محترمہ ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ نے کی

 رپورٹ  :   فریدہ خانم  .




 " نائس ادبی فورم اور پاک برٹش آرٹس کے زیر اہتمام 

محفل مشاعرہ

 بسلسلہ عالمی یوم خواتین و جشن بہاراں " .

  


نائس ادبی فورم(نائس ویلفیئر سوسائٹی ) اور پاک برٹش آرٹس انٹرنیشنل کے زیر اہتمام ماہانہ محفل مشاعرہ کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے محفل مشاعرہ کا انعقاد کیا گیا , جس کی صدارت عصر حاضر کی نامور شاعرہ، ادیبہ ، مصنفہ، معروف ادبی شخصیت محترمہ پروفیسر ڈاکٹر شاہدہ دلاور شاہ نے کی۔ مہمانان خاص میں  محترمہ فریدہ خانم،  محترمہ سیدہ فاطمہ غزل،  محترمہ نائلہ عابد اور محترمہ نرگس نورلاہور سے شامل ہوئیں ,جبکہ محترمہ ناہید عزمی صاحبہ کراچی سے بالخصوص تشریف لائیں اور مشاعرے کی رونق دوبالا کی۔ عالمی یو م خواتین کی مناسبت سے اس خصوصی مشاعرے میں سٹیج بطور اعزاز بالخصوص خواتین سے مزین کیا گیا۔  مزید برآں معروف شاعراور مصنف محترم ریاض ندیم نیازی کی سبی، بلوچستان سے بطور مہمان اعزاز بالخصوص شرکت کرنے مشاعرے کو آئے۔مشاعرے کی نظامت پختہ لب و لہجہ کی مالکہ معروف شاعرہ محترمہ شبنم مرزا نے کی۔ 

محفل مشاعرہ کا آغاز تلاوت کلام پاک کی سعادت جناب محمد افضل ساجد نے حاصل کی ۔جبکہ آقائے دو جہاں حضرت محمد مصطفی  صلی اللہ علیہ وسلمکے حضور ہدیہ عقیدت پیش کرنے کی سعادت جناب ریاض ندیم نیازی اور جناب عقیل اکرم قادری نے حاصل کی۔ مشاعرہ میں شعرائے کرام نےاپنا منتخب خوبصورت کلام پیش کیا اور بالخصوص خواتین کے حقوق کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہارشعری انداز میں کیا, جسے سامعین نے خوب سراہا ۔مشاعرے میں شعرا ء کے ساتھ ساتھ سامعین کی بھی ایک بڑی تعداد نے مشاعرے کی رونق کو دوبالا کیا۔محفل مشاعرہ میں جن شعراء نے اپنا کلام پیش کیا ان کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں:-

 محترمہ شاہدہ دلاور ،  محترمہ ناہید عزمی،  محترمہ فریدہ خانم،  محترمہ سیدہ فاطمہ غزل،  محترمہ نرگس نور،  محترمہ نائلہ عابد،  جناب ریاض ندیم نیازی ،  جناب پروفیسر محمد عباس مرزا،  جناب محمد علی صابری،  جناب اظہر عباس،  جناب ندیم شیخ ،  جناب عدل منہاس لاہوری،  جناب فرخ محمود،  جناب محمد ممتاز راشد لاہوری،  سید باصر زیدی،  ڈاکٹر تبسم،  جناب سلیم صابر،  جناب محمد اسلم شوق،  جناب آفتاب جاوید،  جناب طاہر ناصر علی،  جناب عقیل اکرم قادری،  جناب اعجاز رانا ،  جناب محمد افضل ساجد،  جناب ڈاکٹر عبدلغفار رندھاوا،  جناب ممتاز حسین ممتاز،  پروفیسر شفقت رسول مرزا،  جناب ڈیوڈ پرسی،  جناب محمد صدیق جوہر،  جناب جہانگیر پریمی ،  جناب ناصر نایاب  اور جناب وقاص جان ۔

صدر محفل محترمہ شاہدہ دلاور شاہ نے مشاعرہ کےمنتظمین کو اسقدر شاندار محفل مشاعرہ کے انعقاد پر مبارکباد دی اور شرکا ء کی بھرپور شرکت کو بھی سراہا۔انہوں نے مزید کہا کہ نائس ادبی فورم اور پاک برٹش آرٹس انٹرنیشنل ادب اور شعروسخن کی جو خدمت کر رہے ہیں وہ نہ صرف قابل ستائش ہے بلکہ ادبی حلقوں میں بھی اپنی منفرد شناخت کا حامل ہے۔ صدر محفل نے اپنا کلام حاضرین محفل کی سماعتوں کی نذر کیا جسے حاضرین نے خوب سراہا ۔ مشاعرے کے اختتام پر صدر محفل ،مہمانان خصوصی اور دیگر معزز مہمانان گرامی کویادگاری شیلڈز اور سیرت کی کتب بطور تحائف پیش کی گئیں, جبکہ مشاعرے میں شریک تمام خواتین کو عالمی یوم خواتین کی مناسبت سے نائس کی طرف سے چادروں کا تحفہ پیش کیا گیا۔ بعد ازاں حاضرین محفل کی روائتی لاہوری پٹھوروں سے تواضع بھی کی گئی یہ مشاعرہ ہر لحاظ سے ایک کامیاب و یادگار مشاعرہ رہا۔


چرخہ ( نثار علی اسلام آباد )

 چرخے دے ہریک حصّے دا اپنا نام,  ہر حِصّے دی اپنی اہمیت اور کم  :

کاڈھ : چرخے دے ہیٹھاں اک پتلی لمّی لکڑی لگائی جاندی سی جو اگّے اتے پِچھے دو پھلّڑاں نال جُڑی ہُندی سی ۔ اس نوں کاڈھ کِہا جاندا سی ۔

پھلّڑ : چرخے دی کاڈھ دے  اگّے اور پِچھے دو لکڑ دے مُستطیل پھلّڑ جُڑے ہُندے سن۔ اگلے پھلّڑ تے تِنّ نِکّیاں مُنّیاں گڈّیاں جاندیاں سن۔ اتے پچھلے پھلّڑ وِچ دو وڈّے مُنّے ٹھوکے جاندے سن ۔

پھٹّ اتے مجُھورے : لکڑ دے دو گول شکل دے پھٹّے کٹّ کے ایہناں نوں جوڑ کے گول پھٹّ بنائے جاندے سن۔فیر ایہناں نوں وڈّے مُنّیاں تے فِٹّ کر دِتّا جاندا سی ۔ چار پنج انچ دے فاصلے نال وِچالے لکڑ دا اِک گول گُٹکا فِٹّ کیتا جاندا سی۔ جِس نوں مجُھورے کہندے سن۔ گول پھٹّاں دے اخیر وِچ آری نال تِرچھے دندے کڈھے جاندے سن, جِتھے کسّن پھردی سی۔


گُجّ اتے ہتّھا : لکڑ دے دو پہیاں اتے مجُھورے دے آر پار دی اِک 4 سُوتر دے لوہے دا سریا لنگھایا جاندا سی , جِس نُوں گُجّ کہندے سن۔ چرخے دے کھبّے پاسے لکڑ دا ہتّھا فِٹّ کیتا جاندا سی جِس نال چرخے نُوں گُھمایا جاندا سی۔ 

تکّلا اتے چرمخاں : اگلے پھلڑ دیاں دو سائیڈاں والیاں مُنّیاں دے وِچالے گلیاں کڈھ کےاُس وِچ چمڑے یا لکڑ دیاں چرمخاں نوں پھسایا جاندا سی ۔ایہناں چرمخاں وِچ گلیاں کڈھ کے ایہناں دے آر پار لوہے دا تکّلا لنگھایا جاندا سی جو وِچکاروں موٹا اتے سائیڈاں توں پتلا  تے تِکھّا ہُندا سی۔

دمکڑا : گلوٹے نُوں اگے ودھن توں روکن لئی اِک لکڑ دا ٹُکڑا کٹّ کے یا لوہے دی واشل تیار کر کے تکلے وِچ گلوٹے دے نال پایا جاندا سی تاں جو گلوٹے نُوں اگے ودھن توں روکیا جا سکے۔اِس نُوں دمکڑا کہندے سن۔

بِیڑا : بِیڑا تکلے وِچ دمکڑے دے نال دمکڑے نُوں روکن لئی لگایا جاندا سی۔اور تکلے اُتّے تھوڑا جیہا سُوت لپیٹ دِتّا جاندا سی تاں جو دمکڑا اپنی جگہ توں نہ ہِلّے۔

بِیڑی : تکلے دے وِچالے کچے دھاگے نُوں گُڑ وچ لبیڑ کے لپیٹیا جاندا سی ,اس اُتے مالھ چلدی سی۔اِس نوں بیڑی کہندے سن۔

کسّن اتے مالھ : چرخے دے دوواں چکّراں تے ٹیڈھے چِیر مار کے سن دے میلے ہوئے دھاگے نال آڈے تِرچھے لوٹ کسّیا جاندا سی ,جِس نُوں کسّن کہندے سن۔ چرخے دی کسّن تے لِپٹ کے چرخے دے اگلے اتے وِچکارلے مُنّے وِچ دی لنگھ کے تکلے نُوں گُھماؤن والے سن دے دھاگے نُوں مالھ کِہا جاندا سی۔

گلوٹا , پُونی اتے تَند : کپاہ یا نرمے نُوں پینجے وِچ پِنج کے یا تاڑ نال تاڑ کے اِک ہتھ لمّے کانے نال رُوں دیاں چھوٹیاں چھوٹیاں پُونیاں بنا لئیاں جاندیاں سن۔پُونی نُوں تکلے دی کھبّی نوک نال لا کےچرخے نُوں سجّے ہتھ نال گُھمایا جاندا سی اتے پُونی نُوں کھبّے ہتھ نال کھبّے پاسے توں اُپّر نُوں ہولی جِہے کِھچیا جاندا سی تاں اِس نُوں تَند کہندے سن۔ جدوں کتّیا ہویا سُوت دوواں کونیاں توں پتلے اتے وِچکاروں اُبھرے انڈے دے رُوپ وِچ لِپٹ کےتکلے دے اُپّر تیار ہو جاندا سی ,تاں اس نُوں گلوٹا کہندے سن۔

اٹیرن ,اٹّی اُوری اتے لچّھے :

کتّے ہوئے سُوت دے اکہرے گلوٹیاں نُوں لکڑ دے بنے اِک سند اٹیرن نال اٹیر کے دُوہرے سُوت دیاں اٹّیاں بنا لئیاں جاندیاں سن۔ اٹیرن اِک ڈمرُو نُما شکل دا ہُندا سی ۔اٹیرن اُتّے تیار سُوت نُوں اٹّی کِہا جاندا سی ۔ اٹیرے ہوئے سُوت نُوں فِیر اُوری تے چڑھا کے لوڑ مُطابق کرن لئی لچھے بنائے جاندے سن۔اتے ضرورت مُطابق رنگیا جاندا سی۔اِس توں فِیر وکھ وکھ چیزاں تیار کر لئیاں جاندیاں سن۔

کتّنی ,ترِنجھن اتے چھوپ : کتّے ہوئے گلوٹیاں نُوں کتّنی وِچ پا لیا جاندا سی۔ ایہہ کتّنی کنک دیاں تِیلاں دی بنائی جاندی سی۔

 ترنجھن : چرخہ کتّدیاں کُڑیاں دے اِکٹھ نُوں ترنجھن کہندے ہن۔اِک سیانی عورت پُونیاں نُوں اِک  چھجّ وچ پا دیندی سی ,تے وکھ وکھ کُڑیاں اتے ووہٹیاں وِچ پُونیاں نُوں ونڈ دیندی سی تےتیزی نال سُوت کتّن دا  مُقابلہ شُروع ہو جاندا سی ۔اِس نُوں چھوپ کہندے سن۔

اج کل ترِنجھن ورگیاں محفلاں نہیں لگدیاں مشینی دور ہون دی وجہ توں ہُن کپڑا بناؤنا سوکھا ہو گیا ہے ۔اِس لئی چرخہ ہُن صرف نُمائش دی چیز ہی رہ گیا ہے ۔بے شک سانوں اج اِس دی کوئی لوڑ نہیں ہے , پر اپنے امیر وِرثے دی نِشانی دے طور تے اسیں اِس نُوں کدے وِی بُھل نہیں سکدے۔

نثار علی اسلام آباد


انجمن طلباء اسلام اجلاس و امین ٹیسٹ

 رپورٹ : میاں یاسین درانی 


"انتخابی اجلاس و امین ٹیسٹ انجمن طلباء اسلام ضلع 

 قصور 

تفصیلات کے مطابق سابق ضلعی ناظم ATIقصور مہر  کاشف مصطفائی کی نظامت میں پریس کلب رجسٹرڈ پتوکی میں ضلعی انتخابی اجلاس و امین ٹیسٹ منعقد ہوئے انجمن طلباء اسلام کے ابھرتے ہوئے درخشندہ ستاروں کا امین ٹیسٹ لیا گیا پروگرام کی صدارت ناظم پنجاب شمالی طارق محمود رانجھا نے کی ساتھ ہی ساتھ مرکزی جوائنٹ سیکرٹری شاہد اسلام بھٹہ مہمان خصوصی کے طور پہ مدعو تھے تلاوت قرآن کریم سے پروگرام کا آغاز ہوا پروگرام میں ضلع بھر کے امنا نے بھرپور شرکت کی بعد از تلاوت و نعت انتخابی سیشن کا آغاز ہوا ووٹنگ کے نتیجہ میں کثرت رائے سے حافظ عدنان شوکت ضلع ناظم قصور اور ڈاکٹر منیر حسین مصطفائی جنرل سیکرٹری ضلع قصور منتخب ہوئے 

اس موقع پر رفیق انجمن حافظ سرفراز صدیق نے ضلعی کابینہ سے ہر قسم کے غیر مشروط مالی تعاون کا عہد کیا مجاہد انجمن احمد یار مصطفائی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انجمن طلباء اسلام خالصتاً عشق رسول صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے فروغ کی تنظیم ہے اس پرفتن دور میں جہاں نوجوان اپنی زندگی میں غیر شرعی رنگینیاں منانے میں مصروف ہیں وہیں انجمن طلباء اسلام کا مقصد انہیں راہ ہدائیت پر لاکر اسوہ رسول پر چلانا ہے تمام ناظرین نے ان کی آواز پر لبیک کہا آخر میں ملک و قوم کی سلامتی اور انجمن طلباء اسلام کی سربلندی کے لیے دعا خیر کی گئی ساتھ ہی ساتھ جواں نسل کے پرجوش نعروں سیدی مرشدی یانبی یانبی سے فضا گونج اٹھی دیکھنے والی ہر آنکھ عش عش کر اٹھی ۔


پاکستان کا ایک خوبصورت جزیرہ ( تحسین اللہ )

 تحسین اللہ کی وال سے 


* ( پاکستان کا ایک خوبصورت جزیرہ) * 


پاکستان میں کل بارہ 12 جزیرے ہیں۔ جن میں استولا نامی جزیرہ سب سے بڑا ہے، جسے "جزیرہ ہفت تلار" بھی کہا جاتا ہے۔بحیرہ عرب میں ایک غیر آباد پاکستانی جزیرہ جو ساحل کے قریبی حصے سے  تقریبا باٸیس تیس کلومیٹر جنوب میں اور پسنی کی ماہی گیری کی بندرگاہ سے 39 کلومیٹر جنوب مشرق میں واقع ہے۔ استولا پاکستان کا سب سے بڑا آف شور جزیرہ ہے، جو تقریباً 6.7 کلومیٹر (4.2 میل) لمبا ہے اس کی زیادہ سے زیادہ چوڑائی 2.3 کلو میٹر اور کل رقبہ 6.7 مربع کلو میٹر ہے۔


اس جزیرے کا بلند ترین مقام سطح  سمندر سے تقریبا 246 فٹ بلندی پر ہے۔ انتظامی طور پر یہ جزیرہ صوبہ بلوچستان کے ضلع گوادر کے "پسنی ذیلی" ضلع کا حصہ ہے۔ جزیرے تک پسنی ذیلی  سے موٹر والی کشتیوں کے ذریعے رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔۔۔ پسنی ذیلی ضلع میں رہنے والے لوگوں کا کہنا ہے، کہ اس جزیرے تک پہنچنے کے لیے تقریباً 1.5 گھنٹے کا سفر ہے۔ 


تمہید باندھنے کا مقصد یہ ہے، کہ اٹلی میں بھی اس طرح کا "ڈولفن" نامی ایک جزیرہ ہے۔ جس کو  اٹلی گورنمنٹ نے بڑی خوبصورتی سے ڈیزائن کیا ہے۔۔ اس میں ہوٹل بھی بناٸے گۓ ہیں۔۔۔۔ جن میں ایک کمرے کے ایک دن کا رینٹ 95 امریکین ڈالرز ہے۔ یعنی پاکستانی 26000 روپے، ہوٹل کے ساتھ ساتھ حکومت نے وہاں خوبصورت گھر بھی بناۓ ہیں اور ایک گھر کے ایک دن کا رینٹ "578$"  ڈالرز یعنی ایک لاکھ اور ساٹھ ہزار پاکستانی روپے۔


کہنا کا مطلب یہ ہے کہ "اٹلی حکومت" اس ایک جزیرے سے سالانہ کروڑوں ڈالرز کماتی ہے۔۔۔۔۔ جبکہ اٹلی میں صرف یہی ایک "ڈولفن" جزیرہ نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ اس طرح کے 450 کے قریب جزیرے موجود ہیں۔ جن سے سالانہ بہت زیادہ سرمایہ کمایا جاتا ہے۔ جبکہ ہم انہی ڈالروں کیلۓ "آٸی ایم ایف" اور ورلڈ بینک کے پیچھے پاگلوں کی طرح بھاگے جا رہے ہی۔۔اگر حکومت نے یہ بارہ جزیرے  سیاحوں travellers  کیلے تیار کراۓ تو یہ یقینا کمائ کے لیے اتنہاٸی آسان اور سستا طریقہ ہے۔ آپ یقین کریں کہ بعض ممالک ایسی "سیاحتی مقامات" کے انکم پر ہی چلتے آرہے ہیں۔۔۔۔۔آپ مجھے ایڈ کرسکتے ہیں اپنے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!👇👇


تحریر   Tehsin Ullah Khan


Monday, March 20, 2023

غزل ( شمائلہ فاروق ) یہ ، آپ ، تم ، جناب نہیں سیدھی بات کر

 غزل 


جب اُس نے کہہ دیا کہ ضرورت نہیں رہی 

بس پھر محبتوں میں وہ شدت نہیں رہی


یہ کس نے چکھ لیا اسے بسم اللہ کے بغیر 

کیونکر محبتوں میں وہ برکت نہیں رہی


ایسا نہیں کہ رونقِ دنیا نہیں پسند

چاہت کی بات ہے مجھے چاہت نہیں رہی


چبھنے لگی ہے سبکو تو لگتا ہے اب مجھے 

یہ خامشی بھی عین عبادت نہیں رہی


اکتا گئے ہو تم بھی درونِ سفر تو پھر۔۔۔ 

چلنے کی ہم کو ساتھ ضرورت نہیں رہی


یہ آپ، تم، جناب نہیں سیدھی بات کر 

مجھ کو تکلفات کی عادت نہیں رہی


میں بولتی دفاع میں کیا اور کہاں تلک؟ 

وہ چالباز ایسا تھا ہمت نہیں رہی


رہنے لگی ہوں ان دنوں مصروف میں بہت  

اس کو بھی روز کال کی عادت نہیں رہی 


اس سے بڑا مرض بھلا کیا ہوگا اے طبیب

بیمار کو علاج کی حاجت نہیں رہی


گزرے ہیں سانحات یوں برباد کر کے، اب 

حیران کر سکے جو، قیامت نہیں رہی۔۔۔ 


ایسا مَدُھر سا لہجہ ہے اس گل بدن کا یار

سن کر کسی مٹھاس کی چاہت نہیں رہی 


سب ہی پُرانے طور ہیں سب ہی پُرانے ڈھنگ 

ڈسنے میں دوستوں کے بھی جدت نہیں رہی


اک بدلے ہوۓ چہرے میں ایسا سبق تھا پھر 

مجھ کو کسی کتاب سے نسبت نہیں رہی 


شمائلہ فاروق

آٹا سستا اور عام کرو ( تحریر : یاسین یاس )


 آٹا سستا اور عام کرو 


تحریر : یاسین یاس 


جس سپیڈ کے ساتھ مہنگائی بڑھ رہی ہے لگتا ہے مزدور طبقہ نگل کر دم لے گی سب کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے کوئی بھی سیاست دان عوام کا خیر خواہ نظر نہیں آرہا جس کو دیکھو اپنی سیاست چمکا رہا ہے ایک طرف عوام کو فری آٹے کا لالی پاپ دیا جارہا ہے تو دوسری طرف آٹا ہی عوام کی پنہچ سے دور کردیا گیا ہے آج ہی ایک جگہ سے خبر تھی کی آٹا فی تھیلہ ساڑھے چھ سو سے ساڑھے گیارہ سو روپے کردیا ہے ایک ہی دن میں ایک تھیلا آٹے  پر پانچ سو روپیہ بڑھا دیا گیا کیا ہے یہ ہم سچ میں اشرف المخلوقات ہیں ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہوگا خاک ترقی کی ہے ہم نے آٹا بنیادی ضرورت ہے اور وہ ہی ہمیں میسر نہیں ہر بندے کو خیرات پہ لگادیا ہے کسی کو دو ہزار راشن سکیم پر کسی کو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام پر کسی کو فری آٹے پر کسی کو 2000 پٹرول پر  کیا تماشہ لگا ہوا ہے یار لاء اینڈ آرڈر کہاں ہے غریب عوام پر رحم کرو یار بیس پچیس ہزار روپے کمانے والا مزدور کیا کھائے گا کبھی سوچا ہے آپ نے آپ کو ضرورت بھی کیا ہے سوچنے کی آپ نے تو لوٹ مار ہی اتنی کرلی ہے کہ اب سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں آپ کو تو پیسے کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا حتی کہ  بھوک پیاس سے بلکتے انسان بھی نہیں ماہ رمضان آنے والا ہے رہی سہی کسر ہمارے دکاندار بھائی پوری کردیں گی دس روپے میں ملنے والی چیز پچاس میں دیں گے سو والی تین سو کی اور ہزار والی دو ہزار میں نماز روزے کی پابندی کریں گے اور جنت کے حق دار کہلائیں گے واہ رے میرے دیس حیرت کی بات ہے ہمارا ضمیر بھی ملامت نہیں کرتا  ایسے لگتا ہے جیسے ہم حیوان ہیں جنہیں صرف اپنی بھوک ہی بھوک محسوس ہوتی ہے اپنی ضرورت ہی ضرورت لگتی ہے وہ جیسے بھی پوری ہو اس سے کسی کو کوئی سروکار نہیں لوٹ مار کی انتہا پر پنہچ گئے ہیں ہمیں بالکل بھی یاد نہیں رہا کہ ہم نے مرنا بھی ہے اس دنیا کو چھوڑ جانا ہے جو ہمارا عارضی ٹھکانہ ہے ہم تو یہ سوچ بیٹھے ہیں کہ دنیا ہی سب کچھ ہے یہیں پر محلات کھڑے کررہے ہیں پلازے بنا رہے ہیں دولت کے انبار لگا رہے ہیں لوگوں کے منہ نوالے چھین کر اپنی عیش وعشرت کا سامان اکٹھا کررہے ہیں حالانکہ یہ عیش و عشرت کا سامان صرف دوزخ کا ایندھن ہے جس میں ہمیں خود جلنا ہے حیرت ہے کیا کوئی اپنے لئے خود بھی آگ اکٹھی کرتا ہے جی ہاں آج کا انسان کر رہا ہے کیونکہ اس نے ترقی کرلی ہے

غزل ( انجم رانا پھول نگر )

انجم رانا پھول نگر 



چھوٹی عمرے دکھڑے وڈے ہوگئے نیں

 بچے جمدیاں سار ای بڈھے ہوگئے نیں

عزت غیرت سبھ کجھ داء تے لا چھڈی

غرضاں ہتھوں لوکیں کملے ہو گئے نیں

سجن دشمن ،دشمن سجن کر لئے نی

تیرے لیکھ دے اکھر پٹھے ہو گئے نیں

 دیوے دے نال یاری تاں ای لاندا نہیں

میرے اندر چانن انھے ہو گئے نیں

عشق بزارے حسن تماشہ آ لایا

کھلے کھلوتے بندےبردے ہو گئے نیں

ہن تے تیرے نال گلہ ایہہ بن دا اے

تیرے دکھ وی تیرے ورگے ہو گئے نیں

میں تےایویں بھکھ دا رونا رویا سی

سارے سجن سجےکھبے ہو گئے نیں

غزل ( صفدر رشید صفدر )

 غزل


صفدر رشید صفدر


میری  ذات  اے  تمے  ورگی

کوڑی  بات  اے تمے  ورگی


دن  تے میرا لنگھ جاندا اے

اوکھی رات اے تمے ورگی


سوچاں بدلے جہڑی  لبھے

او  خیرات اے تمے ورگی


سچ دی بانی لکھدا جاواں

قلم دوات  اے  تمے ورگی

 

او نہیں کسے نوں گھاٹا دییندا

جہدی ذات اے تمے ورگی


ربا دس خاں کاہنوں لگے 

اج  برسات  اے تمے ورگی


صفدر ہس کے سینے لاوے

پیار سوغات  اے تمے ورگی


Sunday, March 19, 2023

الخدمت فاؤنڈیشن ویمن ونگ لاہور رپورٹ : فریدہ خانم

 رپورٹ  :  فریدہ خانم  .



الخدمت فاونڈیشن ویمن ونگ کا لاہور پریس کلب میں " استقبال رمضان " تقریب کا اہتمام  "  .

 استقبال رمضان پروگرام

ماہ رمضان کی آمدکے موقع پر لاہور پریس کلب میں " الخدمت فاﺅنڈیشن ویمن ونگ "  کے تعاون سے   ماہ رمضان کی فضیلت اور اہمیت   کے حوالے سے "استقبال رمضان پروگرام"  کا اہتمام کیاگیا۔ تقریب میں شعبہ صحافت سے وابستہ صحافی خواتین کی کثیرتعداد نے شرکت کی ۔الخدمت فاﺅنڈیشن کی جنرل سیکرٹری سمیعہ سلمان نے رمضان المبارک کی اہمیت پر روشنی ڈالی اور قرآن و سنت کی روشنی میں رمضان المبارک کی فضیلت پردرس دیا ۔ تقریب کے اختتام پر محترمہ  فوزیہ عثمان نے دعا کرائی۔ پروگرام میں ممبرگورننگ باڈی عالیہ خان ، سینئرکونسل ممبرغلام زہرہ ، دیبامرزا، شاہدہ بٹ ، ثمن عروج ، زبیدہ انور خان ، تہزین طاہر،  مصباح چوہدری ، کنول نسیم، رابعہ عظمت، عمارہ خان سمیت خواتین کی کثیر تعداد نے بھرپور شرکت کی .

ہمارا المیہ ( تحریر : یاسین یاس )

 ہمارا المیہ 


ہمارے ملک کے ہر شعبہ میں بے پناہ ٹیلنٹ موجود ہے یہ الگ بات کہ ہم اس ٹیلنٹ سے مستفید نہیں ہورہے ہم خود مستفید ہونے کی بجائے اپنا ٹیلنٹ دوسرے ممالک میں بھیج رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ایسے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ وہ دل و جان سے محنت کرکے اپنا اور ملک کا نام روشن کرسکیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں پہلے سے براجمان لوگ پوری طاقت سے ان بچوں کا راستہ روک کر کھڑے ہوجاتے ہیں روڑے اٹکانے شروع کردیتے ہیں وہ کوئی غیر نہیں ہمارے اپنے ہیں۔ جس کے نتیجے میں نوجوان نسل بد ظن ہوجاتی ہے خدارا ٹیلنٹ کو ضائع ہونے سے بچائیں اور یہ کسی ایک شعبے میں نہیں ہے اس کا آغاز ہمارے گھروں سے ، ہمارے اپنوں سے ہوتا ہے گھر میں ماں باپ کا سب سے لاڈلا نکما ترین ہوتا ہے ) سوائے چند ایک کے( اور سارا دن محنت مزدوری اور کام میں جٹا رہنے والا ماں باپ کی نظر میں نکما ۔ہمارا المیہ جس بچے میں جو ٹیلنٹ موجود ہوتا ہے اسے ہم اس کام کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھنے دیتے اور جس کی طرف اس کی توجہ نہیں ہوتی ہم چاہتے ہیں ہمارا بچہ اس میں نام پیدا کرے مثال کے طور ایک ڈاکٹر اپنے بیٹے کو بینکر نہیں بننے دے گا وہ یہی چاہے گا کہ میرا بیٹا میری طرح ڈاکٹر بنے ایک صنعت کار کبھی نہیں چاہتا کہ اس کا بیٹا سکول ٹیچر بنے یا ڈاکٹر بنے یہی حال سب کا ہے کھیتی باڑی کرنے والے لوگ بچوں کو صرف اس لیے نہیں پڑھاتے کہ یہ پڑھنے لکھنے کے بعد ہمارا تو ہاتھ بھی نہیں بٹائیں گے اس لیے انہیں پڑھاو ہی نہ ۔ حالانکہ پوری دنیا میں بچوں کا رجحان دیکھ کر اس کی تربیت کی جاتی ہے اور ہمارے ہاں تیرا باپ یہ کرتا تھا تیرا بھائی یہ کرتا ہے لوگ کیا کہیں گے میں چاہتا ہوں کہ تو یہ کرے سے تربیت کی جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچہ کہیں کا نہیں رہتا اس کے بعد عملی زندگی میں فیکٹریوں ، کارخانوں ، سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں بھی یہ کام دھڑلے سے کیا جاتا ہے اگر افسر سے زیادہ پڑھا لکھا زیادہ ہنر مند آگیا تو پہلی کوشش یہ کی جاتی ہے کہ یہ بھرتی ہی نہ ہوسکے اگر خدانخواستہ بھرتی ہوجائے تو افسران بالا کی اگلی کوشش یہ ہوتی ہے یہ کسی بھی طرح ٹک نہ سکے اور اس کے لیے ایسے ایسے گھٹیا اور روائیتی طور طریقے اپنائے جاتے ہیں کہ انسانیت کا سر بھی شرم سے جھک جائے اگر اپنے ٹیلنٹ اور خوش بختی سے وہ پھر بھی ٹکنے میں کامیاب ہوجائے تو ہاتھ پاوں باندھ کر اسے کسی ایسے کام پر لگا دیا جاتا ہے جہاں اس کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہوتا ہاں سننے کو بہت کچھ ہوتا ہے جسے وہ دل پر پتھر رکھ کر سنتا رہتا ہے جب تک اس کی ہمت جواب نہ دے جائے یہی حال تنظیموں اور کلبوں کا ہے وہاں بھی سینئرز  بے پناہ ٹیلنٹ کی  قربانیاں دے رہے ہیں اور جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں  نئی نسل کو بدظن کرنے سے پتہ نہیں ہم کون سی ترقی ڈھونڈ رہے ہیں معاشرے کی کریم سمجھے جانے والے طبقہ کی تنظیموں کا بھی یہی حال ہے وہاں بھی جو آکر بیٹھ گیا چاہتا ہے کہ یہیں رہوں طرح طرح سے نوجوانوں کو احساس کمتری میں مبتلا کیا جاتا ہے حالانکہ اگر وہ چاہیں تو نوجوانوں کو بہتر گائیڈ  کر کے ان کے دلوں میں اپنی توقیر بڑھا سکتے ہیں لیکن نہیں انہیں کیا پڑی ہے کہ اپنی کرسی کل کے لونڈے کو پیش کریں اپنا ہنر اپنے تجربات کسی سے شئیر کریں انہوں نے تو بہت مشکل سے بڑی محنت سے سب حاصل کیا ہے ان کے سینئرز بھی تو ان سے ایسا ہی سلوک کرتے تھے پھر یہ نئے آنے والوں سے اچھا سلوک کیوں کریں سچ ہے کہ جو جیسے سیکھتا ہے وہ ویسے ہی سکھاتا ہے جو کچھ ان کے پاس ہوتا ہے اپنے ساتھ قبر میں لے جانے کو ترجیح دیتے ہیں حالانکہ دیے سے دیا جلتا ہے روشنی پھوٹتی ہے یہی تعلیم و تربیت کا طریقہ ہے اور واحد علم ہی ایک ایسی دولت ہے جو بانٹنے سے کم نہیں ہوتی بلکہ اس میں اضافہ ہوتا ہے پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوئیں ابھی بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو نئے لوگوں کو ویلکم بھی کرتے ہیں ان کی رہنمائی بھی کرتے ہیں اور ان کو اپنی کرسی بھی پیش کرتے ہیں کہ ہم نے بہت کرلیا اب آپ کرو ہم آپ کے ساتھ ہیں اور وہی لوگ ہیں جن کی بدولت یہ ادارے ، یہ کارخانے یہ کلب اور یہ تنظیمیں چل رہی ہیں پانی بھی کھڑا رہے تو بدبو دار ہوجاتا ہے یہ تو پھر ادارے، تنظمیں، کلبز، اور کارخانے ہیں سوچو ان کی حالت کیسی ہوتی بلاشبہ ایسے لوگ ہی سرمایہ ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ ہمارا کارخانہ ہمارا کلب ہماری تنظیم ہمارا معاشرہ اور ہمارا ملک ترقی کرے ایسے لوگوں کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے اللہ پاک ان کا سایہ ہمارے سروں پر ہمیشہ قائم و دائم رکھے۔ آمین

