نبیلہ اکبر:کالم نگار اور سیرت نگار
انٹرویو: صاحبزادہ یاسر صابری
03115311991
نبیلہ اکبر 16 فروری 1976ء کو لاہور میں پیدا ہوئیں اور لاہور میں ہی مقیم ہیں ۔ان کے آباؤ اجداد کا تعلق بھی لاہور سے ہے۔تعلیم ایم اے اسلامیات ہے۔ نبیلہ اکبر کالم نگاری کے علاوہ نثری نظمیں بھی لکھتی ہیں۔ انہوں نے کالم نگاری کا آغاز 2015ء میں کراچی کے اخبار روزنامہ طالب نظر سے کیا پھر روزنامہ جہاں اسلام آباد روزنامہ عظمت لاہور سمیت مختلف اخبار میں کالم لکھتی رہیں۔
روزنامہ نوائے وقت کے ہفت روزہ ندائے ملت میں کوئٹہ کی ڈائری بھی لکھتی رہیں۔ اب نیشنل میڈیا گروپ کے اخبارات روزنامہ نوائے انصاف بروقت خبر نئی آوازیں میں کالم پابند سلاسل لکھتی ہیں۔ سیرت النبی ﷺ پر ان کی کتاب رحمت دو عالم ﷺ کے دو ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔
سوال۔آپ کو اپنے بچپن کے دن اور اپنے شوق یاد ہیں؟
جواب۔ہر انسان کا بچپن اُس کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے ۔ دوسرے بچوں کی نسبت زیادہ کھیل کود میں دلچسی رکھتی تھی۔ کھیلوں کی کمنٹری کرنا ہر کھیل پر دسترس حاصل کرنا بہت پسند تھا۔ اس کے علاوہ بھی بہت سے شوق پالے ہوئے تھے۔ مٹی کے برتن بنانا ، تصویریں بنانا، سہیلیوں کو اکٹھا کر کے چھوٹے چھوٹے ڈرامے بنانا ، کردار بنانا ۔ بچپن میں عام بچوں کی طرح کے شوق تھے ۔ والدین اور بہن بھائیوں کے ساتھ گزرا ہوا وقت سب سے قیمتی لمحات ہوتے ہیں ۔ رنگوں سے کھیلتےگزرا ہے بچپن ۔
سوال۔ آپ کتنے بہن بھائی ہیں اور آپ کی اولاد؟
جواب۔ دو بہنیں اور دو بھائی ہیں۔ میں چاروں بہن بھائیوں میں سب سے بڑی ہوں اور اکلوتی اولاد میری بیٹی زخرف منال ہے۔
سوال۔ لکھنے کا آغاز کب اور کیسے ہوا؟
جواب۔سکول کے زمانے سے بچوں کی کہانیاں لکھتی تھی تو سکول ٹیچر اور حوصلہ افزائی کرتیں پھر کالج کے فرسٹ ایئر میں مینا بازار ہوا تو اردو کی استاد پروفیسر شاہدہ صاحبہ نے کہا فن فئیر کے پروگرام کا آنکھوں دیکھا حال لکھیں۔ساری کلاس میں 75 لڑکیاں تھیں جن میں سے میرا مضمون ٹیچر کو بہت پسند آیا مجھے انعام کے طور پر ٹیچر نے ایک کتاب دی۔ کالج کے چار سال کے دور میں ہر تقریب کا آنکھوں دیکھا حال کے ٹائٹل سے مضمون شائع ہوتے میرے نام سے۔ میری اردو کی استاد مجھے لکھنا سکھاتی تھی جہاں کمی ہوتی اس طرح پنجابی زبان لکھنا شروع کی پروفیسر مسز فاخرہ شجاع صاحبہ کی بدولت بہترین کھلاڑی بھی تھی اور سپورٹس ٹیچرز پروفیسر مسز مقدس شوکت صاحبہ اور مس خالدہ صاحبہ مجھے لکھنے کی وجہ سے کھیلوں کی رپورٹ اور سرگرمیاں میرے حصے میں آتیں۔
سوال۔اردو ادب کی کشش نے کب اور کیوں کر اپنی جانب مائل کیا؟
جواب ۔ اردو زبان ہماری قومی زبان ہے اور ہمیشہ ہر انسان اس تحاریر کی طرف توجہ دیتا ہے جسے وہ آسانی سے سمجھ سکتا ہے اردو ادب سے لگاؤ ہم سب کو پیدائش سے ہی شروع ہو جاتا ہے اور آہستہ آہستہ یہ کشش وقت کے ساتھ بڑھتی جاتی ہے کیوں کہ اردو ادب میں بہت وسعت ہے۔
سوال۔ کامیاب ادیب بننے کے لیے زندگی میں کیا کچھ کرنا پڑتا ہے؟
جواب۔ کامیاب ادیب بننے کے لیے ضروری ہے کہ اپنے مایہ ناز ادیبوں کو پڑھا جائے لائبریری سے استفادہ ضرور حاصل کرنا چاہیے۔ محنت سے اردو ادب پر دسترس حاصل ہونی چاہیے۔ مطالعہ بہت وسیع ہونا چاہیے۔
سوال۔سیرت نگاری کی طرف کیسے مائل ہوئیں؟
جواب۔کالج کی لائبریری سے تاریخ کی کتب کا مطالعہ کرنے کا بہت تجسّس تھا اور اس طرح اسلام کی تاریخ پڑھتے پڑھتے کوئی ایسی شخصیت نہیں تھی جو ہمارے پیارے نبی حضرت محمد ﷺ سے بڑھ کر ہوتی کیوں کہ رسول پاک کی زندگی ایک فلسفہ حیات ہے ہمارے لئے اور نبی کریم ﷺکی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے میں ہی فلاح ہے۔
سوال۔سیرت نگاری کی کتاب رحمت دو عالم ﷺ لکھنے پر جو آپ کو عزت وشہرت ملی اس کا اظہار کن الفاظ میں کریں گی؟
جواب۔ سیرت النبیﷺ پر لکھنا میں اپنے لئے ایک اعزاز سمجھتی ہوں اور یہ میرا سب سے پہلا اور قابلِ فخر ایوارڈ ہے۔ مجھے بہت اچھا لگتا ہے جب میرے تعارف کے ساتھ بیان کیا جاتا ہے کہ نبیلہ اکبر جو ایک سیرت نگار ہیں یہ الفاظ سن کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتی ہوں۔2019ء میں سیرت النبی ﷺ پر لکھی کی کتاب پر مذہبی امور سیکرٹریٹ اسلام آباد سے دس ہزار کا انعام حوصلہ افزائی کا اس لیے ملا مقابلہ میں نثر پر میرے علاوہ کسی اور خاتون نے کتاب لکھی تو ہوگی لیکن مقابلہ میں نہیں بھیجی تھی تو حوصلہ افزائی کا انعام ملا۔
سیرتِ طیبہ پر خواتین نے کم لکھا ہے مختلف ادبی تنظیموں کی طرف سے کافی سارے ایوارڈز حاصل کر چکی ہوں جن میں پھول میگزین ادب اطفال ایوارڈ ہے، اپووا ایوارڈ ، جواز جعفری ایوارڈ ، الوکیل کتاب ایوارڈ حاصل پور ،ایف جے رائٹرز ایوارڈ اور بھی بے شمار ایوارڈز ہیں۔
سوال۔ ناول افسانے ڈرامے اور شاعری میں سے کس صنف کو آپ سب سے زیادہ افضل سمجھتی ہیں؟
جواب۔ تمام اصناف کی اپنی اہمیت ہے لیکن نثر مجھے پسند ہے کیوں کہ اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کے لیے سب سے آسان طریقہ ہے نثر کے ذریعے نثری صنف میں افسانہ آسان فہم لگتا ہے۔
