Friday, March 24, 2023

شکوہ ( مزاحیہ شاعری) قمر بن یامین

 شکوہ


کیوں زیاں کار بنوں سود فراموش رہوں

زن مریدی ہی کروں میں اور مدہوش رہوں


طعنے بیگم کے سنوں اور ہمہ تن گوش رہوں

ہم نوا میں کوئی بزدل ہوں کہ خاموش رہوں


جرات آموز مری تاب ِسخن ہے مجھکو

شکوہ اک زوجہ سے ! خاکم بدہن ہے مجھکو


تجھکو معلوم ہے لیتا تھا کوئی رشتہ ترا

سر پٹختے ہوئے پھرتا تھا کبھی اّبا ترا


کس قدر خوش تھا میں جس دن تیرا ڈولا نکلا

تیرا ڈولا تو مگر موت کا گولا نکلا


تو جو سوتی ہے تو سالن بھی پکاتا ہوں میں

ٹیپو روتا ہے تو فیڈر بھی بناتا ہوں میں


گڈی جاگے ہے تو جھولا بھی جھلاتا ہوں میں

پّپو اٹھ بیٹھے جو راتوں کو کھلاتا ہوں میں


پھر بھی مجھ سے یہ گلا ہے کہ وفادار نہیں

میں وفادار نہیں تو بھی تو دلدار نہیں


ھےبجا حلقہ ازواج میں مشہور ھوں میں

تیرا بیرا، تیرا دھوبی ، تیرا مزدور ھوں میں


زن مریدی کا شرف پاکے بھی رنجور ھوں میں

قصہ درد سناتا ھوں کہ مجبور ھوں میں


میری مخدومہ میرے غم کی حکایت سن لے

ناز بردار سے تھوڑی سی شکایت سن لے


زچہ بن بن کے بجٹ میرا گھٹایا تو نے

ھر نۓ سال نیا گل ھے کھلایا تو نے


رشتہ داروں نے تیرے ، جان میری کھائ ھے

فوج کی فوج میرے گھرمیں جو در آئی ھے


کوئ ماموں ، کوئ خالو ، کوئ بھائی ھے

بات کہنے کی نہیں تو بھی تو ھرجائی ھے


کیسے غربت میں ، میں پالوں تیرے غمخواروں کو

ان ممولوں کو سمبھالوں یا چڑی ماروں کو


میں وہ شوھر ھوں کہ خود آگ جلائی جس نے

لا کے بستر پہ تجھے چاۓ پلائ کس نے


تو ھی کہہ دے تیرا حسن نکھارا کس نے

اس بلیک آؤٹ سے مکھڑے کو سنوارا کس نے


کون تیرے لیۓ درزی سے غرارا لایا

واسطہ دے کے غریبی کا خدارا لایا


پھر بھی مجھ سے گِلا کہ کماتا کم ھوں

لے کے شاپنگ کے لیۓ تجھ کو، میں جاتا کم ھوں


نوجوانی میں تجھے عیش کراتا کم ھوں

اور پلازا میں تجھے فلم دکھاتا کم ھوں


کاش نوٹوُں سے حکومت میری جیبیں بھردے

مشکلیں شوھرِ مظلوم کی آسان کر دے


محفلِ شعرو سخن میں تو چمک جاتا ھوں میں

تیری سرکار میں پہنچوں تو دبک جاتا ھوں میں


تو جو بلغم بھی کھنگارے تو ٹھٹک جاتا ھوں میں

گھور کر دیکھے تو پیچھے کو سرک جاتا ھوں میں


پھر بھی مجھ سے یہ گلا ھےکہ وفادار نہیں

توھے بیکار تیرے پاس کوئ کار نہیں....



No comments:

Post a Comment