تحریر : 

یاسین یاس


Saturday, March 18, 2023

بس کنڈیکٹر ( تحریر محمد داؤد پھول نگر )

 بس کنڈیکٹر

ایک خاتون اپنی گود بچہ لیے اور دوسرا بچہ انگلی میں تھامےاپنے میاں کے ساتھ جانب منزل گامزن تھی کچھ فاصلے پر کچھ کنڈیکٹر حضرات نے آتے دیکھا تو لاہور لاہور کی آواز لگانا شروع کی وہ سواری جب قریب آٸی تو وہی کنڈیکٹر حضرات اسی سواری کا طواف کرنے لگے ایک ان کے میاں کو منانے میں لگ گیا تو دوسرا اس کے بچے کو اٹھا کر گاڑی میں بٹھانے لگا اور تیسرا اس کی بیوی کو کہنے لگا باجی گاڑی بھری ہے بھلے وہ گاڑی خالی ہی کیوں ہو اس کو ان لوگوں نےبھرا ہی کہنا ہے کیوں کہ یہ انکی فطرت ہوتی ہے جب سواری انکی اس حرکت سے تنگ ہو جاتی ہے تو سختی سے اپنی جان چھڑوا لیتی ہتے اور اکیلی خاتون ہو وہ ویسے ہی گھبرا جاتی ہے یہ ان کا رویہ عادت فطرتی ہے ایسا کیوں ہوتا ہے کیوں کہ کنڈیکٹر اور انکے ساتھ اسی شعبے کا آدمی جاہل ان ہڑھ اور سب بڑی بات تربیت کا اثر جاہل اس لیے کہا کیوں کہ انکو بولنے کی نہ تمیز نہ اخلاق کب اور کہاں کیا بات کرنی ہے ان کو پتہ نہیں ہوتا دوسری بات ان پڑھ تعلیمی فکدان ہے ان کےوالدین نے ان کو سکول لازمی بھیجا ہو گا یہ پڑھاٸی میں کمزور ہوں گے اس لیے سکول سے بھاگتےہوں گے اس لیے یہ تعیلم میں زیرو ہوتے ہیں سواۓ الا ما شاءاللہ اس کا مطلب ان میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں تیسری بات تربیت ان کی تربیت ہی ایسے ماحول میں کی جاتی ہے بولنے کا سلیقہ نہیں ہوتا یہ لوگ آپ کی بجاۓ توں کہتے ہیں مثال کے طور پر بھاٸی کہاں جانا ہے ہمارے ہاں پنجابی کا بولا جانا ہے تو جملہ بنے گا پرا جی تسی کیتھے جانا آپا تسی کیتھے جانا وغیرہ سب سے اہم بات سواری آ گٸ تو ایک کنڈیکٹر کہا دوسرے اپنے یہ مجھے دے دے سواری میں نےپہلے جانا  اس کچھ مان جاتے ہیں کچھ لڑاٸی کرنےپر ہو جاتے ہیں


علم الاقتصاد ( دیباچہ ) تحریر : ساجد علی امیر

 علم الاقتصاد(دیباچہ) :موضوعاتی مطالعہ


تحریر:  ساجد علی امیر

ً"علم الاقتصاد " علامہ اقبال کی پہلی علمی اور نثری تصنیف ہی نہیں بلکہ اردو زبان میں اقتصادیات کے موضوع پر لکھی جانے والی پہلی کتاب  بھی ہے ۔ جوعلم سیاست مدن کے عنوان سے معروف ہوئی ۔  اقبال نے یہ کتاب پروفیسر آرنلڈ کی تحریک پر تحریر کی تھی ۔ اقتصادیات کو علامہ اقبال کے افکار میں کبھی مرکزی حیثیت حاصل نہیں رہی لیکن اس کے باوجود اقبال کو اس موضوع سے بڑی گہری دلچسپی تھی  ۔ اقبال کی شاعری اور نثر دونوں میں اقتصادی موضوعات پر بڑے اشارے ملتے ہیں۔اقبال کے  اقتصادی افکار کے مطالعہ کے حوالے سے علم الاقتصاد کا دیباچہ بڑے خاصے کی چیز ہے ۔جس سے اقتصادیات کے طالب علم کو استفادہ کرنا چاہیے۔ اقبال نے اپنے اس دیباچے میں اقتصادیات کے بنیادی مباحث کو بڑے موثر اور علمی انداز میں پیش کیا ہے ۔ اقتصادیات بنیادی طور پر ایسا علم ہے جو ذریعہ آمدنی اور اس کے استعمال کا جائزہ لیتا ہے۔ اس کا تعلق دولت سے ہے اور دولت کا تعلق انسان کی معاشیت سے  جڑا ہوا ہے جس کی بنیاد پر اقتصادیات ایک ایسے وسیع علم کی شاخ بن جاتا ہے جس کا موضوع خود انسان ہے۔اقبال نے تاریخی تسلسل کے مطالعہ ,روزمرہ کے مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر یہ دریافت کیاہے کہ جس طرح مذہب انسان کو خارجی اور داخلی حوالے سے متاثر کرتا ہے با لکل اسی طرح روزی روٹی کمانے کا دھندا بھی اسے اپنے سانچے میں ڈھالتا چلا جاتا ہے ۔بسا اوقات ضروریات زندگی کی عدم دستیابی اور غریبی انسانی روح کو اس حدتک مسخ کر دیتی ہے کہ اخلاقی اور تمدنی اعتبار سے انسان کا وجودو عدم برابر ہو جاتا ہے ۔جس سےانسان کا دماغی قوی بری طرح متاثر ہوتا ہے ۔

ارسطو غلامی کو  تمدن انسانی کی تشکیل کے لیے ضروری خیال کرتاتھا۔لیکن اقبال نے مذہب اور جدید تعلیم کے تناظر میں یہ واضح کیا ہے کہ غلامی تمدن کی تعمیر نہیں بلکہ تخریب کرتی ہے۔انھوں نے انسان کی فطری آزادی پر زور دیا ہے۔اقبال نے علم ااقتصاد کے  دیباچے میں کچھ سوالات اٹھائے ہیں جن کا جواب ان کے اندر ہی پوشیدہ ہے۔اقبال انسان کو مفلسی کے آزار سے آزاد دیکھنے کے خواہش مند تھے اور وہ چاہتے تھے کہ یہ جو گلی کوچوں سے غربت  کی وجہ سے  سسکنے کی آوازیں آ رہی ہیں یہ ہمیشہ کے لیے اٹھ جائیں۔اس کے لیے اقبال انسانی فطرت کی اخلاقی قابلیتوں کو ان واقعات اور نتائج کی روشنی میں دیکھتے ہیں جو اقتصاد یات کے دائرے میں آتے ہیں جس سے یہ مطالعہ انتہائی دلچسپ اور ضروریات زندگی کا حصہ بن جاتا ہے۔

اقبال اہل ہندوستان کو علم الاقتصاد پر غورو فکر کی دعوت دیتے ہیں تاکہ وہ اپنی ان کمزوریوں اور تمدنی پہلووں سے واقفیت حاصل کر سکیں جن سے وہ نابلد ہیں اور ان پر وہ عناصر آشکار ہو سکیں جو ان کی ترقی میں مانع ہیں۔اقبال کے نزدیک ان قوموں کا انجام اچھا نہیں ہوتا جو اپنی تمدنی اور اقتصادی حالت سے بے خبر رہتی ہیں ۔اقبال برودہ کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے یہ واضح کرتے ہیں کہ ہماری تمام بیماریوں کا واحد نسخہ شفا اپنی اقتصادی حالتوں کو سنوارنے میں مضمر ہے ۔ساتھ ہی وہ یہ تنبیہ بھی کرتے ہیں کہ اگر ہم نے یہ نسخہ نہ آزمایا تو بربادی اور ذلت ہمارا مقدر بنے  گی۔

اقبال نے علم الاقتصاد کی تصنیف کا مقصد اس کے دیباچے میں یہ بتایا ہے کہ وہ اس کتاب کے ذریعے  اقتصادیات کے ضروری اصول وضع کرنا چاہتے تھےجو اہل ہندوستان کی موجودہ حالت پر صادق آتے ہیں۔

علم الاقتصاد کے مواد کے حوالے سے اقبال لکھتے ہیں کہ یہ کسی ایک انگریزی کتاب کا ترجمہ نہیں ہے بلکہ اس کے مضامین مختلف مشہور اور مستند کتب سے اخذ کیے گئے ہیں ۔لیکن اقبال ان ماخذات کی تفصیل  میں جانا مناسب نہیں سمجھتے۔انھوں  نے اپنی رائے دیتے ہوئے  اس کی صحت اور سند کا مکمل خیال رکھا ہے۔اقبال نے اقتصادی اصولوں کے حقیقی مفہوم کو بیان کرنے کے لیے اس طرز متن کی تقلید کرنے کی کوشش کی ہے جو اس عہد کی انگریزی کتب میں رائج تھا ۔

اقبال نے دیباچے میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ بعض اصطلاحات انھوں نے خود وضع کی ہیں اور بعض انھوں نے مصر کے عربی اخباروں سے لی ہیں جو زمانہ حال کی عربی  زبان میں متداول ہیں۔اقبال نے بعض الفاظ کو نیا مفہوم دیا ہے لیکن اس کی ممکن حد تک وضاحت بھی کر دی ہے تاکہ قاری کو کسی قسم کی دقت نہ محسوس ہو۔اقبال نے انگریزی محاورات کی پیروی میں اسم ذات کو اسم صفت کے معنوں میں برتا ہے۔انھوں نے سرمایا کو سرمایہ دار  اور محنت کو محنتیوں  کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔اقبال اس کی توجیہی یہ پیش کرتے ہیں کہ اگر فارسی محاورات کے تراجم اردو میں مستعمل ہو سکتے ہیں تو انگریزی محاورات کا ترجمہ کیوں نہیں۔

اقبال نے مانگ اور طلب,دستکار اور محنت ,دستکاری اور محنتی,نفع اور منافع ,ساہوکار اور سرمایہ دار مالک و کارخانہ دار کو مرادف کے طور پر برتا ہے۔انھوں نے پیدائش اور پیداوار کے بیچ انتہائی باریک فرق کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے پیدائش کو فعل اور پیداوار کو نتیجہ فعل کے طور پر دیکھا ہے۔اقبال نے لفظ تبادلہ کا استعمال مبادلہ اشیا زرنقد کی صورت میں اور مبادلہ کا استعمال ایک شے کے عوض دوسری شے لینے کے ضمن میں کیا ہے۔عربی زبان میں مبادلے کے لیے مفائفہ کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے لیکن اقبال نے اس لفظ کا استعمال اس وجہ سے نہیں کیا کہ اس کا مفہوم عام فہم نہیں۔دیباچہ کے آخر میں اقبال نے پروفیسر آرنلڈ ,جناب جیا رام ,اپنے دوست مسٹر فضل حسین اور شبلی نعمانی کا شکریہ اس تناظر میں کیا ہے کہ انھوں نے کتاب کے بعض حصوں میں زبان کے متعلق قابل قدر اصلاح دی


آخرت کی عدالت کے کچھ قوانین . انتخاب . : حسنہ نور

انتخاب : حسنہ نور 
 
آخرت کی عدالت کے کچھ قوانین:


آخرت کی عدالت میں پیش ہونے سے پہلے یہ قوانین جان لیجئے-


‏1- ساری فائلیں اوپن ہوں گی-

ونُخرِجُ لَهُ يَوْمَ القِيامَةِ كِتابا يَلقاهُ مَنْشُورًا•

ترجمہ!!!

"اور بروزِ قیامت ھم اسکے سامنے اسکا نامہ اعمال نکالیں گے- جسے وہ اپنے اوپر کھلا ہوا پا لے گا-"

(سورة بنی إسرائيل-13)


‏2- سخت نگرانی کی حالت میں پیشی ہوگی-

وَجَاءتْ كُلُّ نَفْسٍ مَّعَهَا سَائِقٌ وَشَهِيدٌ•

ترجمہ!!!

"اور ہر شخص اس طرح آئےگا- کہ اسکے ساتھ ایک لانے والا ہوگا- اور ایک گواہی دینے والا-"

(سورة ق-21)


‏3- کسی پر کوئی ظلم نہیں ہوگا-

وَمَا أَنَا بِظَلَّامٍ لِّلْعَبِيدِ•

ترجمہ!!!

"میں اپنے بندوں پر ذرہ برابر بھی ظلم کرنے والا نہیں ھوں-"

(سورة ق-29)


‏4- دفاع کے لئے وہاں کوئی وکیل نہ ھوگا-

اقْرَأْ كِتَابَكَ كَفَىٰ بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيبًا•

ترجمہ!!!

"لے! خود ھی اپنی کتاب آپ پڑھ لے- آج تو تو آپ ہی اپنا حساب خود لینے کو کافی ہے-"

(سورة بنی إسرائيل-14)


5- رشوت اور سفارش بالکل نہیں چلے گی-

يَوْمَ لا يَنفَعُ مَالٌ وَلا بَنُونَ•

ترجمہ!!!

"اس دن نہ مال کام آئے گا- نہ اولاد"

(سورة الشعراء-88)


‏6- ناموں میں کوئی تشابہ نہ ھوگا

وَمَا كَانَ رَبُّكَ نَسِيًّا•

ترجمہ!!!

"تمھارا رب بھولنے والا نہیں-"

(سورة مريم-64)


7- فیصلہ ہاتھ میں دیا جائے گا-

فَأَمَّا مَنْ أُوتِيَ كِتَابَهُ بِيَمِينِهِ فَيَقُولُ هَاؤُمُ اقْرَؤُوا كِتَابِيهْ•

ترجمہ!!!

"سو جسے اسکا نامۂ اعمال اسکے دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا- تو وہ کہنے لگے گا- کہ لو میرا نامۂ اعمال پڑھو-"

(سورة الحاقة-19)


‏8- کوئی غائبانہ فیصلہ نہیں ہوگا-

وَإِنْ كُلٌّ لَمَّا جَمِيعٌ لَدَيْنَا مُحْضَرُونَ•

ترجمہ!!!

"اور سب کے سب ھمارے سامنے حاضر کئے جائیں گے-"

(سورة يس-32)


‏9- فیصلے میں کوئی ردوبدل نہیں ہوگی-

مَا يُبَدَّلُ الْقَوْلُ لَدَيَّ•

ترجمہ!!!

"میرےیہاں فیصلے بدلے نہیں جاتے"

(سورة ق-29)


‏10- وہاں جھوٹے گواہ نہ ہوں گے-

يَوْمَ تَشْهَدُ عَلَيْهِمْ أَلْسِنَتُهُمْ وَأَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ•

ترجمہ!!!

"جبکہ انکے مقابلے میں انکی زبانیں اور انکے ہاتھ پاؤں انکے اعمال کی گواھی دیں گے-"

(سورة النور-24)


‏11- ساری فائلیں حاضر ھوں گی-

أحْصَاهُ اللَّهُ وَنَسُوهُ ۚ•

ترجمہ!!!

"جسےاللہ نے شمار رکھا ھے- اور جسے یہ بھول گئے-"

(سورة المجادلة-6)


‏12- اعمال تولنے کا باریک پیمانہ ھوگا-

وَنَضَعُ الْمَوَازِينَ الْقِسْطَ لِيَوْمِ الْقِيَامَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَيْئًا وَإِن كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ أَتَيْنَا بِهَا وَكَفَىٰ بِنَا حَاسبين•

ترجمہ!!!

