Tuesday, February 28, 2023

عبدالستار ایدھی ( یوم پیدائش 28 فروری 1928

 آج معروف سماجی کارکن عبد الستار ایدھی کا یوم پیدائش ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


عبدالستار ایدھی 28 فروری 1928ء میں بھارت کی ریاست گجرات کے شہر بانٹوا میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد کپڑےکے تاجر تھے جو متوسط طبقہ سے تعلق رکھتے تھے۔ وہ پیدائشی لیڈر تھے اور شروع سے ہی اپنے دوستوں کے چھوٹے چھوٹے کام اور کھیل تماشے کرنے پر حوصلہ افزائی کرتے تھے۔ جب انکی ماں ان کو اسکول جاتے وقت دو پیسے دیتی تھی تو وہ ان میں سے ایک پیسا خرچ کر لیتے تھے اور ایک پیسا کسی اور ضرورت مند کی ضرورت پوری کرنے کے لیے۔ گیارہ سال کی عمر میں انہوں نے اپنی ماں کی دیکھ بھال کا کام سنبھالا جو شدید قسم کے ذیابیطس میں مبتلا تھیں۔ چھوٹی عمر میں ہی انہوں نے اپنے سے پہلے دوسروں کی مدد کرنا سیکھ لیا تھا، جو آگے کی زندگی کے لیے کامیابی کی کنجی ثابت ہوئی۔


1947ء میں تقسیم ہند کے بعد ان کا خاندان بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان آیا اور کراچی میں آباد ہوئے۔ 1951ء میں آپ نے اپنی جمع پونجی سے ایک چھوٹی سی دکان خریدی اور اسی دکان میں آپ نے ایک ڈاکٹر کی مدد سے چھوٹی سی ڈسپنسری کھولی جنہوں نے ان کو طبی امداد کی بنیادی باتیں سکھائیں۔ اسکے علاوہ آپ نے یہاں اپنے دوستوں کو تدریس کی طرف بھی راغب کیا۔ آپ نے سادہ طرز زندگی اپنایا اور ڈسپنسری کے سامنے بنچ پر ہی سو لیتے تاکہ بوقت ضرورت فوری طور پر مدد کو پہنچ سکیں۔


1957ء میں کراچی میں بہت بڑے پیمانے پر فلو کی وبا پھیلی جس پر ایدھی نے فوری طور پر رد عمل کیا۔ انہوں نے شہر کے نواح میں خیمے لگواۓ اور مفت مدافعتی ادویہ فراہم کیں۔ مخیر حضرات نے انکی دل کھول کر مدد کی اور ان کے کاموں کو دیکھتے ہوئے باقی پاکستان نے بھی۔ امدادی رقم سے انہوں نے وہ پوری عمارت خرید لی جہاں ڈسپنسری تھی اور وہاں ایک زچگی کے لیے سنٹر اور نرسوں کی تربیت کے لیے اسکول کھول لیا، اور یہی ایدھی فاؤنڈیشن کا آغاز تھا۔


آنے والوں سالوں میں ایدھی فاؤنڈیشن پاکستان کے باقی علاقوں تک بھی پھیلتی گئی۔ فلو کی وبا کے بعد ایک کاروباری شخصیت نے ایدھی کو کافی بڑی رقم کی امداد دی جس سے انہوں نے ایک ایمبولینس خریدی جس کو وہ خود چلاتے تھے۔ آج ایدھی فاؤنڈیشن کے پاس600 سے زیادہ ایمبولینسیں ہیں، جو ملک کے طول و عرض میں پھیلی ہوئیں ہیں۔ کراچی اور اندرون سندھ میں امداد کے لیے وہ خود روانہ ہوتے ہیں اور ایدھی فاؤنڈیشن کی حادثات پر ردعمل میں رفتار اور خدمات میونسپل کی خدمات سے کہیں زیادہ تیز اور بہتر ہے۔ ہسپتال اور ایمبولینس خدمات کے علاوہ ایدھی فاؤنڈیشن نے کلینک، زچگی گھر، پاگل خانے، معذوروں کے لیے گھر، بلڈ بنک، یتیم خانے، لاوارث بچوں کو گود لینے کے مراکز، پناہ گاہیں اور اسکول کھولے ہیں۔ اسکے علاوہ یہ فاونڈیشن نرسنگ اور گھر داری کے کورس بھی کرواتی ہے۔ ایدھی مراکز کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ ہر ایدھی مرکز کے باہر بچہ گاڑی کا اہتمام ہے تا کہ جو عورت بچے کی دیکھ بھال نہیں کر سکتی اپنے بچے کو یہاں چھوڑ کر جا سکے۔ اس بچے کو ایدھی فاونڈشن اپنے یتیم خانہ میں پناہ دیتی ہے اور اس کو مفت تعلیم دی جاتی ہے۔


عبدالستار ایدھی صاحب کو بہت سے بین الاقوامی اعزازات سے نواز گیا۔


1986ء عوامی خدمات میں رامون مگسےسے اعزاز Ramon Magsaysay Award


1988ء لینن امن انعام lenin peace prize[5]


1992ء پال ہیریس فیلو روٹری انٹرنیشنل فاونڈیشن Paul Harris Fellow RotaryInternational Foundation 


دنیا کی سب سے بڑی رضاکارانہ ایمبولینس سروس - گینیز بک ورلڈ ریکارڈز (2000)

ہمدان اعزاز برائے عمومی طبی خدمات 2000ء متحدہ عرب امارات 


بین الاقوامی بلزان اعزاز 2000ء برائے انسانیت، امن و بھائی چارہ، اطالیہ 


انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کراچی کی جانب سے اعزازی ڈاکٹریٹ ڈگری (2006)

یونیسکو مدنجیت سنگھ اعزاز 2009ء 


احمدیہ مسلم امن اعزاز (2010)


قومی اعزازات مندرجہ زیل ہیں۔

 

کالج آف فزیشنز اینڈ سرجنز پاکستان کی طرف سے سلور جوبلی شیلڈ (1962–1987) 

حکومت سندھ کی جانب سے سماجی خدمتگزار برائے بر صغیر کا اعزاز (1989) 


نشان امتیاز، حکومت پاکستان کا ایک اعلیٰ اعزاز (1989) 


حکومت پاکستان کے محمکہ صحت اور سماجی بہبود کی جانب سے بہترین خدمات کا اعزاز (1989) 

پاکستان سوک سوسائٹی کی جانب سے پاکستان سوک اعزاز (1992) 

پاک فوج کی جانب سے اعزازی شیلڈ 

پاکستان اکیڈمی آف میڈیکل سائنسز کی جانب سے اعزازِ خدمت 

پاکستانی انسانی حقوق معاشرہ کی طرف سے انسانسی حقوق اعزاز 

26 مارچ 2005ء عالمی میمن تنظیم کی جانب سے لائف ٹائم اچیومنٹ اعزاز (Life Time Achievement Award)


عبدالستار ایدھی 8 جولائی 2016ء کو گردوں کے فیل ہونے کی وجہ سے 88 سال کی عمر میں رحلت کرگئے۔

 پاکستان نے ان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں مکمل سرکاری اعزاز کے ساتھ انیس توپوں کی سلامی دی۔ ان کی میت کو گن کیرج وہیکل کے ذریعے جنازہ گاہ لایا گیا۔


انہوں نے وفات سے قبل یہ وصیت کی تھی کہ ان کے دونوں آنکھیں ضرورت مندوں کو عطیہ کر دی جائیں


انتخاب : فریدہ خانم کلام : حضرت واصف علی واصف رح

 علی کے فیض سے لاہور روشن

علی کے دم سے اجمیری نشاں ہے 


علی کا نام ہے کلئیر میں صابر 

علی سے خسروِ شیریں بیاں ہے


علی کا ہی “نظامِ دہلوی “ ہے

 علی کی ”لاٹ“ ہی  “قطبی  نشاں“ ہے 


علی خواجہ فرید الدیں کی منزل

 علی پاکِ پتن کی جانِ جاں  ہے


علی کے نام سے مولائے رومی 

 علی تبریز کا سرِ  نہاں ہے


علی کا  فقر ہے فخرِ محمدؐ

علی لحمک لحمی جسم و جاں ہے 


علی ہے کاشفِ رازِ حقیقت

علی وحدت میں اک کثرت نہاں ہے


علی ہے شارح ِ شانِ نبوت

 علی کا نام ہی حُسنِ بیاں  ہے


علی ہے مرکزِ  پرکارِ ہستی

علی جب بھی جہاں ہے درمیاں ہے

 

علی سے اولیاء کی زندگی ہے

 علی کی ذات ہی روحِ رواں ہے 


علی  کی یاد ہے واصف علی کو

 علی خود اس زمیں کا آسماں ہَے! 


سرکار حضرت واصف علی واصف رح


ساتویں خانہ مردم شماری کا آغاز

 


 

پاکستان بھر میں ساتویں خانہ و مردم شماری کا آغاز یکم مارچ 2023 سے ہو رہا ہے۔ پاکستان میں یہ پہلی ڈیجیٹل مردم شماری ہو رہی ہے جو کہ  TABs کے ذریعے ہو گی۔ 

پہلے تین دن *لسٹنگ* کا کام ہو  گا جس میں عمارتوں کو نمبرز لگائے جائیں گے اور چند بنیادی انفارمیشن معلوم کی جائے گی۔

1: *گھر کے سربراہ کا نام* 

2: *سربراہ کا موبائل نمبر* 

3: *گھریلو معاشی سرگرمی*


اس کے بعد Enumeration کا عمل شروع ہو جائے گا جس میں ہر گھر سے اس کی تمام معلومات لی جائیں گی ۔۔۔

 *لہذا عوم الناس سے گزارش ہے کہ مندرجہ ذیل معلومات کو کسی کاغذ پر خوب صورتی سے لکھ لیں تاکہ آپ کو  مردم شماری کے عملے کے سوالات کے جوابات کے لیے کسی قسم کی دشواری کا سامنا نہ ہو۔۔۔*

اور عملے کا قیمتی وقت بھی ضائع نہ ہو۔۔۔


ہر گھر سے تین قسم کی معلومات لی جائیں گی جن میں

گھر کے افراد کی معلومات، گھر کی عمارت سے متعلقہ معلومات، جواب دہندہ سے متعلقہ معلومات


*گھر کے افراد سے متعلقہ معلومات* 

1: گھر کے تمام افراد کے نام اور ان کا سربراہ کے ساتھ رشتہ (جو افراد کسی  سرکاری و پرائیویٹ  نوکری یا  کاروبار کے سلسلے میں 6ماہ سے گھر سے باہر رہ رہے ہوں تو ان کا اندارج ادھر گھر میں نہ ہو گا اور نہ ہی وہ گھر کے سربراہ شمار کیے جائیں گے)

2:تمام افراد کی عمریں سالوں میں (عمر جتنے سال  مکمل ہو چکی ہے)

3: جنس 

4: ازدواجی حیثیت

5: مذہب

6: مادری زبان

7: قومیت (ملک کا نام جس کا شہری ہے)

8: پڑھا لکھا/ ان پڑھ

9: تعلیمی قابلیت (جو جماعتیں پاس کر چکا ہے)

10: ذریعہ آمدن

11: کام جو کر رہا ہے (ملازمت، کاروبار، زراعت یا پینشن وغیرہ)

12: نقل مکانی

13: پیدائش کا ضلع

14: موجوہ ضلع میں کتنے عرصہ سے رہائش پذیر

15: دیکھنے، سننے، چلنے یا بولنے میں مشکلات


*گھر کی عمارت سے متعلقہ معلومات*

1:گھر کی ملکیت

2:گھر کے مالک کی جنس

3:کمروں کی تعداد (جانوروں اور بھوسے والا کمرہ شمار نہ ہو گا) 

4: گھر کی تعمیر کا عرصہ

5: گھر کی دیواروں کی ساخت

6: گھر کی چھت کی ساخت

7: باورچی خانے کی سہولت

8:کھانا پکانے کا ذریعہ

9: پینے کے پانی کا ذریعہ

10: روشنی کا ذریعہ

11: غسل خانہ

12: بیت الخلاء

13: بیت الخلاء کی نوعیت

14: ذرائع ابلاغ

15: بیرون ملک مقیم گھر کے افراد


*جواب دہندہ سے متعلقہ معلومات* 

1:جواب دہندہ کا نام

2:ولدیت

کلیم عثمانی ( ہے اگرجہ شہر میں اپنی شناسائی بہت )


 ہے اگرچہ شہر میں اپنی شناسائی بہت

پھر بھی رہتا ہے ہمیں احساس تنہائی بہت


کلیم عثمانی


نام:احتشام الہٰی

قلمی نام:کلیم عثمانی

پیدائش:28 فروری 1928ء

          دیوبند، سہارنپور، برطانوی ہندستان

وفات:28 اگست 2000ء

         لاہور، پاکستان

زبان:اردو

نسل:مہاجر قوم

شہریت:پاکستانی

اصناف:فلمی نغمہ نگاری

نمایاں کام:ماہ حرا

            دیوار حرف

اہم اعزازات

       نگار ایوارڈ


 کلیم عثمانی  پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو کے ممتاز شاعر اور ملی و فلمی نغمہ نگار ہیں، جو اپنے گیت تیرا سایا جہاں بھی ہو سجنا، پلکیں بچھا دوں، ملی نغمہ اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں اور یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔

حالات زندگی

۔۔۔۔۔۔۔

 کلیم عثمانی 28 فروری، 1928ء کو دیوبند، سہارنپور، برطانوی ہندستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نا م احتشام الہٰی تھا۔ ان کے خاندان کا تعلق مولانا شبیر احمد عثمانی سے جا ملتا ہے۔ کلیم عثمانی کو بچپن سے ہی شاعری کا شوق تھا۔ والد فضل الہٰی بیکل بھی اپنے زمانے کے اچھے شاعر تھے۔ شروع میں والد سے شاعری میں اصلاح لی۔1947ء میں ان کا خاندان ہجرت کر کے لاہور منتقل ہو گیا۔ کلیم عثمانی نے یہاں احسان دانش کی شاگردی اختیار کی۔ ان کی آواز میں ترنم تھا اس لیے مشاعروں میں انہیں خوب داد ملتی تھی۔ پھر انہوں نے فلمی نغمہ نگاری کے میدان میں قدم رکھا۔ سب سے پہلے انہوں نے 1955ء میں فلم انتخاب کے گیت تحریر کیے اس فلم کی موسیقی فیروز نظامی نے مرتب کی تھی۔ اس کے بعد انہوں نے ہمایوں مرزا کی فلموں بڑا آدمی، راز، دھوپ چھاؤں کے نغمے لکھے۔ فلم راز کے لیے تحریر کردہ ان کا نغمہ میٹھی میٹھی بتیوں سے جیا نہ جلا بے مقبول ہوا۔ یہ نغمہ زبیدہ خانم نے گایاتھا اور اس کی موسیقی فیروز نظامی نے ترتیب دی تھی۔

 1966ء میں فلم ہم دونوں میں ان کی غزل ان کی نظروں سے محبت کا جو پیغام ملا نے ان کی شہرت کو بام عروج پر پہنچادیا۔ یہ گیت رونا لیلیٰ نے گایا تھا اور اس کی موسیقار نوشاد نے ترتیب دی تھی۔ بعد ازاں کلیم عثمانی لاہور منتقل ہو گئے جہاں انہوں نے متعدد فلموں میں مقبول گیت تحریر کیے جن میں ان کی اس زمانے کی فلموں میں عصمت، جوش انتقام، ایک مسافر ایک حسینہ، عندلیب، نازنین، دوستی، بندگی، نیند ہماری خواب تمہارے اور چراغ کہاں روشنی کے نام شامل ہیں۔ 1973ء میں انہوں نے فلم گھرانہ کے گیت تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا اور 1978ء میں فلم زندگی کے گیت تیرے سنگ دوستی ہم نہ چھوڑیں کبھی پر نگار ایوارڈ حاصل کیے۔ فلم فرض اور مامتا میں انہوں نے ایک ملی گیت اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں تحریر کیا۔ روبن گھوش کی موسیقی اور نیرہ نور اور ساتھیوں کی آواز میں گایا ہوا یہ گیت آج بھی بے حد مقبول ہے۔ اس کے علاوہ ان کا تحریر کردہ ایک اور ملی نغمہ یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے کا شمار بھی پاکستان کے مقبول ملی نغمات میں ہوتا ہے اور اسے مہدی حسن نے گایا۔

 کلیم عثمانی کی غزلیات کا مجموعہ دیوار حرف اور نعتیہ مجموعہ ماہ حرا کی نام سے شائع ہوا۔

مشہور نغمات

۔۔۔۔۔۔۔

اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں (فرض اور مامتا)

تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا (گھرانہ)

یہ وطن تمہارا ہے، تم ہو پاسباں اس کے

ان کی نظروں سے محبت کا جو پیغام ملا (ہم دونوں)

میٹھی میٹھی بتیوں سے جیا نہ جلا (راز)

پیار کر کے ہم بہت پچھتائے (عندلیب)

تیرے سنگ دوستی ہم نہ توڑیں کبھی (زندگی)

مستی میں جھومے فضا(نازنین)

تصانیف

۔۔۔۔۔۔

دیوار حرف (غزلیات)

ماہ حرا (نعتیہ مجموعہ)

اعزازات

۔۔۔۔۔۔۔

 کلیم عثمانی نے 1973ء میں انہوں نے فلم گھرانہ کے گیت تیرا سایہ جہاں بھی ہو سجنا اور 1978ء میں فلم زندگی کے گیت تیرے سنگ دوستی ہم نہ چھوڑیں کبھی پر نگار ایوارڈ حاصل کیے۔


نمونۂ کلام

۔۔۔۔۔۔

غزل

۔۔۔۔۔۔

ہے اگرچہ شہر میں اپنی شناسائی بہت

پھر بھی رہتا ہے ہمیں احساسِ تنہائی بہت

اب یہ سوچا ہے کہ اپنی ذات میں سمٹے رہیں

ہم نے کرکے دیکھ لی سب سے شناسائی بہت

منہ چھپا کر آستین میں دیر تک روتے رہے

رات ڈھلتی چاندنی میں اس کی یاد آئی بہت

اپنا سایہ بھی جدا لگتا ہے اپنی ذات سے

ہم نے اس سے دل لگانے کی سزا پائی بہت

آئینہ بن کے وہ صورت سامنے جب آئی

عکس اپنا دیکھ کر مجھ کو ہنسی آئی بہت

میں تو جھونکا تھا اسیرِ دام کیا ہوتا کلیم

اس نے زلفوں کی مجھے زنجیر پہنائی بہت


غزل

۔۔۔۔۔۔

رات پھیلی ہے تیرے ، سرمئی آنچل کی طرح

چاند نکلا ہے تجھے ڈھونڈنے ، پاگل کی طرح

خشک پتوں کی طرح ، لوگ اُڑے جاتے ہیں

شہر بھی اب تو نظر آتا ہے ، جنگل کی طرح

پھر خیالوں میں ترے قُرب کی خوشبو جاگی

پھر برسنے لگی آنکھیں مری ، بادل کی طرح

بے وفاؤں سے وفا کرکے ، گزاری ہے حیات

میں برستا رہا ویرانوں میں ، بادل کی طرح

وفات

۔۔۔۔۔۔

 کلیم عثمانی 28 اگست، 2000ء کو لاہور، پاکستان میں وفات پا گئے اور لاہور میں علامہ اقبال ٹاؤن میں کریم بلاک کے قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے۔

اعظم توقیر ( تو ہے اک خواب مگر خواب سے نکلوں کیسے )


 غزل۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تُو ہے ا ِک خواب مگر خواب سے نکلوں کیسے

میں تری سوچ کے گرداب سے نکلوں کیسے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب نہ کشتی ہے نہ ملاح نہ پتوار کوئی

میں بھلا وقت کے  سیلاب سے نکلوں کیسے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یہ  مری  جنت ِ ارضی ہے،بھروسہ ہے مرا

میں جو چاہوں بھی توپنجاب سے نکلوں کیسے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زندگی ساتھ  گزاری ہے سو اب کے صاحب

چاہے جیسے بھی ہیں  احباب سے نکلوں کیسے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تری یادیں ہی وراثت میں ملی ہیں مجھ کو

تری یادوں کے حسیں باب  سے نکلوں کیسے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہائے وہ گیسو،ترے شانوں پہ بکھرے گیسو

ریشم و اطلس و کم خواب سے نکلوں کیسے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اعظم توقیر

Monday, February 27, 2023

طریقہ واردات : حسنات یاسین ایک نہایت شاطر اور ماہر چور نے چوری کی خاطر

 انتخاب

"طریقہ واردات"

 

ایک نہایت شاطر اور ماہر چور نے چوری کی خاطر، مہنگا لباس زیب تن کرکے معزز اور محترم دکھائی دینے والے شیخ جیسا حلیہ بنایا اور صرافہ بازار میں سنار کی ایک دکان کے اندر چلا گیا۔ 


سنار نے جب اپنی دکان میں وضع قطع سے نہایت ہی رئیس اور محترم دکھائی دینے والے شیخ کو دیکھا جس کا نورانی چہرہ چمک رہا تھا، تو سنار کو ایسا لگا جیسے اس کی دکان کے بھاگ جاگ اٹھے ہوں۔ اسے پہلی بار اپنی چھوٹی سی دکان کی عزت و وقار میں اضافے کا احساس ہوا۔ سنار نے آگے بڑھ کر شیخ کا استقبال کیا۔

 

شیخ کے بہروپ میں چور نے کہا، "آپ سے آج خریداری تو ضرور ہوگی مگر اس سے پہلے بتائیں، کیا آپ کے لیئے ممکن ہے کہ آپ اپنی سخاوت سے ہمارے ساتھ مسجد بنانے میں حصہ ڈالیں؟ اس نیک کام میں آپ کا حصہ خواہ ایک درہم ہی کیوں نہ ہو۔"


سنار نے چند درہم شیخ کے حوالے کئے ہی تھے کہ اسی اثناء میں ایک لڑکی جو درحقیقت چور کی ساتھی تھی، دکان میں داخل ہوئی اور سیدھی شیخ کے پاس جاکر اس کے ہاتھوں کو بوسہ دیا، اور التجائیہ لہجے میں اپنے اور اپنے اہل و عیال کے لیئے خیر و برکت کی دعا کے لیئے کہا۔


سنار نے جب یہ منظر دیکھا تو اس سے رہا نہ گیا اور معذرت خواہانہ لہجے میں کہنے لگا، "اے محترم شیخ لاعلمی کی معافی چاہتا ہوں مگر میں نے آپ کو پہچانا نہیں ہے؟" 


لڑکی نے یہ سن کر تعجب کا اظہار کیا اور سنار سے مخاطب ہوکر کہنے لگی، "تم کیسے بدنصیب انسان ہو، برکت، علم، فضل اور رزق کا سبب خود چل کر تمھارے پاس آگیا ہے اور تم اسے پہچاننے سے قاصر ہو۔" لڑکی نے شیخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ "یہ فلاں علاقے کے مشہور و معروف شیخ ہیں، جنہیں خدا نے،  کثرت علم، دولت کی فروانی اور ہر قسم کی دنیاوی نعمتوں سے مالا مال کر رکھا ہے۔ انہیں انسانوں کے بھلے کے سوا کسی چیز کی حاجت نہیں ہے۔ لوگ ان کی ایک جھلک دیکھنے کے لیئے بیتاب رہتے ہیں۔"


 سنار نے شیخ سے معافی مانگتے ہوئے کہا کہ، "شیخ صاحب میں معافی کا طلبگار ہوں، میرا سارا وقت اس دکان میں گزرتا ہے اور باہر کی دنیا سے بےخبر رہتا ہوں،  اس لیئے اپنی جہالت کی وجہ سے آپ جیسی برگزیدہ ہستی کو نہ پہچان پایا۔"

 

شیخ نے سنار سے کہا، "کوئی بات نہیں انسان خطا کا پتلا ہے، غلطی پر نادم ہونے والا شخص خدا کو بہت پسند ہے۔ تم ایسا کرو ابھی میرا یہ رومال لے لو اور سات دن اس سے اپنا چہرہ پونچھتے رہو، سات دنوں کے بعد یہ رومال تمہارے لیئے ایسی برکت اور ایسا رزق لے آئے گا جہاں سے تمہیں توقع بھی نہ ہو گی۔"

 

جوہری نے پورے ادب و احترام کے ساتھ رومال لیا، اسے بوسہ دیا، آنکھوں کو لگایا، اور اپنا چہرہ پونچھا، تو ایسا کرتے ہی وہ بےہوش ہو کر گرا۔ اس کے گرتے ہی شیخ اور اس کی دوست لڑکی نے سنار کی دوکان کو لوٹا اور وہاں سے فوراً رفو چکر ہوگئے۔


اس واقعے کو جب چار، پانچ سال گزر گئے اور سنار رو-دھو کر اپنا نقصان بھول چکا تھا۔ تو ایک دن پولیس کی وردی میں ملبوس دو اہلکار سنار کی دکان پر آئے، ان کے ساتھ وہی چور "شیخ" تھا جس کو  ہتھکڑیاں لگی ہوئی تھیں۔ سنار اسے دیکھتے ہی پہچان گیا۔


ایک پولیس والا سنار کے پاس آکر پوچھنے لگا، "کیا آپ اس چور کو جانتے ہیں؟ کیونکہ آپ کی گواہی سے ہی قاضی اسے سزا سنا سکتا ہے۔" 


سنار نے کہا، "کیوں نہیں اس نے فلاں فلاں طریقہ واردات سے مجھے بےہوش کرکے میری دکان لوٹ لی تھی۔"


پولیس والا شیخ کے پاس گیا اور اس کی ہتھکڑی کو کھولتے ہوئے کہنے لگا، "تم نے جس طرح دکان لوٹنے کا جرم کیا تھا، ٹھیک اسی طرح وہ ساری کارروائی دہراؤ تاکہ ہم طریقہ واردات کو لکھ کر گواہ سمیت قاضی کے سامنے پیش کرکے تم پر فرد جرم عائد کروا سکیں۔" 


شیخ نے بتایا کہ، "میں اس اس طرح داخل ہوا اور یہ کہا، اور میری مددگار لڑکی آئی اس نے فلاں فلاں بات کی، پھر میں نے رومال نکال کر دکاندار کو دیا۔"

پولیس والے نے جیب سے ایک رومال نکال کر شیخ کو تھمایا، شیخ نے سنار کے پاس جاکر اسی طریقے سے اسے رومال پیش کیا تو پولیس والا سنار سے کہنے لگا، "جناب آپ بالکل ٹھیک اسی طریقے سے رومال کو چہرے پر پھیریں جیسے اس دن پھیرا تھا۔" 


سنار نے ایسا ہی کیا اور وہ پھر سے بےہوش ہوگیا۔  شیخ نے اپنے دوستوں کی مدد سے دوبارہ دکان لوٹ لی جنہوں نے پولیس والوں کا بھیس بدل رکھا تھا۔



عربی ادب سے ماخوذ قصہ۔۔۔


نائس ویلفئیر سوسائٹی ( فریدہ خانم )


 رپورٹ  :  فریدہ خانم   


"   نائس ویلفیئر سوسائٹی

 اورچلڈرن لائبریری کمپلیکس لاہور کے زیر انتظام خصوصی افراد کے عالمی دن پر میلہ کا انعقاد  "  .



 جس میں سپیشل سیکشن چلڈرن لائبریری کمپلیکس کے علاوہ سپیشل ایجوکیشن کے مختلف اداروں اور سکولوں کےسینکڑوں بچوں نے شرکت کی۔  مختلف آئٹمز اور پروگرامز پیش کیے گئے , جن میں  تلاوت، نعت، قومی ترانہ، ملی نغمے، ٹیبلو اور دیگر پروگرامز شامل تھے۔  بچوں نے اپنی خوبصورت پرفارمنس سے حاضرین محفل سے  داد حاصل کی۔

پروگرام کی صدارت چلڈرن لائبریر ی کمپلیکس کے پراجیکٹ ڈائریکٹر کی نمائندگی کرتے ہوئے ان کے ایڈمنسٹریٹو آفیسر میاں فرحان اظہار نے کی۔ دیگر معزز مہمانان گرامی میں ڈاکٹر صفیہ رحمان، محمد عباس اشرف سائیکالوجسٹ، محترمہ  ثناء عادل بخاری سپیچ تھراپسٹ سپیشل سیکشن  CLCاور ڈاکٹر نعمان پرویز خان ڈاکٹر آف فزیوتھراپی شامل تھے۔

سپیشل ایجوکیشن کے جن اداروں نے اس پروگرام میں شرکت کی, ان میں  ارورہ انٹرنیشنل سکول،  ٹی ایس اے سپیشل ایجوکیشن سکول پاکستان،  فلاح فاونڈیشن،   FORZA انٹرنیشنل سکول، ہیڈوے لرننگ سکول، گرین ارتھ روشنی سکول شامل تھے ,  جبکہ سپیشل سیکشن CLC کے بچوں نے پرفارمنس پیش کیں۔ حاضرین محفل نے  بچوں کی پرفارمنس کوخوب سراہا اور دل کھول کر داد دی۔ 

پرفارمنس پیش کرنے والے تمام خصوصی بچوں میں نائس کی طرف سے خوبصورت تحائف تقسیم کئے گئے اور انہیں ریفریشمنٹ پیش کی گئی , جبکہ شرکت کرنے والےاداروں کے سربراہان کو خصوصی سرٹیفکیٹس پیش کیے گئے۔ تقریب میں  بچوں کے والدین، اساتذہ کے علاوہ سول سوسائٹی اور میڈیا کے نمائندے شامل تھے۔

تقریب کے اختتام پرمیڈیا سے بات کرتے ہوئے نائس کی بانی اور چیف آپریٹنگ آفیسر محترمہ سائرہ اقبال نے اس عزم کا اظہار کیا کہ نائس خصوصی بچوں کی فلاح و بہبود کے لئے ہر ممکن کوشش جاری رکھے گی اور اس مقصد کےلئے چلڈرن لائبریری کمپلیکس کے ساتھ ہر ممکن تعاون جاری رکھا جائے گا۔انہوں نے شاندار پروگرام کے انعقاد میں خصوصی تعاون کرنے پر چلڈرن لائبریری کمپلیکس کے پراجیکٹ ڈائریکٹرجناب عون عباس بخاری اور ان کی ٹیم کا  ,  پروگرام کے سپانسرز کا بھی خصوصی طور پر شکریہ ادا کیا گیا, جن کے  تعاون سے اس شاندار پروگرام کا انعقاد ممکن ہوا , ان میں آل پاکستان ٹوائز مینو فیکچرز ایسوسی ایشن، شکر گنج فوڈ پراڈکٹس، حلیب فوڈز،  لیزاور گوجرانوالہ فوڈانڈسٹریز شامل تھے۔

بسم اللہ ویلفیئر فاؤنڈیشن پھول نگر کا فری دستر خوان

 پھول نگر ( یاسین یاس ) بسم اللہ ویلفئیر فاؤنڈیشن پھول نگر نے فری دسترخوان کا افتتاح کردیا۔ 

بسم الله ویلفیئر فاونڈیشن کے زیر اہتمام ہونے والا پہلے فری دستر خوان کی افتتاحی تقریب مورخہ 26فروری بروز اتوار بمقام گورنمنٹ ہائی سکول نمبر 1 پھول نگر میں منعقد کی گی۔جس میں شہر بھر کی سماجی، سیاسی، میڈیا اور مذہبی شخصیات نے بھرپور شرکت کی  اور بسم الله ویلفیئر فاونڈیشن کے اس پروگرام کو سراہتے ہوئے اس پروگرام میں تعاون کی یقین دہانی کرائی ۔  الحمدللہ پہلے فری دستر خوان سے 400 سے زائد مستحق لوگوں کو بہترین انداز میں کھانا کھلایا گیا اور تقریب کے اختتام پر معاونین اور ملک پاکستان کی سلامتی کے لئے دعا کروائی گئی۔

بسم اللہ ویلفئیر فاؤنڈیشن پھول نگر ایسی تنظیم ہے جو گاہے بگاہے عوام الناس کی فلاح بہبود کے پروجیکٹ شروع کرتی رہتی ہے شہر کے مخیر حضرات دل کھول کر عطیات دیتے ہیں اور بسم اللہ ویلفئیر  فاؤنڈیشن پھول نگر کے نوجوان رضا کار تن من دھن لگا کر خدمت خلق میں لگے رہتے اس نئے پروجیکٹ میں مزدوروں ، بے سہارا ، مجبوروں ، دکانوں ورکشاپوں پر کام  کرنے ، کم آمدنی والے اور ا یسے بے شمار لوگوں کو پیٹ بھر کھانا کھلایا گیا اس تقریب میں کاروباری ، سیاسی ، سماجی ، شخصیات کی بھرپور شرکت اس بات کی گواہ ہے کہ بسم اللہ ویلفئیر فاؤنڈیشن پھول نگر اپنے مشن میں کامیاب ہے چاہے وہ یتیم بچیوں کی اجتماعی شادیاں ہوں ، چاہے میڈیکل کیمپ ہو، چاہے بے کس و مجبور لوگوں کے گھروں میں راشن دینا ہو ، چاہے تھیلیسیمیا کی بیماری میں مبتلا بچوں کے لیے بلڈ کیمپ ہو ، اور چاہے فری دستر خوان ہو سیاسی  ، سماجی و کاروباری مقررین نے بسم اللہ ویلفئیر فاؤنڈیشن پھول نگر کے کام کو سراہا اور ان کے ساتھ ساتھ دامے درمے سخنے کھڑے رہنے کا وعدہ کیا تنظیمی عہدیداران نے آنے والے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا ۔

رپورٹ : یاسین یاس


کاشف تنویر کی کتاب کی تقریب رونمائی اور کل پنجاب مشاعرہ


 پنجاب ہاؤس لاہور میں کاشف تنویر کی" کتاب سوچ دے اکھر " کی تقریب رونمائی اور  کل پنجاب محفل مشاعرہ 


بزم عابد تمیمی انٹرنیشنل کے سرگرم نوجوان شاعر  سانجھا ویہڑا کے میزبان سوہنے شاعر کاشف تنویر کی  کتاب " سوچ دے اکھر"  کی تقریب رونمائی اور کل پنجاب مشاعرہ  بھلیکھا ٹی وی / پنجاب ہاؤس میں ہوا جس کی صدارت  مشہور و معروف  شاعر پروفیسر ڈاکٹر جواز جعفری صاحب کی خصوصی مہمانان گرامی محسن شبیر جعفری ، ڈاکٹر صغیر احمد صغیر ، ڈاکٹر سعید اقبال سعدی ، فاخرہ انجم , اور کاشف تنویر تھے  ۔نقابت کے فرائض معروف کمپئیر شاعر و میزبان اعظم توقیر نے بخوبی نبھائے ۔


تلاوت کلام پاک و نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سعادت جناب نبیل نظامی صاحب کے حصہ آئی جنہوں نے سامعین پر وجد کی کیفیت طاری کیے رکھی ۔

مہمان اعزاز و دیگر شعراء کرام میں  ڈاکٹر مظہر محسن ، مزمل  ناطق بلوچ ، ناصر انجم وڑائچ ، احتشام حسن ، بشیر کمال ، افضل پارس ، تنویر حیدری ، نوید مغل ، یاسین یاس ، عروج زیب ، اثرہ اسلم ، بشیر ندیم ، قسیم جعفری ، عبالرحمان رضوان ، نوازش رضا ، اور نوید حیدری و دیگر شامل تھے ۔خوبصورت و یادگار محفل مشاعرہ رات نو بجے تک جاری رہا صاحب صدارت جناب ڈاکٹر جواز جعفری نے صدارتی خطاب میں کہا کہ بلاشبہ پنجاب بھر سے آئے ہوئے شعراء کرام کو سن کر بہت خوشی ہوئی اور یقین ہوگیا کہ مضافات میں رہنے والے شعراء بہت اچھا شعر کہہ رہے ہیں مجھے ان پانچ چھ گھنٹوں کے گذر جانے کا احساس تک نہیں ہوا ایک سے ایک اچھا شاعر اور ایک سے اچھا شعر سننے کو ملا جس کے لیے میں انتظامیہ کو مبارک باد پیش کرتا ہوں  . 


مبارک باد ( احمد مختار نمائندہ ڈیلی کشمیر )

 محمد احمد مختار کو سرائے مغل سے ڈیلی کشمیر کا نمائندہ  بننے پر سیاسی ، سماجی ، کاروباری و صحافی دوستوں کی طرف سے مبارک باد و دعائیں 


پھول نگر ( یاسین یاس ) معروف کالم نگار و صحافی حکیم مختار احمد قادری کے صاحب زادے احمد مختار کی صحافت میں انٹری روزنامہ کشمیر مظفرآباد کا سرائے مغل سے رپورٹر منتخب کاروباری ، سیاسی و سماجی احباب کی جانب سے مبارک باد انہوں نے کہا کہ صاف ستھری صحافت کرنے والے باپ کے بیٹے کو خوش آمدید کہتے ہیں اسی سلسلے میں پریس کلب پتوکی کے میڈیا کوارڈینیٹر فیصل مصطفی نے ایک عشائیے کا اہتمام ایک مقامی

مقامی فوڈ پوائنٹ پر کیا محمد احمد مختار کو ڈیلی  کشمیر کا سرائے مغل میں رپورٹر بننے اور ایف ایس سی 1st year میں💖 کامیابی حاصل کرنے پر اساتذہ کی جانب سے خوب حوصلہ افزائی ہوئی سینئر صحافی و معروف کالم نگار مختار احمد قادری اور میڈیا کوآرڈینیٹر پریس کلب پتوکی فیصل مصطفٰی کی جانب سے مبارکباد  اور نیک تمناؤں کا اظہار کیا گیا الله کریم انہیں کامیابیوں سے ہمکنار کرے ۔آمین بھائی پھیرو پریس کلب پھول نگر کی جانب سے احمد مختار کے لیے ڈھیروں دعائیں اللہ رب العزت اسے قدم قدم کامیابی سے ہمکنار کرے ۔آمین 


Sunday, February 26, 2023

عرس حضرت واصف علی واصف رح


 رپورٹ  :  فریدہ خانم   .





" عظیم عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم و صوفی شاعر حضرت واصف علی واصف رح کے عرس کی تقریبات کا انعقاد  " .





پاکستان کے معروف عظیم عاشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم , صوفی شاعر و روحانی شخصیت جناب حضرت واصف علی واصف رح کا اکتیسواں عرس بمطابق بائیس,  تئیس اور چوبیس رجب عیسوی تاریخ کے مطابق  چودہ,  پندرہ اور سولہ فروری  کو ان کے مزار شریف واقع میانی صاحب میں عقیدت و احترام کے ساتھ منایا گیا,  عرس کی یہ تقریبات تین روز تک جاری رہیں. 


چادر پوشی سے ایک دن پہلے سرزمین مولائے روم رح اسلامیہ ترکیہ سے تشریف لائے ہوئے مہمان جناب عبداللہ کامک نے آستانہ واصفیہ پہ سریلی آوازوں میں حاضرین محفل کو محظوظ کیا.  اس تقریب میں بطور مہمان خصوصی محترم  صاحب زادہ عاصم مہاروی نے شرکت فرمائ. 

پروگرام کے مطابق عرس کا آغاز بعد از نماز عصر رسم چادر پوشی سے سردار نصراللہ دریشک اور عقیدت مندوں کے ہاتھوں ہوا. اس موقع پر درود و پاک کی مقدس محفل ہوئ اور اسی رات محفل سماع کا بھی بندوبست تھا , منقبت حاجی محمد سعید اور ہمنوا نے پیش کی , جبکہ قوال آصف علی سنتو اور ہمنوا تھے .


عرس کے دوسرے دن الحمرا ہال میں سیمینار کا انعقاد  ہوا , جس میں مقررین نے حضرت واصف علی واصف رح کی زندگی اور روحانی تعلیمات کے حوالے سے اظہار خیال کیا.  تقریب کی صدارت محترم مجیب الرحمن شامی نے کی , جبکہ مقررین میں محترم ارشاد عارف , محترم علامہ شہزاد مجددی,  محترم صاحب زادہ عاصم مہاروی,  محترم طارق رحمن,  محترم حسن قیوم , محترم ڈاکٹر وسیم اللہ شاہین تھے . نقابت کے فرائض نور الحسن نے ادا کیے , ہدیہ نعت محترم کرامت علی کرامت , منقبت محترم نور احمد جرال اور کلام جناب رموز علی قلندری نے سنایا. ہال خواتین و حضرات سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا,  جس میں ہر طبقہ فکر سے سامعین کی کثیر تعداد موجود تھی .

