غزل
جب اُس نے کہہ دیا کہ ضرورت نہیں رہی
بس پھر محبتوں میں وہ شدت نہیں رہی
یہ کس نے چکھ لیا اسے بسم اللہ کے بغیر
کیونکر محبتوں میں وہ برکت نہیں رہی
ایسا نہیں کہ رونقِ دنیا نہیں پسند
چاہت کی بات ہے مجھے چاہت نہیں رہی
چبھنے لگی ہے سبکو تو لگتا ہے اب مجھے
یہ خامشی بھی عین عبادت نہیں رہی
اکتا گئے ہو تم بھی درونِ سفر تو پھر۔۔۔
چلنے کی ہم کو ساتھ ضرورت نہیں رہی
یہ آپ، تم، جناب نہیں سیدھی بات کر
مجھ کو تکلفات کی عادت نہیں رہی
میں بولتی دفاع میں کیا اور کہاں تلک؟
وہ چالباز ایسا تھا ہمت نہیں رہی
رہنے لگی ہوں ان دنوں مصروف میں بہت
اس کو بھی روز کال کی عادت نہیں رہی
اس سے بڑا مرض بھلا کیا ہوگا اے طبیب
بیمار کو علاج کی حاجت نہیں رہی
گزرے ہیں سانحات یوں برباد کر کے، اب
حیران کر سکے جو، قیامت نہیں رہی۔۔۔
ایسا مَدُھر سا لہجہ ہے اس گل بدن کا یار
سن کر کسی مٹھاس کی چاہت نہیں رہی
سب ہی پُرانے طور ہیں سب ہی پُرانے ڈھنگ
ڈسنے میں دوستوں کے بھی جدت نہیں رہی
اک بدلے ہوۓ چہرے میں ایسا سبق تھا پھر
مجھ کو کسی کتاب سے نسبت نہیں رہی
شمائلہ فاروق
No comments:
Post a Comment