"قیامت کے دن ہم درمیان میں لا رکھیں گے- ٹھیک ٹھیک تولنے والے ترازو کو- پھر کسی پر کچھ بھی ظلم  نہ کیا جائے گا- اور اگر ایک رائی کے دانے کے برابر بھی عمل ہوگا- ہم اسے لا حاضر کریں گے- اور ہم کافی ہیں- حساب کرنےوالے"

(سورة الأنبياء-47)


یاد رکھیئے:

آخرت کی زندگی کے مقابلے میں دنیا کی زندگی کا دورانیہ ایک منٹ بھی نہیں ہے-


اَللّٰھُمَّ فَقِّھْنِاِْ فِی الدِّیْنِ-

"اے ﷲ! ھمیں دین کی سمجھ عطا فرما-"

آمين


Friday, March 17, 2023

غزل ایس کے شاہد


  سکھ چین قرار نوں ترسے

زندگی ساری پیار نوں ترسے


ویخ ویرانی ویہڑے دی

وسدے گھر بار نوں ترسے


اڑدی وچ فضاواں کلی

جویں کونج ڈار نوں ترسے


ورھیاں بعد وی سجناں میری

اکھ تیرے دیدار نوں ترسے


میں او ان گھڑیا سونا

جہڑا شاھد سنار نوں ترسے


ایس کے شاھد

کوٹ مومن


علم فلکیات سے بارشوں کی پیش گوئی

 علم فلکیات سے بارشوں کی پیش گوئی

حقیقت حال 

خالد غورغشتی 


فلک شناسی صدیوں پرانا علم ہے۔ قدیم مذاہب و اقوام میں اس سے متعلق کثیر تحقیقی مواد ملتا ہے۔ مصریوں ،یونانیوں اور چینیوں کے ہاں اجرام فلکی سے متعلق کثیر سانئسی و تحقیقی مواد میسر تھا۔ یونان کے ایک فلاسفر تھیلر نے زمین کو گول اور چاند کے نور کو مستعار قرار دیا تھا۔ فیثا غورث نے کہا تھا کہ زہرہ و مریخ سورج کے گرد گھوم رہے ہیں۔ اسکندریہ کے ارسٹارکس نے تیسری صدی قم میں سورج ،چاند اور زمین کا نصف قطر معلوم کیا اور اسے گمان ہوا کہ سورج ساکن ہے اور زمین دیگر ستاروں کے گرد چکر کاٹ رہی ہے۔ یونان کے ایک منجم ہپارکس 150 قم نے فلک بینی کے آلات کو زیادہ مؤثر بنایا اور ستاروں کی ایک ایسی فہرست تیار کی جو سولہویں صدی تک صحیح سمجھی جاتی رہی۔ بطلیموس نے سورج اور ستاروں کی گردش پر تیرہ کتابیں لکھیں۔ جو اہل عرب کے ہاں المجطی کے نام سے مشہور ہوئیں۔ تمام مسلم ،یہودی اور عیسائی پندرھویں  صدی تک اسی نظریے کے قائل تھے۔ پندرھویں صدی میں پولینڈ کے نکولس کاپرنیکس نے یہ تحقیق کی کہ سورج ساکن ہے اور زمین اس کے گرد گھوم رہی ہے۔ جب پرینکا نے یہ تجربات کتابی شکل میں شائع کروائے تو اس پر پابندی عائد کردی گئی اور اس کی تمام تحقیقی کتابیں ضبط کر لی گئیں۔ سورج کی رفتار کتنی ہے، اس کی وضاحت کرتے ہوئے کیلیفورنیا کے ڈاکٹر اٹیکین کے مطابق ہمارا نظام شمسی اپنی کہکشاں کے ساتھ 44 ہزار میل فی گھنٹہ کی رفتار سے کسی نا معلوم منزل کی طرف گامزن ہے۔ یہ سب سمجھانے کےلیے اتنی ساری قدیم سائنسی معلومات عرض کی گئی، اب تو زمانہ جدید سائنس و ٹیکنالوجی کا آ چکا ہے۔ لیکن ہم ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود بھی اپنی عوام کو جہالت کی دلدل سے نکالنے میں ابھی تک ناجانے کیوں کامیاب نہ ہوسکے ہیں۔ دنیا بھر میں فلکیات کے علم کو بنیادی علم کی حثیت سے یونی ورسٹیوں اور تحقیقی اداروں پڑھایا جاتا ہے، لیکن ہم اب تک اس کے وجود سے ہی انکاری ہیں۔ ورنہ مسلم سائنس دان صدیوں سے علم فلکیات پر کام کرتے چلے آرہے ہیں۔ لیکن اب اچانک کچھ صدیوں سے مسلمانوں کا سانئسی علوم سے کنارہ کشی اختیار کرنا، سمجھ سے بالاتر ہے۔ حالاں کہ فلکیاتی علم سیکھنے کے اشارے ہمیں قرآن کریم سے واضح طور پر ملتے ہیں۔ گوگل کی تازہ ترین تحقیق کے مطابق برطانوی سائنس دان  85 فی صد تک درست بارشوں کی پیش گوئی کرنے تک پہنچ چکے ہیں اور ہم وہی توہم پرستی اور جہالتوں میں جھکڑے ہوئے گھوم رہے ہیں۔


پنجابی ادبی ویہڑا اور بزم ارباب ذوق کوٹ رادھاکشن

 کوٹ رادھا کشن (وقاص ساحل


)



ادبی ثقافتی وسماجی تنظیم پنجابی ادبی ویہڑا اور بزم ارباب ذوق تحصیل کوٹ رادھاکشن کے  زیر اہتمام  پنجاب رہتل دیہاڑ کے موقع پر معروف پنجابی شاعر ملک ارشاد کی رہائش گاہ سے ایک  ریلی کا آغاز کیا گیا جو مان سنگھ روڈ ، چوک ڈاکخانہ مین بازار اور  پاکستانی چوک سے ہوتی ہوئی نہر والے پل پر اختتام پزیر ہوئ۔ ریلی کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوۓ ملک ارشاد نے کہا کہ پنجاب کی ثقافت ایک مثالی ثقافت ہے  پنجاب کے لوگ دنیا کے ہر میدان میں اپنا لوہا منوا چکے ہیں اس لیے ہمیں اپنی دھرتی اقدار  لباس  خوراک اور  بولی پر فخر کرنا چاہیے چئیرمین پنجابی ادبی ویہڑا ڈاکٹر صابر علی میراں نے اپنے بزرگوں کی اعلی  پنجابی ثقافت کو ہر وقت  سینے سے لگانے پر زور دیا سابق ڈپٹی ایجو کیشن آفیسر ملک محمد یوسف انور کا کہنا تھا کہ پنجاب اولیاء کی سرزمین ہے جس میں اسلامی رنگ بہت نمایاں نظر آتا ہے دیگر مقررین میں مرکزی پریس کلب کے صدر ملک عبدالعزیز انجم معروف نعت گو شاعر سید علی احمد صابر اور امیر منہاج القرآن چودھری اعجاز الحسن آرائیں بھی شامل تھے , ریلی میں سینئر شاعر  منشاء قصوری,  محمد سجاد جٹ, اظہر صدیق انصاری, وقاص ساحل , محمد افضل فریدی, مبشر رشید, معظم علی, شیخ انس , اور ناصر علی کے علاوہ طلباء و شہریوں  کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔

شہر اقبال سیالکوٹ

 ‌سیالکوٹ 

اس شہر کی بنیاد چار ہزار سال قبل راجہ سل نے رکھی اور شہر کے وسط میں دہری فصیل والا قلعہ دفاعی نقطہ نظر سے تعمیر کروایااور اس کا نام اپنے نام پر سل کوٹ رکھا۔ جس وقت راجہ سل نے اس قلعہ کی بنیاد رکھی اس وقت اصل شہر آجکل کے ٹبہ ککے زئیاں،امام صاحب،ٹبہ سیداں،ٹبہ شوالہ،دھاروال اور پالا شاہ گیٹ پر مشتمل تھا۔

