شگفتہ نعیم ہاشمی
شاعرہ اور کالم نگار
انٹرویو: صاحبزادہ یاسر صابری
03115311991
شگفتہ نعیم ہاشمی کا تعلق ایک ادبی گھرانے سے ہے آپ کے والد سید نعیم ہاشمی (مرحوم) ادب میں ایک نمایاں مقام رکھتے تھے جبکہ بڑے بھائی بھی صحافت سے وابستہ ہیں شاعری کی صلاحیت شگفتہ کو والد صاحب کی طرف سے عطا ہوئی۔
آپ سکول کے زمانے سے ہی ادبی سرگرمیوں میں حصہ لیتی تھیں۔سکول میں بزم شعرا کی سٹیج سیکریٹری رہیں ۔تقریبا 12 سال کی عمر سے لکھنا شروع کیا۔
کالج کے سال اول سے ہی طرحی مشاعروں میں باقاعدہ حصہ لینا شروع کیا اس کے علاوہ زمانہ طالب علمی میں آپ کا کلام اخبارات اور رسائل میں چھپتا رہا۔ کچھ کالم بھی لکھے ۔
کالج کے سال اول میں لکھی ہوئی غزل کا ایک شعر:
یہ رنج دل سے ہمارے کبھی جدا نہ ہوا
کہ پاس رہ کے بھی ہم سے وہ آشنا نہ ہوا
نہ صرف بہت سے اخبارات میں چھپی بلکہ نوے کی دہائی میں ترنم ناز کی آواز میں ریڈیو پاکستان سے نشر ہوتی رہی، زمانہ طالب علمی میں ہی منیر نیازی اور شہزاد احمد صاحب کی صدارت میں مشاعرے پڑھنے کا موقع ملا۔۔دوران تعلیم شادی ہو جانے کی وجہ سے پھر یہ سلسلہ سست روی کا شکار ہو گیا مگر اب 2018 ء سے دوبارہ ادبی محافل میں شرکت کر رہی مگر بہت کم۔
تحریک احیائے اردو ادب ( کاروان ادب) کی نہ صرف مستقل رکن ہیں بلکہ خواتین ونگ کی صدر بھی ہیں۔ پہلا
۔شعری مجموعہ 'حسرتیں'اپریل 2018ء شائع ہو چکا ہے اور دوسرا شعری مجموعہ ' آبگینے خوابوں کے' تقریباً مکمل ہے ان شاءاللہ 2024ء میں منظر عام پر آ جائے گا۔ جبکہ تیسرے شعری مجموعہ " قرطاس کا دکھ" کا آغاز کر چکی ہیں۔۔
سوال۔ آپ کی تاریخ پیدائش اورجائے پیدائش؟
جواب۔17 جولائی ۔لاہور۔
سوال۔ آپ نے شعر کہنے کا آغاز کب کیا؟
جواب۔ جہاں تک یادداشت جاتی ہے۔ بچپن سے ہی طبیعت مائل تھی جب اشعار کی موزونیت کا علم نہیں تھا کچھ نہ کچھ ٹوٹا پھوٹا لکھ لیتی تھی۔
سوال۔آپ کی شاعری میں مایوسی اور نا امیدی کے استعارے جا بجا نظر آتے ہیں؟
جواب۔ یہ آپ کا مشاہدہ ہے۔ دراصل شاعر اپنے ارد گرد کے ماحول سے متاثر ہوتا ہے، اس کے گرد تلخی بھی ہے اور شیرینی بھی۔ تو شیرینی کو تو وہ بھی عام کی انسان کی طرح نگل لیتا ہے جبکہ تلخی کو اشعار کی صورت میں اگل دیتا ہے، میرے نزدیک انسان شاعری کی طرف مائل ہی اس وقت ہوتا ہے جب دکھ سے گزرتا ہے جس طرح ساز اس وقت تک خاموش رہتا ہے جب تک اس پہ چوٹ نہیں لگتی، تو شاعری کے لیے بھی چوٹ لگنا ضروری ہے اب یہ چوٹ ضروری نہیں محبت میں ہو۔
سوال۔ آپ نے کسی شاعر سے اثر نہیں لیا؟
جواب۔ میں نے بہت لوگوں کو نہیں پڑھا دوسروں کو پڑھنے سے میرا اپنا خیال متاثر ہوتا ہے کیونکہ ہر انسان زندگی میں تقریبا ایک سے حالات و واقعات سے گزرتا ہے اور اس دوران ہونے والے تجربات اور مشاہدات کو الفاظ میں ڈھال دیتا ہے سبھی نے تقریبا یاس ہجر وصال، انتظار ، کسی کو پانے کی خوشی، کسی کو کھونے کا غم، پا کے کھونے کی محرومی یا کھو جانے کا ڈر، محبوب کی بے اعتنائی وغیرہ وغیرہ کو شاعری کا موضوع بنایا ہے۔
کچھ لوگ قدرت پر غور کرتے ہیں اس کا حسن بیان کرتے ہیں کچھ اللہ اور اس کے رسول سے عشق کا اظہار کرتے ہیں سب کا اپنا اپنا طریقہ ہے جس کے لیے وہ مختلف الفاظ و تراکیب کا انتخاب کرتے ہیں ، اب اگر کوئی خیال میرے ذہن میں تشکیل پا رہا ہے یا میں کسی کیفیت سے گزر رہی ہوں وہ وہی تخیل کسی اور کا میری نظر سے گزر جائے تو میں کچھ لکھ نہیں پاتی مجھے مناسب بھی نہیں لگتا۔
سوال۔ آپ اپنی شناخت غزل کو بنائں گی یا نظم کو؟
جواب۔میں غزل بھی کہتی ہوں نظم بھی ۔ قطعات بھی بے شمار لکھے ہیں اور اشعار بھی۔ یہ تو سامعین اور قارئین پر منحصر ہے کہ انھیں میری غزلیں پسند آتی ہیں یا نظمیں۔
سوال۔ ۔شعر کہنے کے لیے کن لوازمات کا ہونا ضروری ہوتا ہے؟
جواب۔شعر کہنے کی کوئیrecipe تو ہے نہیں جو لوازمات کی ضرورت ہو۔ ایک کاپی پن کے علاوہ، ایک شعر پیدا کرنے والی سوچ اور صلاحیت کی ضرورت ہے۔ یہ ایک خداداد صلاحیت ہے: ع
"شاعری جزویست از پیغمبری"
شاعر شعر کہنے کا بہانہ ڈھونڈ لیتا ہے۔ ہر شخص خود سے ہمکلام ہوتا ہے شاعر جب خود سے ہمکلام ہوتا ہے تو وہ جود بخود منظوم ہوتا ہے۔
سوال۔آپ کا تخیل کیا ہے؟
ج۔میرا تخیل؟ موقع کی مناسبت سے ہی تخیل وجود پاتا ہے۔
سوال۔آپ اپنے آپ کو شاعرہ کیوں نہیں تسلیم کرتی ہیں؟
ج۔میں اپنے آپ کو شاعرہ تسلیم کرتی ہوں مگر زیادہ اہم یہ ہے کہ لوگ مجھے ایک اچھی شاعرہ تسلیم کریں۔ یہاں بہت سے خوش گماں قافیہ آرائی کر کے خود کو شاعر سمجھے پھرتے ہیں میں نہیں چاہتی میں ان میں گنی جاوں۔
سوال۔ کلاسیکی غزل اور جدید غزل میں کیا فرق ہے؟
جواب۔میرے علم کے مطابق کلاسک غزل فنی ، فکری اور لسانی اعتبار سے زیادہ معیاری تھی جبکہ جبکہ جدید غزل contemporary sensibility کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔
سوال۔کیا شاعر کے لیے ماہر علم عروض ہونا ضروری ہے؟
جواب۔اگر آپ یہ کہیں کہ شعر کہنے سے پہلے علم العروض کا سیکھنا ضروری ہے تو اس کی مثال تو ایسی ہی ہو گی کہ جب کوئی بچہ دنیا میں آتا ہے اور بولنا سیکھتا ہے تو آپ اسے پہلے گرامر سکھانا شروع کر دیں کہ پہلے کلمہ مہمل کی پہچان کرے پھر بولے ایسے تو وہ گونگا ہی رہ جائے گا ، شاعری ایک خداداد صلاحیت ہے اتفاق کی بات یہ ہے کہ نیچرل شاعر جب شعر کہتا ہے بھلے آمد کا ہو یا آورد کا تو وہ اوزان پہ پورا اترتا ہے۔
شاعری کی تاریخ قبل مسیح کی ہے جبکہ بحور کو بصرہ میں رہنے والے عبدالرحمن بن خلیل نے ایجاد کیا جن کا زمانہ 103 ہجری سے 170 ہجری تک ہے، اس کا مطلب اس دوران جو شاعری ہوئی یعنی قبل مسیح سے سنہ 170 ہجری تک وہ بحور کی قید سے آزاد تھی یا بحور کی محتاج نہیں تھی، قدیم مذاہب کے لوگ اپنی عبادت گا کے کرتے تھے تو یقینا شعر کی صورت میں کچھ اظہار کرتے ہونگے۔۔۔لیکن میرا خیال کہ جو لوگ شعر کہنا چاہیں انھیں چاہئے کہ رفتہ رفتہ بحور کا علم بھی حاصل کریں تو ان کے کلام کا حسن بڑھ جائے گا۔
سوال۔آپ مشاعروں میں شرکت نہیں کرتی!
جواب۔ کرتی ہوں مگر بہت کم۔ مخلوط مشاعروں میں اکثر جگہ ماحول ٹھیک نہیں ہوتا لوگ خواتین کی موجودگی کا احترام نہیں کرتے سگریٹ نوشی بھی کرتے ہیں، جبکہ میں جس گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں وہاں بہنوں اور بیٹیوں کی موجودگی میں مرد حضرات نہ ایکدوسرے کے ساتھ بیہودہ مذاق کرتے نہ سگریٹ نوشی کرتے ہیں ۔ بزرگ شعرا زیادہ رومانوی شاعری کرتے ہیں جس سے میری نظر ان کی شخصیت کوئی اچھا تاثر نہیں چھوڑتی۔ پھر بعض لوگ بہت ہی بیباک شاعری کرتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ محفل میں خواتین بھی ہیں۔ یہ سب میرے مزاج اور تربیت سے میل نہیں کھاتا میں uncomfortable محسوس کرتی ہوں۔
سوال۔تحریک احیاے اردوادب میں کب شمولیت ہوئی؟
جواب۔تقریبا ایک سال ہوگیا۔ ایک بہت اچھی شاعرہ ڈاکٹر خالدہ انور جو کہ میری اچھی دوست ہیں ،ان کے شعری مجموعے کی تحریک میں تقریب پزیرائی تھی تو ڈاکٹر خالدہ انور نے مجھے وہاں متعارف کروایا وہاں بہت پڑھے لکھے اور سوبر لوگ آتے ہیں میرے گھر سے نزدیک بھی ہے تو میں ان کی تحریک کی مستقل رکن بن گئی۔
سوال۔اس تحریک کی سرگرمیوں میں کہا کچھ شامل ہے؟
جواب۔ مشاعرے ہوتے ہیں۔ باقی ربیع الاول میں نعتیہ مشاعرہ اور اگست میں وطن کی محبت اور حب الوطنی کے تناظر میں جبکہ نومبر میں علامہ اقبال کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں دسمبر میں پھر قائد اعظم کے حوالے سے اسی طرح سارا سال کچھ نہ کچھ موقع بن جاتا ہے۔
سوال۔ اردو زبان کا مستقبل آپ کی نظر میں کیاہے؟
جواب۔ جب تک اردو بولنے اور لکھنے والے موجود ہیں اردو اپنی آب و تاب کے ساتھ جلوہ گر رہے گی، ہاں کچھ سہل کر دی گئی ہے مگر فی زمانہ تقاضہ بھی یہی ہے بجائے اس کے کہ لوگ ایک مشکل زبان سمجھ کے پڑھنا لکھنا چھوڑ دیں تھوڑی سی آسانی کا کوئی ہرج نہیں میری نظر میں باقی یہ ریاست کی ذمے داری ہے کہ تعلیمی اداروں میں اردو زبان کے سلیبس پہ نظر رکھیں۔
سوال۔ آپ کے اپنےکہے ہوئے پسندیدہ اشعار اور ان کی وجہ پسند؟
جواب۔شاعر کو اپنا ہر شعر پسند ہوتا پے پھر کچھ اشعار اور غزل پیش کر دیتی ہوں:
قطعہ
ہے احتمال جھلس کر تمام ہونے کا
لگا کے آگ تماشہ نہ کیجیے صاحب
غریقِ نورِ تجلی جواب کیا دیں گے
حسابِ وقتِ کلیمی نہ لیجیے صاحب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غزل
یوں تو کہنے کو مجھے اپنے قریں رکھتا ہے
اک تکلُّف بھی مگر اپنے تئیں رکھتا ہے
کون اچھا ہو بھلا ایسی مسیحائی سے
درد ہوتا ہے کہیں ہاتھ کہیں رکھتا ہے
دعوی' کرتا ہے محبت کا مگر دکھ یہ ہے
بزمِ غیراں میں مرا مان نہیں رکھتا ہے
عقل کہتی ہے کہ وہ شخص پرایا ہے مگر
دل ہے دیوانہ پرائے پہ یقیں رکھتا ہے
تلخیاں زیست کو بے رنگ کیے رکھتی ہیں
اک ترا رنگ ہے جو اس کو حسیں رکھتا ہے
وقت کی ریت ٹھہرتی ہی نہیں ہاتھوں میں
دل کو دن رات یہ احساس حزیں رکھتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی دھند میں لپٹے ہوئے منظر کی طرح
نہ دکھائی ہی پڑی اور نہ اوجھل ہی ہوئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آزاد نظم
نہ چاند نکلا
نہ تارے چمکے
دبیز چادر تھی تیرگی کی
نہ کوئی آہٹ
نہ کوئی دستک
نہ نیند آئی
نہ آپ آئے
سحر بھی پہلو بدل رہی تھی
رات لگتا تھا تھک گئی تھی
جبھی تو اک جا ٹھہر گئی تھی
مفارقت تھی
طویل شب تھی
عجب تھا عالم
نہ کوئی تازہ سخن ہی اترا
نہ نیند آئی
نہ آپ ائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment