Saturday, March 18, 2023

علم الاقتصاد ( دیباچہ ) تحریر : ساجد علی امیر

 علم الاقتصاد(دیباچہ) :موضوعاتی مطالعہ


تحریر:  ساجد علی امیر

ً"علم الاقتصاد " علامہ اقبال کی پہلی علمی اور نثری تصنیف ہی نہیں بلکہ اردو زبان میں اقتصادیات کے موضوع پر لکھی جانے والی پہلی کتاب  بھی ہے ۔ جوعلم سیاست مدن کے عنوان سے معروف ہوئی ۔  اقبال نے یہ کتاب پروفیسر آرنلڈ کی تحریک پر تحریر کی تھی ۔ اقتصادیات کو علامہ اقبال کے افکار میں کبھی مرکزی حیثیت حاصل نہیں رہی لیکن اس کے باوجود اقبال کو اس موضوع سے بڑی گہری دلچسپی تھی  ۔ اقبال کی شاعری اور نثر دونوں میں اقتصادی موضوعات پر بڑے اشارے ملتے ہیں۔اقبال کے  اقتصادی افکار کے مطالعہ کے حوالے سے علم الاقتصاد کا دیباچہ بڑے خاصے کی چیز ہے ۔جس سے اقتصادیات کے طالب علم کو استفادہ کرنا چاہیے۔ اقبال نے اپنے اس دیباچے میں اقتصادیات کے بنیادی مباحث کو بڑے موثر اور علمی انداز میں پیش کیا ہے ۔ اقتصادیات بنیادی طور پر ایسا علم ہے جو ذریعہ آمدنی اور اس کے استعمال کا جائزہ لیتا ہے۔ اس کا تعلق دولت سے ہے اور دولت کا تعلق انسان کی معاشیت سے  جڑا ہوا ہے جس کی بنیاد پر اقتصادیات ایک ایسے وسیع علم کی شاخ بن جاتا ہے جس کا موضوع خود انسان ہے۔اقبال نے تاریخی تسلسل کے مطالعہ ,روزمرہ کے مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر یہ دریافت کیاہے کہ جس طرح مذہب انسان کو خارجی اور داخلی حوالے سے متاثر کرتا ہے با لکل اسی طرح روزی روٹی کمانے کا دھندا بھی اسے اپنے سانچے میں ڈھالتا چلا جاتا ہے ۔بسا اوقات ضروریات زندگی کی عدم دستیابی اور غریبی انسانی روح کو اس حدتک مسخ کر دیتی ہے کہ اخلاقی اور تمدنی اعتبار سے انسان کا وجودو عدم برابر ہو جاتا ہے ۔جس سےانسان کا دماغی قوی بری طرح متاثر ہوتا ہے ۔

ارسطو غلامی کو  تمدن انسانی کی تشکیل کے لیے ضروری خیال کرتاتھا۔لیکن اقبال نے مذہب اور جدید تعلیم کے تناظر میں یہ واضح کیا ہے کہ غلامی تمدن کی تعمیر نہیں بلکہ تخریب کرتی ہے۔انھوں نے انسان کی فطری آزادی پر زور دیا ہے۔اقبال نے علم ااقتصاد کے  دیباچے میں کچھ سوالات اٹھائے ہیں جن کا جواب ان کے اندر ہی پوشیدہ ہے۔اقبال انسان کو مفلسی کے آزار سے آزاد دیکھنے کے خواہش مند تھے اور وہ چاہتے تھے کہ یہ جو گلی کوچوں سے غربت  کی وجہ سے  سسکنے کی آوازیں آ رہی ہیں یہ ہمیشہ کے لیے اٹھ جائیں۔اس کے لیے اقبال انسانی فطرت کی اخلاقی قابلیتوں کو ان واقعات اور نتائج کی روشنی میں دیکھتے ہیں جو اقتصاد یات کے دائرے میں آتے ہیں جس سے یہ مطالعہ انتہائی دلچسپ اور ضروریات زندگی کا حصہ بن جاتا ہے۔

اقبال اہل ہندوستان کو علم الاقتصاد پر غورو فکر کی دعوت دیتے ہیں تاکہ وہ اپنی ان کمزوریوں اور تمدنی پہلووں سے واقفیت حاصل کر سکیں جن سے وہ نابلد ہیں اور ان پر وہ عناصر آشکار ہو سکیں جو ان کی ترقی میں مانع ہیں۔اقبال کے نزدیک ان قوموں کا انجام اچھا نہیں ہوتا جو اپنی تمدنی اور اقتصادی حالت سے بے خبر رہتی ہیں ۔اقبال برودہ کی تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے یہ واضح کرتے ہیں کہ ہماری تمام بیماریوں کا واحد نسخہ شفا اپنی اقتصادی حالتوں کو سنوارنے میں مضمر ہے ۔ساتھ ہی وہ یہ تنبیہ بھی کرتے ہیں کہ اگر ہم نے یہ نسخہ نہ آزمایا تو بربادی اور ذلت ہمارا مقدر بنے  گی۔

اقبال نے علم الاقتصاد کی تصنیف کا مقصد اس کے دیباچے میں یہ بتایا ہے کہ وہ اس کتاب کے ذریعے  اقتصادیات کے ضروری اصول وضع کرنا چاہتے تھےجو اہل ہندوستان کی موجودہ حالت پر صادق آتے ہیں۔

علم الاقتصاد کے مواد کے حوالے سے اقبال لکھتے ہیں کہ یہ کسی ایک انگریزی کتاب کا ترجمہ نہیں ہے بلکہ اس کے مضامین مختلف مشہور اور مستند کتب سے اخذ کیے گئے ہیں ۔لیکن اقبال ان ماخذات کی تفصیل  میں جانا مناسب نہیں سمجھتے۔انھوں  نے اپنی رائے دیتے ہوئے  اس کی صحت اور سند کا مکمل خیال رکھا ہے۔اقبال نے اقتصادی اصولوں کے حقیقی مفہوم کو بیان کرنے کے لیے اس طرز متن کی تقلید کرنے کی کوشش کی ہے جو اس عہد کی انگریزی کتب میں رائج تھا ۔

اقبال نے دیباچے میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ بعض اصطلاحات انھوں نے خود وضع کی ہیں اور بعض انھوں نے مصر کے عربی اخباروں سے لی ہیں جو زمانہ حال کی عربی  زبان میں متداول ہیں۔اقبال نے بعض الفاظ کو نیا مفہوم دیا ہے لیکن اس کی ممکن حد تک وضاحت بھی کر دی ہے تاکہ قاری کو کسی قسم کی دقت نہ محسوس ہو۔اقبال نے انگریزی محاورات کی پیروی میں اسم ذات کو اسم صفت کے معنوں میں برتا ہے۔انھوں نے سرمایا کو سرمایہ دار  اور محنت کو محنتیوں  کے معنوں میں استعمال کیا ہے۔اقبال اس کی توجیہی یہ پیش کرتے ہیں کہ اگر فارسی محاورات کے تراجم اردو میں مستعمل ہو سکتے ہیں تو انگریزی محاورات کا ترجمہ کیوں نہیں۔

اقبال نے مانگ اور طلب,دستکار اور محنت ,دستکاری اور محنتی,نفع اور منافع ,ساہوکار اور سرمایہ دار مالک و کارخانہ دار کو مرادف کے طور پر برتا ہے۔انھوں نے پیدائش اور پیداوار کے بیچ انتہائی باریک فرق کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے پیدائش کو فعل اور پیداوار کو نتیجہ فعل کے طور پر دیکھا ہے۔اقبال نے لفظ تبادلہ کا استعمال مبادلہ اشیا زرنقد کی صورت میں اور مبادلہ کا استعمال ایک شے کے عوض دوسری شے لینے کے ضمن میں کیا ہے۔عربی زبان میں مبادلے کے لیے مفائفہ کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے لیکن اقبال نے اس لفظ کا استعمال اس وجہ سے نہیں کیا کہ اس کا مفہوم عام فہم نہیں۔دیباچہ کے آخر میں اقبال نے پروفیسر آرنلڈ ,جناب جیا رام ,اپنے دوست مسٹر فضل حسین اور شبلی نعمانی کا شکریہ اس تناظر میں کیا ہے کہ انھوں نے کتاب کے بعض حصوں میں زبان کے متعلق قابل قدر اصلاح دی


No comments:

Post a Comment