سیالکوٹ شہر کا زکر یونانی تاریخ میں ملتا ہے۔ یاد رہے کہ سکندراعظم نے 323 قبل مسیح میں شمالی پنجاب پر حملہ کیا تھا ۔ یونانی مورخین کے مطابق اس وقت اس شہر کی آبادی 80000 نفوس پر مشتمل تھی۔جنہیں سکندراعظم نے اس خدشے پہ قتل کر ڈالا کہ یہ دوسرے شہروں کو فتح کرنے میں مزاحمت بن سکتے ہیں ۔

اس کے بعد 300 ق م میں دریائے راوی اور چناب میں زبردست طغیانی آنے سے سل کوٹ اور گردو نواح کے علاقے صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔

انڈو یونانی دور میں ایتھوڈیمیڈ خاندان کے مینندراول نامی راجہ نے یہاں کا تخت سنبھالا ۔ مینندر نے قدیم شہر کو دوبارہ تعمیر کرایا۔اس نے 160ق م سے 135 قم تک یہاں حکومت کی ۔دوبارہ تعمیر شدہ شہر کو پرانے شہر سے ہٹ کر تعمیر کیا گیا تھا کیونکہ تباہ شدہ شہر کی جگہ پر دوبارہ شہر تعمیر کرنا ایک ناروا فعل سمجھا جاتا تھا۔

مینندر کی حکمرانی کے تحت ، اس شہر نے ریشم کی وجہ سے مشہور تجارتی مرکز کے طور پر بہت ترقی کی۔ مینندر نے بدھ مت مذہب کو قبول کیا اور اس کے بعد یہ شہر بدھ مت کا اہم مرکز بن گیا ۔

قدیم یونانی کتابوں میں اس نئے شہر کا نام سیگالہ کے نام سے ملتا ہے ۔جو انڈو یونانی سلطنت کا پایہ تخت تھا۔ آس پاس کے علاقے کی کھدائی سے یہاں قدیم یونانی تہذیب کے آثار بھی ملے ہیں جن میں یونانی سکے اور اسٹوپے شامل ہیں۔ ضلع کی مختلف جگہ پہ کھدائیوں سے اس دور کے قدیم یونانی نقشے بھی برآمد ہوئے ہیں۔ 

ہن گجر 

دوسری صدی عیسوی  میں راجہ سالباہن یہاں کا حکمران تھا ۔ اس کا تعلق گجر قوم کے  ہن قبیلے سے تھا ۔ راجہ سالباہن نے ہی یہاں وہ مشہور تاریخی قلعہ تعمیر کرایا جسے قلعہ سیالکوٹ کہا جاتاہے ۔

اس کے بعد راجہ رسالو سیالکوٹ کے تخت پر بیٹھا  ۔ رسالو گجر کے نام سے آج بھی ایک مقام سیالکوٹ میں موجود ہے

اس کے بعد یہ علاقہ کشان گجر سلطنت کا حصہ بن گیا ۔جو طویل عرصہ تک کشان سلطنت کا حصہ رہا ۔

460 ء کے آس پاس، وسط ایشیاء سے وائٹ ہن گجر قبیلہ کی یلغار ہوئی جنہیں افتالی بھی کہا جاتا ہے

یاد رھے کہ افتالی آج بھی گجر قوم کی ایک مشہور گوت ہے ۔ انہوں نے ٹیکسلہ کے حکمران خاندان کو بھی سیالکوٹ میں پناہ لینے پر مجبور کیا مگر بعد ازاں ہفتالیوں نے سیالکوٹ کو بھی فتح کر لیا ۔ 515ء میں سیالکوٹ افتالی  حکمران تورامان کا دارالحکومت بن گیا ۔ تورامان ہن کا گجر تاریخ میں بڑا نام ہے ۔

تورامان کے بیٹے مہیر کل ہون کے دور میں ہنوں کی سلطنت اپنے عروج کو پہنچ گئی ۔

چینی سیاح ہیون سانگ نے اس شہر کا دورہ 633ء میں کیا ، اس نے اس شہر کا نام شی کیو-لو کے نام سے درج کیا۔ ہیوان سانگ نے بھی لکھا ہے کہ سکندراعظم نے مکمل طور پر تباہ کر دیا تھا اور نیا شہر پرانی جگہ سے دو سے اڑھائی میل کے فاصلے پر تعمیر کیا گیا ۔اس نے لکھا اس وقت سیالکوٹ کو پنجاب کے مرکز کی حیثیت حاصل تھی ۔

643ء میں جموں کے  راجہ نے اس شہر پر حملہ کیا اور اس کے خاندان نے یہاں محمود غزنوی کی آمد تک یہاں حکومت کی ۔

جموں و کشمیر سے تعلق رکھنے والے سنسکرت کے مشہور مورخ اور تاریخ دان پنڈت کلہن نے راج ترنگنی کے نام سے تاریخ مرتب کی اور اس میں کابل اور شمالی پنجاب کے راجہ جے پال کھٹانہ کے خاندان کو گجر لکھا ۔ 

تقریباً 1000ء کے قریب سیالکوٹ کی اہمیت کم ہونے لگی کیونکہ غزنوی حکمرانوں نے لاہور کو اپنا مرکز بنا لیا تھا ۔ لیکن بارہویں صدی کے اوائل میں غزنوی سلطنت کے زوال کے بعد  کٹھانہ گجروں کی کابل شاہی  سلطنت کا دارالحکومت لاہور سے سیالکوٹ منتقل کردیا گیا۔

اس کے بعد شہاب الدین غوری نے سیالکوٹ کو اہمیت دیتے ہوئے یہاں ایک گیریژن کی بنیاد رکھی-

1520 میں عثمان غنی کی قیادت میں مغل افواج شہر میں داخل ہوئیں۔ اکبر کے دور میں موجودہ ضلع سیالکوٹ،”رچنا بار سرکار” کے نام سے صوبہ لاہور کا حصہ تھا۔ پھرشاہ جہاں کے دور میں علی مردان خان یہاں کا حکمران رہا۔

 شاہ جہاں بادشاہ کے دور حکومت میں سیالکوٹ  ایک بار پھر دنیا کے نقشہ پر ابھرا اور یہاں پر 13 باغ،12 دریاں بنیں اور تعمیر و ترقی کا دور شروع ہوا 

پھر ایک وقت میں سکھوں نے اس پر قبضہ کر لیا اور ایک عرصہ تک شراب و جواء اس شہر میں‌چلتے رہے۔

 سکھ بادشاہ رنجیت سنگھ کی وفات کے بعد انگریزوں نے اس شہر میں پنجے جما لئے۔ 1849ء میں مہا راجہ دلیپ سنگھ کو معزول کر دیا گیا اور سیالکوٹ کو دوسرے علاقوں کی طرح اپنی گرفت میں لےلیاگیا ۔

1857ء میں جب پورے ہندوستان کی طرح سیالکوٹ کے لوگوں نے بھی جنگ آزادی میں بھرپور حصہ لیا تو انگریزوں نے یہاں  مارشل لا نافذ کر دیا ۔ لیکن جب جہلم ، راولپنڈی اور آس پاس  مسلم  فوجیوں نے مسلح بغاوت کا آغاز کیا تو تین ماہ کے قلیل عرصہ بعد انگریز مارشل لاء اٹھانے پر مجبور ہوگئے

یہ شہر جو دریائے چناب کے کنارے واقع ہے 30 لاکھ سے زیادہ آبادی والا یہ شہر لاہور سے 125 کلومیٹر دور ہے جبکہ مقبوضہ جموں سے صرف 48 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ ضلع سیالکوٹ چارتحصیلوں پر مشتمل ہے:

تحصیل سیالکوٹ

تحصیل ڈسکہ

تحصیل پسرور

تحصیل سمبڑیال

موجودہ سیالکوٹ نا صرف پنجاب بلکہ پورے پاکستان میں اپنی ہی اہمیت کا حامل ہے اور ناصرف کھیلوں کے سامان میں اپنی مثال ہے بلکہ اس اقبال کے شہر کا اپنا ایٸر پورٹ بھی ہے تیزی سے ترقی کرتا یہ شہر پاکستان کی ترقی و خوشحالی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثت رکھتا ہے اور ساری دنیا جہاں کھیلوں میں بلکہ جن کھیلوں میں پاکستان کا نام بھی نہیں وہاں سیالکوٹ کو ہمیشہ سب سے اوپر جانا جاتا ھے