Tuesday, March 19, 2024

رحمت اللعالمین ( شکیل عادل مظفرگڑھ )

 





""رحمت اللعالمین"" 


اِک خطا کے کرنے سے*

اس زمیں پر آنے تک* 

داستان ادھوری  تھی*

ربّنا ظُلّمنا کا وِرد آزمانے سے*

دل سکون پانے تک* 

داستاں ادھوری تھی* 

آگ تو جلاتی ہے، کچھ بھی ہو، کسی کا ہو* 

داستان ایسی بھی اس جہاں میں گزری ہے* 

ظُلمتوں کے داعی نے ایک ابنِ آدم کو* 

آگ میں یوں پھینکا تھا کہ جل کے راکھ ہو جائے* 

پردہکتی آتش کو گلستاں بنانے سے* 

ایک پیارے انساں کی* 

زندگی بچانے تک* 

داستاں ادھوری تھی* 

رنگ و نور گوندھ کر* 

اک شبیہ بنا کے پھر* 

اک زمانے کو شبیہ کا گرویدہ کیا گیا* 

اوجھل کرکے آنکھوں سے* 

پیار کرنے والے کو رنجیدہ کیا گیا* 

دن رات حسد کی آگ میں* 

سارے بھائی جلتے تھے* 

سانپ تو نہیں تھے پر آستیں میں پلتے تھے* 

سب نے پھر بھلا ڈالا خون کی حرارت کو* 

بھائی کنویں میں ڈال کر ڈس لیا محبت کو* 

نکال کر کوئیں سے پھر* 

اُس حسینِ اعظم کو* 

مصر میں بیچا گیا* 

پھر اُسی غلام کو خواب کی تعبیر دی* 

مصر کی جاگیر دی* 

وہ بھی ختم ہو گئی باپ اور بیٹے میں* 

سالوں سے جو دوری تھی* 

لیکن اس کے باوجود* 

داستاں ادھوری تھی * 

ایک وقت ایسا بھی اس جہاں میں آیا تھا* 

جب کہ شہر سارا ہی خوف کے اثر میں تھا* 

حکم تھا یہ حاکم کا* 

کوکھ میں ہو جو بچّہ*  

خواہ کسی کے گھر میں ہو* 

قتل کر دیا جائے* 

اِن دنوں ہی اک بچہ اِس جہاں پہ لانے سے* 

بادشاہ کے محلوں میں پرورش پانے تک* 

داستان ادھوری تھی* 

داستاں کے زُمرے میں ایک قصّہ یوں بھی تھا*  

باٹ کے بِنا جیسے جنس کوئی تُل جائے* 

جیسے کوئی دروازہ اپنے آپ کو کھُل جائے* 

ماں کی بے گُناہی کی گود سے گواہی دے* 

کوڑھ کے مریضوں کوایک دم شفا بھی دے* 

اور کوئی مر جائے اُس کو اِذنِ ربّی سے* 

نئی دےکے زندگی موت سے اُٹھا بھی دے* 

اب تو لگ رہا تھا یوں* 

کہ یہ ہی وہ کہانی تھی جو ہر طرح سے پوری تھی* 

پھر بھی جانے کیوں آخر* 

داستاں ادھوری تھی* 

پھر جہاں نے دیکھا کہ* 

جاہلوں کی اک بستی* 

تھی لہو میں تر بتر* 

سود تھا شراب تھی* 

دشمنی تھی ہر طرف دوستی سراب تھی* 

الغرض کے بستی میں زندگی عذاب تھی* 

شوق سے وہ بیٹوں کی ہر خوشی مناتے تھے* 

بیٹیوں کو زندہ ہی دفن کرتے جاتے تھے* 

اندھیرا ہی اندھیرا تھا روشنی سے دوری تھی* 

یہ داستاں ادھوری تھی* 

ظلمتوں کے صحرا کو نور کی ضرورت تھی*

پاش پاش کرنا تھا ہاں اسے جو ہر دل میں* 

خواہشوں کی مورت تھی*  

اور ایسا ہو جائے اُس کی ایک صورت تھی*

کہ داستان وہ پوری ہو جواب تلک ادھوری تھی*

 پھر انہیں ؐ یوں سرزمینِ جبر پر لایا گیا* 

رحمت اللعالمین کا تاج پہنایا گیا* 

تعریف میں رطبُ الّسان ہر کوئی آیا گیا* 

اک اشارہ کردیا تو شمس لوٹایا گیا* 

پتھروں سے حق کا کلمہ سب کو سنوایا گیا* 

پھر وہاں سے خوف کا، جبر کا، شرک کا، سایہ گیا* 

حُسن کی وہ روشنی تھی ہر طرف پھیلی ہوئی* 

لگ رہی تھی چاند کی بھی روشنی میلی ہوئی* 

ڈوبتی ہر ایک کشتی کا نبیؐ ساحل ہوا* 

داستاں پوری ہوئی اور دین بھی کامل ہوا* 


    ""شکیل عادل"

No comments:

Post a Comment