سوال۔ خواتین تخلیق کا سر چشمہ ہیں مگر ہمارے ادب میں خواتین اہل قلم کی تعداد بہت کم ہے اس کی وجہ کیا ہے؟
جواب۔ جی بالکل خواتین تخلیق کا سر چشمہ ہیں لیکن خواتین کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے جس وجہ سے ہمارے اردو ادب میں خواتین بہت کم ہیں مواقع بھی کم فراہم کیے جاتے ہیں مختلف وجوہات بھی آڑے آتی ہیں۔
سوال۔ کیا آپ اپنی ادبی سرگرمیوں اور غیر ادبی سرگرمیوں سے مطمئن ہیں؟
جواب۔ ادیب چاہیے وہ مرد ہو یا عورت تمام عمر اچھے سے اچھا تخلیق کرنے کی کوشش کرتا ہے میرا خیال ہے کوئی بھی ایسا نہیں کہے گا کہ وہ اپنے اس کام سے مطمئن ہے اور یہ ادبی و غیر ادبی سرگرمیوں دونوں کے لیے ایک جیسے خیالات ہیں۔
سوال۔ کیا ہم کسی ادیب کی تحریر کو اس کی ذاتی زندگی سے الگ کر کے دیکھ سکتے ہیں؟
جواب۔ میرے خیال سے ذاتی زندگی سے بالاتر ہوکر دیکھنا چاہیے تاکہ ہم ادیب کی تخلیقی صلاحیتوں سے بھر پور استفادہ حاصل کر سکیں۔
سوال۔تخلیقی عمل کی پیش رفت کے لیے تنقیدی عمل کیوں ضروری ہے؟
جواب۔ تخلیقی عمل کے لیے تنقیدی عمل بہت ضروری ہے کیوں کہ جب تک تخلیق پر تنقیدی نگاہ نہیں ہو گی تو ادب میں نکھار کیسے پیدا ہو گا لگن کیسے پیدا ہو گی مزید کچھ بہتر سے بہتر کرنے کی اور یہ کام ہمارے سینئر ادیبوں اور نئے تخلیق کاروں کے لیے مکالمہ ہونا چاہیے نئے ادیبوں کے لیے مواقع فراہم کرنے چاہیے۔
سوال۔کیا آج کا ادیب اپنے فرائض پورے کر رہا ہے؟
جواب۔ میرے خیال سے اچھا ادب مثبت اثرات قارئین کی سوچ پر ثبت کرے ہمارے دور حاضر کے ادیب کسی حد تک کوشش کر رہے ہیں۔
سوال۔ آپ کو کن شعرائےکرام کا کلام پسند ہے؟
جواب۔ حضرت بلے شاہ میاں محمد بخش حضرت سخی سلطان باہو اقبال حبیب جالب احمد فراز فیض احمد فیض پروین شاکر اور بہت سے شعرائے کرام کا کلام پسند ہے لیکن میرے پسندیدہ شاعر محسن نقوی ہیں۔
سوال۔ آپ کی پسندیدہ کتاب اور پسندیدہ شخصیت؟
جواب۔ میری پسندیدہ کتاب بحثیت مسلمان قرآن کریم ہی ہے۔ بہت سی کتابیں پسند ہیں لیکن اپنے دور کی ایف اے کی اردو کی کتاب مجھے بہت پسند تھی اور آج بھی ہے۔ میری پسندیدہ شخصیت ہمارے پیغمبر حضرت محمدﷺ اور ان کے بعد دوسری شخصیت میری ماں ہے۔
سوال۔ نئے لکھنے والوں کے لیے کچھ کہنا چاہیں گی؟
جواب۔ سب سے پہلے تو مجھے خوشی ہے کہ آپ نے مجھے اس قابل سمجھا اور میں نے آپ کو اپنا انٹرویو قلم بند کروایا اور دوسری بات یہ کہ سینئر ادیب نئے لکھنے والوں کو برداشت کریں ان کی رہنمائی بھی کریں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment