رفعت وحید
اردو اور پنجابی زبان کی شاعرہ
انٹرویو: صاحبزادہ یاسر صابری
03115311991
سوال آپ کا اصل نام کیا ہے ؟
جواب۔ رفعت سلطانہ
سوال۔ آپ کا قلمی نام کیا ہے؟
جواب۔ رفعت وحید
سوال۔آپ کی تاریخ پیدائش کیا ہے؟
جواب۔ 4 اپریل 1982ء (راولپنڈی)
سوال ۔ آپ نے کہاں تک تعلیم حاصل کی ؟
جواب۔ ایم اے اردو (لسانیات)
سوال ۔آپ کتنے بہن بھائی ہیں؟
جواب۔ تین بہنیں اور دو بھائی ہیں۔
سوال۔ کیا آپ ایک گھریلو عورت ہیں؟
جواب۔ میں ایک گھریلو عورت ہوں۔
سوال: آپ کی پسندیدہ صنف سخن ؟
جواب۔ مجھے غزل کہنا ذیادہ اچھا لگتا ہے۔
سوال۔کب سے شاعری کر رہی ہیں ؟
جواب۔ میں نے ساتویں جماعت سے شعر کہنا شروع کیا اور باقاعدہ طور پر مشاعروں میں شرکت 2004ء سے کی۔
سوال۔ سوال شعر کہنے کا کوئی وقت مقرر ہے ؟
جواب۔ شعر کہنے کا کوئی وقت مقرر نہیں ہوتا
سوال ۔ آپ کے خیال میں ادب میں خواتین کا کیا کردار ہے ؟
جواب۔ وہ خواتین جو ادب سے تعلق رکھتی ہیں وہ ادب کے لیے کچھ نہ کچھ کرنے کا جذبہ رکھتی ہیں ناول نگاری میں جو مقام عورت کا ہے وہ مرد کا نہیں ۔ افسانہ نگاری اور شاعری میں بھی خواتین کا بہت کام ہے ۔
سوال۔ ایک شاعر اور غیر شاعر میں آپ کیا فرق محسوس کرتی ہیں ؟
جواب۔ شاعر آدمی قوم پر آنے والی مصیبت کو پہلے محسوس کرتا ہے جب کہ غیر شاعر کے لیے یہ کام مشکل ہے ۔
سوال ۔ کیا شاعری کے مقابلے میں نثر آسان ہے ؟
جواب۔ ہر وہ کام آسان ہے جس میں محنت کی جاۓ جسے شاعری پر عبور ہے اس کے لیے شاعری آسان ہے نثر نگار کے لیے نثر لکھنا آسان ہے ۔
سوال ۔ کوئی ایسی شخصیت جو بچھڑنے پر یاد آتی ہو ؟
جواب۔ آپ کو علم ہے کہ ایک بیٹا جو داغ مفارقت دے گیا روز یاد آتا ہے ۔
سوال: آپ کی نظر میں اردو ادب کو اس وقت کن مسائل کا سامنا ہے؟
جواب۔ اردو ادب کے مسائل سے زیادہ شاید ہمیں اس بات پہ غور کرنا چاہیے کہ ہماری زبان اپنی آخری سانسیں لے رہی ہے۔
سوال: اردو ادب کی ترویج کے لیے ہم میں سے ہر شخص انفرادی طور پر کیا کر سکتا ہے؟
جواب۔ کسی بھی زبان کے ادب کی ترویج تبھی ممکن ہوتی ہے جب وہ لسانی اعتبار سے ترقی کی منازل طے کر رہی ہو۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری زبان اور ادب ترقی کریں تو سب سے پہلے زبان کو اہمیت دینا ہو گی جب کہ یہاں ایسا کچھ نہیں ہے ہمارے اردو کے ادیب بھی جنہیں اگر چند جملے یا الفاظ انگریزی کے آتے ہوں تو وہ کوڈ-مکسنگ اور کوڈ-سوئچنگ کر کے اپنی گفتگو میں لازمی گھسیڑتے ہیں انہیں ہماری آنے والی نسلیں انگریزی زبان میں فخر اور اردو بولنے میں کمتری محسوس کرتی ہیں تو پھر ہم کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ ہماری زبان و ادب ترقی کریں گے۔
سوال: اردو ادب کے لیے پاکستان و ہندوستان کو بطور ریاست کیا کرنا چاہیے ؟
جواب۔ دونوں ممالک کو سب سے پہلے اردو کو بطور زبان اہمیت دینی چاہیے اگر ایسا نہ کیا گیا تو شاید سو سال بعد ورڈ بوروئنگ کے نتیجے میں ہماری زبان کا چہرہ تک مسخ ہو جائے گا اور شاید 500 سال بعد اس زبان کی ہئیت ہی بدل چکی ہوگی۔
سوال: انٹرنیٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے اس دور میں اردو خود کو کیسے پروان چڑھائے؟
