Wednesday, March 29, 2023

اسلوب اور اسلوب نگار ( تحریر : ساجد علی امیر )

 اُسلوب اور اُسلوب نگار


تحریر :ساجد علی امیر


اُسلوب کے متعلق مختلف آراء ملتی ہیں ۔لیکن ان تمام آراء میں یہ بات مشترک ہے کہ اُسلوب اُسلوب نگار کی شخصیت کا  مظہر ہوتا ہے۔اس میں اُسلوب نگار کی شخصیت اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ اس طرح سے جلوہ گر ہوتی ہے کہ اس کی ذات کی تمام داخلی اور خارجی کیفیات اور واردات کا بھر پور اظہار ہوجاتا ہے۔اُسلوب شخصی صفت ہے جو اُسلوب نگار کی شخصیت کا مجموعی تاثر پیش کرتے وقت اس کے افکارو خیالات اور جذبات و احساسات کو  تخلیقی طور پر دریافت کرتی ہے۔اُسلوب شخصی اور انفرادی استعداد کا مطالعہ ہوتا ہے۔ڈاکٹر عبادت بریلوی اُسلوب سے مراد ایساطرزِِ اظہار لیتے ہیں جو انسان اور اس کی شخصیت کا آئینہ ہوتا ہے۔فرانسیسی نقاد بوفان "اُسلوب خود انسان ہے"کا داعی ہے جبکہ پروفیسر مرے مصنف کی مکمل شخصیت کو اُسلوب کہتا ہے۔ادبی اظہار کے لیے اسلوب زیور کا کام دیتا ہے اور زبان و بیان کے ان تمام وسائل کو بروئے کار لاتا ہے جن کی مدد سے  تخیل یا موضوع کو موثر طور پر پیش کیا جا سکتا ہے ۔ڈاکٹر سید عبداللہ کے نزدیک:

"اُسلوب سے مراد بات کو بلیغ انداز میں پیش کرنا ہے اور وہ تمام وسائل کو استعمال کرنا مراد ہے, جن سے کوئی ادبی تحریر موثر ثابت ہو سکتی ہے۔"(١)

اُسلوب خاص قسم کا طرزِتحریر ہے جو ادبی تخلیق کے ان تمام خصائص سے تعلق رکھتا ہے جو خیال یاموضوع کا اظہاروابلاغ کرنے میں معاون ہوتے ہیں۔اُسلوب ہی اُسلوب نگار کو انفرادیت سے نوازتا ہے ۔جس کے بل بوتے پر وہ اپنے معاصرین میں نمایاں مقام حاصل کرتا ہے اور اپنی شناخت بناتا ہے۔اُسلوب کی تشکیل میں ان سیاسی ,سماجی,تہذیبی,ثقافتی اور مذہبی حالات واقعات کابڑا عمل دخل ہوتا ہے جو اُسلوب نگار کی شخصیت پر بالواسطہ یا بلاواسطہ اثر انداز ہوتے ہیں۔اگر اُسلوب نگار اپنی شخصیت اور اس سے وابستہ حالات و واقعات کو منہا کرنا چاہے بھی تو نہیں کر سکتا کیونکہ اُسلوب کا کوئی نہ کوئی زاویہ اس کی شخصیت کی مختلف جزئیات اور اسے پیش آنے والے سیاسی ,سماجی اوردیگر واقعات کے مابین ربط تلاش کر لیتا ہے ۔جس سے اس کی شخصیت کی بھر پور عکاسی ہوتی ہے۔ اُسلوب تجربے یا خیال اور اس تجربے یا خیال کو بیان کرنے کے لیے جو الفاظ استعمال ہوتے ہیں ان کے امتزاج سے وجود میں آتا ہے۔تجربے یا خیال کا تعلق شخصیت کی فکری گہرائی,ذہنی وسعت,دینی نظریات و افکار اور ذہنی میلانات سے ہوتا ہے۔ جب ان کو الفاظ میں بیان کیا جاتا ہے تو یہ محض تجربہ, مشاہدہ یا تخیل نہیں ہوتا بلکہ شخصیت کے اندرون کی الفاظ کے ذریعے خارجی ہئیت تخلیق کی جارہی ہوتی ہے۔یوں اس کے خدوخال وضع ہو جاتے ہیں۔ڈاکٹر عبادت بریلوی اپنی کتاب "اقبال کی اردو نثر "میں رقم طراز ہیں:

"اور یہ صورت حال اس وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہ لکھنے والا اپنے اُسلوب کے ذریعے سے اپنے خیالات و نظریات کی وضاحت کرتا ہے۔یہ خیالات و نظریات در حقیقت لکھنے والے کے جذباتی اور ذہنی تجربات کی صورت میں سامنے آتے ہیں"۔(٢)


No comments:

Post a Comment