Saturday, March 23, 2024

ردا فاطمہ ( شاعرہ ) انٹرویو : صاحب زادہ یاسر صابری

 






ردا  فاطمہ 

شاعرہ

انٹرویو: صاحبزادہ یاسر صابری

03115311991


عصر عصر میں جہاں نسل نو کا ادب شاعری اور کتابوں سے لگاؤ نہ ہونے کے برابر ہی رہ گیا ہے وہیں بہت سارے ایسے چہرے بھی شاعری اور ادب کی افق پر سامنے آ رہے ہیں جن کا شمار بہترین شعرائے کرام کی فہرست میں نہ کرنا ان کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ ان میں ایک نام ردا فاطمہ کا ہے جو 23 اگست کو کراچی پاکستان میں پیدا ہوئیں۔ 

دو مجموعہ کلام  ۔ برف کا سمندر اور وجدان اشاعت کے مراحل میں 

ہیں۔ شاہین pay tv میں بطور ایڈینگ انجنئیر کام کیا اور اردو سے لگاؤ کے باعث ایم اے اردو کے لئے کراچی یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور فائنل سے پہلے شادی ہو گئی ۔شادی کے بعد کنیڈا چلی گئیں اور آج کل وہی مقیم ہیں۔ردا فاطمہ سونے والی گفتگو نظر قارئین ہے۔

سوال۔عموما عورتیں اپنی پیدائش کے بارے میں نہیں بتاتیں کہ کب پیدا ہوئیں؟

جواب۔ عمر سے زہانت کا کوئی تعلق نہیں میرا خیال ہے سنجیدہ خواتین اپنی عمریں نہیں چھپاتیں۔

سوال۔ شعرو سخن سے باقاعدہ تعلق کس عمر میں ہوا؟ 

جواب۔ یوں کہےکہ یہ ایک نمو ہے جو بہت ابتدا میں ہی ظاہر ہو جاتی ہے اسے آپ کب محسوس کر کے  تحریر کرتے  ہیں یہ آپ کی سوچ اور محسوسات بتاتے ہیں کہ آپ کب اسے سنجیدگی سے لیتے ہیں تو ہم نے  گیارہویں جماعت سے ہی مشاعرے اور ادبی نششت میں جانا شروع کر دیا تھا تو لکھنا اس سے بھی بہت پہلےشروع کر دیا تھا 

سوال۔ کراچی سے کینیڈا  کا سفر کیسے ہوا؟

جواب۔ 2004ء میں کراچی سے  کینیڈا آنا ہوا اور یہاں پر دوبارہ ادبی محافل میں شرکت کا موقع ملا اور ساتھ ساتھ لکھنے کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا۔ پاکستان سے کینیڈا آنا محض اتفاق ہی تھا کہ ہماری شادی کے بعد ہمارے گھر والے کینیڈا شفٹ ہو رہے تھے تو ہمیں بھی کہا گیا کہ ہم بھی اپلائی کریں تو ہم نے سوچا ہم وہاں جاکر کیا کریں گے ہمارا ہمسفر تو یہی ہمارے ساتھ ہے مگر اپلائی کر دیا۔تعلیم اچھی تھی  اس لئے اپروول آگیا  اور پھر کچھ حالات بھی ایسے ہو گئے کہ ہمیں  اپنا وطن چھوڑنا پڑا مگر ہم خوش تھے۔

سوال۔پاکستان اور کینیڈا کے ادبی ماحول کا موازنہ کس طرح کریں گی؟ 

جواب۔  اس بارے میں اس لئے ہم کچھ زیادہ بیان نہیں کر سکتے کہ وہاں کے ادبی ماحول کا ہمیں اندازہ نہیں ہے ہمیں پاکستان گئے کافی عرصہ ہوگیا مگر جب ہم وہاں تھے تو کئی ادبی نشست میں جانے کا موقع ملا جہاں ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا یہاں کے ادیب بھی تمام ہی بہت باشعور اور بلند اخلاق کا مظاہرہ کرتے ہیں یہی ادبی لوگوں کا خاصہ بھی ہے۔

سوال۔ کیا آپ کے علاوہ بھی کینیڈا میں پاکستانی شعراء یا شاعرات موجود ہیں؟ 

جواب۔ بے تحاشہ ہیں جناب اور مختلف ادبی فورم اور گروپ بھی ہیں۔بلکہ یوں کہیں کہ ایک ادبستان ہے کینیڈا میں آباد۔

سوال۔ کینیڈا کی ادبی محفلوں اور پاکستان کے ادبی محفلوں میں کیا فرق ہے؟ 

جواب۔ فرق کا اندازہ اس طرح سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں رہ کر ہم اپنے ملک کے بارے میں مسلسل ہی تحریر کر رہے ہوتے ہیں اور بہت اچھی طرح  حالات سے واقف  بھی رہتے ہیں مگر پھر بھی جو لوگ وہاں زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں وہ زیادہ بہتر جانتے ہیں محسوس کرتے ہیں ہم وطن کی محبت میں لکھتے ہیں جبکہ وہ وطن کی مشکلات کو سہہ کر لکھتے ہیں وہ جو محسوس کرتے ہیں ضروری نہیں بالکل اس ہی طرح ہم محسوس کر سکیں ہمارا مطلب ہے کہ سوچ کو مختلف کہا جا سکتا ہے مگر ادبی محافل تو ایک جیسی ہی ہیں۔

سوال۔ آپ گلاس پینٹنگ کب سے کر رہی ہیں 

جواب۔  گلاس پینٹنگ ہم نے اپنے ہائی سکول کی چھٹیوں کے درمیان شروع کی اور کینیڈا آکر بہت سے قدیم شعراء کی تصاویر بنائی جسے بے حد پسند کیا گیا۔

سوال۔ ٹیلی ویژن کو کب جوائن کیا؟ 

جواب۔ ٹیلی ویژن کو میں نے 2016ء میں جوائن کیا جو کہ کینیڈاون ٹی وی کے نام سے تھا اس پر ہم نے اپنا قلم کار کے نام سے ایک ادبی پروگرام شروع کیا جس میں قدیم شعراء کے حالات زندگی شامل تھے اس پر بھی کام مسلسل تین سال تک جاری رہا کچھ نجی مصروفیات کے باعث کام چھوڑنا پڑا مگر جلد ہی دوبارہ  آپ مجھے دیکھیں گے۔اتنا ہی کہوں گی ابھی تک سیکھنے کا سفر اور اپنی پہچان کا سفر ابھی بھی جاری ہے۔ 

سوال۔ محبت کے بارے میں آپ کیا کہیں گی اور اس ضمن میں اپنے اشعار بھی پیش کریں؟ 

جواب۔ محبت کے لئے اگر ہم لکھنے بیٹھ گئے تو شاید صفحات ہی کم پڑ جائیں ہمیں محبت پر مکمل یقین ہے کہ یہ ایسی نرم مٹی ہے جسے کسی بھی سانچے میں ڈھالا جاسکتا ہے۔

محبت ہر اشعار:

محبت ہوں محبت ہی لٹانا چاہتی ہوں 

میں اپنے ظرف کو یوں آزمانا چاہتی ہوں 


مرے اللہ رکھنا تو زمانے میں بھرم یوں 

تیرے ہی سامنے سر کو جھکانا چاہتی ہوں

***** 

بچھا کر چاندنی جب جب محبت رقص کرتی ہے 

اسی کے ساتھ چلتی ہوں تو راحت رقص کرتی ہے 


میں جس کے ساتھ ملتی ہوں محبت بانٹ آتی ہوں 

زمانے بھر میں پھر کیسے یہ نفرت رقص کرتی ہے 


محبت میں شکایت سے کوئی رشتہ نہیں بنتا 

سخاوت  ہو  صداقت ہو تو چاہت رقص کرتی ہے 

*

بوتی رہی میں بیج محبت کے ڈھونڈ کر

 پھر کیوں شجر نے شاخ کو تقسیم کر دیا 

سوال۔ کینیڈا کی ادبی تنظیموں کے حوالے سے کیا کہیں گی؟ 

جواب۔ کینیڈا میں بہت سی ادبی تنظیمیں ہیں اور یہاں اردو پر بھی بہت کام ہو رہا ہے کئی ٹی وی چینلز بھی ادبی پروگرام پیش کررہے ہیں ہم کسی بھی فورم سے منسلک نہیں ہیں کیوں کہ ہم اپنے آپ کو کسی فریم میں قید رکھ کر چلنے کے قائل نہیں ہیں کیوں کہ جب آپ فریم کے باہر ہوتے ہیں تو دنیا کو اپنے نظریہ سے دیکھتے ہیں کسی اور کی نظر سے دنیا کو دیکھنا مشکل ہے ہمارے لئے ۔

سوال۔ آپ کا رجحان زیادہ تر غزل کی طرف ہے کیوں؟

جواب۔ اس کا عمل ہمیں نہیں تھا کہ ہم جب کچھ تحریر کریں گے تو غزل ہی تحریر کریں گے بس جب قلم اٹھایا غزلیں ہی زیادہ تحریر ہوئیں ہم سے ۔ ابھی نظموں کی ایک کتاب ترتیب دے رہی ہوں  ایسا نہیں کہ ہم نے نظمیں نہیں تحریر کیں مگر غزل لکھنا ہمیں پسند ہے۔

سوال۔ زندگی میں جن تکالیف کا سامنا کرنا پڑا اس کا خاکہ؟ 

جواب۔ ایسا تو بالکل نہیں کہ اپنوں سے کوئی تکالیف نہ ملی ہوں  کیوں کہ باہر والے تو آپ کا کچھ نہیں بگاڑتے  تکلیف تو آپ کے اپنے دیتے ہیں جن سے آپ امیدیں لگا لیتے ہیں اور آپ جن پر اعتماد کرتے ہیں مگر یہ سب تو زندگی کے ساتھ ہے ۔

سوال۔ آپ کے پسندیدہ شاعر؟ 

جواب۔ اقبال اور غالب کے بعد فیض احمد فیض جون ایلیا منیر نیازی ناصر کاظمی اور پروین شاکر کی شاعری پسند کرتی ہوں۔ نون میم راشد کی نظموں سے بھی لگاؤ ہے۔

سوال۔ کن کن شہرا کے سامنے اپنا کلام سنانے کا موقع ملا؟

جواب۔محترم جناب تابش دہلوی اور راغب مراد آبادی کے ساتھ ساتھ جناب رضی اختر شوق جون ایلیا کے سامنے اپنا کلام سنانے کا موقع ملا۔

سوال۔ کینیڈا مستقل قیام کا ارادہ ہے یا اپنے وطن پاکستان واپسی ہوگی؟  

جواب۔ بالکل ہمیں پاکستان سے بہت پیار ہے ہم پاکستان گئے بھی ہیں اورمستقبل میں بھی جانے کا ارادہ رکھتے ہیں ہم بے چین ہو جاتے ہیں ہمارے ملک کے حالات دیکھ کر کبھی کبھی تو ہم خیریں ہی دیکھنا بند کر دیتے ہیں مگر یہی دعا ہے میرے ملک کے لئے کہ اللہ تعالی حفاظت کرے ۔

اپنی زمین کے لئے ۔۔۔


پرواز کے لئے میں زمیں اپنی چھوڑ دوں 

میری نظر میں ایسا کوئی آسماں نہیں 

*

مرے وجود سے پھیلی ہے روشنی یوں کہ 

ترے خیال کے شب بھر چراغ جلتے ہیں 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment