ہمارا المیہ
ہمارے ملک کے ہر شعبہ میں بے پناہ ٹیلنٹ موجود ہے یہ الگ بات کہ ہم اس ٹیلنٹ سے مستفید نہیں ہورہے ہم خود مستفید ہونے کی بجائے اپنا ٹیلنٹ دوسرے ممالک میں بھیج رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ایسے نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ وہ دل و جان سے محنت کرکے اپنا اور ملک کا نام روشن کرسکیں لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں پہلے سے براجمان لوگ پوری طاقت سے ان بچوں کا راستہ روک کر کھڑے ہوجاتے ہیں روڑے اٹکانے شروع کردیتے ہیں وہ کوئی غیر نہیں ہمارے اپنے ہیں۔ جس کے نتیجے میں نوجوان نسل بد ظن ہوجاتی ہے خدارا ٹیلنٹ کو ضائع ہونے سے بچائیں اور یہ کسی ایک شعبے میں نہیں ہے اس کا آغاز ہمارے گھروں سے ، ہمارے اپنوں سے ہوتا ہے گھر میں ماں باپ کا سب سے لاڈلا نکما ترین ہوتا ہے ) سوائے چند ایک کے( اور سارا دن محنت مزدوری اور کام میں جٹا رہنے والا ماں باپ کی نظر میں نکما ۔ہمارا المیہ جس بچے میں جو ٹیلنٹ موجود ہوتا ہے اسے ہم اس کام کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھنے دیتے اور جس کی طرف اس کی توجہ نہیں ہوتی ہم چاہتے ہیں ہمارا بچہ اس میں نام پیدا کرے مثال کے طور ایک ڈاکٹر اپنے بیٹے کو بینکر نہیں بننے دے گا وہ یہی چاہے گا کہ میرا بیٹا میری طرح ڈاکٹر بنے ایک صنعت کار کبھی نہیں چاہتا کہ اس کا بیٹا سکول ٹیچر بنے یا ڈاکٹر بنے یہی حال سب کا ہے کھیتی باڑی کرنے والے لوگ بچوں کو صرف اس لیے نہیں پڑھاتے کہ یہ پڑھنے لکھنے کے بعد ہمارا تو ہاتھ بھی نہیں بٹائیں گے اس لیے انہیں پڑھاو ہی نہ ۔ حالانکہ پوری دنیا میں بچوں کا رجحان دیکھ کر اس کی تربیت کی جاتی ہے اور ہمارے ہاں تیرا باپ یہ کرتا تھا تیرا بھائی یہ کرتا ہے لوگ کیا کہیں گے میں چاہتا ہوں کہ تو یہ کرے سے تربیت کی جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچہ کہیں کا نہیں رہتا اس کے بعد عملی زندگی میں فیکٹریوں ، کارخانوں ، سرکاری و نیم سرکاری اداروں میں بھی یہ کام دھڑلے سے کیا جاتا ہے اگر افسر سے زیادہ پڑھا لکھا زیادہ ہنر مند آگیا تو پہلی کوشش یہ کی جاتی ہے کہ یہ بھرتی ہی نہ ہوسکے اگر خدانخواستہ بھرتی ہوجائے تو افسران بالا کی اگلی کوشش یہ ہوتی ہے یہ کسی بھی طرح ٹک نہ سکے اور اس کے لیے ایسے ایسے گھٹیا اور روائیتی طور طریقے اپنائے جاتے ہیں کہ انسانیت کا سر بھی شرم سے جھک جائے اگر اپنے ٹیلنٹ اور خوش بختی سے وہ پھر بھی ٹکنے میں کامیاب ہوجائے تو ہاتھ پاوں باندھ کر اسے کسی ایسے کام پر لگا دیا جاتا ہے جہاں اس کے پاس کرنے کو کچھ نہیں ہوتا ہاں سننے کو بہت کچھ ہوتا ہے جسے وہ دل پر پتھر رکھ کر سنتا رہتا ہے جب تک اس کی ہمت جواب نہ دے جائے یہی حال تنظیموں اور کلبوں کا ہے وہاں بھی سینئرز بے پناہ ٹیلنٹ کی قربانیاں دے رہے ہیں اور جمہوریت کا ڈھنڈورا پیٹ رہے ہیں نئی نسل کو بدظن کرنے سے پتہ نہیں ہم کون سی ترقی ڈھونڈ رہے ہیں معاشرے کی کریم سمجھے جانے والے طبقہ کی تنظیموں کا بھی یہی حال ہے وہاں بھی جو آکر بیٹھ گیا چاہتا ہے کہ یہیں رہوں طرح طرح سے نوجوانوں کو احساس کمتری میں مبتلا کیا جاتا ہے حالانکہ اگر وہ چاہیں تو نوجوانوں کو بہتر گائیڈ کر کے ان کے دلوں میں اپنی توقیر بڑھا سکتے ہیں لیکن نہیں انہیں کیا پڑی ہے کہ اپنی کرسی کل کے لونڈے کو پیش کریں اپنا ہنر اپنے تجربات کسی سے شئیر کریں انہوں نے تو بہت مشکل سے بڑی محنت سے سب حاصل کیا ہے ان کے سینئرز بھی تو ان سے ایسا ہی سلوک کرتے تھے پھر یہ نئے آنے والوں سے اچھا سلوک کیوں کریں سچ ہے کہ جو جیسے سیکھتا ہے وہ ویسے ہی سکھاتا ہے جو کچھ ان کے پاس ہوتا ہے اپنے ساتھ قبر میں لے جانے کو ترجیح دیتے ہیں حالانکہ دیے سے دیا جلتا ہے روشنی پھوٹتی ہے یہی تعلیم و تربیت کا طریقہ ہے اور واحد علم ہی ایک ایسی دولت ہے جو بانٹنے سے کم نہیں ہوتی بلکہ اس میں اضافہ ہوتا ہے پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوئیں ابھی بھی کچھ لوگ ایسے ہیں جو نئے لوگوں کو ویلکم بھی کرتے ہیں ان کی رہنمائی بھی کرتے ہیں اور ان کو اپنی کرسی بھی پیش کرتے ہیں کہ ہم نے بہت کرلیا اب آپ کرو ہم آپ کے ساتھ ہیں اور وہی لوگ ہیں جن کی بدولت یہ ادارے ، یہ کارخانے یہ کلب اور یہ تنظیمیں چل رہی ہیں پانی بھی کھڑا رہے تو بدبو دار ہوجاتا ہے یہ تو پھر ادارے، تنظمیں، کلبز، اور کارخانے ہیں سوچو ان کی حالت کیسی ہوتی بلاشبہ ایسے لوگ ہی سرمایہ ہیں یہی وہ لوگ ہیں جو چاہتے ہیں کہ ہمارا کارخانہ ہمارا کلب ہماری تنظیم ہمارا معاشرہ اور ہمارا ملک ترقی کرے ایسے لوگوں کے لیے دل سے دعا نکلتی ہے اللہ پاک ان کا سایہ ہمارے سروں پر ہمیشہ قائم و دائم رکھے۔ آمین
تحریر :
یاسین یاس
No comments:
Post a Comment