Saturday, March 25, 2023

جواب شکوہ بیوی ( قمر بن یامین )

 



⭕بیوی کا جوابِ شکوہ⭕


تیری بیوی بھی صنم تجھ پہ نظر رکھتی ہے

چاہے میکے ہی میں ہو تیری خبر رکھتی ہے


اُسکی سینڈل بھی میاں اتنا اثر رکھتی ہے

پر نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے


شعر تھا فتنہ گر و سرکش و چالاک ترا

دل، جگر چیر گیا نالہء بیباک ترا


آئی آواز ٹھہر تیرا پتا کرتی ہوں

تُو ہے اَپ سیٹ میں ابھی تیری دوا کرتی ہوں


میں تجھے پہلے بھی اکثر یہ کہا کرتی ہوں

ارے کمبخت! بہت تیری حیا کرتی ہوں


اور تو ہےکہ بڑی نظمیں ہے پڑھتا پھرتا

اپنے یاروں میں بڑا اب ہے اکڑتا پھرتا


میں دکھاتی ہوں ابھی تجھ کو بھی نقشہ تیرا

نہ کوئی قوم ہے تیری نہ ہے شجرہ تیرا


بھائی تیرے ہیں سبھی مجھ کو تو غُنڈے لگتے

یہ ترے کان کڑاہی کے ہیں کُنڈے لگتے


اپنی شادی پہ عجب رسم چلائی کس نے؟

نہ کوئی بس نہ کوئی کار کرائی کس نے؟


آٹو رکشے ہی پہ بارات بُلائی کس نے ؟

منہ دکھائی کی رقم میری چرائی کس نے ؟


کچھ تو اب بول ارے! نظمیں سنانے والے

مولوی سے میرا حق ِمہر چھڑانے والے


صاف کہہ دے مجھے کس کس پہ ہے اب کے مرتا؟

رات کے پچھلے پہر کس کو ہے کالیں کرتا ؟


کس کے نمبر پہ ہے سو سو کا تُو بیلنس بھرتا ؟

چل بتا دے مجھے‘ اب کاہے کو تُو ہے ڈرتا


ورنہ ابّے کو ابھی اپنے بُلاتی میں ہوں

آج جوتے سےمزا تجھکو چکھاتی میں ہوں


اپنی تنخواہ فقط ماں کو تھمائی تُو نے

آج تک مجھکو کبھی سیر کرائی تُو نے؟


کوئی ساڑھی، کوئی پشواز دلائی تُو نے؟

ایک بھی رسم ِوفا مجھسے نبھائی تو نے؟


لطف مرنے میں ہے باقی نہ مزا جینے میں

کتنے ارمان تڑپتے ہیں مرے سینے میں


بھول ابّا سے ہوئی اور سزا مجھ کو ملی

ماں بھی جان گئی کیسی بلا مجھ کو ملی


میں نے چاہی تھی وفا اور جفا مجھ کو ملی

میری تقدیر ہی دراصل خفا مجھ کو ملی


میرے میکے سے جو مہمان کوئی آتا ہے

رنگ ترے چہرے کا اسی وقت بدل جاتا ہے


سامنے آنے سے اّبا کے تُو کتراتا ہے

کتنا سادہ ہے کہتا ہے کہ ”شرماتا ہے“


تُو ہوا جس کا مخالف وہ تری ساس نہیں؟

میری عزت کا ذرا بھی تجھے احساس نہیں !


ہڈی پسلی میں تری توڑ کے گھر جاؤں گی

ارے گنجے! ترا سر پھوڑ کے گھر جاؤں گی


سَرّیا گردن کا تری موڑ کے گھر جاؤں گی

سارے بچوں کو یہیں چھوڑ کے گھر جاؤں  گی

  

یاد رکھنا ! میں کسی سے بھی نہیں ڈرتی ہوں

آخری بار خبردار تجھے کرتی ہوں..


No comments:

Post a Comment