Sunday, March 26, 2023

خود ساختہ مہنگائی رمضان اور غریب عوام ( شاہد رشید )

 خود ساختہ مہنگائی ،رمضان اور غریب عوام  


تحریر 


شاہدرشید 


ماہ صیام کی آمد کے ساتھ ہی گراں فروش کمر کس لیتے ہیں انکی کوشش ہوتی ہے جتنا منافع کمانا ہے اسی مہینے کما لیں وہ سال بھر کی کسر اسی مہینے نکالنے کی مکمل کوشش کرتے ہیں۔ رمضان سے پہلے چیزیں پھر بھی سستی ہوتی ہیں رمضان کا مہینہ شروع ہوتے ہی  اشیا خورونوش کی قیمتیں بڑھا دی جاتی ہیں۔ سرکاری ریٹ لسٹ پر عمل درآمد بالکل بھی نہیں کیا جاتا سرکاری ریٹ کے برعکس ہی اشیا فروخت کی جاتی ہیں۔

ضلعی انتظامیہ اور پرائس کنٹرول کمیٹیز خود ساختہ مہنگائی کرنے والوں  کے خلاف کاروائی کرنے میں بے بس نظر آتی ہیں۔ گاہک سے منہ مانگے دام وصول کیے جاتے ہیں۔ رمضان میں ایک ہی شہر میں دو مختلف دکانوں پر آپ کو ایک ہی چیز مختلف ریٹ پر ہی ملتی ہے ۔ جسکا جتنا دل کرتا ہے وہ اتنا منافع کمانے کی کوشش کرتا ہے آگر  اس وقت پھلوں سبزیوں کی بات کریں تو انکی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں  بازار میں سبزی اور فروٹ لینے والے روزہ داروں کو جتنا ممکن ہو سکتا ہے لوٹا جا رہا ہے۔ خاص طور پر فروٹ تو اس قدر مہنگا بک رہا  ہے کہ عام آدمی تو بیچارہ پریشان ہی دکھائی دیتا ہے۔خود ساختہ مہنگائی کے علاؤہ  ناپ تول میں ڈنڈی مارنا، بھی رمضان میں معمول ہوتا ہے۔حکومت ہر رمضان میں رمضان بازار کے نام سے عوام کے لیے سہولت فراہم کرتی ہے  جو اشیا رمضان بازار میں ریلیف کے نام فروخت کی جاتی ہیں ان کا معیار اتنا گھٹیا ہوتا ہے کہ عام آدمی ان کو خریدنا بھی پسند نہیں کرتا ہے۔ آگر ہم دوسرے ممالک پر نظر ڈالیں تو کچھ اسلامی ممالک یہاں تک کے امریکہ کے اندر   ہر رمضان میں عوام کو جتنا ہو سکے ریلیف فراہم کیا جاتا ہے  رمضان میں عوام کو معیاری چیزیں کافی سستی ملتی  ہیں لیکن ہمارے پاکستان میں رمضان میں چیزیں ڈبل ہو  جاتی ہیں۔ حکومتوں کو رمضان میں کم سے کم عوام کو ریلیف ضرور دینا چاہیے تاکہ رمضان کے بابرکت مہینے میں  عوام کے لیے روزہ رکھنا اور کھولنا آسان ہو سکے آگر ہر دوکاندار یہ عہد کر لے  ہر رمضان میں ہم  نے مخلوق خدا کے لئے آسانیاں پیدا کرنی ہیں اور رمضان کے مہینے میں کم سے کم منافع کمانا ہے  کیا معلوم یہ ہماری زندگی کا آخری رمضان ہو پھر ہر رمضان میں عوام کو اشیا مناسب قمیت میں آ سانی سے مل سکتی ہیں اور ہر دکاندار اپنی دنیا اور آخرت دونوں  سنوار سکتا ہے۔


No comments:

Post a Comment