Saturday, March 18, 2023

بس کنڈیکٹر ( تحریر محمد داؤد پھول نگر )

 بس کنڈیکٹر

ایک خاتون اپنی گود بچہ لیے اور دوسرا بچہ انگلی میں تھامےاپنے میاں کے ساتھ جانب منزل گامزن تھی کچھ فاصلے پر کچھ کنڈیکٹر حضرات نے آتے دیکھا تو لاہور لاہور کی آواز لگانا شروع کی وہ سواری جب قریب آٸی تو وہی کنڈیکٹر حضرات اسی سواری کا طواف کرنے لگے ایک ان کے میاں کو منانے میں لگ گیا تو دوسرا اس کے بچے کو اٹھا کر گاڑی میں بٹھانے لگا اور تیسرا اس کی بیوی کو کہنے لگا باجی گاڑی بھری ہے بھلے وہ گاڑی خالی ہی کیوں ہو اس کو ان لوگوں نےبھرا ہی کہنا ہے کیوں کہ یہ انکی فطرت ہوتی ہے جب سواری انکی اس حرکت سے تنگ ہو جاتی ہے تو سختی سے اپنی جان چھڑوا لیتی ہتے اور اکیلی خاتون ہو وہ ویسے ہی گھبرا جاتی ہے یہ ان کا رویہ عادت فطرتی ہے ایسا کیوں ہوتا ہے کیوں کہ کنڈیکٹر اور انکے ساتھ اسی شعبے کا آدمی جاہل ان ہڑھ اور سب بڑی بات تربیت کا اثر جاہل اس لیے کہا کیوں کہ انکو بولنے کی نہ تمیز نہ اخلاق کب اور کہاں کیا بات کرنی ہے ان کو پتہ نہیں ہوتا دوسری بات ان پڑھ تعلیمی فکدان ہے ان کےوالدین نے ان کو سکول لازمی بھیجا ہو گا یہ پڑھاٸی میں کمزور ہوں گے اس لیے سکول سے بھاگتےہوں گے اس لیے یہ تعیلم میں زیرو ہوتے ہیں سواۓ الا ما شاءاللہ اس کا مطلب ان میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں تیسری بات تربیت ان کی تربیت ہی ایسے ماحول میں کی جاتی ہے بولنے کا سلیقہ نہیں ہوتا یہ لوگ آپ کی بجاۓ توں کہتے ہیں مثال کے طور پر بھاٸی کہاں جانا ہے ہمارے ہاں پنجابی کا بولا جانا ہے تو جملہ بنے گا پرا جی تسی کیتھے جانا آپا تسی کیتھے جانا وغیرہ سب سے اہم بات سواری آ گٸ تو ایک کنڈیکٹر کہا دوسرے اپنے یہ مجھے دے دے سواری میں نےپہلے جانا  اس کچھ مان جاتے ہیں کچھ لڑاٸی کرنےپر ہو جاتے ہیں


No comments:

Post a Comment