جواب۔ اردو بولنے میں یا لکھنے میں شرم محسوس نہیں کرنی چاہیے زبان کی بقا اسی میں ہے۔
سوال: ماضی میں جتنے شعراء و ادباء نے اردو ادب کے لیے کام کیا بہت معیاری ہوا کرتا تھا مگر اب وہ تصانیف و تخلیقات میں معیار نظر نہیں آتا آپ کی نظر میں اس کی کیا وجہ ہے ؟
جواب۔ دیکھیں ایک تخلیق کار صرف وہ چیز تخلیق کرتا ہے جس کی ڈیمانڈ ہوتی ہے۔ اردو کی بطور زبان اتنی بے قدری کی گئی کہ آج کی نسل نو کے لیے ادیب فقط مسخرے بن چکے ہیں جو انہیں چند لمحوں کے لیے محضوض کرتے ہیں۔ وہ بچہ جو اردو بولنا اپنی توہین سمجھتا ہے وہ حقیقی ادب کو کیا سمجھ سکتا ہے؟ اس نے ڈیمانڈ اس کی کرنی ہے جو اسے لطف دے نہ کہ عکاسی کرے۔ اسے لطیفہ سنایا جائے یا شعر اس کے لیے برابر ہے۔ اور اس نے گھٹیا سے لفظوں کے گٹھ جوڑ کی ڈیمانڈ کرنی ہے تو تخلیق کار نے وہی تخلیق کرنا ہے۔
سوال۔ اپنے تجربے کے نچوڑ کی بنیاد پر اردو زبان کے لیے تخلیق کاروں کو کوئی خوبصورت پیغام جو آپ دینا چاہیں؟
جواب۔ صرف تخلیق کاروں کو نہیں بلکہ ہم سب کو سوچنا چاہیے کہ یہ ایک زبان ہے اس کا اپنا ایک وجود ہے اور اسے بولنا کوئی کم پڑھے لکھے ہونے کی دلیل نہیں۔ سرکاری سطح پر بھی نصاب ہماری قومی زبان میں لکھا جانا چاہیے تاکہ لوگ سمجھ سکیں کہ اس زبان کا اپنا ایک وجود ہے۔ اگر ایسا نہیں ہوتا تو بدقسمتی سے ہمیں پھر لسانی سائینس کی بات مان کر یہ زہر اپنے اندر انڈیلنا ہو گا کہ زبان کسی بھی شکل میں ہو کوئی بھی ہو صرف پیغام رسانی کا ذریعہ ہے۔ اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ زبان ہماری تہذیب کی عکاس بنے تو اس کے لیے وینٹیلیٹر پر پڑی اس زبان کو زندگی دینی ہو گی۔
سوال: کیا ادبی تنظیمیں اردو شاعری کے فروغ کے لیے اپنا حق ادا کر رہی ہیں ؟
جواب۔ آج کے سوشل میڈیا کے دور میں ان گنت تنظیمیں وجود میں آ چکی ہیں جن میں کچھ تو خالصتاً ادبی سرگرمیوں کی فضا قائم کیے ہوئے ہیں اور شعر و سخن کی خدمت کر رہی ہیں جبکہ بہت سی تنظیمیں ایسی بھی ہیں جو "انجمن ستائش باہمی " کی ذیل میں آتی ہیں ۔شاعری کا فروغ درحقیقت شاعری کا ذاتی عمل ہوتا ہے جتنا اچھا شعر کوئی کہہ رہا ہے اس کو اتنی ہی داد مل رہی ہے اتنی ہی زیادہ ستائش ہو رہی ہے میرے خیال میں اچھا شعر کہنا ہی شاعری کی ترویج کا باعث بنتا ہے ۔
سوال: نئے لکھنے والوں کے لیے کوئی پیغام بالخصوص شاعرات کے لیے آپ کچھ کہنا پسند فرمائیں گی؟
جواب۔ میرا پیغام یہی ہے کہ اگر آپ شاعری کرتے ہیں تو اسے محض شوق نہ سمجھیں اسے ایک جذبے ، لگن ، محبت اور محنت کے ساتھ نبھائیں شاعری بہترین دوست ، بہترین ہمراز ہے شاعری آپ کو تنہا نہیں ہونے دیتی آپ شاعری کے ساتھ Live کریں یقیناً یہ آپ کو جینا اور زندگی کو سمجھنا سکھا دے گی۔
سوال۔ قارئین کے لئے کچھ کلام پیش فرمائیں؟
جواب۔ کچھ شعر پیش خدمت ہیں:
بنے گا کیا اب اس کا فیصلہ تو چاک پر ہوگا
خیال ایک جسم کا ہاتھوں میں گارا بن کے اترا ہے
پل بھر میں سمندر تو بناتی ہوں رفعت
کیوں مجھ سے سمندر کا کنارہ نہیں بنتا
غلط تھے مشورے سارے جو بھائی دیتا رہا
وہ سانپ تھا مجھے سیڑھی دکھائی دیتا رہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment