Saturday, March 30, 2024

رفعت وحید ( اردو پنجابی شاعرہ ) انٹرویو : صاحب زادہ یاسر صابری

 




رفعت وحید

اردو اور پنجابی زبان کی شاعرہ

انٹرویو: صاحبزادہ یاسر صابری

03115311991


سوال آپ کا اصل نام کیا ہے ؟

جواب۔ رفعت سلطانہ

سوال۔ آپ کا قلمی نام کیا ہے؟

جواب۔ رفعت وحید 

سوال۔آپ کی تاریخ پیدائش کیا ہے؟ 

جواب۔ 4 اپریل 1982ء (راولپنڈی)

سوال ۔ آپ نے کہاں تک تعلیم حاصل کی ؟ 

جواب۔ ایم اے اردو (لسانیات)

سوال ۔آپ کتنے بہن بھائی ہیں؟

جواب۔ تین بہنیں اور دو بھائی ہیں۔ 

سوال۔ کیا آپ ایک گھریلو عورت ہیں؟

جواب۔ میں ایک گھریلو عورت ہوں۔ 

سوال: آپ کی پسندیدہ صنف سخن ؟

جواب۔ مجھے غزل کہنا ذیادہ اچھا لگتا ہے۔


سوال۔کب سے شاعری کر رہی ہیں ؟

جواب۔ میں نے ساتویں جماعت سے شعر کہنا شروع کیا اور باقاعدہ طور پر مشاعروں میں شرکت 2004ء سے کی۔

سوال۔ سوال شعر کہنے کا کوئی وقت مقرر ہے ؟

جواب۔ شعر کہنے کا کوئی وقت مقرر نہیں ہوتا

سوال ۔ آپ کے خیال میں ادب میں خواتین کا کیا کردار ہے ؟

جواب۔ وہ خواتین جو ادب سے تعلق رکھتی ہیں وہ ادب کے لیے کچھ نہ کچھ کرنے کا جذبہ رکھتی ہیں ناول نگاری میں جو مقام عورت کا ہے وہ مرد کا نہیں ۔ افسانہ نگاری اور شاعری میں بھی خواتین کا بہت کام ہے ۔

سوال۔ ایک شاعر اور غیر شاعر میں آپ کیا فرق محسوس کرتی ہیں ؟

جواب۔ شاعر آدمی قوم پر آنے والی مصیبت کو پہلے محسوس کرتا ہے جب کہ غیر شاعر کے لیے یہ کام مشکل ہے ۔

سوال ۔ کیا شاعری کے مقابلے میں نثر آسان ہے ؟

جواب۔ ہر وہ کام آسان ہے جس میں محنت کی جاۓ جسے شاعری پر عبور ہے اس کے لیے شاعری آسان ہے  نثر نگار کے لیے نثر لکھنا آسان ہے ۔

سوال ۔ کوئی ایسی شخصیت جو بچھڑنے پر یاد آتی ہو ؟

جواب۔ آپ کو علم ہے کہ ایک بیٹا جو داغ مفارقت دے گیا روز یاد آتا ہے ۔

سوال: آپ کی نظر میں اردو ادب کو اس وقت  کن مسائل کا سامنا ہے؟

جواب۔ اردو ادب کے مسائل سے زیادہ شاید ہمیں اس بات پہ غور کرنا چاہیے کہ ہماری زبان اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے۔

سوال: اردو ادب کی ترویج کے لیے ہم میں سے ہر شخص انفرادی طور پر کیا کر سکتا ہے؟

جواب۔ کسی بھی زبان کے ادب کی ترویج تبھی ممکن ہوتی ہے جب وہ لسانی اعتبار سے ترقی کی منازل طے کر رہی ہو۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری زبان اور ادب ترقی کریں تو سب سے پہلے زبان کو اہمیت دینا ہو گی جب کہ یہاں ایسا کچھ نہیں ہے ہمارے اردو کے ادیب بھی جنہیں  اگر چند جملے یا الفاظ انگریزی کے آتے ہوں تو وہ کوڈ-مکسنگ اور کوڈ-سوئچنگ کر کے اپنی گفتگو میں لازمی گھسیڑتے ہیں انہیں ہماری آنے والی نسلیں انگریزی زبان میں فخر اور اردو بولنے میں کمتری محسوس کرتی ہیں تو پھر ہم کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ ہماری زبان و ادب ترقی کریں گے۔

سوال: اردو ادب کے لیے پاکستان و ہندوستان کو بطور ریاست کیا کرنا چاہیے ؟

جواب۔ دونوں ممالک کو سب سے پہلے اردو کو بطور زبان اہمیت دینی چاہیے اگر ایسا نہ کیا گیا تو شاید سو سال بعد ورڈ بوروئنگ کے نتیجے میں ہماری زبان کا چہرہ تک مسخ ہو جائے گا اور شاید 500 سال بعد اس زبان کی ہئیت ہی بدل چکی ہوگی۔

سوال: انٹرنیٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے اس دور میں اردو خود کو کیسے پروان چڑھائے؟

جواب۔ اردو بولنے میں یا لکھنے میں شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے  زبان کی بقا اسی میں ہے۔

سوال: ماضی میں جتنے شعراء و ادباء نے اردو ادب کے لیے کام کیا بہت معیاری ہوا کرتا تھا مگر اب وہ تصانیف و تخلیقات میں معیار نظر نہیں آتا آپ کی نظر میں اس کی کیا وجہ ہے ؟

جواب۔ دیکھیں ایک تخلیق کار صرف وہ چیز تخلیق کرتا ہے جس کی ڈیمانڈ ہوتی ہے۔ اردو کی بطور زبان اتنی بے قدری کی گئی کہ آج کی نسل نو کے لیے ادیب فقط مسخرے بن چکے ہیں جو انہیں چند لمحوں کے لیے محضوض کرتے ہیں۔ وہ بچہ جو اردو بولنا اپنی توہین سمجھتا ہے وہ حقیقی ادب کو کیا سمجھ سکتا ہے؟ اس نے ڈیمانڈ اس کی کرنی ہے جو اسے لطف دے نہ کہ عکاسی کرے۔ اسے لطیفہ سنایا جائے یا شعر اس کے لیے برابر ہے۔ اور اس نے گھٹیا سے لفظوں کے گٹھ جوڑ کی ڈیمانڈ کرنی ہے تو تخلیق کار نے وہی تخلیق کرنا ہے۔

سوال۔ اپنے تجربے کے نچوڑ کی بنیاد پر  اردو زبان کے لیے تخلیق کاروں کو کوئی خوبصورت پیغام جو آپ دینا چاہیں؟

جواب۔ صرف تخلیق کاروں کو نہیں بلکہ ہم سب کو سوچنا چاہیے کہ یہ ایک زبان ہے اس کا اپنا ایک وجود ہے اور اسے بولنا کوئی کم پڑھے لکھے ہونے کی دلیل نہیں۔ سرکاری سطح پر بھی نصاب ہماری قومی زبان میں لکھا جانا چاہیے تاکہ لوگ سمجھ سکیں کہ اس زبان کا اپنا ایک وجود ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو بدقسمتی سے ہمیں پھر لسانی سائینس کی بات مان کر یہ زہر اپنے اندر انڈیلنا ہو گا کہ زبان کسی بھی شکل میں ہو کوئی بھی ہو صرف پیغام رسانی کا ذریعہ ہے۔ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ زبان ہماری تہذیب کی عکاس بنے تو اس کے لیے وینٹیلیٹر پر پڑی اس زبان کو زندگی دینی ہو گی۔

سوال: کیا ادبی تنظیمیں اردو شاعری کے فروغ کے لیے اپنا حق ادا کر رہی ہیں ؟

جواب۔ آج کے سوشل میڈیا کے دور میں ان گنت تنظیمیں وجود میں آ چکی ہیں جن میں کچھ تو خالصتاً ادبی سرگرمیوں کی فضا قائم کیے ہوئے ہیں اور شعر و سخن کی خدمت کر رہی ہیں جبکہ بہت سی تنظیمیں ایسی بھی ہیں جو "انجمن ستائش باہمی " کی ذیل میں آتی ہیں ۔شاعری کا فروغ درحقیقت شاعری کا ذاتی عمل ہوتا ہے جتنا اچھا شعر کوئی کہہ رہا ہے اس کو اتنی ہی داد مل رہی ہے اتنی ہی زیادہ ستائش ہو رہی ہے میرے خیال میں اچھا شعر کہنا ہی شاعری کی ترویج کا باعث بنتا ہے ۔

سوال: نئے لکھنے والوں کے لیے کوئی پیغام بالخصوص شاعرات کے لیے آپ کچھ کہنا پسند فرمائیں گی؟

جواب۔ میرا پیغام یہی ہے کہ اگر آپ شاعری کرتے ہیں تو اسے محض شوق نہ سمجھیں اسے ایک جذبے ، لگن ، محبت اور محنت کے ساتھ نبھائیں شاعری بہترین دوست ، بہترین ہمراز ہے شاعری آپ کو تنہا نہیں ہونے دیتی آپ شاعری کے ساتھ Live کریں یقیناً یہ آپ کو جینا اور زندگی کو سمجھنا سکھا دے گی۔

سوال۔ قارئین کے لئے کچھ کلام پیش فرمائیں؟ 

جواب۔ کچھ شعر پیش خدمت ہیں: 

بنے گا کیا اب اس کا فیصلہ تو چاک پر ہوگا 

خیال ایک جسم کا ہاتھوں میں گارا بن کے اترا ہے 


پل بھر میں سمندر تو بناتی ہوں رفعت 

کیوں مجھ سے سمندر کا کنارہ نہیں بنتا 


غلط تھے مشورے سارے جو بھائی دیتا رہا 

وہ سانپ تھا مجھے سیڑھی دکھائی دیتا رہا 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

گوہر مقصود ( لمبے جاگیر ) پھول نگر

 





غزل 


صورت انج شنگھاری گئی 

خلقت صدقے واری گئی

سجن ایڈا ماہنگا سی

قیمت ای نہ تاری گئی

ہمت کر کے چگنی او

تیری چوگ کھلاری گئی

جبھ نوں دنداں تھلے لے

بولیں گا تے یاری گئی

توں ای چلی جانا ایں

ساڈی کدھر واری گئی

لوکاں جھلا کہنا سی

ساڈی مت جو ماری گئ


شاعر:  گوہر مقصود 

انتخاب:  یاسین یاس

Friday, March 29, 2024

غزل ( امرجیت سنگھ جیت )

 






ਗ਼ਜ਼ਲ /غزل 


ਪਹਿਲਾਂ ਆਪਣੀ ਧਰਤੀ  ਉੱਤੇ  ਸੁਰਗ  ਬਣਾ ਲਈਏ।

ਫਿਰ ਭਾਵੇਂ  ਜਾ ਚੰਦ 'ਤੇ  ਬਸਤੀ  ਹੋਰ  ਵਸਾ  ਲਈਏ ।

پہلاں   آپنی    دھرتی    اُتے   سُرگ   بنا  لئیے۔

فِر  بھاویں  جا چند  تے بستی  ہور  وسا لئیے ۔


ਵੈਰ-ਵਿਰੋਧ  ਤੇ  ਨਫਰਤ  ਵਾਲਾ  ਰੰਦ  ਮੁਕਾਉਣ ਲਈ,  

ਪਿਆਰ ਨਿਰਾ ਹੈ ਅੰਮ੍ਰਿਤ, ਚਖ ਕੇ ਰੂਹ ਨਸ਼ਿਆ ਲਈਏ।

وَیر  وِرودھ  تے  نفرت  والا   رند  مکاؤن   لئی،

پیار    نِرا  ہے  امرت  چکھ  کے  روح نشیا  لئیے۔


ਸੋਹਣਾ ਜੀਵਨ  ਜੀਣ ਦਾ  ਹੈ  ਸਭ  ਨੂੰ ਹੱਕ  ਬਰਾਬਰ ,

ਕਰੀਏ   ਹੀਲਾ  ਰਲ  ਕੇ  ਕਾਣੀ  ਵੰਡ  ਮੁਕਾ  ਲਈਏ।

سوہنا  جیون  جین  دا  ہے سبھ نوں حقّ برابر ،

کریئے   حیلہ  رل   کے  کانی  ونڈ    مُکا   لئیے۔


ਤੇਰਾ  ਹੁੰਗਾਰਾ   ਮੈਂ  ਭਰਾਂ ,  ਗੌਰ  ਕਰੀਂ  ਕੁਝ   ਤੂੰ  ਵੀ,

ਇਕ ਦੂਜੇ  ਨੂੰ  ਸਮਝਣ  ਲਈ  ਸੰਵਾਦ ਰਚਾ  ਲਈਏ। 


تیرا ہنگارا میں بھراں ، غَور کریں کجھ توں وی،

اِک  دوجے  نوں  سمجھن  لئی سنواد  رچا  لئیے۔


ਜੀਵਨ  ਦਾ  ਇਹ  ਸੰਘਰਸ਼   ਵੀ   ਹੋ  ਜਾਵੇਗਾ  ਸੌਖਾ ,

 ਆਓ  ਯਾਰੋ  ਇਕ  ਦੂਜੇ  ਵੱਲ  ਹੱਥ   ਵਧਾ  ਲਈਏ।


جیون دا  ایہ سنگھرش وی  ہو  جاویگا سوکھا ،

آؤ   یارو   اِک   دوجے   ولّ   ہتھ   ودھا   لئیے۔


ਜੀਤ  ਜੇ  ਦੇਵੇਂ  ਤਾਲ  ,ਬਣੇ   ਟੁਣਕਾਰ  ਮੁਹੱਬਤ   ਦੀ,

ਜੀਵਨ ਹੈ ਇਕ  ਸੁੰਦਰ  ਨਗਮਾ  ਰਲ ਕੇ  ਗਾ ਲਈਏ। 

جیت  جے  دیویں  تال  ،  بنے  ٹُنکار محبت دی،

جیون  ہے  اِک  سُندر   نغمہ  رل  کے   گا   لئیے۔


ਅਮਰਜੀਤ ਸਿੰਘ ਜੀਤ 

امرجیت سنگھ جیت

Thursday, March 28, 2024

نعت رسول مقبول ( اشتیاق حسین اثر )

 






نعت رسول مقبول 


سلطان انبیاء کو شہہ بحر و بر کہو 

رحمت کہو جہانوں کی اور سر بہ سر کہو 


صلی علی وظیفہ کہ حضرت ہیں سن رہے 

مقبول اس قدر ہے تو پھر عمر بھر کہو 


دیکھو بشر خطا سے ہوتا نہیں جدا 

ان کو بشر کہو  ، نہیں خیرالبشر کہو 


سب کو پرو دیا ہے اخوت کی ڈور میں 

دشمن کبھی ہوئے تھے یوں شیر و شکر کہو ؟ 


شوق ثنائے خواجہ میں اک بیت باندھنا 

گویا ہے سوئے طیبہ یہ رخت سفر کہو 


لکھنا ہے لفظ لفظ یہاں سوچ سوچ کر 

محبوب کبریا کی اثر نعت گر کہو 


اشتیاق حسین اثر 



Wednesday, March 27, 2024

نبیلہ اکبر ( کالم نگار و سیرت نگار ) انٹرویو : صاحب زادہ یاسر صابری





 نبیلہ اکبر:کالم نگار اور سیرت نگار 

انٹرویو: صاحبزادہ یاسر صابری

03115311991


نبیلہ اکبر 16 فروری 1976ء کو لاہور میں پیدا ہوئیں اور لاہور میں ہی مقیم ہیں ۔ان کے آباؤ اجداد کا تعلق بھی لاہور سے ہے۔تعلیم ایم اے اسلامیات ہے۔ نبیلہ اکبر کالم نگاری کے علاوہ نثری نظمیں بھی لکھتی ہیں۔ انہوں نے کالم نگاری کا آغاز 2015ء میں کراچی کے اخبار روزنامہ طالب نظر سے کیا پھر روزنامہ جہاں اسلام آباد روزنامہ عظمت لاہور سمیت مختلف اخبار میں کالم لکھتی رہیں۔  

روزنامہ نوائے وقت کے ہفت روزہ ندائے ملت میں کوئٹہ کی ڈائری بھی لکھتی رہیں۔  اب نیشنل میڈیا گروپ کے اخبارات روزنامہ نوائے انصاف بروقت خبر نئی آوازیں میں کالم پابند سلاسل لکھتی ہیں۔ سیرت النبی ﷺ پر ان کی کتاب رحمت دو عالم ﷺ کے دو ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔

سوال۔آپ کو اپنے بچپن کے دن اور اپنے شوق یاد ہیں؟

جواب۔ہر انسان کا بچپن اُس کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے ۔ دوسرے بچوں کی نسبت زیادہ کھیل کود میں دلچسی  رکھتی تھی۔ کھیلوں کی کمنٹری کرنا ہر کھیل پر دسترس حاصل کرنا بہت پسند تھا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے شوق پالے ہوئے تھے۔ مٹی کے برتن بنانا ، تصویریں بنانا،  سہیلیوں کو اکٹھا کر کے چھوٹے چھوٹے ڈرامے بنانا ، کردار بنانا ۔ بچپن میں عام بچوں کی طرح کے شوق تھے ۔ والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ گزرا ہوا وقت سب سے قیمتی لمحات ہوتے ہیں ۔ رنگوں سے کھیلتےگزرا ہے بچپن ۔

سوال۔ آپ کتنے بہن بھائی ہیں اور آپ کی اولاد؟

جواب۔ دو بہنیں اور دو بھائی ہیں۔ میں چاروں بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہوں اور اکلوتی اولاد میری بیٹی زخرف منال ہے۔

سوال۔ لکھنے کا آغاز کب اور کیسے ہوا؟

جواب۔سکول کے زمانے سے بچوں کی کہانیاں لکھتی تھی تو سکول ٹیچر اور حوصلہ افزائی کرتیں پھر کالج کے فرسٹ ایئر میں مینا بازار ہوا تو اردو کی استاد پروفیسر شاہدہ صاحبہ نے کہا فن فئیر کے پروگرام کا آنکھوں دیکھا حال لکھیں۔ساری کلاس میں 75 لڑکیاں تھیں جن میں سے میرا مضمون ٹیچر کو بہت پسند آیا مجھے انعام کے طور پر ٹیچر نے ایک کتاب دی۔ کالج کے چار سال کے دور میں ہر تقریب کا آنکھوں دیکھا حال کے ٹائٹل سے مضمون شائع ہوتے میرے نام سے۔ میری اردو کی استاد مجھے لکھنا سکھاتی تھی جہاں کمی ہوتی اس طرح پنجابی زبان لکھنا شروع کی پروفیسر مسز فاخرہ شجاع صاحبہ کی بدولت بہترین کھلاڑی بھی تھی اور سپورٹس ٹیچرز پروفیسر مسز مقدس شوکت صاحبہ اور مس خالدہ صاحبہ مجھے لکھنے کی وجہ سے کھیلوں کی رپورٹ اور سرگرمیاں میرے حصے میں آتیں۔

سوال۔اردو ادب کی کشش نے کب اور کیوں کر اپنی جانب مائل کیا؟

جواب ۔ اردو زبان ہماری قومی زبان ہے اور ہمیشہ ہر انسان اس تحاریر کی طرف توجہ دیتا ہے جسے وہ آسانی سے سمجھ سکتا ہے اردو ادب سے لگاؤ ہم سب کو پیدائش سے ہی شروع ہو جاتا ہے اور آہستہ آہستہ یہ کشش وقت کے ساتھ بڑھتی جاتی ہے کیوں کہ اردو ادب میں بہت وسعت ہے۔

سوال۔ کامیاب ادیب بننے کے لیے زندگی میں کیا کچھ کرنا پڑتا ہے؟

جواب۔ کامیاب ادیب بننے کے لیے ضروری ہے کہ اپنے مایہ ناز ادیبوں کو پڑھا جائے لائبریری سے استفادہ ضرور حاصل کرنا چاہیے۔ محنت سے اردو ادب پر دسترس حاصل ہونی چاہیے۔ مطالعہ بہت وسیع ہونا چاہیے۔

سوال۔سیرت نگاری کی طرف کیسے مائل ہوئیں؟

جواب۔کالج کی لائبریری سے تاریخ کی کتب کا مطالعہ کرنے کا بہت تجسّس تھا اور اس طرح اسلام کی تاریخ پڑھتے پڑھتے کوئی ایسی شخصیت نہیں تھی جو ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ سے بڑھ کر ہوتی کیوں کہ رسول پاک کی زندگی ایک فلسفہ حیات ہے ہمارے لئے اور نبی کریم ﷺکی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے میں ہی فلاح ہے۔

سوال۔سیرت نگاری کی کتاب رحمت دو عالم ﷺ لکھنے پر جو آپ کو عزت وشہرت ملی اس کا اظہار کن الفاظ میں کریں گی؟

جواب۔ سیرت النبیﷺ پر لکھنا میں اپنے لئے ایک اعزاز سمجھتی ہوں اور یہ میرا سب سے پہلا اور قابلِ فخر ایوارڈ ہے۔ مجھے بہت اچھا لگتا ہے جب میرے تعارف کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے کہ نبیلہ اکبر جو ایک سیرت نگار ہیں یہ الفاظ سن کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتی ہوں۔2019ء میں سیرت النبی ﷺ پر لکھی کی کتاب پر مذہبی امور سیکرٹریٹ اسلام آباد سے دس ہزار کا انعام حوصلہ افزائی کا اس لیے ملا مقابلہ میں نثر پر میرے علاوہ کسی اور خاتون نے کتاب لکھی تو ہوگی لیکن مقابلہ میں نہیں بھیجی تھی تو حوصلہ افزائی کا انعام ملا۔

سیرتِ طیبہ پر خواتین نے کم لکھا ہے مختلف ادبی تنظیموں کی طرف سے کافی سارے ایوارڈز حاصل کر چکی ہوں جن میں پھول میگزین ادب اطفال ایوارڈ ہے، اپووا ایوارڈ ، جواز جعفری ایوارڈ ، الوکیل کتاب ایوارڈ حاصل پور ،ایف جے رائٹرز ایوارڈ اور بھی بے شمار ایوارڈز ہیں۔

سوال۔ ناول افسانے ڈرامے اور شاعری میں سے کس صنف کو آپ سب سے زیادہ افضل سمجھتی ہیں؟

جواب۔ تمام اصناف کی اپنی اہمیت ہے لیکن نثر مجھے پسند ہے کیوں کہ اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کے لیے سب سے آسان طریقہ ہے نثر کے ذریعے نثری صنف میں افسانہ آسان فہم لگتا ہے۔

 سوال۔ خواتین تخلیق کا سر چشمہ ہیں مگر ہمارے ادب میں خواتین اہل قلم کی تعداد بہت کم ہے اس کی وجہ کیا ہے؟

جواب۔ جی بالکل خواتین تخلیق کا سر چشمہ ہیں لیکن خواتین کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے جس وجہ سے ہمارے اردو ادب میں خواتین بہت کم ہیں مواقع بھی کم فراہم کیے جاتے ہیں مختلف وجوہات بھی آڑے آتی ہیں۔ 

سوال۔ کیا آپ اپنی ادبی سرگرمیوں اور غیر ادبی سرگرمیوں سے مطمئن ہیں؟

جواب۔ ادیب چاہیے وہ مرد ہو یا عورت تمام عمر اچھے سے اچھا تخلیق کرنے کی کوشش کرتا ہے میرا خیال ہے کوئی بھی ایسا نہیں کہے گا کہ وہ اپنے اس کام سے مطمئن ہے اور یہ ادبی و غیر ادبی سرگرمیوں دونوں کے لیے ایک جیسے خیالات ہیں۔

سوال۔ کیا ہم کسی ادیب کی تحریر کو اس کی ذاتی زندگی سے الگ کر کے دیکھ سکتے ہیں؟

جواب۔ میرے خیال سے ذاتی زندگی سے بالاتر ہوکر دیکھنا چاہیے تاکہ ہم ادیب کی تخلیقی صلاحیتوں سے بھر پور استفادہ حاصل کر سکیں۔ 

سوال۔تخلیقی عمل کی پیش رفت کے لیے تنقیدی عمل کیوں ضروری ہے؟

جواب۔ تخلیقی عمل کے لیے تنقیدی عمل بہت ضروری ہے کیوں کہ جب تک تخلیق پر تنقیدی نگاہ نہیں ہو گی تو ادب میں نکھار کیسے پیدا ہو گا لگن کیسے پیدا ہو گی مزید کچھ بہتر سے بہتر کرنے کی اور یہ کام ہمارے سینئر ادیبوں اور نئے تخلیق کاروں کے لیے مکالمہ ہونا چاہیے نئے ادیبوں کے لیے مواقع فراہم کرنے چاہیے۔

سوال۔کیا آج  کا ادیب اپنے فرائض پورے کر رہا ہے؟

جواب۔ میرے خیال سے اچھا ادب مثبت اثرات قارئین کی سوچ پر ثبت کرے ہمارے دور حاضر کے ادیب کسی حد تک کوشش کر رہے ہیں۔

سوال۔ آپ کو کن شعرائےکرام کا کلام پسند ہے؟

جواب۔ حضرت بلے شاہ میاں محمد بخش حضرت سخی سلطان باہو اقبال حبیب جالب احمد فراز فیض احمد فیض پروین شاکر اور بہت سے شعرائے کرام کا کلام پسند ہے لیکن میرے پسندیدہ شاعر محسن نقوی ہیں۔

سوال۔ آپ کی پسندیدہ کتاب اور پسندیدہ شخصیت؟

جواب۔ میری پسندیدہ کتاب بحثیت مسلمان قرآن کریم ہی ہے۔ بہت سی کتابیں پسند ہیں لیکن اپنے دور کی ایف اے کی اردو کی کتاب مجھے بہت پسند تھی اور آج بھی ہے۔ میری پسندیدہ شخصیت ہمارے پیغمبر حضرت محمدﷺ اور ان کے  بعد دوسری شخصیت میری ماں ہے۔ 

سوال۔ نئے لکھنے والوں کے لیے کچھ کہنا چاہیں گی؟

جواب۔ سب سے پہلے تو مجھے خوشی ہے کہ آپ نے مجھے اس قابل سمجھا اور میں نے آپ کو اپنا انٹرویو قلم بند کروایا اور دوسری بات یہ کہ سینئر ادیب نئے لکھنے والوں کو برداشت کریں ان کی رہنمائی بھی کریں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Tuesday, March 26, 2024

مزاحیہ غزل ( عبدالغفور قصوری )

 






مزاحیہ غزل 


عشق سمندر تاری لاکے 

پھس ای گئے آں یاری لا کے 


شامت آپ سہیڑی اوہنوں 

ایزی لوڈ بیماری لا کے 


لکھاں ٹھڈے مکے سہے نیں 

اوہنوں اک کراری لا کے 


کر کر شاپنگ رجدی نہیں اوہ 

ویکھی تنخواہ ساری لا کے 


یار قصوری رگڑے گئے آں 

ساون رت اساری لا کے 


شاعر : عبدالغفور قصوری

شاعر : شو کمار بٹالوی ( انتخاب : زاہد جرپالوی )

 شو کمار بٹالوی

 کتاب:   لاجونتی






نظم:روجڑے

انتخاب : زاہد جرپالوی 


تیری یاد اسانوں منس کے

کجھ پیڑاں کر گئی دان وے ۔

ساڈے گیتاں رکھے روجڑے

نہ پیون نہ کجھ کھان وے ۔


میرے لیکھاں دی بانہہ ویکھیو

کوئی سدیو اج لقمان وے ۔

اک جگڑا ہویا اتھرے

نت ماڑے ہندے جان وے ۔


میں بھر بھر دیاں کٹورڑے

بلھ چکھن نہ مسکان وے ۔

میرے دیدے اج بدیدڑے

پئے نینداں توں شرمان وے ۔


اساں غم دیاں دیغاں چاڑھیاں

اج کڈھ برہوں دے ڈانھ وے ۔

اج سدو ساک سکیریاں

کرو دھاماں کلّ جہان وے ۔


تیری یاد اسانوں منس کے

کجھ ہنجھو کر گئی دان وے ۔

اج پٹّ پٹّ ہویا نیلڑا

ساڈے نیناں دا اسمان وے ۔


ساڈا عشقَ کنوارہ مر گیا

کوئی لے گیا کڈھ مسان وے ۔

ساڈے نین تیری اج دید دی

پئے کریا کرم کران وے ۔


سانوں دتے ہجر تویتڑے

تیری پھرکت دے سلطان وے ۔

اج پریت نگر دے سوریئے

سانوں چوکی بیٹھ کھڈان وے ۔


اج پوناں پٹن تعزیے

اج رتاں پڑھن قرآن وے ۔

اج پی پی جیٹھ تپندڑا

ہویا پھلاں نوں یرقان وے ۔


تیری یاد اسانوں منس کے

کجھ ہوکے کر گئی دان وے ۔

اج سونکن دنیاں مینڈڑی

مینوں آئی کلیرے پان وے ۔


اج کھاوے خوف کلیجڑا

میری ہکّ 'تے پین ودان وے ۔

اج کھنڈھی کھرپی صدق دی

میتھوں آئی دھرت چنڈان وے ۔


اساں کھیڈی کھیڈ پیار دی

آیا دیکھن کلّ جہان وے ۔

سانوں میدی ہندیاں سندیاں

سبھ پھاڈی آکھ بلان وے ۔


اج بنے پرالی ہانیاں

میرے دل دے پلرے دھان وے ۔

میرے ساہ دی قلی مرک 'چوں

اج کھاوے مینوں چھانھ وے ۔


تیری یاد اسانوں منس کے

کجھ سولاں کر گئی دان وے ۔

اج پھلاں دے گھر مہک دی

آئی دوروں چل مکان وے ۔


ساڈے ویہڑے پتر امب دے

گئے ٹنگ مراسی آن وے ۔

کاغذ دے طوطے لا گئے

میری ارتھی نوں ترکھان وے ۔


تیرے موہ دے لال گلاب دی

آئے منجری بھور چران وے ۔

ساڈے ستے مالی آس دے

اج کوری چادر تان وے ۔


میرے دل دے مان سرووراں

وچ بیٹھے ہنس پران وے ۔

تیرا برہا لا لا توڑیاں

آئے مڑ مڑ روز اڈان وے ۔

Monday, March 25, 2024

پنجابی نعت شریف ( عامر صدیقی ) پھول نگر

 





پنجابی نعت شریف


رب دا نور کمال کناں سوہنا ایں

آمنہ تیرا لال کناں سوہنا ایں

اوہدی زلف دا عاشق عرشاں والا اے

اوہدا اک اک وال کناں سوہناں ایں

دل دیاں ریجھاں سبھے پوریاں ھوگیاں

بئی سوہنا لجپال کناں سوہنا ایں

وارو واری سبھے دایاں پچھیا سی

حلیمہ تیرا بال کناں سوہنا ایں

عامر تیرے ہجر چ مردا جاندا اے

آقا ترا وصال کناں سوہنا ایں


شاعر محمد عامر صدیقی پھولنگر

Sunday, March 24, 2024

نعت شریف ( منظور شاہد اوراڑہ )

 





نعت شریف


جگ پہ چھایا نور محمد عربی کا

چرچا ہے بھرپور محمد عربی کا

خادم کو شاہوں سا رتبہ ملتا ہے

اپنا ، کے دستور محمد عربی کا

صادق ، لفظ کے بارے اتنا جانتا ہوں 

لقب یہ تھا مشہور محمد عربی کا 

پیدا ہوتے ہی جو میں نےآذان سنی

رب کا ہوں اور مشکور محمد عربی کا

باب نبوت بند کر ڈالا اللہ نے

جب سے ہوا  ظہور محمد عربی کا

ساری امت کی ہی بخشش ہوجائے

یہ ہی تھا منشور محمد عربی کا

موت آئے تو دنیا بھر میں ہو چرچا

عاشق تھا منظور محمد عربی کا


شاعر منظور شاہد اوراڑا قصور

علی اصغر ثمر ( شاعر ) انٹرویو : صاحب زادہ یاسر صابری

 






علی اصغر ثمر

شاعر اور ادبی تنظیم بزم احباب قلم کے صدر

انٹرویو: صاحبزادہ یاسر صابری

03115311991

علی اصغر ثمر 28 اکتوبر 1955ء کو مہربان خان کے گھر راولپنڈی میں پیدا ہوئے۔ ان کا مجموعہ کلام حال دل زار 2018 ء میں شائع ہوا جس میں نظمیں غزلیں اور قطعات شامل ہیں۔ادبی تنظیم بزم احباب قلم کے صدر ہیں۔ راولپنڈی اسلام آباد کے ادبی حلقوں میں اپنی ایک خاص پہچان رکھتے ہیں۔بزم علم وادب سیالکوٹ نے آپ کی ادبی خدمات پر 30 دسمبر 2023ء آپ کو گولڈ میڈل سے نوازا۔ 

سوال۔ علی اصغر ثمر صاحب  پہلا سوال رسمی سا ہے یہ بتا دیں کہ آپ نے لکھنے کا آغاز کب کیا؟

جواب۔ میں نے 1972 ء میں مراسلات کالم سے لکھنے کا آغاز کیا جو روزنامہ جنگ راولپنڈی روزنامہ نوائے وقت راولپنڈی اسلام آباد روزنامہ تعمیر راولپنڈی روز نامہ مشرق  لاہور طوفان ڈائجسٹ نوشہرہ آداب عرض لاہور پاکیزہ ڈائجسٹ کراچی معیارہ ڈائجسٹ لاہور دوشیزہ ڈائجسٹ کراچی اور اس کے علاوہ کئی اور اخبارات میں کالم شائع ہوتے رہے۔ 

بچوں کی نظمیں روزنامہ جنگ اور غزلیات روزنامہ نوائے وقت کے ادبی ایڈیشن میں شائع ہوتی رہیں۔  روزنامہ تعمیر اخبار کا ادبی ایڈیشن نئے چراغ کے نام سے شائع ہوتا تھا پہلے الطاف پرواز اس کے انچارج تھے بعد میں طاہر پرواز ادبی ایڈیشن کے انچارج رہے۔

سوال۔ آپ نے باقاعدہ شعر کہنے کب شروع کیے اور اپنے مجموعہ کلام حال دل زار کے بارے میں کچھ بتائیں۔

جواب۔ جیسے کہ میں نے پہلے آپ کو بتایا کہ میری نظمیں اور غزلیں روزنامہ نوائے وقت کے ادبی ایڈیشن میں شائع ہوتی رہیں اصل میں میرا کافی سارا کلام پرانے کاغذوں پر لکھا تھا وہ مجھ سے کہیں گم ہو گیا حال دل زار میں شامل میری شاعری مختلف ادوار کی ہے جس میں میں نے اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کیا ہے۔

میری شاعری پر سرور انبالوی رشید نثار نسیم سحر خاور اعجاز شرف الدین شامی سیف علی سید عارف نسیم اقبال ملک شوکت مہدی کوثر ثمرین سید وقار عتیق ہاشمی اور آصف مغل نے اظہار خیال کیا ہے اس کتاب کی اشاعت کے سلسلے میں میں آصف مغل کا بہت ممنون ہوں جنہوں نے کتاب کی اشاعت میں بہت تعاون کیا بلکہ یہ کتاب انہی کی وجہ سے منظر عام پر آئی۔

سوال۔آپ  نے ادبی تقریبات منعقد کرانے کا سلسلہ کب شروع کیا؟

جواب۔ میں نے ادبی تقریبات منعقد کرانے کا سلسلہ 1973ء میں سی بی گرلز ہائی سکول چوہڑ ہڑپال سے شروع کیا پاکستان نیشنل سینٹر راولپنڈی اسلام آباد فیض الاسلام فیض آباد راولپنڈی اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد کمیونٹی سینٹر آب پارہ اسلام آباد اور اس کے علاوہ بزم احباب قلم کے وفد نے لاہور میں علامہ اقبال کے صد سالہ 

جشن ولادت کے سلسلے میں فیصلہ سنایا کہ پاکستان میں اردو کو سرکاری زبان کے طور پر نافذ کیا جائے یہ کریڈٹ بھی بزم احباب قلم کو جاتا ہے۔

سوال۔ تقریبات کے سلسلے میں آپ نے پہلا پروگرام کس حوالے سے کرایا؟

جواب۔تقریبات کا سلسلہ ہم نے روحانی طور پر تصوف کے حوالے سے پیر مہر علی شاہ گولڑوی کے پروگرام سے شروع کیا جس کے پہلے پروگرام میں حاجی حنیف طیب کی صدارت تھی اور مہمان خصوصی راجہ شاہد ظفر اور حاجی نواز کھوکھر تھے یوں تصوف کے شعبے میں بھی بزم نے کافی کام کیا جس میں حضرت ابراہیم بن اودہم بلخی حضرت خواجہ عثمان ہارونی حضرت داتا گنج بخش لاہوری حضرت خواجہ معین الدین چشتی اور بہت سے بزرگان دین شامل ہیں۔

سوال۔ تصوف کے پروگرام  کے  علاوہ ادبی تقریبات منعقد کرانے کے بارے میں کیسے خیال آیا؟

جواب۔تصوف کے ساتھ ساتھ ادبی پروگرام اسی طرح جاری رہے ایک شام تین مہمان ایک منفرد پروگرام میں ایک صاحب صدر ہوتا ہے اور ایک مہمان خصوصی ہوتا ہے اس میں شامل ادباء و شعراء کے کلام اور تخلیقات پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں۔

سوال۔ قارئین کے لیے کچھ کلام عنایت فرمائیں؟

جواب۔ ایک غزل پیش خدمت ہے: 


چمن خود اپنے ہی رنگوں کے درمیان میں ہے

 بہت دنوں سے نہ جانے وہ کس گمان میں ہے


کبھی تو اپنے نشیمن میں جا ہی پہنچے گا

قفس سے نکلا پرندہ ابھی اڑان میں ہے


 جگر کا خون جو ٹپکا تھا رات خامے سے 

تو شعر ہم نے لکھا جو وہ تیری شان میں ہے  


فلک نے چھین لیا نام جس کا ہونٹوں سے 

چھپا ہوا بھی وہی میرے ہر بیان میں ہے 


یہ مرحلے بھی گزر جائیں گے ثمر آخر 

 یہ جان زار تو مدت سے امتحان میں ہے  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نعت رسول مقبولﷺ ( عمر علی شاہ )

 







نعت رسول مقبولﷺ


ظلمتوں کا جس نے ہے طوفان ٹالا دہْر میں

آ گیا ہے وہ پیمبر  کملی والا دہْر میں


ہیں محمد نور ِِ یزداں کا حوالہ دہر میں

کالی کملی کی ضیا سے ہے اجالا دہْر میں


دانت موتی چاند چہرا اور جبیں روشن تری

ایسا آنکھوں نے نہ دیکھا حسن والا دہْر میں


 مرحبا صد مرحبا یا مصطفیٰ یا مجتبیٰ

آپ سے اسلام کا ہے بول بالا دہر میں


سب کے سب اصنام کعبے سے ہٹائے آپ نے

زور جیسا کفر کا تھا توڑ ڈالا دہر میں


خود خدا نے آپ کو معراج پر مدعو کیا

آپ کا رتبہ نبی جی ہے نرالا دہر میں


آپ کا انعام ہے یہ خامہ فرسا ہے عمر

بے نوا دریوزہ گر کو خوب پالا دہر میں


✍️ عمر علی شاہ

امرجیت سنگھ جیت ( ساہت جاگرتی سبھا بٹھنڈہ

 





ਗ਼ਜ਼ਲ/ غزل


ਝੱਖੜ   'ਚ    ਦੀਵੇ   ਬਾਲਣੇ।

ਸੂਲਾਂ   'ਤੇ   ਪਾੳਣੇ   ਆਲ੍ਹਣੇ। 

جھکّھڑ  'چ   دیوے   بالنے۔

سولاں   'تے   پاؤنے  آلھنے۔


ਜਜ਼ਬਾਤ     ਹਿਮੰਤ     ਹੌਸਲੇ, 

ਅਮਲਾਂ  'ਚ   ਪੈਂਦੇ    ਢਾਲਣੇ। 

جذبات     ہِمنت    حوصلے،

عملاں  'چ   پیندے  ڈھالنے۔


ਸਮਿਆਂ  ਦੇ   ਹਾਣੀ   ਜਾਣਦੇ,

ਕਿੱਦਾਂ      ਵਕਤ     ਸੰਭਾਲਣੇ। 

سمیاں  دے  ہانی  جاندے،

کِدّاں    وقت     سمبھالنے۔


ਵਾਵਾਂ  ਦੇ   ਰੁਖ   ਵੀ    ਮੋੜ ਕੇ,

ਤੂਫਾਨ       ਪੈਂਦੇ       ਟਾਲਣੇ। 

 واواں  دے  رُخ  وی موڑ کے،

طوفان       پیندے      ٹالنے۔


ਉੱਤਮ    ਕਲਾ     ਹੈ    ਦੋਸਤੋ, 

ਗ਼ਜ਼ਲਾਂ  'ਚ   ਅੱਖਰ  ਢਾਲਣੇ।

اُتّم      کلا      ہے    دوستو،

غزلاں    'چ    اکّھر   ڈھالنے۔


'امرجیت سنگھ جیت

 'ਅਮਰਜੀਤ ਸਿੰਘ ਜੀਤ'

Saturday, March 23, 2024

ردا فاطمہ ( شاعرہ ) انٹرویو : صاحب زادہ یاسر صابری

 






ردا  فاطمہ 

شاعرہ

انٹرویو: صاحبزادہ یاسر صابری

03115311991


عصر عصر میں جہاں نسل نو کا ادب شاعری اور کتابوں سے لگاؤ نہ ہونے کے برابر ہی رہ گیا ہے وہیں بہت سارے ایسے چہرے بھی شاعری اور ادب کی افق پر سامنے آ رہے ہیں جن کا شمار بہترین شعرائے کرام کی فہرست میں نہ کرنا ان کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ ان میں ایک نام ردا فاطمہ کا ہے جو 23 اگست کو کراچی پاکستان میں پیدا ہوئیں۔ 

دو مجموعہ کلام  ۔ برف کا سمندر اور وجدان اشاعت کے مراحل میں 

ہیں۔ شاہین pay tv میں بطور ایڈینگ انجنئیر کام کیا اور اردو سے لگاؤ کے باعث ایم اے اردو کے لئے کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور فائنل سے پہلے شادی ہو گئی ۔شادی کے بعد کنیڈا چلی گئیں اور آج کل وہی مقیم ہیں۔ردا فاطمہ سونے والی گفتگو نظر قارئین ہے۔

سوال۔عموما عورتیں اپنی پیدائش کے بارے میں نہیں بتاتیں کہ کب پیدا ہوئیں؟

جواب۔ عمر سے زہانت کا کوئی تعلق نہیں میرا خیال ہے سنجیدہ خواتین اپنی عمریں نہیں چھپاتیں۔

سوال۔ شعرو سخن سے باقاعدہ تعلق کس عمر میں ہوا؟ 

جواب۔ یوں کہےکہ یہ ایک نمو ہے جو بہت ابتدا میں ہی ظاہر ہو جاتی ہے اسے آپ کب محسوس کر کے  تحریر کرتے  ہیں یہ آپ کی سوچ اور محسوسات بتاتے ہیں کہ آپ کب اسے سنجیدگی سے لیتے ہیں تو ہم نے  گیارہویں جماعت سے ہی مشاعرے اور ادبی نششت میں جانا شروع کر دیا تھا تو لکھنا اس سے بھی بہت پہلےشروع کر دیا تھا 

سوال۔ کراچی سے کینیڈا  کا سفر کیسے ہوا؟

جواب۔ 2004ء میں کراچی سے  کینیڈا آنا ہوا اور یہاں پر دوبارہ ادبی محافل میں شرکت کا موقع ملا اور ساتھ ساتھ لکھنے کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا۔ پاکستان سے کینیڈا آنا محض اتفاق ہی تھا کہ ہماری شادی کے بعد ہمارے گھر والے کینیڈا شفٹ ہو رہے تھے تو ہمیں بھی کہا گیا کہ ہم بھی اپلائی کریں تو ہم نے سوچا ہم وہاں جاکر کیا کریں گے ہمارا ہمسفر تو یہی ہمارے ساتھ ہے مگر اپلائی کر دیا۔تعلیم اچھی تھی  اس لئے اپروول آگیا  اور پھر کچھ حالات بھی ایسے ہو گئے کہ ہمیں  اپنا وطن چھوڑنا پڑا مگر ہم خوش تھے۔

سوال۔پاکستان اور کینیڈا کے ادبی ماحول کا موازنہ کس طرح کریں گی؟ 

جواب۔  اس بارے میں اس لئے ہم کچھ زیادہ بیان نہیں کر سکتے کہ وہاں کے ادبی ماحول کا ہمیں اندازہ نہیں ہے ہمیں پاکستان گئے کافی عرصہ ہوگیا مگر جب ہم وہاں تھے تو کئی ادبی نشست میں جانے کا موقع ملا جہاں ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا یہاں کے ادیب بھی تمام ہی بہت باشعور اور بلند اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہیں یہی ادبی لوگوں کا خاصہ بھی ہے۔

سوال۔ کیا آپ کے علاوہ بھی کینیڈا میں پاکستانی شعراء یا شاعرات موجود ہیں؟ 

جواب۔ بے تحاشہ ہیں جناب اور مختلف ادبی فورم اور گروپ بھی ہیں۔بلکہ یوں کہیں کہ ایک ادبستان ہے کینیڈا میں آباد۔

سوال۔ کینیڈا کی ادبی محفلوں اور پاکستان کے ادبی محفلوں میں کیا فرق ہے؟ 

جواب۔ فرق کا اندازہ اس طرح سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں رہ کر ہم اپنے ملک کے بارے میں مسلسل ہی تحریر کر رہے ہوتے ہیں اور بہت اچھی طرح  حالات سے واقف  بھی رہتے ہیں مگر پھر بھی جو لوگ وہاں زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں وہ زیادہ بہتر جانتے ہیں محسوس کرتے ہیں ہم وطن کی محبت میں لکھتے ہیں جبکہ وہ وطن کی مشکلات کو سہہ کر لکھتے ہیں وہ جو محسوس کرتے ہیں ضروری نہیں بالکل اس ہی طرح ہم محسوس کر سکیں ہمارا مطلب ہے کہ سوچ کو مختلف کہا جا سکتا ہے مگر ادبی محافل تو ایک جیسی ہی ہیں۔

سوال۔ آپ گلاس پینٹنگ کب سے کر رہی ہیں 

جواب۔  گلاس پینٹنگ ہم نے اپنے ہائی سکول کی چھٹیوں کے درمیان شروع کی اور کینیڈا آکر بہت سے قدیم شعراء کی تصاویر بنائی جسے بے حد پسند کیا گیا۔

سوال۔ ٹیلی ویژن کو کب جوائن کیا؟ 

جواب۔ ٹیلی ویژن کو میں نے 2016ء میں جوائن کیا جو کہ کینیڈاون ٹی وی کے نام سے تھا اس پر ہم نے اپنا قلم کار کے نام سے ایک ادبی پروگرام شروع کیا جس میں قدیم شعراء کے حالات زندگی شامل تھے اس پر بھی کام مسلسل تین سال تک جاری رہا کچھ نجی مصروفیات کے باعث کام چھوڑنا پڑا مگر جلد ہی دوبارہ  آپ مجھے دیکھیں گے۔اتنا ہی کہوں گی ابھی تک سیکھنے کا سفر اور اپنی پہچان کا سفر ابھی بھی جاری ہے۔ 

سوال۔ محبت کے بارے میں آپ کیا کہیں گی اور اس ضمن میں اپنے اشعار بھی پیش کریں؟ 

جواب۔ محبت کے لئے اگر ہم لکھنے بیٹھ گئے تو شاید صفحات ہی کم پڑ جائیں ہمیں محبت پر مکمل یقین ہے کہ یہ ایسی نرم مٹی ہے جسے کسی بھی سانچے میں ڈھالا جاسکتا ہے۔

محبت ہر اشعار:

محبت ہوں محبت ہی لٹانا چاہتی ہوں 

میں اپنے ظرف کو یوں آزمانا چاہتی ہوں 


مرے اللہ رکھنا تو زمانے میں بھرم یوں 

تیرے ہی سامنے سر کو جھکانا چاہتی ہوں

***** 

بچھا کر چاندنی جب جب محبت رقص کرتی ہے 

اسی کے ساتھ چلتی ہوں تو راحت رقص کرتی ہے 


میں جس کے ساتھ ملتی ہوں محبت بانٹ آتی ہوں 

زمانے بھر میں پھر کیسے یہ نفرت رقص کرتی ہے 


محبت میں شکایت سے کوئی رشتہ نہیں بنتا 

سخاوت  ہو  صداقت ہو تو چاہت رقص کرتی ہے 

*

بوتی رہی میں بیج محبت کے ڈھونڈ کر

 پھر کیوں شجر نے شاخ کو تقسیم کر دیا 

سوال۔ کینیڈا کی ادبی تنظیموں کے حوالے سے کیا کہیں گی؟ 

جواب۔ کینیڈا میں بہت سی ادبی تنظیمیں ہیں اور یہاں اردو پر بھی بہت کام ہو رہا ہے کئی ٹی وی چینلز بھی ادبی پروگرام پیش کررہے ہیں ہم کسی بھی فورم سے منسلک نہیں ہیں کیوں کہ ہم اپنے آپ کو کسی فریم میں قید رکھ کر چلنے کے قائل نہیں ہیں کیوں کہ جب آپ فریم کے باہر ہوتے ہیں تو دنیا کو اپنے نظریہ سے دیکھتے ہیں کسی اور کی نظر سے دنیا کو دیکھنا مشکل ہے ہمارے لئے ۔

سوال۔ آپ کا رجحان زیادہ تر غزل کی طرف ہے کیوں؟

جواب۔ اس کا عمل ہمیں نہیں تھا کہ ہم جب کچھ تحریر کریں گے تو غزل ہی تحریر کریں گے بس جب قلم اٹھایا غزلیں ہی زیادہ تحریر ہوئیں ہم سے ۔ ابھی نظموں کی ایک کتاب ترتیب دے رہی ہوں  ایسا نہیں کہ ہم نے نظمیں نہیں تحریر کیں مگر غزل لکھنا ہمیں پسند ہے۔

سوال۔ زندگی میں جن تکالیف کا سامنا کرنا پڑا اس کا خاکہ؟ 

جواب۔ ایسا تو بالکل نہیں کہ اپنوں سے کوئی تکالیف نہ ملی ہوں  کیوں کہ باہر والے تو آپ کا کچھ نہیں بگاڑتے  تکلیف تو آپ کے اپنے دیتے ہیں جن سے آپ امیدیں لگا لیتے ہیں اور آپ جن پر اعتماد کرتے ہیں مگر یہ سب تو زندگی کے ساتھ ہے ۔

سوال۔ آپ کے پسندیدہ شاعر؟ 

جواب۔ اقبال اور غالب کے بعد فیض احمد فیض جون ایلیا منیر نیازی ناصر کاظمی اور پروین شاکر کی شاعری پسند کرتی ہوں۔ نون میم راشد کی نظموں سے بھی لگاؤ ہے۔

سوال۔ کن کن شہرا کے سامنے اپنا کلام سنانے کا موقع ملا؟

جواب۔محترم جناب تابش دہلوی اور راغب مراد آبادی کے ساتھ ساتھ جناب رضی اختر شوق جون ایلیا کے سامنے اپنا کلام سنانے کا موقع ملا۔

سوال۔ کینیڈا مستقل قیام کا ارادہ ہے یا اپنے وطن پاکستان واپسی ہوگی؟  

جواب۔ بالکل ہمیں پاکستان سے بہت پیار ہے ہم پاکستان گئے بھی ہیں اورمستقبل میں بھی جانے کا ارادہ رکھتے ہیں ہم بے چین ہو جاتے ہیں ہمارے ملک کے حالات دیکھ کر کبھی کبھی تو ہم خیریں ہی دیکھنا بند کر دیتے ہیں مگر یہی دعا ہے میرے ملک کے لئے کہ اللہ تعالی حفاظت کرے ۔

اپنی زمین کے لئے ۔۔۔


پرواز کے لئے میں زمیں اپنی چھوڑ دوں 

میری نظر میں ایسا کوئی آسماں نہیں 

*

مرے وجود سے پھیلی ہے روشنی یوں کہ 

ترے خیال کے شب بھر چراغ جلتے ہیں 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نعت شریف ( شکیل عادل ) مظفر گڑھ







 نعت شریف


جن کے خوابوں میں شاہِ عرب آگئے

زندگی ان کو کرنے کے ڈھب آگئے


اس لیے تختِ شاہا کی خواہش نہیں

ہم مدینے کی گلیوں میں اب آ گئے


خاکِ شہرِ نبی اپنی آنکھیں بنیں

عاجزی کے ہنر ہم کو سب آگئے


غم ہو کوئی بھی لائیں نہ خاطر میں ہم

سبز گنبد کے سائے میں جب آگئے


جو بھی پہنچے مدینے بلائے گئے

یہ نہ سمجھو کہ وہ بے سبب آگئے


جب سے کہنے لگا ہوں میں نعتِ نبی 

میرے جیون میں لُطف و طرب آگئے


گِر کے چوکھٹ پہ عادل یہ سب ہی کہیں 

لیجئے ننگِ نام  و نسب  آگئے


شکیل عادل

Friday, March 22, 2024

ڈاکٹر منیر تابش ( اردو پنجابی شاعر ) انٹرویو : صاحب زادہ یاسر صابری

 







ڈاکٹر منیر تابش

اردو اور پنجابی زبان کے شاعر

انٹرویو: صاحبزادہ یاسر صابری

03115311991


ڈاکٹر منیر تابش 7جون 1969ء کو ساہیوال میں پیدا ہوئے۔گورنمنٹ ہائی سکول ساہیوال اور بہاؤالدین زکریا یو نیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ غزل اور نظم کہتے ہیں۔ ان کا مجموعہ کلام ” چشم حیرت " 2022ء میں منظر عام پر آیا ۔ آج کل ، تحصیل و ضلع راولپنڈی کے گاؤں ڈھڈیاں میں رہائش پذیر ہیں۔ گذشتہ دنوں آپ کی رہائش گاہ پر آپ سے شعر و ادب کے حوالے سے ایک مفصل گفتگو ہوئی جو نذر قارئین ہے۔

س۔ آپ نے اپنی عملی زندگی کا آغاز کس شہر سے کیا ؟

ج۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد ساہیوال میں کلینک کھولا ، کچھ عرصہ ساہیوال میں رہنے کے بعد لاہور کے لئے رخت سفر باندھا لیکن لاہور میں دل نہیں لگا پھر راولپنڈی کو چنا ۔ راولپنڈی کی خوبصورت وادیاں دل کو بہا گئیں ۔ راولپنڈی کے حلقہ ادب نے مجھے بہت مقام دیا اور پھرراولپنڈی نے مجھے کہیں جانے نہیں دیا۔

س۔ لاہور کو ساری دنیا پسند کرتی ہے آپ کا دل وہاں کیوں نہیں لگا ؟ ج۔ لاہور گو کہ ثقافت کا ایک مرکز ہے اور ہر شاعر ، ادیب اور فنکار لاہور کو پسند کرتا ہے لیکن میں وہاں کچھ دیر رہ کر لاہور کے شور و غل سے تنگ آگیا اور میں نے راولپنڈی کو تاحیات رہنے کے لئے چنا کیوں کہ یہاں کی ادبی فضا مجھے راس آگئی۔ یہاں کے لوگ میرے دل کو بہا گئے ۔ مجھے یہاں قلبی سکون ملا ۔ نام ملا ۔ شہرت ملی ۔ میری شاعرانہ طبیعت کے مطابق راولپنڈی اسلام آباد ایک بہترین جگہ ثابت ہوئی ۔ لکھنے کے لئے راولپنڈی کے علاوہ مجھے اچھا ماحول کہیں میسر نہیں ہوا یہی وجہ ہے میں نے اپنی پہلی کتاب " چشم حیرت" راولپنڈی میں رہ کر مکمل کی اور یہیں سے میں نے اس کو شائع کیا۔

س۔ شعر و سخن سے با قاعدہ تعلق کس عمر سے بنا؟

ج۔ شاعری سے تعلق تو پیدائشی طور پر انسان کے اندر موجود ہوتا ہے۔ میں نے پہلا شعر جب میں آٹھویں جماعت میں تھا تو کہا اور راولپنڈی کی ادبی فضا نے مجھے مزید لکھنے پر مجبور کیا۔ مجھے ایسی محافل میںسر ہوئیں کہ میرے اندر کا چھپا ہوا شاعر راولپنڈی کی ادبی فضا نے اُجاگر کیا۔

زندہ لاشوں کو بھلا دریا اُبھارے کیسے 

موج دریا سے مروت لیں کنارے کیسے

س۔  یعنی آپ نے با قاعدہ شاعری کا آغاز راولپنڈی آکر کیا اور یہاں پر کن ادبی شخصیات سے آپ کی ملاقاتیں ہوئیں؟

ج۔ راولپنڈی جب آیا تو میری پہلی ملاقات حرف اکادمی کے چیئر مین کرنل مقبول حسین سے ہوئی جنہوں نے راولپنڈی نواز شریف پارک میں موجود ای لائبریری میں میرے نام ایک شام رکھی جس میں راولپنڈی کی معروف ادبی شخصیات موجود تھیں پھر اس کے بعد ادب کا سفر اپنی بلندیوں کو چھونے لگا اس کے بعد میری ملاقات عالمی ادب اکادمی کے بانی عرفان خانی سے ہوئی اور پھر میں نے عالمی ادب اکادمی میں باقاعدہ شمولیت اختیار کی اور مجھے عالمی ادب اکادمی کا نائب صدر بنا دیا گیا۔ عرفان خانی کی کاوشوں سے ادب کا پودا پروان چڑھتا چل گیا یوں بہت سی معروف ادبی شخصیات سے ملاقاتوں کا سلسلہ چل نکلا ۔ عرفان خانی نے میری پہلی رہنمائی فرمائی اور میری ملاقات پاکستان کے نامور شاعر نسیم شیخ سے کروائی نسیم شیخ نے میری پہلی کتاب ” چشم حیرت"شائع کی۔

س۔ آج کل کسی اور کتاب پر کام ہو رہا ہے؟

ج۔ آج کل میں غزلوں پر مشتمل پنجابی کی ایک کتاب پر کام کر رہا ہوں جو کہ جلد ہی قارئین کے ہاتھوں میں ہوگی ۔ آنے والی کتاب میں سے کلام ملاحظہ کیجئے

غم دے پتھر جڑ جاندے نی

سنگی اکھاں بھر جاندے نی


کلے سب نئیں لڑدے ایتھے

تکھے بول وی ٹر جاندے نی

س۔ کیا شاعر صرف شاعر ہوتا ہے یا ایک فنکار بھی ہوتا ہے؟

ج۔ شاعر ایک مکمل فنکار ہوتا ہے۔ شاعر ایک اچھا میز بان ہوتا ہے۔ شاعر ایک گلوکار بھی ہوتا ہے۔ شاعر ایک ادا کار بھی ہوتا ہے۔ میری لکھی ہوئی غزلوں کے دو آڈیو البم ریلیز ہو چکے ہیں جو ملک کے معروف گلوکاروں پلے بیک سنگر عارف پیزادہ اور استاد سجاد بری نے گائے ہیں۔ ڈرامہ سیریل دھوپ کی بارش پی۔ٹی۔ وی ہوم میں سینئر ڈاکٹر کا کردار ادا کیا اور دھوپ کی بارش کا ٹائٹل سانگ بھی لکھا۔

س۔ پاکستان کے اندر اردو زبان میں پنجابی ، سندھی اور دیگر علاقائی زبانوں کے الفاظ تیزی سے شامل ہو رہے ہیں ، آپ کے خیال میں یہ امر اردو زبان کے لئے فائدہ مند ہے یا اردو کی اصل شکل اس کی بقاء کی ضامن ہے؟

ج۔ اصل میں اردو زبان پہلے ہی کافی زبانوں کا مکسچر ہے تو اس میں ہماری علاقائی زبانوں کے الفاظ اگر استعمال کیے جائیں تو اس سے ہماری علاقائی زبان مزید اجاگر ہو گی اور ہمیں ایک دوسرے کو سمجھنے کے مزید مواقع فراہم کرے گی کیوں کہ ہمیں پاکستان کی ہر زبان سے پیار ہے اورعلاقائی زبانوں کے الفاظ بولنے سے ہمارا علاقائی تعصب ختم ہوگا اور بھائی چارہ بڑے گا۔

س۔ آپ نے شہر میں رہنے کی بجائے دیہات میں رہنے کو ترجیح کیوں دی ؟ 

ج۔ ڈھڈیاں گاؤں تحصیل و ضلع راولپنڈی کے رہنے والے لوگ پڑھے لکھے باشعور اور پر امن ہیں اور مجھے یہاں بہت ذہنی سکون میسر آیا میں یہاں بہت خوش ہوں اور میرے دونوں بچے سمیر احمد اور کبیر احمد یہاں بہت خوش ہیں اور یہ حقیقت ہے انہوں نے مجھے یہ گھر فروخت کرنے سے روک دیا۔

س۔ ادبی مراکز سے دور رہ کر آپ مشاعروں میں کس طرح شرکت کرتے ہیں اور اگر شرکت نہیں کرتے تو اس کے اسباب کیا ہیں؟

ج۔ مجھے جس مشاعرے کی دعوت ملتی ہے اس میں شرکت کرتا ہوں بلکہ کرونا کے دنوں میں ہم آن لائن مشاعرے پڑھتے رہے ہیں کیونکہ مشاعروں سے دور ہم لوگ نہیں رہ سکتے ہم جتنی بھی دوریوں پر ہوں ہمارے دل ایک دوسرے سے جڑے ہوتے ہیں۔ادبی محافل ہمارے لیے آکسیجن کا کام کرتی ہیں۔ روات کی تاریخ کا پہلا مشاعرہ ہم نے عالمی ادب اکادمی کے پلیٹ فارم سے منعقد کروایا جو کہ ایک تاریخ ہے چک بیلی خان اور چونترا کی تاریخ کا پہلا دوسرا اور تیسرا مشاعرہ عالمی ادب اکادمی نے کروایا جو کہ ہمارے لیے ایک اعزاز ہے۔

س۔ ادب کو چھپا لینا یا صرف اپنے آپ تک محدود رکھنا ادب کے ساتھ زیادتی نہیں ہے؟

ج۔ شاعروں اور ادیبوں کا کام ہے کہ وہ معاشرے کو سدھار ہیں اگر ہم اپنا کلام چھپائیں گے تو ادب کیسے پھیلے گا معاشرے کی برائیاں کیسے ختم ہوں گی کیونکہ ہمارا کام ہے اپنا پیغام معاشرے میں پھیلانا تاکہ معاشرے سے برائیاں ختم ہوں کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے

 اپنا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے 

س۔ آج کل کے ادیب ادب کے فروغ کے لیے جو اقدامات کر رہے ہیں کیا آپ اس سے مطمئن ہیں؟

ج۔ بعض شاعر و ادیب گرو بندیوں کا شکار ہیں ٹولہ بازی کا شکار ہیں وہ اپنے مشاعروں میں تعلق والے شعرا کو بلاتے ہیں جس کی عالمی ادب اکادمی مزاحمت کرتی ہے عالمی ادب اکادمی ہمیشہ سے گمنام نئے لکھنے والوں کو متعارف کرواتی ہے اور کرواتی رہے گی بعض بہت بڑے بڑے نام ادب کے لیے نقصان دہ ہیں کیونکہ وہ نئے لکھنے والوں کو پذیرائی نہیں دیتے  

مقدر کب چمکتا ہے کسی کا گھر جلانے سے

 ہمیشہ درد ملتا ہے محبت آزمانے سے 


کسی کی آہ دنیا میں تمہیں جینے نہیں دے گی

 کبھی راحت نہ پاؤ گے کسی کا دل دکھانے سے 

س۔ کیا آپ اس بات سے متفق ہیں کہ بڑا مزاح نگار اندر سے طبیعت کا خشک اور مزاج کا سنجیدہ ہوتا ہے؟

ج۔ مزاح لکھنا مشکل کام ہے اور یہ حقیقت ہے کہ مزاح لکھنے والا اندر سے واقعی بہت دکھی ہوتا ہے لیکن مزاح نگار کا وصف دیکھیے کہ وہ خود تو سنجیدہ رہتا ہے اندر سے لیکن دنیا کو ہنساتا ہے لوگوں کے چہروں پر مسکراہٹیں بکھیر دیتا ہے کسی شاعر کا شعر ہے

جو سجائے رکھتے ہیں چہرے پہ ہنسی کی کرن

 دل و روح میں نہ جانے کتنے شگاف رکھتے ہیں  

س۔ کامیابی و کامرانی کے لیے رہنمائی نہایت ضروری تصور کی جاتی ہے شاعری میں آپ کا باقاعدہ استاد کون ہے؟

ج۔ شاعری ایک خداداد صلاحیت ہے یہ لکھی نہیں جا سکتی اس میں کوئی کسی کا استاد نہیں ہوتا ہاں البتہ اساتذہ سے اصلاح ضرور لینی چاہیے میں خود بھی اصلاح لیتا ہوں جن میں سر فہرست نسیم شیخ کراچی سے ہیں جنہوں نے چشم حیرت کی اشاعت کے سلسلے میں بھی میری رہنمائی فرمائی شاعر مشرق حضرت علامہ محمد اقبال بھی حضرت داغ دہلوی سے اصلاح لیا کرتے تھے اس لیے اصلاح لینے میں کوئی قباحت نہیں اور اصلاح لینی چاہیے۔ 

س۔ ساہیوال کے شاعروں کے کوئی نام یاد ہیں؟

ج۔ ایف ایس سی کرنے کے بعد پڑھنے کے لیے ملتان چلا گیا اور 1992ء میں واپس ساہیوال آیا 1993ء میں ساہیوال کو مکمل خیرباد کہہ دیا اور لاہور چلا آیا پنجاب کی معروف ادبی شخصیت جناب یاسین قدرت سے ملاقاتیں رہیں جب لاہور کے لیے رخت سفر باندھا تو یہ ملاقاتیں بھی ختم ہو گئیں لاہور میں چند سال گزارنے کے بعد راولپنڈی کو اپنا مسکن بنا لیا۔س۔ راولپنڈی میں آنے کے بعد سب سے پہلے آپ نے کام کا اغاز کس شہر سے کیا؟

ج۔ راولپنڈی میں آنے کے بعد روات میں اپنا کلینک قائم کیا اور مریضوں کی خدمت شروع کی روات میں کچھ عرصہ رہنے کے بعد چک بیلی خان میں اپنا ہسپتال قائم کیا جو کہ ابھی تک قائم و دائم ہے گو کہ راولپنڈی سے ایک فاصلہ ہونے کے باوجود ادبی شخصیات سے ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا اور مشاعروں میں شرکت کو بھی یقینی بنایا راولپنڈی اسلام آباد کی ادبی محافل نے میرے ذوق و شوق کو مزید روشن کیا۔

س۔ ڈاکٹر منیر تابش صاحب آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے اپنے قیمتی وقت میں سے کچھ وقت نکالا اور میرے سوالات کے جوابات دئیے؟ 

ج۔ یہ تو میرے لیے ایک اعزاز کی بات ہے کہ آپ میرے غریب خانے پر تشریف لائے اور اپنا قیمتی وقت دیا اور ادبی نشست ہوئی ادبی باتیں ہوئیں آپ سے ملاقات کر کے میری روح سرشار ہو گئی۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔

نعت رسول مقبول ( عمر علی شاہ )

 





🥀 نعت رسول مقبولﷺ🥀


میرے آقا کے جو دامان میں آ جاتے ہیں

لوگ وہ رحمتِ رحمان میں آ جاتے ہیں


کیسے اوصاف رقم خاک نشیں سے ہونگے

سب شمائل ترے قرآن میں آ جاتے ہیں


حرف ناموس پہ آقا کے کبھی آ جائے

 ہم سے کمزور بھی میدان میں آ جاتے ہیں


نعت لکھنے کو قلم جب بھی اٹھاتا ہوں میں

لفظ خود نعت کے عنوان میں آ جاتے ہیں


شاعری نعت سے ہوتی ہے معطر میری

"لفظ الہام کے دیوان میں آ جاتے ہیں"


جو مراتب کو ترے پیشِ نظر رکھتے ہیں

وہ خداوند کے فیضان میں آ جاتے ہیں


دل تڑپتا ہے عمر کاش بلائیں آقا

اشک غم سے مرے مژگان میں آ جاتے ہیں

نعت شریف ( جمیل احمد جمیل ) رائے ونڈ

 






نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 


سدا  میرے  سرکار    کی   بات   ہوگی

ثنا   میرے   آقا   کی   دن  رات  ہوگی


احد   اور   احمد   میں  جو فاصلہ  ہے

روا  اس کو رکھیں تو پھر نعت ہو گی


جو    اپنائے   سنت   حبیبِ  خدا  کی 

جہاں  میں  اسے کس لیے مات ہوگی


چھڑے   گا   جہاں    ذکر ِ شاہِ  مدینہ

وہاں رب کی رحمت کی برسات  ہوگی


چلے گا جو  تو  ان کے  نقشِ قدم  پر

جہاں بھر کی دولت ترے ہاتھ  ہوگی


جو  شانِ  رفعنا  کے  مالک  ہیں تنہا 

جمیل ان سے آگے کوئی ذات ہوگی؟


میاں جمیل احمد

غزل ( حسن حسینی ) حافظ آباد

 




داغِ دل سب کو دکھانے سے بھلا کیا ہوگا

اپنا غم سب کو بتانے سے بھلا کیا ہوگا


زندگی بھر میری راہوں میں بچھائے کانٹے

قبر پہ پھول چڑھانے سے بھلا کیا ہوگا


دار پہ جھولنے والوں نے کہا ہے ہم سے

حق کی آواز اٹھانے سے بھلا کیا ہوگا


چار دن ہجر میں رو لیں گے حسن ہم ورنہ

اور تیرے چھوڑ کے جانے سے بھلا کیا ہوگا

حسن حسینی

Thursday, March 21, 2024

پنجابی غزل ( جسویندر سنگھ رپال ) کیلگری کینیڈا ( شاہ مکھی سلیم آفتاب سلیم قصوری )

 






غزل


کون ہے دنیاں چ اُس دے نالدا 

نھیر وچ ج دِل دے دیوے بالدا


اِس بھروسے تے کہ منزل ہے قریب

مُشکلاں راہ چوں ہے جاندا ٹالدا


نچِیا بنگاریاں تے ننگے پیر  اوہ

پر   ریہا  ہر   کول.   اپنا پالدا 


اُس دِل والے دی ہمّت دیکھ کے

حُسن خود پھردا ہے اُس نوں بھالدا


سچ دی ھونی سدا سولی رہی

صرف قربانی ہے راہ اقبال دا


اُڈیا پنچھی ہے جیہڑی بھال توں

درد محسوسے کوئی اُس بھالدا


رُل گئے ہے بے کھڑیاں راہواں چ پیڑ

میں نِمانا پیڑ پھِردا ں بھالدا


موڈ نہیں سکدا میں قرضہ ایہ رُپال

اُس لگن دا جوش دا  تے گھالدا

شاعر 

جسویندر  سِنگھ رُپال 

کیلگری کینیڈا

کشور عروج ( شاعرہ ) کراچی انٹرویو : صاحب زادہ یاسر صابری

 





کشور عروج شاعرہ

انٹرویو: صاحبزادہ یاسر صابری

03115311991


کشور عروج 26دسمبر کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ ان کا شمار ہمارے عہد کی ممتاز اور منفرد شاعرات میں ہوتا ہے جنہوں نے شاعری میں غزل کے علاوہ صنف نظم کو بھی اپنے شعری تجربات کا وسیلہ بنایا ہے۔ ان کا پہلا مجموعہ کلام "میرے دل سے پوچھو" 2022ء میں شائع ہوا جس میں غزلیں اور نظمیں شامل ہیں۔ ذیل میں ان کے ساتھ ہونے والی نشست میں لیا جانے والا انٹرویو ملاحظہ کیجئے۔ 

سوال۔ آپ اپنے بارے میں کچھ بتانا پسند فرمائیں گی؟ 

جواب۔ اپنے بارے میں خود بتاوں یہ تو عجیب ہی لگتا۔لوگ تو اپنے بارے میں اچھا ہی بتاتے ہیں۔اگر مجھ سے سچائی سے جواب پوچھا جائے تو میں صاف ستھرے دل کی انسان ہوں لوگوں سے محبت کرنے والی ہمدردی کرنے والی ۔ایک شاعرہ ہوں تو ظاہر ہے حساس بھی ہوں یہی چاہتی ہوں کہ کسی کی دل آزاری نا ہو اور میری بھی کوئی دل آزاری نا کرے۔محبتیں بانٹنے آئی ہوں محبتیں بانٹ رہی ہوں۔جو مخلصی سے ملتا ہے تو تعلق رکھتی ہوں ورنہ منافقت کا اندازہ ہو تو کوشش کرتی ہوں خاموشی سے راستہ بدل لوں۔اس معاشرے میں نفرت بہت تیزی سے پھیلتی ہے اور میرے نزدیک نفرتوں کا کوئی کام نہیں میں تو بس محبتوں کی سفیر ہوں اور میرا کام ہے لوگوں کے دلوں میں گھر کرنا۔

سوال۔ آپ نے شعر کہنے کب شروع کیے؟ 

جواب۔ شعر تو زمانہ طالب علمی کے دور سے لکھتی آ رہی ہوں۔ سکول کالج میں نظمیں اور قومی گانے بھی لکھے پھر ایک لمبے عرصے کا بریک آیا۔چوں کہ یہ جذبہ کبھی ختم نہیں ہوا تو جیسے ہی وقت ملا تو دوبارہ سے لکھنے لکھانے میں لگ گئی۔خواتین اکثر اپنی ذاتی اور گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے اپنے اندر چھپا ٹیلنٹ کھودیتی۔لیکن میں نے ایسا نہیں کیا ۔جب وقت نے ساتھ دیا تو اپنے آپ کو منوانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ 

سوال۔آپ کن شعرائے کرام سے متاثر ہیں؟ 

جواب۔جہاں تک میری شاعری کا تعلق ہے تو زمانہ طالب علمی سے ہی پروین شاکر کو پسند کیا ان کو پڑھا سمجھا دیکھا اس کے علاوہ دور حاضر کے بہت سے شعراء سے متاثر ہوں۔

سوال۔ بزم محبان انٹرنیشنل کب قائم کی؟ 

جواب۔ بزم محبان ادب انٹرنیشنل 2021 ء میں قائم کی یہ فرد واحد پہ مشتمل ہے۔

سوال۔ اس تنظیم کے مقاصد کیا ہیں؟ 

اس کے مقاصد تو بہت زیادہ ہیں۔ مختصر یہ کہ ادب کی خدمت کرنا مشاعرے کروانا ،اپنے سینئرز کی پذیرائی، کتابوں کی تقریب رونمائی یا پھر کچھ ایسے منفرد کام جو آج تک ادب کی خدمت میں نہیں کئے گئے جیسے دس شعرائے کرام کی تقریب پذیرائی ایک ساتھ اور ایسے شعراء جن کی آج تک تقریب پذیرائی نہیں ہوئی تھی۔یہ ایک ایسی منفرد تقریب تھی جو کہ آج سے پہلے نہیں ہوئی۔اسی طرح اپنی تنظیم کے تحت دوسرے شہروں میں مشاعرے منعقد کروانےاور اب بزم محبان ادب انٹرنیشنل کی شاخیں بیرون ملک بھی قائم کی گئی ہیں بہت جلد وہاں پر بھی بزم محبان ادب انٹرنیشنل ادب کے لیے خدمات سرانجام دے گی۔

سوال۔ آپ نے محنت کر کے شاعری میں اپنا ایک منفرد مقام بنایا ہے کیا وجہ ہے کہ آج کل کے شاعر اور شاعرات جلد شہرت حاصل کرنا چاہتے ہیں؟

جواب۔ بغیر محنت کے کوئی مقام بن ہی نہیں سکتا جہاں تک میری محنت کا تعلق ہے تو جہاں میں جس مقام پہ ہوں وہاں تک آنے کے لئے میں نے بہت محنت کی ۔جبکہ مجھے ابھی اس مقام سے بھی بہت آگے جانا ہے ۔میں تو اب بھی خود کو طفل مکتب سمجھتی جو بھی مقام حاصل کیا اس میں میرے اساتذہ کا بڑا اہم کردار ہے دوسری بات یہ ہے کہ شہرت کا نشہ انسان کو کھا جاتا ہے۔نئے آنے والے شاعر جو بغیر محنت کے شہرت کے متمنی ہوتے ان کو ایسا نہیں سوچنا چاہیے۔ 

سوال۔ آپ کی سندیدہ صنف سخن غزل ہے یا نظم؟

جواب۔ویسے تو میں دونوں ہی صنف میں لکھتی ہوں نظمیں بھی لکھنا اچھا لگتا ہے لیکن غزل کہنے میں مجھے زیادہ مزہ آتا اور زیادہ تر میں غزل ہی کہتی ہوں۔ 

سوال۔ ملتان ارٹس کونسل نے 3 فروری 2024ء کو ایک نشست قائم کی جس میں آپ کی شاعری پہ گفتگو کی گئی؟

جواب۔ملتان آرٹس کونسل تقریبا 2005 ء سے ہر جمعہ کو تقریب  کا اہتمام کرتے ہیں اور یہ نشت مستقل  بنیاد پہ منعقد کی جارہی جو کہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے ۔میرے لئے یہ بہت بڑا اعزاز تھا کہ ملتان آرٹس فورم نے میری تقریب پذیرائی کی ۔اور اس کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ تقریبا پندرہ پی ایچ ڈی تھے وہاں جنہوں نے میری شاعری پہ گفتگو کی اور بہت عمدہ گفتگو کی گئ۔

سوال۔ ملتان میں انصار عدم تنظیم کے زیر اہتمام 6 فروری 2024ءکو آپ کے اعزاز میں ایک تقریب  منعقد کی گئی اس تقریب کے حوالے سے آپ کیا کہیں گی؟

جواب۔ انصار ادب کے تعاون سے میں نے پہلے بھی ملتان میں اپنی تنظیم کے تحت پروگرام منعقد کروایا تھا ۔جس میں پنجاب کے نامور شعرائے کرام نے شرکت فرمائی تھی۔اس بار انصار ادب نے بھی شاندار تقریب پذیرائی کی ۔خوبصورت انتظام، زبردست اہتمام بھی کیا ۔اس میں ملتان کے نامور شعرائے کرام نے شرکت کی۔یہ تقریب اپنے لحاظ سے یادگار رہی۔

سوال۔ غضنفر اکیڈمی پاکستان اور بزم کوثر ملتان کے زیراہتمام 6 فروی2024 ءکو آپ کے اعزاز میں ایک شاندار شعری نشست کا اہتمام شعر افگن خان جوہر کی رہائش گاہ پر کیا گیا اس مشاعرے کی روداد بیان کرتے ہوئے کیا کہیں گی؟

جواب۔بزم کوثر اور شیر افگن خان جوہر صاحب نے اپنی رہائش گاہ پہ ایک شاندار مشاعرے کا اہتمام کیا ۔بزم کوثر کی خوبصورت شیلڈ بھی پیش کیں۔اس تقریب کی جو سب سے خاص بات تھی کہ دور دور سے تشریف لائے ہوئے مضافاتی علاقوں کے شاعروں میں جو ٹیلنٹ دیکھا ۔اعلی معیار کی عمدہ شاعری سننے کو ملی ۔ہر شاعر اپنا منفرد انداز رکھتا تھا اور وہاں ان کے درمیان میری شاعری کو سراہا گیا ۔یہ بھی کسی بڑے اعزاز سے کم بات نہیں میرے لیے۔اس کے علاوہ ایک میوزک اکیڈمی والوں نے بھی شاندار تقریب پذیرائی کی اور وہاں موجود تمام گلوکاروں نے گانے کو سنانے سے زیادہ شاعری سننا پسند کیا۔ 

سوال۔ آپ کی اپنی پسندیدہ شاعری؟

جواب۔ اپنی شاعری ہر کسی کو عزیز ہوتی ہے:کاش یوں اپنے مقدر کو جگاتے ہم بھی

بات بن جاتی اگر بات بناتے ہم بھی


ساتھ چلنے کے لیے کوئی ہمیں مل جاتا

ساتھ چلتا جو کوئی ساتھ نبھاتے ہم بھی


کاش کر لیتے سعی اس کو منانے کے لیے

کاش دو چار سہی  اشک بہاتے ہم بھی


وہ جو دو چار گھڑی کے لئے آ جاتا  ادھر

اس کے دو چار گھڑی ناز اٹھاتے ہم بھی


وہ جو آ جائے ہمارے کبھی گھر کی جانب

راہ میں اس کی کبھی نین بچھاتے ہم بھی


کبھی غزلیں وہ ہماری بھی سماعت کرتا

اپنی غزلوں سے کبھی جادو جگاتے ہم بھی


دو گھڑی کے لئے رک جاتا اگر وہ کشور!

دل پہ جو گزری ہے احوال سناتے ہم بھی 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اس بے وفا نے لوٹ کے آنا تو ہے نہیں 

میں نے بھی جا کے اس کو بلانا تو ہے نہیں 


لوگوں کو کیا بتاؤں کہ مرنے لگی ہوں میں 

لوگوں نے اس کو جا کے بتانا تو ہے نہیں 


شاید اسی لیے ہے وہ دنیا میں در بدر 

اس نے کسی کا  ساتھ نبھانا تو ہے نہیں 


جو کچھ سمجھ میں آیا ہے تم نے کیا ہے وہ 

میری کسی بھی بات کو مانا تو ہے نہیں 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔.

نعت شریف ( شکیل عادل مظفر گڑھ )

 





نعت شریف


سجدہ جب طیبہ کی زمین پر ہوتا ہے

ٹھنڈک  کا  احساس جبیں  پر  ہوتا ہے


جیسا نور  مدینے  میں ہے  اُس  جیسا

یہ    بتلاؤ   اور  کہیں   پر   ہوتا   ہے ؟


دنیا  کے  دیوار  و  در  تو  ایک  طرف 

ذکرِ  نبی  تو  عرشِ  بریں  پر  ہوتا  ہے


طیبہ  میں  عرفانِ  ذات  بھی ملتا  ہے

ہونے  کا  احساس  "نہیں"  پر  ہوتا  ہے


عادل  جو  سرکار  کے  در  سے  ہو آئے

اُس  کا  دل  ہر  وقت  وہیں پر ہوتا ہے


شکیل عادل

Tuesday, March 19, 2024

رحمت اللعالمین ( شکیل عادل مظفرگڑھ )

 





""رحمت اللعالمین"" 


اِک خطا کے کرنے سے*

اس زمیں پر آنے تک* 

داستان ادھوری  تھی*

ربّنا ظُلّمنا کا وِرد آزمانے سے*

دل سکون پانے تک* 

داستاں ادھوری تھی* 

آگ تو جلاتی ہے، کچھ بھی ہو، کسی کا ہو* 

داستان ایسی بھی اس جہاں میں گزری ہے* 

ظُلمتوں کے داعی نے ایک ابنِ آدم کو* 

آگ میں یوں پھینکا تھا کہ جل کے راکھ ہو جائے* 

پردہکتی آتش کو گلستاں بنانے سے* 

ایک پیارے انساں کی* 

زندگی بچانے تک* 

داستاں ادھوری تھی* 

رنگ و نور گوندھ کر* 

اک شبیہ بنا کے پھر* 

اک زمانے کو شبیہ کا گرویدہ کیا گیا* 

اوجھل کرکے آنکھوں سے* 

پیار کرنے والے کو رنجیدہ کیا گیا* 

دن رات حسد کی آگ میں* 

سارے بھائی جلتے تھے* 

سانپ تو نہیں تھے پر آستیں میں پلتے تھے* 

سب نے پھر بھلا ڈالا خون کی حرارت کو* 

بھائی کنویں میں ڈال کر ڈس لیا محبت کو* 

نکال کر کوئیں سے پھر* 

اُس حسینِ اعظم کو* 

مصر میں بیچا گیا* 

پھر اُسی غلام کو خواب کی تعبیر دی* 

مصر کی جاگیر دی* 

وہ بھی ختم ہو گئی باپ اور بیٹے میں* 

سالوں سے جو دوری تھی* 

لیکن اس کے باوجود* 

داستاں ادھوری تھی * 

ایک وقت ایسا بھی اس جہاں میں آیا تھا* 

جب کہ شہر سارا ہی خوف کے اثر میں تھا* 

حکم تھا یہ حاکم کا* 

کوکھ میں ہو جو بچّہ*  

خواہ کسی کے گھر میں ہو* 

قتل کر دیا جائے* 

اِن دنوں ہی اک بچہ اِس جہاں پہ لانے سے* 

بادشاہ کے محلوں میں پرورش پانے تک* 

داستان ادھوری تھی* 

داستاں کے زُمرے میں ایک قصّہ یوں بھی تھا*  

باٹ کے بِنا جیسے جنس کوئی تُل جائے* 

جیسے کوئی دروازہ اپنے آپ کو کھُل جائے* 

ماں کی بے گُناہی کی گود سے گواہی دے* 

کوڑھ کے مریضوں کوایک دم شفا بھی دے* 

اور کوئی مر جائے اُس کو اِذنِ ربّی سے* 

نئی دےکے زندگی موت سے اُٹھا بھی دے* 

اب تو لگ رہا تھا یوں* 

کہ یہ ہی وہ کہانی تھی جو ہر طرح سے پوری تھی* 

پھر بھی جانے کیوں آخر* 

داستاں ادھوری تھی* 

پھر جہاں نے دیکھا کہ* 

جاہلوں کی اک بستی* 

تھی لہو میں تر بتر* 

سود تھا شراب تھی* 

دشمنی تھی ہر طرف دوستی سراب تھی* 

الغرض کے بستی میں زندگی عذاب تھی* 

شوق سے وہ بیٹوں کی ہر خوشی مناتے تھے* 

بیٹیوں کو زندہ ہی دفن کرتے جاتے تھے* 

اندھیرا ہی اندھیرا تھا روشنی سے دوری تھی* 

یہ داستاں ادھوری تھی* 

ظلمتوں کے صحرا کو نور کی ضرورت تھی*

پاش پاش کرنا تھا ہاں اسے جو ہر دل میں* 

خواہشوں کی مورت تھی*  

اور ایسا ہو جائے اُس کی ایک صورت تھی*

کہ داستان وہ پوری ہو جواب تلک ادھوری تھی*

 پھر انہیں ؐ یوں سرزمینِ جبر پر لایا گیا* 

رحمت اللعالمین کا تاج پہنایا گیا* 

تعریف میں رطبُ الّسان ہر کوئی آیا گیا* 

اک اشارہ کردیا تو شمس لوٹایا گیا* 

پتھروں سے حق کا کلمہ سب کو سنوایا گیا* 

پھر وہاں سے خوف کا، جبر کا، شرک کا، سایہ گیا* 

حُسن کی وہ روشنی تھی ہر طرف پھیلی ہوئی* 

لگ رہی تھی چاند کی بھی روشنی میلی ہوئی* 

ڈوبتی ہر ایک کشتی کا نبیؐ ساحل ہوا* 

داستاں پوری ہوئی اور دین بھی کامل ہوا* 


    ""شکیل عادل"

پنجابی نظم ( اندر جیت اندر لوٹے ۔انڈیا ) شاہ مکھی : سلیم آفتاب سلیم قصوری

 




مکّے اتے مدینے


پھُل کِردے تیرے ہاسیاں چوں

توں مینوں تاریاں دِتّی چھاں ورگا

توں مینوں مکّے اتے مدینے جیہا

توں مینوں رب دے ناں ورگا


توں میری مسیحا تے توں میرے پُنِیا تے 

توں میرے دِل دے بنیرے تے بیٹھے کاں ورگا


کدے تیرے غم دی 

دُھپ مینوں تے ساڑے نا

توں کِسے اِندر لوک

جیہی تھاں ورگا


لڑ کے نال لُکائی دے

مساں تینوں پایا اے

توں سوہندا متھّے تے سگّی پھُل وانگوں

تے میری چوڑے والی بانہہ ورگا


کاش تینوں پاون لئی 

اِندر کدے وی بھٹکے نا

توں مہکاں لدڑے باغ جیہا

توں وسدے رسدے غاراں ورگا

شاعرہ

اِندرجیت اِندر لوٹے

انڈیا

شاہ مُکھی لپّی

سلیم آفتاب سلیم قصوری

شگفتہ نعیم ہاشمی ( شاعرہ ، کالم نگار ) انٹرویو : صاحب زادہ یاسر صابری

 






شگفتہ نعیم ہاشمی

 شاعرہ اور کالم نگار

انٹرویو: صاحبزادہ یاسر صابری

03115311991


شگفتہ نعیم ہاشمی کا تعلق ایک ادبی گھرانے سے ہے آپ کے والد سید نعیم ہاشمی (مرحوم) ادب میں ایک نمایاں مقام رکھتے تھے جبکہ بڑے بھائی بھی صحافت سے وابستہ ہیں شاعری کی صلاحیت شگفتہ کو والد صاحب کی طرف سے عطا ہوئی۔

آپ سکول کے زمانے سے ہی ادبی سرگرمیوں میں حصہ لیتی تھیں۔سکول میں بزم شعرا کی سٹیج سیکریٹری رہیں ۔تقریبا 12 سال کی عمر سے لکھنا شروع کیا۔

کالج کے سال اول سے ہی طرحی مشاعروں میں باقاعدہ حصہ لینا شروع کیا اس کے علاوہ زمانہ طالب علمی میں آپ کا کلام اخبارات اور رسائل میں چھپتا رہا۔ کچھ کالم بھی لکھے ۔

کالج کے سال اول میں لکھی ہوئی غزل کا ایک شعر: 

یہ رنج دل سے ہمارے کبھی جدا نہ ہوا

کہ پاس رہ کے بھی ہم سے وہ آشنا نہ ہوا 

نہ صرف بہت سے اخبارات میں چھپی بلکہ نوے کی دہائی میں ترنم ناز کی آواز میں ریڈیو پاکستان سے نشر ہوتی رہی، زمانہ طالب علمی میں ہی منیر نیازی اور شہزاد احمد صاحب کی صدارت میں مشاعرے پڑھنے کا موقع ملا۔۔دوران تعلیم شادی ہو جانے کی وجہ سے پھر یہ سلسلہ سست روی کا شکار ہو گیا مگر اب 2018 ء سے دوبارہ ادبی محافل میں شرکت کر رہی مگر بہت کم۔

تحریک احیائے اردو ادب ( کاروان ادب) کی نہ صرف مستقل رکن ہیں بلکہ خواتین ونگ کی صدر بھی ہیں۔ پہلا 

۔شعری مجموعہ 'حسرتیں'اپریل 2018ء شائع ہو چکا ہے اور دوسرا شعری مجموعہ  ' آبگینے خوابوں کے' تقریباً مکمل ہے ان شاءاللہ 2024ء میں منظر عام پر آ جائے گا۔ جبکہ تیسرے شعری مجموعہ " قرطاس کا دکھ"  کا آغاز کر چکی ہیں۔۔ 

سوال۔ آپ کی تاریخ پیدائش اورجائے پیدائش؟ 

جواب۔17 جولائی ۔لاہور۔

سوال۔ آپ نے شعر کہنے کا آغاز کب کیا؟ 

جواب۔ جہاں تک یادداشت جاتی ہے۔ بچپن سے ہی طبیعت مائل تھی جب اشعار کی موزونیت کا علم نہیں تھا کچھ نہ کچھ ٹوٹا پھوٹا لکھ لیتی تھی۔

سوال۔آپ کی شاعری میں مایوسی اور نا امیدی کے استعارے جا بجا نظر آتے ہیں؟

جواب۔  یہ آپ کا مشاہدہ ہے۔ دراصل شاعر اپنے ارد گرد  کے ماحول سے متاثر ہوتا ہے، اس کے گرد تلخی بھی ہے اور شیرینی بھی۔ تو شیرینی کو تو وہ بھی عام کی انسان کی طرح نگل لیتا ہے جبکہ تلخی کو اشعار کی صورت میں اگل دیتا ہے، میرے نزدیک انسان شاعری کی طرف مائل ہی اس وقت ہوتا ہے جب دکھ سے گزرتا ہے جس طرح ساز اس وقت تک خاموش رہتا ہے جب تک اس پہ چوٹ نہیں لگتی، تو شاعری کے لیے بھی چوٹ لگنا ضروری ہے اب یہ چوٹ ضروری نہیں محبت میں ہو۔

سوال۔ آپ نے کسی شاعر سے اثر نہیں لیا؟

جواب۔ میں نے بہت لوگوں کو نہیں پڑھا دوسروں کو پڑھنے سے میرا اپنا خیال متاثر ہوتا ہے کیونکہ ہر انسان زندگی میں تقریبا ایک سے حالات و واقعات سے گزرتا ہے اور اس دوران ہونے والے تجربات اور مشاہدات کو الفاظ میں ڈھال دیتا ہے سبھی نے تقریبا یاس ہجر وصال، انتظار ، کسی کو پانے کی خوشی، کسی کو کھونے کا غم، پا کے کھونے کی محرومی یا کھو جانے کا ڈر، محبوب کی بے اعتنائی وغیرہ وغیرہ کو شاعری کا موضوع بنایا ہے۔

کچھ لوگ قدرت پر غور کرتے ہیں اس کا حسن بیان کرتے ہیں کچھ اللہ اور اس کے رسول سے عشق کا اظہار کرتے ہیں سب کا اپنا اپنا طریقہ ہے جس کے لیے وہ مختلف الفاظ و تراکیب  کا انتخاب کرتے ہیں ، اب اگر کوئی خیال میرے ذہن میں تشکیل پا رہا ہے  یا میں کسی کیفیت سے گزر رہی ہوں وہ وہی تخیل کسی اور کا میری نظر سے گزر جائے تو میں  کچھ لکھ نہیں پاتی مجھے مناسب بھی نہیں لگتا۔

سوال۔ آپ اپنی شناخت غزل کو بنائں گی یا نظم کو؟

جواب۔میں غزل بھی کہتی ہوں نظم بھی ۔ قطعات بھی بے شمار لکھے ہیں اور اشعار بھی۔ یہ تو سامعین اور قارئین پر منحصر ہے کہ انھیں میری غزلیں پسند آتی ہیں یا نظمیں۔

سوال۔ ۔شعر کہنے کے لیے کن لوازمات کا ہونا ضروری ہوتا ہے؟

جواب۔شعر کہنے کی کوئیrecipe تو ہے نہیں جو لوازمات کی ضرورت ہو۔ ایک کاپی پن کے علاوہ، ایک شعر پیدا کرنے والی سوچ اور صلاحیت کی ضرورت ہے۔ یہ ایک خداداد صلاحیت ہے: ع

"شاعری جزویست از پیغمبری"

شاعر شعر کہنے کا بہانہ ڈھونڈ لیتا ہے۔ ہر شخص خود سے ہمکلام ہوتا ہے شاعر جب خود سے ہمکلام ہوتا ہے تو وہ جود بخود منظوم ہوتا ہے۔ 

سوال۔آپ کا تخیل کیا ہے؟

ج۔میرا تخیل؟ موقع کی مناسبت سے ہی تخیل وجود پاتا ہے۔

سوال۔آپ اپنے آپ کو شاعرہ کیوں نہیں تسلیم کرتی ہیں؟

ج۔میں اپنے آپ کو شاعرہ تسلیم کرتی ہوں مگر زیادہ اہم یہ ہے کہ لوگ مجھے ایک اچھی شاعرہ تسلیم کریں۔ یہاں بہت سے خوش گماں قافیہ آرائی کر کے خود کو شاعر سمجھے پھرتے ہیں میں نہیں چاہتی میں ان میں گنی جاوں۔

سوال۔ کلاسیکی غزل اور جدید غزل میں کیا فرق ہے؟

جواب۔میرے علم کے مطابق کلاسک غزل فنی ، فکری اور لسانی اعتبار سے زیادہ معیاری تھی جبکہ جبکہ جدید غزل contemporary sensibility کے ساتھ آگے بڑھ رہی  ہے۔

سوال۔کیا شاعر کے لیے ماہر علم عروض ہونا ضروری ہے؟

جواب۔اگر آپ یہ کہیں کہ شعر کہنے سے پہلے علم العروض کا سیکھنا ضروری ہے تو اس کی مثال تو ایسی ہی ہو گی کہ جب کوئی بچہ دنیا میں آتا ہے اور بولنا سیکھتا ہے تو آپ اسے پہلے گرامر سکھانا شروع کر دیں کہ پہلے کلمہ مہمل کی پہچان کرے  پھر بولے ایسے تو وہ گونگا ہی رہ جائے گا ، شاعری ایک خداداد صلاحیت ہے اتفاق کی بات یہ ہے کہ نیچرل شاعر جب شعر کہتا ہے بھلے آمد کا ہو یا آورد کا تو وہ اوزان پہ پورا اترتا ہے۔

شاعری کی تاریخ قبل مسیح کی ہے جبکہ بحور کو بصرہ میں رہنے والے عبدالرحمن بن خلیل  نے ایجاد کیا جن کا زمانہ 103 ہجری سے 170 ہجری تک ہے، اس کا مطلب اس دوران جو شاعری ہوئی یعنی قبل مسیح سے سنہ 170 ہجری تک وہ  بحور کی قید سے آزاد تھی یا بحور کی محتاج نہیں تھی، قدیم مذاہب کے لوگ اپنی عبادت گا کے کرتے تھے تو یقینا شعر کی صورت میں کچھ اظہار کرتے ہونگے۔۔۔لیکن  میرا خیال کہ  جو لوگ شعر کہنا چاہیں انھیں چاہئے کہ رفتہ رفتہ بحور کا علم بھی حاصل کریں تو ان کے کلام کا حسن بڑھ جائے گا۔

سوال۔آپ مشاعروں میں شرکت نہیں کرتی!

جواب۔ کرتی ہوں مگر بہت کم۔ مخلوط مشاعروں میں اکثر جگہ ماحول ٹھیک نہیں ہوتا لوگ خواتین کی موجودگی کا احترام نہیں کرتے سگریٹ نوشی بھی کرتے ہیں، جبکہ میں جس گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں وہاں بہنوں  اور بیٹیوں کی موجودگی میں مرد حضرات نہ ایکدوسرے کے ساتھ بیہودہ مذاق کرتے نہ سگریٹ نوشی کرتے ہیں ۔ بزرگ شعرا زیادہ رومانوی شاعری کرتے ہیں جس سے میری نظر ان کی شخصیت کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑتی۔ پھر بعض لوگ بہت ہی بیباک شاعری کرتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ محفل میں خواتین بھی ہیں۔ یہ سب میرے مزاج اور تربیت سے میل نہیں کھاتا میں uncomfortable  محسوس کرتی ہوں۔

سوال۔تحریک احیاے اردوادب میں کب شمولیت ہوئی؟

جواب۔تقریبا ایک سال ہوگیا۔ ایک بہت  اچھی شاعرہ  ڈاکٹر خالدہ  انور جو کہ میری اچھی دوست ہیں ،ان کے  شعری مجموعے کی تحریک میں تقریب پزیرائی تھی تو ڈاکٹر خالدہ انور نے مجھے وہاں متعارف کروایا وہاں بہت پڑھے لکھے اور سوبر لوگ آتے ہیں  میرے گھر سے نزدیک بھی ہے تو میں ان کی  تحریک کی مستقل رکن بن گئی۔

سوال۔اس تحریک کی سرگرمیوں میں کہا کچھ شامل ہے؟

جواب۔ مشاعرے ہوتے ہیں۔ باقی ربیع الاول میں نعتیہ مشاعرہ اور اگست میں وطن کی محبت اور حب الوطنی کے تناظر میں جبکہ نومبر میں علامہ اقبال کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں دسمبر میں پھر قائد اعظم کے حوالے سے اسی طرح سارا سال کچھ نہ کچھ موقع بن جاتا ہے۔

سوال۔ اردو زبان کا مستقبل آپ کی نظر میں کیاہے؟

جواب۔ جب تک اردو بولنے اور لکھنے والے موجود ہیں اردو اپنی آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر رہے گی، ہاں کچھ سہل کر دی گئی ہے مگر فی زمانہ تقاضہ بھی یہی ہے بجائے اس کے کہ لوگ ایک مشکل زبان سمجھ کے پڑھنا لکھنا چھوڑ دیں تھوڑی سی آسانی کا کوئی ہرج نہیں میری نظر میں باقی یہ ریاست کی ذمے داری ہے کہ تعلیمی اداروں میں اردو زبان کے سلیبس پہ نظر رکھیں۔

سوال۔ آپ کے اپنےکہے ہوئے پسندیدہ اشعار اور ان کی وجہ پسند؟

جواب۔شاعر کو اپنا ہر شعر پسند ہوتا پے پھر کچھ اشعار اور غزل پیش کر دیتی ہوں: 

قطعہ 

ہے احتمال جھلس کر تمام ہونے کا 

لگا کے آگ تماشہ نہ کیجیے صاحب

غریقِ نورِ تجلی جواب کیا دیں گے

حسابِ وقتِ کلیمی نہ لیجیے صاحب

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

غزل           

یوں تو کہنے کو مجھے اپنے قریں رکھتا ہے

اک تکلُّف بھی مگر اپنے تئیں رکھتا ہے 


کون اچھا ہو بھلا ایسی مسیحائی سے

درد ہوتا ہے کہیں ہاتھ کہیں رکھتا ہے 


دعوی' کرتا ہے محبت کا مگر دکھ یہ ہے

بزمِ غیراں میں مرا مان نہیں رکھتا ہے 


عقل کہتی ہے کہ وہ شخص پرایا ہے مگر

دل ہے دیوانہ پرائے پہ یقیں رکھتا ہے 


تلخیاں زیست کو بے رنگ کیے رکھتی ہیں

اک ترا رنگ ہے جو اس کو حسیں رکھتا ہے 


وقت کی ریت ٹھہرتی ہی نہیں ہاتھوں میں

دل کو دن رات یہ احساس حزیں رکھتا ہے 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زندگی دھند میں لپٹے ہوئے منظر کی طرح

 نہ دکھائی ہی پڑی اور نہ اوجھل ہی ہوئی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

آزاد نظم

نہ چاند نکلا 

نہ تارے چمکے 

دبیز چادر تھی تیرگی کی

نہ کوئی آہٹ

 نہ کوئی دستک 

نہ نیند آئی

 نہ آپ آئے 

سحر بھی پہلو بدل رہی تھی

 رات لگتا تھا تھک گئی تھی

 جبھی تو اک جا ٹھہر گئی تھی

مفارقت تھی

 طویل شب تھی

 عجب تھا عالم 

نہ کوئی تازہ سخن ہی اترا 

نہ نیند آئی 

نہ آپ ائے  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Monday, March 18, 2024

پنجابی غزل ( منظور شاہد اوراڑہ ) قصور

 






اکھ دے وچ سنبھال کے اتھرو

ہسناں واں میں ٹال کے اتھرو

جسلے ودھ جائے سیک ہجر دا 

کڈھ دی اکھ ابال کے اتھرو

شالا کسے دے پیش ناں پے جان

چھڈدے اکھیاں گال کے اتھرو

غیراں دے نال تکیا سجن

سٹے اکھ اچھال کے اتھرو

شاھد بن گئے ہاسا جگ دا

کھٹیا کیہ وکھال کے اتھرو

منظور شاھد اوراڑہ قصور پنجاب پاکستان

پنجابی غزل ( حسن حسینی ) حافظ آباد

 





غزل

مینو تسّا مار کے توں وی

مر جا غوطہ مار کے توں وی


میرے سدیاں تے نہیں آیا

ویکھ لئے ترلا مار کے توں وی


پک اے رویا ہوسیں اس نوں

عزرائیلا! مار کے توں وی


ساریاں وانگوں بہہ جا پترا!

مونہہ نوں جندرا مار کے توں وی


میں سنیا اے ساہ لینا ایں

عشقا! بندہ مار کے توں وی


ساری زندگی کھاندا آیایں

میرا حصہ مار کے توں وی


بھل نہ پیدا کیتا اے پر

رشتہ، رشتہ مار کے توں وی


حسن ،حسینی بَن سکدا ایں

میں نوں گولہ مار کے تو وی

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حسن حسینی

Sunday, March 17, 2024

پنجابی کہانی ( سٹیٹس ) کہانی کار : سلیم آفتاب سلیم قصوری

 



کہانی 

سٹیٹس 

کوٹھی ورگے گھر وچ ہر چیز سلیقے نال جُڑی ہوئی سی۔نویں ڈیزائن دے چائینی فرنیچر دے نال وُڈورک میچنگ طریقے نال کرایا گئیا سی۔تھاں تھاں تے فینسی فانوس گھر دی رونق نوں چار چن لاندے پئے سن۔ گھر دے فرش نوں وی ایرانی قالیناں نال دلہن  وانگ سجایا گئیا سی۔کوٹھی دے گیٹ چ  وڑدیاں سار ای چِٹّی نویں نکور کار پارک کیتی ہوئی سی۔ایس محل ورگی کوٹھی دی مالک سٹھّاں ستّراں سالاں دی مختاراں بیگم سی۔جیہڑی آودے اک پتّر تے دھی دے نال ایتھے پچھلے ویہیاں سالاں توں ریہندی پئی سی۔جدوں اوہندے سر دے سائیں نے اوہلا کیتا تاں اوہنے وگڑے حالات دا مرداں وانگ مقابلہ کیتا تے أودے بچیاں دی پرورش کیتی۔کیوں جے اوہ أپ وی محکمہ تعلیم وچ چنگے عہدے تے لگی سی۔ایس لئی اوہنے أودے بچیاں نوں وی سرکاری نوکری کروا دتی۔تے ہولی ہولی اوہناں دے حالات بہتر توں بہتر ہون لگ پۓ۔ہن اوہناں دے کول لوڑ دی ہر شئے سی جیہڑی کسے وی صاحبِ حثیت بندے کول ہوندی اے۔اوہناں نے چار چھیلڑ أودے أودے ناں دے بنکاں وچ وی رکھواۓ ہوئے سی۔

مختاراں بیگم نوں نوکری توں ریٹائیر ہوئیاں دس سال ہو گئے سی۔اوہ ہن زیادہ وقت گھر وچ ای گزار دی یاں کسے ادبی سماجی اکٹھ جاندی أندی سی۔گھر دے خرچ نوں ہن پُتّر وڈّی دھی کلثوم نے چکیا ہویا سی۔اوہناں دے انگ ساک تاں اجے وی  غربت دی چکّی وچ ای پِسئے ہوئے سن۔جد کہ اوہناں أودے رہن سہن ملن ورتن تے سٹیٹس چوکھا اُچّا رکھیا ہویا سی۔ہن سماجی ادبی محفلاں وچ آنا جانا تے وڈیاں وڈیاں کاراں دیاں  لمیاں  لمیاں  سیراں اوہناں دلے لہو وچ رچ گئیاں سن۔

کلثوم ہُن تیہاں ورہیاں نوں اپڑ رہی سی تے اوہدے سِر دے والاں وچ تھاں تھاں تے چاندی دا قدرتی کم وکھالی دیندا سی۔اوہ  اجے تیکر کنواری بیٹھی سی۔اوہناں دے کِنیاں ای رشتے داراں ترلا ماریابھئی اوہناں دی گل بات ہو جایے پر کوٹھی والیاں دی سوچ تے اسٹیٹس اگے اوہناں دی دال ای نہ گلدی۔اوہ وچارےاوہناں دیاں گلاں سن کے آودیاں عزتاں بچاندے اوتھوں نکلدے تے فیر اودھر دا کدے مونہہ نہ کردے۔جے کوئی اوہناں دے اسٹیٹس دا ساک لبھدا تاں مُنڈے دے رنگ ڈھنگ تے اوہندی تھوڑی تعلیم پاروں جواب دے چھڈدے۔ایسے طراں ای ورھے لنگھدے ر ہے۔ ہُن کلثوم دے والاں وچ چاندی دے نقش و نگار پُھل بُوٹے صاف وکھالی دیندے سن۔جنہوں اوہ امپورٹیڈ ہیر کلران نال چمکاندی ۔چہرے تے جھریاں وی پین لگ پئیاں سن جنہاں نوں ون سونیاں کریماں نال ہر ویلے لکاوندی پر دنیا دی ہر اک شے ہوون دے باوجود اوہ آودے اندر پیدا ہون والے رُکھے پن نوں نہیں لکا سکدی سی۔جیہڑا کہ اوہندیاں اکھاں چوں صاف وکھالی ایندا سی۔

اج وی وچولن اک گھر والیاں نوں اوس کوٹھی چ رشتے لیئی لیائی ہوئی سی۔پروہنیاں لئی چاء پانی دا انتظام کیتا گئیا۔پہلاں عام گلاں ہوئیاں تے فیر رشتے بارے گلاں ہون لگ پئیاں ۔میرا پُتّر تاں زیادہ باہر ای ہوندااے۔سال چھ مہینے بعد کینیڈا توں آندا اے۔مہینہ دو مہینے رہندااے فِر ٹُر جاندا اے۔مُنڈے دی ماں نے اپنے پُتّر دا تعارف کرایا۔مُنڈے دیاں بھیناں کلثوم دے نال دوجے کمرے وچ بیٹھیاں ہوئیاں سن۔مختیاراں بیگم نے وی آودی دھی کلثوم بارے دسیا۔بھئی اوہ پڑھی لِکھی تے سرکاری نوکری کردی اے۔خیر ایس طراں ای کلاں باتاں وچ دو گھینٹے ٹپ گئے۔رشتے دا معاملہ گول مول ای رہیا۔جدوں وچولن اوہناں نوں لے کے باہر جاون لگی تاں مختیار بیگم نے اوس وچولن نوں آکھیا بھئی ایہناں نوں دسیں اساں کُڑی نوں جہیز ودھیرا دینا اے۔مائی وچولن جیہڑی کہ پہلاں وی کئی رشتے لیا لیا کے تھکی ہوئی سی ۔سڑدی بلدی مختیار بیگم نوں بولی بیگم صاحبہ سامان ودھیرا دینا اے تاں کیہ اے کُڑی دی عمر وی تاں ودھیرے سامان وانگر ای ہو رہی اے ناں۔ ایہ لفظ آکھدیاں ہوئیاں اوہ مائی وچولن ذرہ وی نہیں سنگی سی۔

کہانی کار 

سلیم آفتاب سلیم قصوری

Saturday, March 16, 2024

نظم ( معذرت ) شاعر : صغیر احمد صغیر

 





نظم معذرت 

اے مرے پیارے شاعر 

مرے مسئلے کا کوئی حل بتا 

میں نے بچپن سے اب تک لطافت سنی 

اور لطافت پڑھی 

داستانیں رقم اس کی جتنی ہوئیں 

میں نے سب ہی پڑھیں 

یہ بھی دیکھا کہ ہومر کی جنت کہاں کھو گئی

اور وہ رویا نہیں 

میر کے غم کو جانا تو آنکھوں سے اشکوں لڑیاں اترنے لگیں 

میں نے غالب کے ہر اک تخیل پہ برسوں تدبر کیا 

راز کتنے تھے جو منکشف ہو گئے 

اور کئی رہ گئے 

میں نے اقبال و رومی کے نقش ِ قدم 

ناپ کر دم بہ دم 

روح کیا ہے؟ یہ سمجھا 

تو مجھ پر خدا سے تعلق کھلا

روح مٹی میں شامل ہوئی کس طرح 

مجھ کو جتنے بھی اعزاز بخشے گئے 

مجھ پہ کھلتے گئے 

کہکشائیں مری راہ کی دھول لگنے لگیں

......... پھر مجھے ایک دن 

جب تری ماڈ،رن شاعری کی کتابیں ملیں 

کیا بتاؤں، عجب کینوس جو بنا!

ہر غزل اک برہنہ طوائف کی مانند 

گھنگرو پہن کر تھرکنے لگی 

تیرے ہر مصرعے سے چھنا چھن، چھنا چھن، 

دھما دھم، دھما دھم کی آواز آنے لگی 

 تب تری شاعری 

اپنے بچوں سے مجھ کو چھپانا پڑی 

 تو نے جو کچھ لکھا 

سب خدا کے اصولوں سے تھا ماوراء

تو نے جلدی سے مشہور ہونے میں کیا کر دیا!

آخرش ایک دن 

ایک نقّاد کانوں کو چھو کر یہ کہنے لگا:

"شاعری پر بہت ہی کڑا وقت ہے 

..... اک برا وقت ہے" 

 کیا کہوں جینز کے چاک تک تو نے گنوا دیے 

شاعری میں تو بند قبا لے کے آیا

 علاوہ ازیں....

تو نے وہ تک لکھا ہے جو کہنے کے قابل نہیں 

سو، مرے شاعرِ محترم، معذرت

تیری جدت بھری شاعری کی برہنہ کتابیں 

مرے گھر میں رکھنے کے قابل نہیں !

اس لیے معذرت، 

اور بہت معذرت 

(صغیر احمد صغیر).

نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ( نزیز نذر ) پھول نگر

 





نعت شریف 


مصطفے کو بنا کے خدا نے کہا 

مرحبا  مرحبا  مرحبا  مرحبا 

پھر فرشتوں کا عرشوں پہ نعرہ لگا

یا نبی مصطفےٰ یا حبیبَ خدا

ایسی ولیل زلفوں کی کیا شان ہے

میرے آقا   کی تعریف   قر آن  ہے

پارے پارے میں لکھا ہے میں نے  پڑھا

میرے پیارے نبی   مرتضےٰ مصطفےٰ

نہ زمیں تھی نہ تھا آسماں کا نشاں

رب نے سوچا کہ ہو جاؤں اب میں عیاں

اپنے ہی نور سے نور پیدا کیا

اے خدا شکریہ شکریہ شکریہ 

کلمہ گو ہوں نذر جی مجھے مان ہے

ساری دنیا ہی مجھ پہ مہربان ہے

میرے ماں باپ اور میرے بچے فدا 

رحمت العالمین یا شاہِ کبریا


نزیر نذر پھول نگر 

Friday, March 15, 2024

انابیہ خان ( ناول ،افسانہ و تبصرہ نگار ) انٹرویو : صاحب زادہ یاسر صابری

 






انابیہ خان

افسانہ نگار۔ناول نگار اور تبصرہ نگار 

انٹرویو:صاحبزادہ یاسر صابری

03115311991


آج ہم انابیہ خان سے ملاقات کریں گےجو ملتان  کے قریب جام پور ضلع راجن پور میں 10 جون 2000ء میں پیدا ہوئیں اور ابتدائی تعلیم بھی وہی سے حاصل کی ہے۔افسانہ نگار۔ناول نگار اور تبصرہ نگار ہیں۔

سوال ۔۔۔ لکھنے کا آغاز کب اور کیسے ہوا تھا ؟

جواب ۔۔۔  میں نے تو کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ میں بھی کبھی لکھ سکوں گی ۔ میں آج بھی خود کو ایک لکھاری تسلیم نہیں کرتی کیونکہ میں ابھی لکھنے کے مراحل میں ہوں 2021 ءکو میں نے لکھنا شروع کیا تھا تین سال ہو گئے ہیں مجھے لکھتے ہوئے ۔۔۔۔۔

سوال ۔۔ ناول کی نئی کتاب کب آئی ؟

جواب ۔۔۔ 2021 ء کو ایک ماورائی  سچی کہانی لکھی تھی جو قارئین کو بہت پسند آئی تو 2021ء کو ہی کتاب میں شائع کروا دیا تھا جس پر مجھے اَلْحَمْدُلِلّٰه سات ایوارڈ بھی ملے ہیں ان  اداروں کے نام بھی لکھ رہی ہوں جہاں سے مجھے ایوارڈ ملے ہیں  ۔۔۔ اَلْحَمْدُلِلّٰه تین بار گولڈ میڈل بھی حاصل کر چکی ہوں۔

بھیل ادبی ایوارڈ 

کار خیر انٹرنیشنل

الوکیل ایوارڈ

سردار ادبی ایوارڈ

نقیب ادبی ایوارڈ ۔۔۔۔۔

گوجر ادابی ایوارڈ 

سرفارست  ادابی ایوارڈ ۔۔۔ 

سوال ۔۔ ناول  اور افسانے میں کیا فرق ہوتا ہے ؟ 

جواب ۔۔۔افسانہ ادب کی نثری صنف ہے۔ لغت کے اعتبار سے افسانہ چھوٹی کہانی کو کہتے ہیں لیکن ادبی اصطلاح میں یہ لوک کہانی کی ہی ایک قسم ہے۔ ناول زندگی کا کل اور افسانہ زندگی کا ایک جز پیش کرتا ہے۔ جبکہ ناول اور افسانے میں طوالت کا فرق بھی ہے اور وحدت تاثر کا بھی۔ افسانہ کو کہانی بھی کہا گیا ہے۔ لیکن موجودہ ادبی تناظر میں افسانے سے مقصود مختصر افسانہ ہے جو کم سے کم آدھے گھنٹے میں یا آدھی نشست میں پڑھا جاتا ہے۔ افسانہ دراصل ایک ایسا قصہ ہے جس میں کسی ایک واقعہ یا زندگی کے کسی اہم پہلو کو اختصاراً اور دلچسپی سے تحریر کیا جاتا ہے ۔اس کی ترتیب میں اجزائے ترکیبی کا بہت زیادہ عمل دخل رہتا ہے اور ان میں سے وحدت تاثر کو ذیادہ اہمیت حاصل ہے .

افسانہ زندگی کے کسی ایک واقعے یا پہلو کی وہ خلّاقانہ اور فنی پیش کش ہے جو عموماً کہانی کی شکل میں پیش کی جاتی ہے۔ ایسی تحریر جس میں اختصار اور ایجاز بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ وحدتِ تاثر اس کی سب سےاہم خصوصیت 

 ہے۔ داستان، ناول، ڈراما اور افسانہ بنیادی طور پر کہانی ہونے کے باوجود تکنیک کے اصول و قواعد کے اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ داستان میں تخیل اور تصور کی رنگینی، ڈرامے میں کوئی نہ کوئی کش مکش، ناول میں زندگی کی وسعت اور گہرائی اور افسانہ میں موضوع کی اکائی، یہ امتیازی اور انفرادی خصوصیات ہیں ۔۔۔

سوال ۔۔۔ ناول لکھنے کے لیے کیا ضروری ہوتا ہے؟

جواب ۔۔ ناول لکھنے کے لیے پلاٹ کا ہونا ضروری ہے ۔ کرداروں کا ہونا ۔ یہ لکھاری کی سوچ پر بھی منصر ہوتا ہے ۔۔۔ 

سوال ۔۔۔ آپ کس لیے لکھتی ہیں اپنے لیے یا معاشرے کی اصلاح کے لیے ؟

جواب ۔۔۔ کوشش تو یہی ہے معاشرے کی اصلاح کر سکوں ۔ لیکن معاشرہ اتنا بگڑ چکا ہے میرے جیسے تین سو اور لکھاری مل کر بھی اس معاشرے کی اصلاح نہیں کر سکتے ۔۔اب اللہ پاک ہی رحم کر سکتا آمین ۔۔۔

سوال ۔۔ ادب اور ادیب کا بنیادی فریضہ کیا ہے ؟

جواب ۔۔۔  ادب کی ذمے داری یہ ہے کہ معاشرے میں چلنے والی ہر بات چاہے وہ  مثبت ہو یا منفی اسے پیش کرے اور ادیب کا کام یہ ہے وہ اپنی قلمی طاقت کا پورا زور لگا کے  معاشرے کی ہر خوبصورتی اور بد صورتی کو دکھائے ۔۔

سوال ۔۔ اب تک کتنے تبصرے لکھ چکی ہیں؟

جواب۔۔۔شاید دس یا اس سے کچھ زائد۔

سوال ۔۔ ملتان کے حوالے سے کوئی خاص بات ؟

جواب ۔۔۔۔ الحمدللہ میرا شہر بہت خوبصورت ہے یہ اولیاءکا شہر ہے ۔۔۔۔

سوال ۔۔ ہمارے ہاں مطالعے کےزوال کےاسباب ؟

جواب ۔۔۔ میرے خیال سے موبائل انٹرنیٹ۔

سوال ۔۔۔ ادبی رسائل کے بارے میں آپ کی رائے ؟ 

جواب ۔۔۔ آج کل کے جو نئے پڑھنے والے ہیں ان کو ادب کے بارے میں زیادہ جانکاری نہیں ہے میں خود بھی ایک نئی لکھاری اور نئی پڑھنے والی ہوں تو میں یہی کہوں گی کہ ایسے رسائل ضرور ہوں ہمیں ابھی ادب کے بارے میں زیادہ پتہ نہیں ہے ۔۔۔

سوال ۔۔۔ عہد جدید میں اردو کا نمائندہ  ناول نگار ؟  

جواب ۔۔۔۔ معذرت کے ساتھ ۔۔۔ میں اس بارے میں زیادہ نہیں جانتی کیوں کہ میں ابھی نئی اس میدان میں اتری ہوں زیادہ نہیں جانتی ۔۔۔