نظم معذرت
اے مرے پیارے شاعر
مرے مسئلے کا کوئی حل بتا
میں نے بچپن سے اب تک لطافت سنی
اور لطافت پڑھی
داستانیں رقم اس کی جتنی ہوئیں
میں نے سب ہی پڑھیں
یہ بھی دیکھا کہ ہومر کی جنت کہاں کھو گئی
اور وہ رویا نہیں
میر کے غم کو جانا تو آنکھوں سے اشکوں لڑیاں اترنے لگیں
میں نے غالب کے ہر اک تخیل پہ برسوں تدبر کیا
راز کتنے تھے جو منکشف ہو گئے
اور کئی رہ گئے
میں نے اقبال و رومی کے نقش ِ قدم
ناپ کر دم بہ دم
روح کیا ہے؟ یہ سمجھا
تو مجھ پر خدا سے تعلق کھلا
روح مٹی میں شامل ہوئی کس طرح
مجھ کو جتنے بھی اعزاز بخشے گئے
مجھ پہ کھلتے گئے
کہکشائیں مری راہ کی دھول لگنے لگیں
......... پھر مجھے ایک دن
جب تری ماڈ،رن شاعری کی کتابیں ملیں
کیا بتاؤں، عجب کینوس جو بنا!
ہر غزل اک برہنہ طوائف کی مانند
گھنگرو پہن کر تھرکنے لگی
تیرے ہر مصرعے سے چھنا چھن، چھنا چھن،
دھما دھم، دھما دھم کی آواز آنے لگی
تب تری شاعری
اپنے بچوں سے مجھ کو چھپانا پڑی
تو نے جو کچھ لکھا
سب خدا کے اصولوں سے تھا ماوراء
تو نے جلدی سے مشہور ہونے میں کیا کر دیا!
آخرش ایک دن
ایک نقّاد کانوں کو چھو کر یہ کہنے لگا:
"شاعری پر بہت ہی کڑا وقت ہے
..... اک برا وقت ہے"
کیا کہوں جینز کے چاک تک تو نے گنوا دیے
شاعری میں تو بند قبا لے کے آیا
علاوہ ازیں....
تو نے وہ تک لکھا ہے جو کہنے کے قابل نہیں
سو، مرے شاعرِ محترم، معذرت
تیری جدت بھری شاعری کی برہنہ کتابیں
مرے گھر میں رکھنے کے قابل نہیں !
اس لیے معذرت،
اور بہت معذرت
(صغیر احمد صغیر).
No comments:
Post a Comment