""رحمت اللعالمین""
اِک خطا کے کرنے سے*
اس زمیں پر آنے تک*
داستان ادھوری تھی*
ربّنا ظُلّمنا کا وِرد آزمانے سے*
دل سکون پانے تک*
داستاں ادھوری تھی*
آگ تو جلاتی ہے، کچھ بھی ہو، کسی کا ہو*
داستان ایسی بھی اس جہاں میں گزری ہے*
ظُلمتوں کے داعی نے ایک ابنِ آدم کو*
آگ میں یوں پھینکا تھا کہ جل کے راکھ ہو جائے*
پردہکتی آتش کو گلستاں بنانے سے*
ایک پیارے انساں کی*
زندگی بچانے تک*
داستاں ادھوری تھی*
رنگ و نور گوندھ کر*
اک شبیہ بنا کے پھر*
اک زمانے کو شبیہ کا گرویدہ کیا گیا*
اوجھل کرکے آنکھوں سے*
پیار کرنے والے کو رنجیدہ کیا گیا*
دن رات حسد کی آگ میں*
سارے بھائی جلتے تھے*
سانپ تو نہیں تھے پر آستیں میں پلتے تھے*
سب نے پھر بھلا ڈالا خون کی حرارت کو*
بھائی کنویں میں ڈال کر ڈس لیا محبت کو*
نکال کر کوئیں سے پھر*
اُس حسینِ اعظم کو*
مصر میں بیچا گیا*
پھر اُسی غلام کو خواب کی تعبیر دی*
مصر کی جاگیر دی*
وہ بھی ختم ہو گئی باپ اور بیٹے میں*
سالوں سے جو دوری تھی*
لیکن اس کے باوجود*
داستاں ادھوری تھی *
ایک وقت ایسا بھی اس جہاں میں آیا تھا*
جب کہ شہر سارا ہی خوف کے اثر میں تھا*
حکم تھا یہ حاکم کا*
کوکھ میں ہو جو بچّہ*
خواہ کسی کے گھر میں ہو*
قتل کر دیا جائے*
اِن دنوں ہی اک بچہ اِس جہاں پہ لانے سے*
بادشاہ کے محلوں میں پرورش پانے تک*
داستان ادھوری تھی*
داستاں کے زُمرے میں ایک قصّہ یوں بھی تھا*
باٹ کے بِنا جیسے جنس کوئی تُل جائے*
جیسے کوئی دروازہ اپنے آپ کو کھُل جائے*
ماں کی بے گُناہی کی گود سے گواہی دے*
کوڑھ کے مریضوں کوایک دم شفا بھی دے*
اور کوئی مر جائے اُس کو اِذنِ ربّی سے*
نئی دےکے زندگی موت سے اُٹھا بھی دے*
اب تو لگ رہا تھا یوں*
کہ یہ ہی وہ کہانی تھی جو ہر طرح سے پوری تھی*
پھر بھی جانے کیوں آخر*
داستاں ادھوری تھی*
پھر جہاں نے دیکھا کہ*
جاہلوں کی اک بستی*
تھی لہو میں تر بتر*
سود تھا شراب تھی*
دشمنی تھی ہر طرف دوستی سراب تھی*
الغرض کے بستی میں زندگی عذاب تھی*
شوق سے وہ بیٹوں کی ہر خوشی مناتے تھے*
بیٹیوں کو زندہ ہی دفن کرتے جاتے تھے*
اندھیرا ہی اندھیرا تھا روشنی سے دوری تھی*
یہ داستاں ادھوری تھی*
ظلمتوں کے صحرا کو نور کی ضرورت تھی*
پاش پاش کرنا تھا ہاں اسے جو ہر دل میں*
خواہشوں کی مورت تھی*
اور ایسا ہو جائے اُس کی ایک صورت تھی*
کہ داستان وہ پوری ہو جواب تلک ادھوری تھی*
پھر انہیں ؐ یوں سرزمینِ جبر پر لایا گیا*
رحمت اللعالمین کا تاج پہنایا گیا*
تعریف میں رطبُ الّسان ہر کوئی آیا گیا*
اک اشارہ کردیا تو شمس لوٹایا گیا*
پتھروں سے حق کا کلمہ سب کو سنوایا گیا*
پھر وہاں سے خوف کا، جبر کا، شرک کا، سایہ گیا*
حُسن کی وہ روشنی تھی ہر طرف پھیلی ہوئی*
لگ رہی تھی چاند کی بھی روشنی میلی ہوئی*
ڈوبتی ہر ایک کشتی کا نبیؐ ساحل ہوا*
داستاں پوری ہوئی اور دین بھی کامل ہوا*
""شکیل عادل"
No comments:
Post a Comment