سیمینار کے بعد محفل نعت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  کا انعقاد مزار شریف پر کیا گیا,  جس کی نقابت صفدر علی محسن نے کی , جبکہ مہمانان خصوصی میں محترم سید ذہیب مسعود,  محترم سرور حسین نقشبندی,  محترم شہزاد حنیف مدنی اور محترم یاسر گولڑوی شامل تھے .

عرس کے آخری روز مزار شریف پر حضرت واصف علی واصف رح کی زندگی میں ان سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات آڈیو ریکارڈنگ کے ذریعے سنائے گئے, جبکہ نماز عصر کے بعد اختتامی دعا کی گئ , جس میں دربار حضرت خواجہ غلام فرید رح کے سجادہ نشین خواجہ معین الدین محبوب کوریجہ شامل تھے .

مزار شریف پر  حضرت واصف علی واصف رح کی کتابوں کے سٹال کا بھی انتظام کیا گیا تھا , جہاں ان کی تمام کتب رعایتی نرخوں پر دستیاب تھیں, عقیدت مندوں نے بڑے شوق سے ان کتب کو خریدا .

 

عرس میں دور دراز سے آئے ہوئے سینکڑوں مریدوں اور عقیدت مندوں نے شرکت کی. عرس میں وسیع لنگر کا انتظام بھی تھا.


غزل( نوحہ لکھے غزال شکاری غزل کہے )

 نوحہ لکھے غزال شکاری غزل کہے

لازم ہے اب کہ کوئی نہ کوئی غزل کہے


بستر پکارے پنکھے کو پنکھا زمین کو

دروازہ چیخ مارے تو کھڑکی غزل کہے


تبلہ کہے ہے تَک نہ تَنک دِھن تَنک تَنک 

اُس کے بدن پہ راگ ابھی بھی غزل کہے


گر وہ لگائے چشمہ تو دریا مچل اُٹھے 

اور دیکھے آئینہ تو یہ دھرتی غزل کہے   


اِک عرصہ ہو گیا کہ اُسے دیکھا تک نہیں

مدت ہوئی مجھے کوئی اچھی غزل کہے 


محفل سے ہو کے آئی ہو اُمید ہے کوئی 

تم ہی کو سوچتے ہوئے پہلی غزل کہے 


اس مہ جبیں کے حُسن کاحق یہ ہےجانِ دل

صحرا بہے کہیں کہیں راوی غزل کہے!


کچھ اِس لیے بھی اُس کو دِکھاتا ہوں آئینہ

یہ چاہتا ہوں میں کہ وہ لڑکی غزل کہے 


یزدان نقوی


ہاتھ ( فریدہ خانم ) نظم

 "  ہاتھ "


ایک ننھی سی وہ خواہش تھی

جو دل میں,  میں نے پالی تھی 

مولا کے فیض خزینے سے 

مجھ کو ایسی سوغات ملے

میرے ان خالی ہاتھوں کو

اک ایسے ہاتھ کا ساتھ ملے

ایک طلسمی لمس میں جس کے

یا خون رگوں میں جم جائے

یا ہاتھ ہی میرا گم جائے

ایسے کہ نظر آئے نہ کبھی 

بس ایک لگے وہ مٹھی بند

اور جان سکے نہ کبھی کوئ 

اک ہاتھ نہیں ہے وہ دو ہیں 

جو آئے نظر وہ تیرا ہو 

جو کچھ اس میں پوشیدہ ہو 

وہ میرا ہو , بس میرا ہو 

پھر کوئ کر پائے نہ الگ 

ان دو ہاتھوں کے بندھن کو 

میں,  میں نہ رہوں تم ہو جاوں 

میں دل کی ہر گہرائ سے 

اس بندھن میں ضم ہو جاوں 

یوں کھو جاوں , یوں ہو جاوں 



فریدہ خانم   ,   لاہور  , پاکستان  .


انتخاب : مزاح ( چاچا گلو )

انتخاب : حسنات یاس 

چاچا گلو 


چاچا


گلو بیمار اور ہسپتال میں داخل تھا۔ محلے کے چند لوگوں نے مشورہ کیا کہ ویگن والے سے ہسپتال آنے جانے کا کرایہ طے کرتے ہیں اور سارے جا کر چاچے کی خیر خیریت پوچھ آتے ہیں۔ سو روپے فی بندہ طے ہوا اور کل ملا کر تیرہ بندے تیار ہوئے۔

ویگن والے نے بڑا زور لگایا چودہ سیٹیں ہیں ایک اور بندہ ساتھ ملا لو  تاکہ میری ایک سیٹ خالی نہ جائے مگر بندوبست نہ ہو سکا۔

تیرہ بندوں کو بٹھا کر ویگن چلنے ہی لگی تھی کہ گلی کی آخری نکڑ والا رانجھا  موچی بھاگتا اور آوازیں دیتا ہوا آتا دکھائی دیا۔

ویگن کے تیرہ مسافر کہنے لگے  کہ ویگن بھگاؤ اس منحوس کو ساتھ نہ لو،  یہ منحوس تمہارا بھی کوئی نقصان کروائے گا۔ مگر کنڈکٹر نے جواب دیا کہ منحوس  ہوگا تو تمہارے لیئے ہوگا میرے لیئے تو  سو روپے کی سواری ہے میں تو اسے ہر حال میں اُٹھاؤں گا۔

دیگر سواریوں کے پاس کوئی اور چارہ نہیں تھا۔ بادل نخواستہ اپنے محلے بھر کے غیر مرغوب شخص رانجھے  کے پہنچنے کا انتظار  کرنے لگے۔

ہانپتے کانپتے رانجھے کے پہنچنے پر کنڈکٹر نے اُسے بٹھانے کیلئے دروازہ کھولا مگر رانجھے نے باہر کھڑے کھڑے ہی ٹوٹی سانسوں میں دیگر تیرہ لوگوں سے کہا کہ چاچا گلو تو رات کا ہی ہسپتال سے واپس گھر آ گیا ہے۔ اُترو سارے نیچے، خواہ مخواہ ہسپتال نہ جاؤ۔


نفس کی اقسام ( انتخاب : حسنہ نور )

 

*نفس کی سات اقسام ہیں جنکے نام درج ذیل ہیں.......!!!*

1۔ نفس امارہ 

2۔ نفس لوامہ 

3۔ نفس ملھمہ 

4۔ نفس مطمئنہ 

5۔ نفس راضیہ 

6۔ نفس مرضیہ 

7۔ نفس کاملہ 

نفس امارہ پہلا نفس ہے یہ سب سے زیادہ گناہوں کی طرف مائل کرنے والا اور دنیاوی رغبتوں کی جانب کھینچ لے جانے والا ہے۔ ریاضت اور مجاہدہ سے اس کی برائی کے غلبہ کو کم کر کے جب انسان نفس امارہ کے دائرہ سے نکل آتا ہے تو لوامہ کے مقام پر فائز ہو جاتا ہے۔ اس مقام پر دل میں نور پیدا ہو جاتا ہے۔ جو باطنی طور پر ہدایت کا باعث بنتا ہے جب نفس لوامہ کا حامل انسان کسی گناہ یا زیادتی کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے تو اس کا نفس اسے فوری طور پر سخت ملامت کرنے لگتا ہے اسی وجہ سے اسے لوامہ یعنی سخت ملامت کرنے والا کہتے ہیں~

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اس نفس کی قسم کھائی ہے :


وَلَا اُقْسِمُ


بِالنَّفْسِ اللَّوَّامَةِO


’’اور میں نفس لوامہ کی قسم کھاتا ہوں۔( القيامة، 75 : 2) 


تیسرا نفس نفس ملہمہ ہے۔ جب بندہ ملہمہ کے مقام پر فائز ہوتا ہے تو اس کے داخلی نور کے فیض سے دل اور طبعیت میں نیکی اور تقوی کی رغبت پیدا ہو جاتی ہے چوتھا نفس مطمئنہ ہے جو بری خصلتوں سے بالکل پاک اور صاف ہو جاتا ہے اور حالت سکون و اطمینان میں آجاتا ہے~

یہ نفس بارگاہ الوہیت میں اس قدر محبوب ہے کہ حکم ہوتا ہے ~

يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُO ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ.

’’اے نفس مطمئنہ اپنے رب کی طرف لوٹ آ—( الفجر، 89 : 27، 28) 


یہ نفس مطمئنہ اولیاء اللہ کا نفس ہے یہی ولایت صغریٰ کا مقام ہے۔ اس کے بعد نفس راضیہ، مرضیہ اور کاملہ یہ سب ہی نفس مطمئنہ کی اعلیٰ حالتیں اور صفتیں ہیں اس مقام پر بندہ ہر حال میں اپنے رب سے راضی رہتا ہے اس کا ذکر ان الفاظ میں کیا گیا ہے~


ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَّرْضِيَّةًO


’’اے نفس مطمئنہ اپنے رب کی طرف لوٹ آ اس حال میں کہ تو اس سے راضی ہو۔‘‘ ~ (الفجر، 89 : 28) .......!!!

اللَّهَ پاک ھم سب کو دین کی تعلیمات سیکھنے اور اس پر عمل کرنے والا بنائے ~

آمین ثم آمین یا رب العالمین

رضا فاؤنڈیشن

 



رضا فاونڈیشن بحالی معذوراں پھولنگر ضلع قصور کے وفد نے  گدا گری کی روک تھام کے لیے آگاہی واک  مہم  میں شرکت کی


سوشل ویلفئیر و بیت المال تحصیل پتوکی ضلع قصور میں گدا گری کی روک تھام کے لیے پہچان ہیومن ڈویلپمنٹ کسنرن کے تعاون سے آگاھی واک مہم ڈپٹی ڈائریکڑ سوشل ویلفئیر و بیت المال پتوکی جناب غلام مصطفےٰ صاحب کے زیر صدارت معنقد کی گٸی جس میں رضا فاونڈیشن بحالی معذوراں پھولنگر کے صدر سید زاہد علی کاظمی نے وفد سمیت شرکت کی وفد میں سماجی رہنما محمود اختر  محمد فاروق محمد اکرم دانش اکرم  سوشل ویلفیر آفیسر چوہدری افتخار احمد طور  اور محمد  وقاص شامل تھے گداگری کی روک تھام  کی اگاھی واک  مہم  سے خطاب کرتے ہوئے سید زاہد علی کاظمی صدر رضا فاونڈیشن بحالی معذوراں پھولنگر  کہا کہ گدا گری ایک لعنت ہے  اگاھی واک مہم کی زیادہ سے زیادہ تشہیر کی جائے اس ضمن میں گدا گری کی روک تھام کی آگاہی کیلئے لوکل اخبارات اور سوشل میڈیا اور کیبل آپریٹرز اور قومی اخبارات کے نمائندے اس گدا گری کی روک تھام کی اگاھی مہم کو کامیاب کرنے میں اپنا کردار ادا کرے اس موقع پر رضا فاونڈیشن بحالی معذوراں پھولنگر کی جانب سے لوگوں میں گدا گری کی روک تھام کے لیے پمپلفٹ بھی تقسیم کیے گٸے

قدرت اللہ شہاب

 پیدائش:26فروری1917ء

          گلگت، پاکستان

وفات:24جولائی 1986ء


 پاکستان کے نامور سول سرونٹ اور اردو ادیب قدرت اللہ شہاب 26 فروری 1917ء کو گلگت میں پیدا ہوئے تھے۔ 1941ء میں گورنمنٹ کالج لاہور سے انگریزی ادبیات میں ایم اے کرنے کے بعد وہ انڈین سول سروس میں شامل ہوئے۔ ابتدا میں انھوں نے بہار، اڑیسہ اور بنگال میں خدمات انجام دیں۔ قیام پاکستان کے بعد وہ متعدد اہم انتظامی عہدوں پر فائز رہے جن میں حکومت آزاد کشمیرکے سکریٹری جنرل، وفاقی سیکریٹری وزارت اطلاعات، ڈپٹی کمشنر جھنگ، ڈائریکٹر انڈسٹریز حکومت پنجاب اور گورنر جنرل غلام محمد، اسکندر مرزا اور صدر ایوب خان کے پرائیویٹ سیکریٹری، سیکریٹری اطلاعات، ہالینڈ میں پاکستان کے سفیر اور سیکریٹری تعلیم کے مناصب شامل تھے۔ یحییٰ خان کے دور حکومت میں وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوکر اقوام متحدہ کے ادارہ یونیسکو سے وابستہ ہوگئے۔ اس زمانے میں انھوں نے مقبوضہ عرب علاقوں میں اسرائیل کی شرانگیزیوں کا جائزہ لینے کے لیے ان علاقوں کا خفیہ دورہ کیا اور اسرائیل کی زیادتیوں کا پردہ چاک کیا۔ شہاب صاحب کی اس خدمات کی بدولت مقبوضہ عرب علاقوں میں یونیسکو کا منظور شدہ نصاب رائج ہوگیا جو فلسطینی مسلمانوں کی ایک عظیم خدمت تھی۔

قدرت اللہ شہاب کا ایک اہم کارنامہ پاکستان رائٹرز گلڈ کی تشکیل تھا۔ وہ خود بھی اردو کے ایک اچھے ادیب تھے ان کی تصانیف میں یاخدا، نفسانے، ماں جی اور سرخ فیتہ کے علاوہ ان کی خودنوشت سوانح عمری شہاب نامہ شامل ہے۔

٭24 جولائی 1986ء کو قدرت اللہ شہاب اسلام آباد میں وفات پاگئے اور وہیں آسودۂ خاک ہوئے۔


Saturday, February 25, 2023

گلزاری لال ( انتخاب علی احمد )

 

انتخاب : علی احمد گجراتی 

پنجابی پیاریو  پڑھن جوگ لکھت جے انج قوماں ترقی کردیاں



ایک نوے برس کے ضعیف آدمی کے پاس کوئی پیسہ نہیں تھا۔ مالک مکان کو پانچ مہینے سے کرایہ بھی نہیں دے پایا تھا۔ ایک دن مالک مکان طیش میں کرایہ وصولی کرنے آیا ۔ بزرگ آدمی کا سامان گھر سے باہر پھینک دیا۔

سامان بھی کیا تھا۔ ایک چار پائی ‘ ایک پلاسٹک کی بالٹی اور چند پرانے برتن-


پیرانہ سالی میں مبتلا شخص بیچارگی کی بھرپور تصویر بنے فٹ پاتھ پر بیٹھاتھا۔ احمد آباد شہر کے عام سے محلہ کا واقعہ ہے۔ محلے والے مل جل کر مالک مکان کے پاس گئے۔ التجا کی کہ اس بوڑھے آدمی کو واپس گھر میں رہنے کی اجازت دے دیجیے۔ کیونکہ اس کا کوئی والی وارث نہیں ہے۔


دو ماہ میں اپنا پورا کرایہ کہیں نہ کہیں سے ادھا ر پکڑ کر ادا کر دے گا۔ اتفاق یہ ہواکہ ایک اخبار کا رپورٹر وہاں سے گزر رہا تھا۔ اسے نحیف اور لاچار آدمی پر بہت ترس آیا۔تمام معاملہ کی تصاویر کھینچیں۔ ایڈیٹر کے پاس گیا کہ کیسے آج ایک مفلوک الحال بوڑھے شخص کو گھر سے نکالا گیا۔


اور پھر محلہ داروں نے بیچ میں پڑ کر دو ماہ کا وقت لے کر دیا ہے۔ ایڈیٹر نے بزرگ شخص کی تصاویر دیکھیں تو چونک اٹھا۔


رپورٹر سے پوچھا کہ کیا تم اس شخص کو جانتے ہو۔ رپورٹر ہنسنے لگا کہ ایڈیٹر صاحب ۔ اس بابے میں کونسی ایسی غیر معمولی بات ہے کہ کوئی بھی اس پر توجہ دے۔ اسے تو محلہ والے بھی نہیں جانتے۔ ایک وقت کا کھانا کھاتا ہے۔ برتن بھی خود دھوتا ہے۔ معمولی سے گھر میں جھاڑ پوچا بھی خود لگاتا ہے۔ اس کو کس نے جاننا ہے۔


ایڈیٹر نے حد درجہ سنجیدگی سے رپورٹر کو کہا کہ یہ ہندوستان کا دومرتبہ وزیراعظم رہ چکا ہے اور اس کا نام گلزاری لال نندہ ہے۔

رپورٹر کا منہ حیرت سے کھلے کا کھلا رہ گیا۔ ہندوستان کا وزیراعظم اور اس بدحالی میں۔ خیر اگلے دن اخبار چھپا تو قیامت آ گئی۔ لوگوں کو معلوم ہوا کہ یہ عاجز سا بوڑھا ہندوستان کا دوبار وزیراعظم رہ چکا ہے۔وزیر اعلیٰ اور وزیراعظم کو بھی معلوم ہو گیا کہ گلزاری لال کس مہیب مفلسی میں سانس لے رہا ہے۔ 

خبر چھپنے کے چند گھنٹوں بعد‘ ریاست کا وزیراعلیٰ ‘چیف سیکریٹری اور کئی وزیر اس محلے میں پہنچ گئے۔ سب نے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ آپ کو سرکاری گھر میں منتقل کر دیتے ہیں اور سرکار ماہانہ وظیفہ بھی لگا دیتی ہے۔


خدارا اس معمولی سے مکان کو چھوڑیے۔ مگر گلزاری لال نے سختی سے انکار کر دیا کہ کسی بھی طرح کی سرکاری سہولت پر اس کا کوئی حق نہیں ہے۔ وہ یہیں اسی کوارٹر میں رہے گا۔ گلزاری لال کے چند رشتہ داروں نے منت سماجت کر کے بہرحال اس بات پر آمادہ کر لیا کہ ہر ماہ پانچ سو روپے وظیفہ قبول کر لے سابقہ وزیراعظم نے حد درجہ مشکل کے بعد یہ پیسے وصول کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ اب اس قلیل سی رقم میں کرایہ کھانا پینا شروع ہو گیا۔

مالک مکان کو جب علم ہوا کہ اس کا کرایہ دار پورے ملک کاوزیراعظم رہ چکا ہے۔ تو گلزاری لال کے پاس آیا اور پیر پکڑ لیے کہ اسے بالکل معلوم نہیں تھا کہ اس کا کرایہ دار اس اعلیٰ ترین منصب پر فائر رہ چکا ہے۔ بوڑھے شخص نے جواب دیا کہ اسے یہ بتانے کی ضرورت ہی نہیں تھی کہ وہ کون ہے۔ وہ تو ایک معمولی سا کرایہ دار ہے اور بس۔ جب تک گلزاری لال زندہ رہا اسی مکان میں رہا اور مرتے دم تک پانچ سو روپے میں گزارا کرتا رہا۔


گلزاری لال نندہ حیرت انگیز کردار کا انسان تھا۔ سیالکوٹ میں جولائ  1898 میں پیدا ہوا۔ اور جنوری 1998 میں احمد آباد میں فوت ہو گیا۔ جواہر لال نہرو کے انتقال کے بعد 1964 میں وزیراعظم رہا۔ اور 1966میں لال بہادر شاستری کے انتقال کے بعد بھی اس بلند پایہ منصب پر فائز رہا۔


بنیادی طور پر ایف سی کالج لاہور سے اقتصادیات کی تعلیم حاصل کرتا رہا۔ دراصل وہ اقتصادیات کا استاد تھا۔


ممبئی اور احمد آباد کی یونیورسٹیوں میں پڑھاتا رہا۔ سیاست میں آیا تو یونین منسٹر وزیر خارجہ اور ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن بھی رہا۔ متعدد بار لوک سبھا کا ممبر بھی منتخب ہوا۔ گلزاری لال کافلسفہ تھا کہ زندگی کو بہت سادہ گزارنا چاہیے۔ کسی شان و شوکت کے بغیر انتہائی قلیل رقم میں خوش رہنا ہی اصل امتحان ہے۔ویسے گلزاری لال سادگی بلکہ عسرت میں رہنے کی جو مثال قائم کر گیا اس کے لیے حد درجہ مضبوط کردار کی ضرورت ہے۔


نناوے سال کی عمر میں فوت ہوتے وقت اس کے پاس کسی قسم کی جائیداد  کوئی بینک بیلنس اور کوئی ذاتی گھر تک نہیں تھا۔ بس ایک عزت و احترام کا وہ خزانہ تھا جو امیر سے امیر لوگوں کے پاس بھی نہیں ہوتا۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہندوستان میں سیاست میں حد درجہ کرپشن ہے مگر اس کے باوجود ہمیں بارہا گلزاری لال جیسے کردار مل ہی جاتے ہیں ۔انڈیا میں کئی ایسے بلند سطح کے سیاست دان موجود ہیں جن کے اثاثے کچھ بھی نہیں ہیں۔

مگر اس سطح کی سادگی کی عملی مثال ہمارے  ہاں ڈھونڈنا تقریباً ناممکن ہے۔

عابد علیم سہو

 ۔۔۔ پنجابی غزل


۔۔۔


کجھ تیرے کجھ میرے دکھ نیں

ساڈے چار چوفیرے دکھ نیں


ایسی رونق ویہڑے لگی۔۔۔۔

انج دے لائے ڈیرے دکھ نے


مدتاں ھویاں کاں نئیں بھیٹا

ساڈے ویکھ بنیرے دکھ نیں


پھلاں وانگ حیاتی اندر۔۔۔۔۔

پچھ نہ یار بھتیرے دکھ نیں


عابد ہجر دی زندگی اندر۔۔۔۔

کالی رات، سویرے دکھ نیں

عرس بابا بھوری والا

  پھول نگر ( یاسین یاس ) بھائی پھیرو  میں معروف قوال پرویز عباس خاں و ہمنوا قوالی کریں گے

  سید سرکار نظام الدین اولیاء بابا بھوری والی سرکار کے موقع پر 

ابھرتے ہوئےنوجوان قوال پرویز عباس خاں قوال و ہمنوا 4 مارچ کو دربار شریف بابا بھوری والی سرکار  پھول نگر پر اپنے فن کا مظاہرہ کریں گے سید سرکار نظام الدین اولیاء بابا بھوری والی کا سرکار عرس مبارک ہر سال چار اور پانچ کو نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ منایا جاتا ہے لنگر کا وسیع انتظام ہوتا زائرین  ڈھول کی تھاپ مزارشریف پر  چادریں چڑھاتے ہیں دور دراز سے زائرین و مریدین شرکت کرتے ہیں چار مارچ کو معروف  قوال پرویز عباس خاں و ہمنوا قالی پیش کریں گے اور پانچ مارچ کو کبڈی ہوگی جس میں گرین اور وائٹ ٹیم کا مقابلہ ہوگا شفیق چشتی ، لالہ عبداللہ ، مانا جٹ ،عبداللہ کمبوہ ، طاہر گجر ، تجمل واہلہ ، مشرف جنجوعہ ، سجاد اور شمس لطیف جیسے نامور کھلاڑیوں کے درمیان طمانچے دار کبڈی ہوگی ۔



غزل

 ۔۔۔۔۔۔ 


 اردو غزل ۔۔۔۔۔۔


سَر پھِری سی خواھشوں میں گھِر  گٸے

ھم بھی کیسی مُشکِلوں  میں  گھِر گٸے


ھر   طرف   سیلاب   ھی  سیلاب   ھے

بستی  والے  بارشوں   میں  گھِر    گٸے


اپنی  اپنی  جا   پہ  سب   ٹھہرے  رھے

فاصلے   جب  فاصلوں   میں  گھِر  گٸے


دیکھنے   والے   تو   کب   کے   جا  چُکے

عَکس   لیکن   آٸینوں   میں   گھِر   گٸے


دُشمنوں    مانگو     دُعاٸے    خیر    ھم

ہر طرف  سے  دوستوں  میں  گھِر  گٸے


عَظمی  سُورج   ڈوبنے   کے  ساتھ  ھی

پنچھی  اپنے  مَسکنوں   میں  گھِر گٸے


۔۔۔۔۔   ولی محمد عَظمی  ۔۔۔۔۔۔

Friday, February 24, 2023

ولی محمد عزمی

 شاندار نعتیہ مشاعرہ

زیر اہتمام: بزم یاران ِ عظمی

بمقام: رہائش گاہ محترم اعجاز عابد ، پنجاب یونیورسٹی سوسائٹی علی رضا آباد


صدارت: محترم محمد عباس مرزا


خصوصی گفتگو: محترم پروفیسر ڈاکٹر اختر حسین عزمی 

مہمانان ِ خصوصی: محترم محمد علی صابری ،محترم عاصم خواجہ، محترم محمد افضل ساجد

نظامت: خاکسار میاں جمیل احمد


خصوصی اہتمام:محترم ولی محمد عظمی چیئرمین بزم یاران عظمی ۔۔۔۔  اعجاز احمد عابد  صاحب


نعتیہ مشاعرے کا آغاز حافظ ابوبکر صاحب کی تلاوت سے ہوا بعد ازاں جمبر سے تشریف لانے والے رانا عبد الجبار صاحب نے معروف شاعر ولی محمد عظمی صاحب کا نعتیہ کلام مترنم پیش کیا۔ اس کے علاؤہ کہنہ مشق شاعر جناب عاصم خواجہ نے بھی خصوصی نعت پیش کی۔

پھر نعتیہ مشاعرے کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ جس میں تمام احباب نے بہت خوبصورت نعتیہ کلام سے ذہنوں و قلوب کو منور فرمایا ۔۔۔۔ 

ھم آنے والے تمام معزز مہمانوں کے تہہ دل سے مشکور ھیں 

۔۔۔  ولی محمد عَظمی ۔۔۔۔۔ اعجاز احمد عابد


سردار نور احمد ڈوگر

 


ڈوگر ویلفئیر سوسائیٹی کی طرف سے بھائی پھیرو کے سردار نور احمد ڈوگر کو جماعت اسلامی ضلع قصور کا امیر منتخب ہونے پر اعزازی شیلڈ پیش کی گئی۔ڈوگر برادری میں قائدانہ صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی ہمارا مشن ہے۔ڈوگر رہنماوں کا تقریب سے خطاب۔تفصیلات کے مطابق گزشتہ روز ڈوگر ویلفیئر سوسائیٹی کی ایک پر وقار تقریب منعقد کی گئی۔تقریب میں سردار حاجی محمد عارف ڈوگر،کرنل افضل ڈوگر،حاجی محمد نواز ڈوگر،سردار عطا محمد ڈوگر،سردار اکبر علی ڈوگر صدر ہائی کورٹ بار 'عامر شریف ڈوگر،کاشف ڈوگر ڈی ایس پی،اور ڈوگر ویلفیئر سوسائٹی کے عہدیداران نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔اس موقع پر ڈوگر ویلفئیر سوسائیٹی کی طرف سے لمبے جاگیر نزد بھائی پھیروکے رہائشی سردار نور احمد ڈوگر کو جماعت اسلامی ضلع قصور کا امیر منتخب ہونے پر انہیں اعزازی شیلڈ  دی گئی۔اس موقع پر ڈوگر برادی کے رہنماوں نے کہا کہ ڈوگر ویفئیر سوسائیٹی اپنی برادری کے لوگوں میں قائدانہ صلاحیتوں کی حوصلہ افزائی کرنے کیلیے ملک بھر میں ڈوگر برادری کے قائدانہ صلاحیتوں کے حامل افراد کی حوصلہ افزائی کرتی رہتی ہے تاکہ برادری کے لوگوں میں آگے بڑھنے کا جزبہ فروغ پائے،ان رہنماوں نے کہا اس وقت برادری کے ہونہار طلبا میں اعلی تعلیم کے فروغ کیلیے ہزاروں افراد کو وظائف دیے جا رہے ہیں اور انہیں فری رہائش فراہم کرکے برادری کے ہونہار طلبا کو اعلی تعلیم کے مواقع فراہم کیے جا رہے ہیں۔اس موقع پر امیر جماعت اسلامی ضلع قصور سردار نور احمد ڈوگر نے خطاب کرتے ڈوگربرادری کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ہمیں پسے ہوئے مظلوم لوگوں کی مدد کرکے اللہ اور اسکے رسول ﷺ کے احکامات پر عمل کرنا چاہیے ۔

یہاں نہیں تو وہاں

 





تحریر : یاسین یاس 


جب سے منہ زور مہنگائی کا نہ رکنے والا طوفان اٹھا ہے روز سوچتاہوں اس پر کچھ لکھوں لیکن روز ہمت جواب دے جاتی ہے درمیانے اور نچلے طبقے کے دکھ زیادہ ہیں اور میرے الفاظ کا ذخیرہ محدود مگر لکھنا ہے تو لکھنا ہے ٹوٹے پھوٹے الفاظ ہیں مگر دل سے نکلے ہیں قبول کیجئیے گا موجودہ مہنگائی جہاں  عالمی مسئلہ ہے وہاں ہمارا ذاتی مسئلہ بھی ہے آپ سوچ رہے ہوں گے ذاتی کس طرح چلیں یہاں کچھ بات کرلیتے ہیں پرسوں مجھے  پیاز لینا تھے سو سبزی منڈی کا رخ کیا ریٹ پوچھا تو دو سو روپے کلو بتایا گیا تھوڑا آگے چل کر ریٹ پوچھا تو ایک سو اسی تھوڑا اور آگے ایک سو پچاس وہی پیاز وہی کوالٹی وہی سائز اور وہی جگہ چند قدم کا فاصلہ اسی طرح دیگر اشیاء کی صورت حال ہے جس کی چیز اس کا ریٹ کوئی پوچھنے والا نہیں سب ہڈ حرامی ، گراں فروشی اور ذخیرہ اندوزی کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں کسی صاحب اختیار،  صاحب زر ، صاحب مال کو درمیانے اور نچلے طبقہ کی پرواہ نہیں ہر کوئی اپنا منافع دوگنا کرنے کے چکر میں ہے اور سارا ملبہ حکومت اور سیاستدانوں پر ڈال رہے ہیں جہاں تک میرا ذاتی خیال ہے آپ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہم مجموعی بے حسی کا شکار ہیں اپنی ذات کے علاوہ ہم کچھ نہیں سوچتے اپنا الو سیدھا کرنے کے چکر میں ہم نے کئی گھروں کے چولہے ٹھنڈے کردئیے کئی جانیں لے لیں مارکیٹ کمیٹیاں مردہ حالت میں کفن دفن کی منتظر ہیں سوائے ریٹ لسٹیں سپلائی کرنے کے کوئی کام نہیں کرتے وہ بھی نہ کرتے اگر فوٹو  کاپی کے بیس تیس روپے نہ لینے ہوں اے سی صاحبان اس قدر مصروف ہیں کہ انہیں ان چھوٹے موٹے کاموں کے لیے فرصت ہی نہیں ان کی کولیکشن ہی اتنی ہوجاتی ہے کہ تنخواہ کو سالہا سال بینکوں میں ہی گھومنا  پڑتا ہے وہ افسران کی جیب کو ہی ترستی رہتی ہے کھانے پینے کی اشیاء عام آدمی کی پنہچ سے دور کردی گئی ہیں جس میں صاحب اختیار و اقتدار کے ساتھ ساتھ ہم اور ہمارے جیسے برابر شریک ہیں لالچ و ہوس نے اندھا کرکے رکھ دیا ہے انسانیت شرما رہی ہے ایک دوسرے کو گالیاں سبھی نکالتے ہیں لیکن اپنے گریبان میں دیکھنا کوئی بھی گوارا نہیں کرتا اگر ذخیرہ اندوز ، منافع خور الٹی چھری سے عوام الناس کی کھال اتار رہا ہے تو ہمارے گھر میں جو گندم اضافی پڑی ہے چاول اضافی پڑے ہیں یا ایسا ہی کچھ پڑا ہے جو ہماری ضرورت سے وافر ہے تو کیا وہ ہم اپنے عزیز پڑوسی جاننے والے کو اصل قیمت میں دے رہے ہیں نہیں دے رہے بلکہ اس پر سانپ بن کر بیٹھے ہوئے ہیں کام ہم بھی وہی کررہے ہیں جو ذخیرہ اندوز و ناجائز منافع خور کررہے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ اس کے پاس گنجائش / مڈھی / سرمایہ زیادہ ہے تو وہ زیادہ کررہا ہے اور ہمارے پاس کم تو ہم کم کررہے ہیں سب جانتے ہیں عالمی سطح پر  مہنگائی ہورہی ہے لیکن لیکن جو اشیاء مقامی پیدا ہورہی ہیں اور وافر ہیں ان کے ریٹس کیوں آسمان سے باتیں کررہے ہیں وہ اس لیے کہ سب اپنی اپنی جگہ ایک دوسرے لوٹ رہے ہیں حالانکہ سب لٹ رہے ہیں 

لیکن ایک دوسرے کے ہاتھوں ۔ سرمایہ دار تو سرمایہ دار ہے وہ تو نہ پہلے عوامی مفاد مدنظر رکھتا تھا نہ اب رکھے گا لیکن ہم تو ایک دوسرے کا خیال رکھ سکتے ہیں جائز اور حلال منافع لے کر جو کرسکتے ہیں جتنا کرسکتے ہیں ضرور کریں ورنہ جواب تو دینا پڑے گا یہاں نہیں تو وہاں 


حضرت واصف علی واصف


 : اہلِ دل حضرات ، اللہ کی دی ہوئی محبت کو ، 

” اللہ کی مخلوق کیلئے Convert کرتے ہیں ۔ “


:  اللہ نے جو محبت آپ کو دی ہے ، 

:  اگر چڑیا کا بچہ مل جائے تو اس سے ”محبت“ کرو ، 

:  کتے کا بچہ مل جائے اس سے ”محبت“ کرو ، 

: کائنات کے درخت درخت ، پتے پتے سے محبت کرو ۔


” جب یہ پتہ چل جائے کہ

  یہ اللہ نے بنایا ہے تو اس ” سب سے محبت کرو ۔“

 

: سؤر کا گوشت کھانا منع ہے

 لیکن

 ___ زخمی سؤر کی مرہم پٹی پر کوئی اختلاف نہیں ۔“““

 :  کسی درویش کو بھی اس پہ کوئی اختلاف نہیں ۔“““


:  جو محبت سے سرشار ہے ، وہ ہر چیز کے اندر ، اللہ تعالیٰ کا ” رُوپ اور جلوہ دیکھے گا ۔ “


:  اللہ نے اپنے راستے پر آپ کو بلانے کے لئے ، آپ کی نگاہ کھولنے کے لئے ، کشادہ کرنے کیلئے ، اپنی محبت عطا کی ، تاکہ آپ کی ” محبت وا ہو جائے ۔“

  اور 

: اللہ کی محبت آپ کی آنکھ کھول دیتی ہے ۔ 

: اور جب آنکھ کھل گئ ،

: تو پھر ہر طرف جلوے ہی جلوے ہیں ۔ 


:  اس کے سورج کا نکلنا اس کا جلوہ ہے ۔ 

: سورج کا ڈوبنا اس کا جلوہ ہے ، 

: بہار ہے ، برسات ہے ، 

: پھول ہیں ، کانٹے ہیں ، شبنم ہے ، موتی ہیں ۔ 

: یہ سب الگ الگ جلوے ہیں ۔


: آپ کو محبت ہی ، اس کائنات سے وابستہ کرتی ہے ،

: اور محبت عطا کرنے والے کے ساتھ وابستہ کرتی ہے ۔


:  جس شخص کو شعور کوئی نہیں وہ اللہ کو کیا سمجھے گا ۔ 

: اس کو اگر  کہیں کہ اللہ ہوتا ہے تو وہ کہے گا پتہ نہیں کیا ہوتا ہے ۔ 


: اسی طرح جس آدمی کا دل نہ ہو اسے کیا پتہ کہ

____ محبت کیا ہوتی ہے ۔ _____

؛؛؛  اس لئے اللہ پہلے محبت عطا فرماتا ہے ۔  “


   تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دل دیا ، دل میں محبت عطا فرمائی ، تاکہ ”” اپنے راستے پر بلائے ۔ “““

 

:   آپ اس راستے پر عقیدت سے چلو ، اور بندش سے نہ چلو ۔

 

:  اللہ مہربان ہو جائے تو ” لطف کے ساتھ اپنے راستے کی اجازت عطا فرماتا ہے ۔ “


:  اللہ اپنے راستے پر چلنے کی ”اجازت کے ساتھ محبت عطا فرمائے تو ، اس کو کہتے ہیں  محبت کی عطا ! “

: اصل میں یہ اللہ کی محبت ہوتی ہے ۔ 


: اس راستے کی قافلہء سالار ذات _ ہر زمانے کے لئے ،

: آنے والوں اور جانے والوں کے لئے ، 

: سرکارِ دوعالمﷺ  کی ذاتِ گرمی ہے ۔ 


: وہی ہے اس شاخسانہ کا قافلہء سالار ،

:  پہلے زمانوں کے ہوں یا بعد کے زمانوں کے ۔

 

: اس لئے محبت کی عطا کی حفاظت کا ایک ہی طریقہ ہے ۔۔۔۔!

: یعنی حضورپاکﷺ  سے محبت کرنا ۔

 

سرکار امام حضرت واصف علی واصف رحمۃ اللّٰہ علیہ

( گفتگو 10/صفحہ:273 ، 274 )


اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ.

اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ نِ النَّبِیِّ الاُمِّیِّ وَآلِہ بِقَدرِ حُسنِہ وَجَمَالِہ وَنُورِہ وَکَمَالِہ وَسَلِّم تَسلِیمًا

Thursday, February 23, 2023

حسنات یاسین


 کہتے ہیں کہ ایک صاحب زادے بڑے بدزبان اور اجہل تھے۔ باپ نے رشتے کے سلسلہ میں انھیں سسرال بھیجا تو نصیحت کی کہ: بیٹا؛ "ساس سسر سے میٹھے منہ بات کرنا۔"

صاحب زادے نے بازار سے گڑ خریدا اور جا پہنچے سسرال۔


سسر نے پوچھا: 

"بیٹا! مزاج تو اچھا ہے؟"

آپ نے فوراً جیب سے گُڑ نکالا اور تھوڑا سا منھ میں رکھ کر بولے:


"بیٹا میں تیرا کیسے ہوگیا؟ تیرا تو داماد بنوں گا"۔

سسر کا رنگ فق ہو گیا،۔ ساس نے لیپا پوتی کرتے ہوئے ہنس کر کہا:


"کیسا بھولا ہے میرا چھجو، ابھی بچپنا ہے نا۔"

آپ نے پھر تھوڑا گڑ منھ میں رکھ کر فرمایا:

"اندھی ہے ری تو ۔۔۔۔ میں تجھے بچہ دکھائی دیتا ہوں ۔۔۔۔ارے میری جوانی کے لچھن تو اَکھاڑے میں دیکھ۔

 ۔۔۔۔خیر قیاس کن زنگلستان من بہار مُرا۔۔۔۔


باتیں کرتے کرتے گڑ ختم ہو گیا تو صاحب زادے بات کے بیچ میں بولے:

"ذرا میں گڑ لے آؤں ... میٹھے منہ بات کروں گا۔"


(مسجد سے میخانے تک از ملا ابن العرب مکی)

منقول

حسنات یاسین

 کئی سال پہلے فلم میں ایک سین دیکھا جس میں عاشق کے ہاتھوں میں اس کی محبوبہ کے ہاتھ تھے. وہ اپنی محبوبہ سے پوچھتا ہے،

اس میں سے میری انگلیاں کون سی ہیں؟'

محبوبہ شرما کے کہتی ہے "ساری آپ کی ہیں"

مجھے اس بات نے اپنا گرویدہ بنا  لیا میری بڑی خواہش تھی کوئی مجھے بھی ایسے کہے،


سال در سال گزرتے گئے لیکن یہ خواہش نہ بھول سکا..

آخر وہ میری زندگی میں آ ہی گئی

ایک دن جب اس کے ہاتھ میرے ہاتھوں میں تھے مجھے اپنی وہ خواہش یاد آ گئی میں نے بڑے جذب کے عالم اس سے پوچھا، 

"ان میں سے میری انگلیاں کون سی ہیں؟ 

اس نے ہاتھوں کی طرف دیکھا اور جھٹ سے بولی

اس میں پوچھنے والی کیا بات ہے، یہ کالی کالی آپ کی ہیں..

🤣😂


Wednesday, February 22, 2023

حسنات یاسین ( انتخاب )


 *دو بزرگ اور دو پرندے؟؟*


حضرت شفیق بلخیؒ اور حضرت ابراہیم بن ادہمؒ رحمھما اللہ کے درمیان سچی دوستی تھی ، ایک مرتبہ شفیق بلخیؒ اپنے دوست ابراہیم بن ادہمؒ کے پاس آئے اور کہا کہ میں ایک تجارتی سفر پر جا رہا ہوں ، سوچا کہ جانے سے پہلے آپ سے ملاقات کر لوں ، کیوں کہ اندازہ ہے کہ سفر میں کئی مہینے لگ جائیں گے۔

لیکن توقع کے خلاف چند ہی دنوں میں واپس لوٹ آئے اور جب حضرت ابراہیم بن ادہمؒ نے انھیں مسجد میں دیکھا ، تو حیرت سے پوچھ بیٹھے : کیوں شفیق ! اتنے جلدی لوٹ آئے ؟

حضرت شفیق بلخیؒ نے جواب دیا : حضرت ! میں کیا عرض کروں، راستے میں ایک حیرت انگیز منظر دیکھا اور الٹے پاؤں ہی گھر لوٹ آیا۔

     ہوا یو کہ ایک غیر آباد جگہ پہنچا ، وہیں میں نے آرام کے لیے پڑاؤ ڈالا ، اچانک میری نظر ایک پرندے پر پڑی ، جو نہ دیکھ سکتا ہے اور نہ اڑ سکتا ہے ، مجھے اس کو دیکھ کر ترس آیا ، میں نے سوچا کہ اس ویران جگہ پر یہ پرندہ اپنی خوراک کیسے پاتا ہوگا ، میں اسی سوچ میں تھا کہ اتنے میں ایک دوسرا پرندہ آیا ، اس نے اپنی چونچ میں کوئی چیز دبا رکھی تھی ، اس نے آتے ہی وہ چیز معذور پرندے کے آگے ڈال دی اور معذور پرندے نے وہ چیز اٹھاکر کھالی ، اس دوسرے پرندے نے اس طرح کئی پھیرے کیے ، بالآخر اس معذور پرندے کا پیٹ بھر گیا ۔

یہ منظر دیکھ کر میں نے کہا : سبحان اللہ ! جب اللہ تعالی اس ویران و سنسان جگہ پر ایک پرندے کا رزق اس کے پاس پہنچا سکتا ہے ، تو مجھ کو رزق کے لیے شہر در شہر پھرنے کی کیا ضرورت ہے ، چناں چہ میں نے آگے جانے کا ارادہ ترک کر دیا اور وہیں سے واپس چلا آیا ۔

یہ سن کر حضرت ابراہیم بن ادہمؒ نے کہا : شفیق ! تمھارے اس طرح سوچنے سے مجھے سخت مایوسی ہوئی ، تم نے آخر اس معذور پرندے کی طرح بننا کیوں پسند کیا جس کی زندگی دوسروں کے سہارے چل رہی ہو ؟ تم نے یہ کیوں نہیں چاہا کہ تمھاری مثال اس پرندے جیسی ہو ، جو اپنا پیٹ بھی پالتا ہے اور دوسروں کا بھی پیٹ پالنے کے لیے  کوشش کرتا ہے ؟

حضرت شفیق بلخیؒ نے یہ سنا تو بے اختیار اپنی جگہ سے اٹھے اور حضرت ابراہیم بن ادہمؒ کے ہاتھ کو چوم لیا اور کہا : ابو اسحاق ! (یہ حضرت ابراہیم بن ادہمؒ کہ کنیت ہے ) تم نے میری آنکھیں کھول دیں ، وہی بات صحیح ہے جو تم نے کہی ہے۔

اس واقعے سے ہمیں دو نصیحتیں معلوم ہوئیں، ایک یہ کہ زندگی میں ہم دوسروں کے لیے کبھی بوجھ نہ بنیں ، اور دوسری یہ کہ ہم ہمیشہ دوسروں کے کام آئیں ، پاکیزہ اور حلال روزی کماکر دوسروں کے لیے سہارا بنیں۔

اردو غزل

ساغر صدیقی 



 پت جھڑ میں بہاروں کی فضا ڈُھونڈ رہا ہے

پاگل ہے جو دُنیا میں وَفا ڈُھونڈ رہا ہے


خُود اپنے ہی ہاتھوں سے وہ گھر اپنا جلا کر

اَب سر کو چُھپانے کی جگہ ڈُھونڈ رہا ہے


کل رات تو یہ شخص ضیا بانٹ رہا تھا

کیوں دِن کے اُجالے میں دِیا ڈُھونڈ رہا ہے


شاید کے ابھی اُس پہ زوال آیا ہوا ہے

جُگنُو جو اندھیرے میں ضیا ڈُھونڈ رہا ہے


کہتے ہیں کہ ہر جا پہ ہی موجُود خُدا ہے

یہ سُن کے وہ پتَّھر میں خُدا ڈُھونڈ رہا ہے


اُسکو تو کبھی مُجھ سے محبت ہی نہیں تھی

کیوں آج وہ پھر میرا پتا ڈُھونڈ رہا ہے


کِس شہرِ مُنافِق میں یہ تُم آ گۓ ساغر

اِک دُوجے کی ہر شخص خطا ڈُھونڈ رہا ہے

ساغر صدیقی

انتخاب : حسنہ نور ( مٹی کے برتن )

 مٹی کے برتن


سب سے زیادہ بیماریاں گلے ہوئے کھانے سے ہوتی ہیں،

گلے ہوئے کھانے اور پکے ہوئے کھانے میں فرق ھے،

(جس طرح ایک سیب پکا ہوا ہوتا ھے،

اور ایک گلا ہوا،

گلا ہوا سیب آپ آرام سے چمچ کے ساتھ بھی کھا سکتے ہیں،

اور اسے چبانا بھی نہیں پڑے گا)

*مٹی کے برتن میں کھانا آہستہ آہستہ پکتا ھے،*

اس کے برعکس

سِلور،

سٹیل،

پریشر کُکر یا نان سٹِک میں کھانا گلتا ھے،

تو سب سے پہلے اپنے برتن بدلیں،

یقین جانیں!

جن لوگوں نے برتن بدل لیے،

*اُن کی زِندگی بدل جاۓ گی،*


*2- کُوکِنگ آئل*

کوکنگ آئل وہ استعمال کریں،

جو کبھی جَمے نہ،

دُنیا کا سب سے بہترین تیل جو جمتا نہیں،

وہ زیتون کا تیل ھے،

لیکن یہ مہنگا ھے،

*ہمارے جیسے غریب لوگوں کے لیے سرسوں کا تیل ھے،*

یہ بھی جمتا نہیں،

سرسوں کا تیل واحد تیل ھے،

جو ساری عُمر نہیں جمتا،

اور اگر جم جائے تو سرسوں نہیں ھے،

*ہتھیلی پر سرسوں جمانے والی بات*

بھی اسی لیے کی جاتی ھے،

کیونکہ یہ ممکن نہیں ھے،

سرسوں کے تیل کی ایک خوبی یہ بھی ھے کہ اس کے اندر جس چیز کو بھی ڈال دیں گے،

اس کو جمنے نہیں دیتا،

*اس کی زِندہ مِثال اچار ھے*

جو اچار سرسوں کے تیل کے اندر رہتا ھے،

اس کو جالا نہیں لگتا،

اور *اِن شاءالله* جب یہ سرسوں کا تیل آپ کے جسم کے اندر جاۓ گا تو آپ کو کبھی بھی فالج،

مِرگی یا دل کا دورہ نہیں ہوگا،

أپ کے گُردے فیل نہیں ہونگے،

پوری زندگی آپ بلڈ پریشر سے محفوظ رہیں گے، (اِن شاء الله)

*کیونکہ؟*

سرسوں کا تیل نالیوں کو صاف کرتا ھے،

جب نالیاں صاف ہوجاٸیں گی تو دل کو زور نہیں لگانا پڑے گا،

سرسوں کے تیل کے فاٸدے ہی فاٸدے ہیں،

ہمارے دیہاتوں میں جب جانور بیمار ہوتے ہیں تو بزرگ کہتے ہیں کہ ان کو سرسوں کا تیل پلاٸیں،

أج ہم سب کو بھی سرسوں کے تیل کی ضرورت ھے،


*3- نمک (نمک بدلیں)*


*نمک ہوتا کیا ھے؟*

نمک اِنسان کا کِردار بناتا ھے،

*ہم کہتے ہیں بندہ بڑا نمک حلال ھے،*

یا پھر

*بندہ بڑا نمک حرام ھے،*

نمک انسان کے کردار کی تعمیر کرتا ھے،

ہمیں نمک وہ لینا چاہیٸے جو مٹی سے آیا ہو،

اور وہ نمک أج بھی پوری دنیا میں بہترین پاکستانی کھیوڑا کا گُلابی نمک ھے،

پِنک ہمالین نمک 25 ڈالر کا 90 گرام یعنی 4000 روپے کا نوے گرام اور چالیس ہزار روپے کا 900 گرام بِکتا ھے،

اور ہمارے یہاں دس تا بِیس روپے کلو ھے،

*بدقسمتی دیکھیں!*

ہم گھر میں آیوڈین مِلا نمک لاتے ہیں،

جس نمک نے ہمارا کردار بنانا تھا،

وہ ہم نے کھانا چھوڑ دیا۔

اس لٸے میری أپ سے گذارش ھے کہ ہمیشہ پتھر والا نمک استعمال کریں،


*4- مِیٹھا*

ہم سب کے دماغ کو چلانے کے لٸے میٹھا چاہیٸے،

اور میٹھا *الله کریم* نے مٹی میں رکھا ھے،

یعنی *گَنّا اور گُڑ،*

اور ہم نے گُڑ چھوڑ کر چِینی کھانا شروع کر دی،

خدارہ گُڑ استعمال کریں،


*5- پانی*

انسان کے لٸے سب سے ضروری چیز پانی ھے،

جس کے بغیر انسان کا زندہ رہنا ممکن نہیں،

پانی بھی ہمیں مٹی سے نِکلا ہُوا ہی پینا چاہیٸے،

پوری دنیا میں *آبِ زم زم* سب سے بہترین پانی ھے،

اور اس کے بعد پنچاب کا پانی ھے،

*اس کے بعد مٹی سے نکلنے والی گندم استعمال کریں،*

لیکن گندم کو کبھی بھی چھان کر استعمال نہ کریں،

گندم جس حالت میں آتی ھے،

اُسے ویسے ہی استعمال کریں،

یعنی سُوجی، میدہ اور چھان وغیرہ نکالے بغیر

کیونکہ!

ہمارے *آقا کریم حضرت محمدﷺ* بغیر چھانے أٹا کھاتے تھے،

تو پھر طے یہ ہوا کہ ہمیں یہ پانچ کام کرنے چاہٸیں،

*1- مٹی کے برتن،*

*2- سرسوں کا تیل،*

*3- گُڑ،*

*4- پتھر والا نمک،*

*5- زمین کے اندر والا پانی،*

زمین کے اندر والا پانی،

مٹی کے برتن میں رکھ کر،

مٹی کے گلاس میں پئیں،

اور ان ساری چیزوں کے ساتھ گندم کا آٹا،


*اب سوال یہ پیدا ہوتا ھے کہ ہم یہ ساری چیزیں کیوں لیں؟*

یہ ساری چیزیں ہم نے اس لٸے لینی ہیں کہ اسی میں صحت ہے،

*اور الله پاک نے ہمیں مٹی سے پیدا کیا ھے،*


اور ہم نے واپس بھی مٹی میں ہی جانا ھے،

جزاک اللہ



اردو غزل


 غزل 


لاوا یادوں کا جب پگھلتا ہے 

دیر تک دل کا شہر جلتا ہے 

اب تو چاہت کے نام کو سن کر 

جاں لرزتی ہی جی دھلتا ہے 

زخم دل پھوٹ پھوٹ جاتے ہیں 

چاند جب جب افق میں ڈھلتا ہے 

جو تیرے گیسوؤں سے کھیلا ہو 

وہ کھلونوں سے کب بہلتا ہے 

عشق کے کوچہ خرابی میں 

جو بھی جاتا ہے ہاتھ ملتا ہے 

شب کی تیرہ شبی یہ کہتی ہے 

شب کے پہلو سے دن نکلتا ہے 

نہ لٹا دولت وفا ناصر 

کھوٹا سکہ بھی کہیں چلتا ہے 


ناصر نظامی 

استاد مہدی حسن خان نے یہ غزل 1993 میں گائی۔ میریٹ ہوٹل   کراچی۔ میں ان کے سامنے ناصر نظامی صاحب اپنے دوست سید مظاہر بخاری کے ساتھ بیثھے ہیں 


Tuesday, February 21, 2023

سرسوں کا تیل


 تیل سرسوں کھائیں اور مرضوں سے نجات پائیں بھول جائیں ڈاکٹروں حکیموں کو

دوستو آپ نے سوشل میڈیا پہ ہر قسم کی پوسٹ پڑھی ہے جبکہ عام فہم پوسٹ تو حکما کی ہوتی ہی مردانہ طاقت پہ ہے جوکہ حکما نے اپنی ہمت کے مطابق مردانہ طاقت کے نسخہ جات کے سوشل میڈیا پہ انبار لگا دیے ہیں طاقت کے خزانے موجود ہیں میرے بھی پیج پر اکثر پوسٹیں مردانہ کمزوری پر ہوتی ہی ہے جہاں دیکھو وہاں مردانہ طاقت کی ہی پوسٹ لگی ہوتی ہے لیکن جب تک میدہ اور جکر ٹھیک نہیں ہوگا تب تک ہر دوا اور نسخہ جات نامکمل ہے اللہ ہدایت دے مجھے بھی اور سبکو...

دوستوں اپنا ہر کھانا 

       سرسوں کے تیل میں تیار کریں چکن فش تکہ پکوڑے اسی میں فرائی کریں اور پھر مزے کی بات ہے کہ تیل میں بنی ھوئ اشیإ کڑک اور کرنچی بنتی ہیں مزا بھی بہترین ہوتا ہے

                #بنانے_کا_طریقہ

دو کلو خالص تیل سرسوں کا لےکر چولہے پر رکھکر ابالنا شروع کریں جب ابلنا شروع ہوجائے تو سوگرام ادرک کو چھیل کر بڑی بڑی  قتلیاں بنا کر تیل میں ڈال دیں اور جب ادرک جل جائے تو اتار لیں اور کپڑ چھان کرکے برتن میں محفوظ رکھیں اور سالن تیار کیا کریں جو چاہے بنا کر کھائیں اور دیسی گھی جیسا مزہ بن جائے گا کسی قسم کی مہک نہیں آتی

                   #فوائد

عارضہ قلب  کولیسٹرول یورک ایسڈ

لقواہ فالج رعشہ پھٹوں کا کھنچاو ہائے بلڈ پریشر اور ldl کولیسٹرول کو کم کرتا ہے دردیں ہر قسم معدہ و جگر کا بہترین علاج ہے جسم کے اندر تمام اقسام کی شریانوں رگوں وریدوں میں بننے والی ہر قسم کی بلاکیج کو ختم کرتا ہے اور جسمانی شریانوں رگوں وتیدوں میں قدرتی لچک پیدا کرتا ہے نیند کا کم آنا دماغی خشکی ناف پڑنا قبض وگیس کے لیے اکسیر ہے کیونکہ پورے جسم کی خشکی دور کرے گا رات کو ناف میی لگا کر سونے  سے انتڑیوں کی خشکی زاٸل کرتا ہے 

                 #فواید_نمبر 👈2

سرسوں کے تیل کے بشمار فائدے ہیں لیکن مختصر لکھ دیے ہیں یہ حسن بیمثال بھی دنیا کی ہر کمپنی کا مہنگے سے مہنگا شیمپو اسکے آگے زیرو ہے سر میں تیل ڈال کر اگر پندرہ منٹ مالش کی جائے دو گھنٹے تک سر کو ڈھانپ لیا جائے اور پھر نہالیں بال بھی سلکی لمبے گھنے ہوجاتے ہیں اور روزانہ ایسا کرنے سے زلفیں سیاہ رات کی چادر اڑھ لیتی ہیں چہرے پہ پندرہ منٹ تک لگائے رکھیں اور بعد میں اچھے Dove صابن سے دھولیں دنیا کی کوئی کریم اسکا مقابلہ نہیں کرے گی جلد خشکی سے پاک بھی ہوگی اور چہرا چاند کی طرح نہ چمکے تو میری پوسٹ جھوٹ اٸندہ مت مطالعہ کریں پورے جسم کی ہفتہ میں تین بار مالش کریں اور آدھے گھنٹے بعد نہائیں جسم اتنا ھلکا محسوس ہوتا ہے جیسے گناہ ہی جڑ چکے ہیں قدرت نے اس حیاتین اور معدنیات کے انبار لگا دیے ہیں لیکن صد افسوس کہ ہم اپنا اصل ورثہ بھول گٸے ہیں۔

         #بناسپتی_گھی_کے_نقصان۔

 بناسپتی گھی خواہ کیساہی کیوں نہ ہو نقصان سے پاک نہیں ہے اور کمپنی کے cocking oil کی بھی کوئی گارنٹی نہیں ہے کوئی حقیقت نہیں ہے. ناقص اور بدبودار چربی کو گھلا کر چکنائی کی امیزش کی جاتی ہے جوکہ امراض قلب اور کولیسٹرول کا باعث بنتا ہے. بناسپتی گھی سے بنے کھانے پر بے تحاشہ تری ہوتی ہے اور جب ہم کھاتے ہیں اور اوپر سے ٹھنڈا پانی یا بوتل استعمال کرتے ہیں, تو معدہ میں جارہی چکنائی جم جاتی ہے جو آگے جگر میں جاتی ہے, اور جب جگر اپنے کیمیکل بناتا ہے تو یہیں چکنائی ہماری شریانوں میں جاکر جم جاتی ہے جو کہ عارضہ قلب اور hihg blood pressure کا باعث نبتی ہے اس لیے سرسوں کا تیل کھائیں اور مرضوں کو بھول جائیں۔

             باقی زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں اپنی حفاظت  لازمی ہے 

               بہت شکریہ

مشاعرہ

 رپورٹ مشاعرہ : سردار خالد انجم ڈوگر

 قصور کے ابھرتے ہوئے نوجوان شاعر عبدالغفورقصوری کے ساتھ شام

کل 20فروری2023 بروز پیر 

ادبی تنظیم کونج پکار سرائے مغل نے آواز ادبی فورم پاکستان  کے ابھرتے ہوئے نوجوان شاعر عبدالغفورقصوری کے ساتھ ایک شام کا اہتمام کیا جس کی صدارت اردو پنجابی کے معروف شاعر لیاقت عزمی صاحب  نے کی۔

نقابت کے فرائض ریڈیو ایف ایم اٹھاسی کے معروف کمپئیر محسن شکوری صاحب نے احسن طریقہ سے نبھائے ۔

تمام انتظامات بہترین رہے مہمانوں کو عشائیہ بھی دیا گیا  خصوصی شرکت معروف شاعر چیرمین آواز ادبی فورم پاکستان جناب نذیر نزر نے کی

 مہمانوں شعراء :

 سردار خالد انجم ڈوگر۔منظور شاہد اوراڑہ۔بابر آزاد بابر۔عامر صدیقی۔سلیم ماہی تھے ۔ 

 مقامی شعراء میں ، سردار شبیر احمد ڈوگر ، بابا ابراہیم رازی ، محسن شکوری ، لالہ شوکت علی ، محمد آصف جٹ ,ماسٹر امجد پرویز  ، اور دیگر شامل تھے مشاعرے کے اختتام پر کونج پکار کے چئیرمین آصف جٹ اور سر پرست اعلی جناب محسن شکوری صاحب نے آنے والے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔

 ادبی تنظیم کونج  پکار سرائے مغل کے تمام عہدے داران کو کامیاب مشاعرے کی مبارک باد۔


مشاعرہ

 کوٹ رادھاکشن ( وقاص ساحل ) 

پنجابی ادبی ویہڑا تحصیل کوٹ رادھا کشن کے بانی صدر  اور معروف پنجابی شاعر ملک ارشاد کی رہائش گاہ پر ایک مشاعرے اور عارفانہ کلام کی محفل کا انعقاد کیا گیا, جس میں ملک ارشاد, صابر علی میراں, وقاص ساحل اور سلیم سندھو نے اپنا اپنا بہترین کلام سنا کر خوب داد وصول کی, اس موقع پر پاکستان کے مشہور فوک گلوکار حبیب رفیق کے شاگرد خاص جڑانوالہ سے آۓ ہوۓ نوحہ خواں اور گائیک فیصل علی نے بانسری نواز أستاد اشرف بلوچ اور طبلہ نواز أستاد پپو کی سنگت میں عارفانہ اور صوفیانہ کلام گا کر محفل میں سما باندھ دیا, پروفیسر راؤ  اصغر صدیق, ماسٹر ذکاء الہی چودھری, محمد ارشد فریدی, حاجی محمد انصاری,چودھری نوید آصف گوشی, اظہر صدیق انصاری, انجینئر محمد ندیم, محمد وسیم, انجینئر محمد رضوان ملک, أستاد کالے خاں, علی رضا, مٹھو بھٹی, حسنین عالم ملک اور اسد علی مون نے خصوصی طور پر شرکت کی حاضرین کا کہنا تھا کی اس گھٹن کے دور میں ایسی محافل ٹھنڈی ہوا کا جھونکا ہیں اور یہ ہوتی رہنی چاہیں آخر میں میزبان ملک ارشاد کی طرف سے سب حاضرین کا شکریہ ادا کیا گیا۔


Monday, February 20, 2023

پنجابی غزل

 دوری   توں نزدیک  دا   متھا

ہاسے   چمیا   چیک  دا  متھا


یار     فقیرا    منزل     کتھے

میں  کٹیا  اے  لیک  دا  متھا


اوہدے   لارے  ویکھ  رہیا اے

ہر  دن  نویں  تریک دا  متھا


پیر   دے  چھالے  ورگا   ہویا

تھلاں  دے  وسنیک دا  متھا


سر  پیراں  تے  دھر  کے ٹریا

اوہدے  ول  دھریک دا  متھا


میرے  ساویں  بہہ کے  چمیا

قمری . یار  شریک  دا   متھا


            ڈاکٹر  طارق قمری


پنجابی غزل


 پنجابی غزل 


انساناں دے روپ دیوچ  فرشتے ہوندے نیں 

کجھ چہرے  تصویراں توں وی سوہنے ہوندے نیں 


وس لگدے نوں مان کسے دا ٹٹن دیندے نئیں 

جہڑے کدھرے اپنے اندروں تڑکے ہوندے نیں


کسے دے سارے جیون وچ وی اوہ پل نئیں آؤندا 

اکھر جہڑے ویلے دے لئی سانبھے ہوندے نیں 


اکھ نوں چنگا لگن دا کوئی  ویلا  ہوندا  اے 

نئیں تے اوہی کنی واری  ویکھے ہوندے نیں 


اکو بندہ ساری دنیا کھو کے لے جاندا 

آل دوالے  بھانویں  کنے میلے  ہوندے  نیں 


فر کجھ آکھن دے لئی میرے کولوں جڑدا نئیں 

اوہ جد اکھاں مورے سچیں بیٹھے ہوندے نیں 

( ریاض احمد خلجی  )

صغیر تبسم


 لیاقت علی عزمی دیاں نکیاں نظماں دی کاٹ کلیجہ چیر کے رکھ دیندی اے۔پتو کی لیاقت عزمی دا نانکہ پنڈ تے منڈی صادق گنج ضلع بہاولنگر دادکا پنڈ اے۔ لیاقت عزمی  6جولائی  1982 چے پتو کی پیدا ہویا، مڑھلی تعلیم بہاولنگر دے علاقے منڈی صادق گنج چو ں حاصل کیتی۔اوس توں بعدپتوکی چوں ایف اے تے پی ٹی سی کورس کر کے کجھ عرصہ میکلوڈگنج، منڈی صادق گنج ضلع بہاولنگر چے ذاتی کاروبار کیتا تے نال نال کجھ اخباراں لئی کالم نگاری وی کردا رہیا۔وقت دے نال نال حیاتی دے چکر کھاندے عزمی نوں اپنے اندر شعراں دی ہل چل محسوس ہوئی بے چینی دی ایہ کیفیت کدی کدی تے ایسراں طاری ہوندی کہ طبعیت بحال ہون دا ناں ہی نہ لیندی۔2006 چے اوہنے  اپنے مشاہدے تے لوکائی دے دکھاں نوں نکیاں نکیاں، نویکلیاں تے سجرے پھلاں وانگر مہکدیاں نظماں راہیں ایسا اُلیکیا کہ پڑھن سُنن  والا حیران رہ گیا۔لیاقت عزمی  بابا بلھے شاہ  نوں اپنے وسیب دی بھکھ دا  حال دسدیاں ہویاں آکھدا ہے کہ:


 لکھاں کوہاں دور ای لگداے

 عشق دے وچ دھمالاں پاناں 

 ساڈے چلھے دبھ اگی اے

 خالی پیٹ اوہ میریا بلھیا

 اڈی وی نہیں ماری جاندی۔۔۔!


لیاقت عزمی دیاں نکیاں نکیاں نظماں بہت سارے شاعراں دیاں لمیاں لمیاں تے بے تُکیاں نظماں توبہت بہتر نیں۔ اوہدی نظماں دی کتاب تیار ہے امید ہے چھیتی پڑھن نوں ملے گی۔اک ہور نظم چے محبت دا اظہار تے محبوب دی بے پرواہی نوں کس سلکھنے انداز نال ورتیا اے تسی وی ویکھو:


 تینوں میں مناؤن دی خاطر

 تیرے پیریں پے جانا سی۔

 پر جے سجناں۔۔۔۔۔۔۔

 تیرے پیر ای ہندے۔۔

 تے۔۔۔۔۔۔!


لیاقت علی عزمی بہاولنگر دی دھرتی نوں اپنی شاعری دے پھلاں نال مہکاندا رہیا پر ایس ڈڈھ دا کیہ کریے۔۔۔۔؟  بندہ آپ تے بھکھاں کھِیسے نال بنھ کے تسّیاں اکھاں دے جگراتے جگ ہسائی توں بچن لئی لُکا سکدا اے پر جدوں کلیاں ورگے ریشمی ہاسیاں بنھے جواک موڈھیاں تے آ بیٹھن تے بندہ اوہناں دیاں اکھاں دے سُفنیاں دیاں تعبیراں لبھن تھل،سمندر، جنگل، بیلے،سڑدے موسم، ماگھ دے پالے تے گھر بار چھڈ کے رزق دی تلاش دور بہت دور نکل جاندا ہے۔ لیاقت عزمی  وی ایسے کارن اجکل اپنی مٹی توں دور گجرات شہر چے کپڑے دی تجارت کر رہیا اے تے میرے شہر ول منہ کر کے ہولی جئی سوال کردا ہے جہدا میرے کول کوئی جواب نہیں کہ:   


 میں سنیا اے۔

 کنک جے گڈیے۔

 کنک ہندی اے جوں نہیں ہندے۔

    پر۔۔۔۔

 میرے نال ایہہ واقعے۔

 خورے کیوں نہیں ہندے۔

 میں تے جد وی پیار دے دانے بیجے نیں 

 میں تے فصل جدائیاں والی کٹی اے۔۔۔۔۔!