غزل
لاوا یادوں کا جب پگھلتا ہے
دیر تک دل کا شہر جلتا ہے
اب تو چاہت کے نام کو سن کر
جاں لرزتی ہی جی دھلتا ہے
زخم دل پھوٹ پھوٹ جاتے ہیں
چاند جب جب افق میں ڈھلتا ہے
جو تیرے گیسوؤں سے کھیلا ہو
وہ کھلونوں سے کب بہلتا ہے
عشق کے کوچہ خرابی میں
جو بھی جاتا ہے ہاتھ ملتا ہے
شب کی تیرہ شبی یہ کہتی ہے
شب کے پہلو سے دن نکلتا ہے
نہ لٹا دولت وفا ناصر
کھوٹا سکہ بھی کہیں چلتا ہے
ناصر نظامی
استاد مہدی حسن خان نے یہ غزل 1993 میں گائی۔ میریٹ ہوٹل کراچی۔ میں ان کے سامنے ناصر نظامی صاحب اپنے دوست سید مظاہر بخاری کے ساتھ بیثھے ہیں
No comments:
Post a Comment