نوحہ لکھے غزال شکاری غزل کہے
لازم ہے اب کہ کوئی نہ کوئی غزل کہے
بستر پکارے پنکھے کو پنکھا زمین کو
دروازہ چیخ مارے تو کھڑکی غزل کہے
تبلہ کہے ہے تَک نہ تَنک دِھن تَنک تَنک
اُس کے بدن پہ راگ ابھی بھی غزل کہے
گر وہ لگائے چشمہ تو دریا مچل اُٹھے
اور دیکھے آئینہ تو یہ دھرتی غزل کہے
اِک عرصہ ہو گیا کہ اُسے دیکھا تک نہیں
مدت ہوئی مجھے کوئی اچھی غزل کہے
محفل سے ہو کے آئی ہو اُمید ہے کوئی
تم ہی کو سوچتے ہوئے پہلی غزل کہے
اس مہ جبیں کے حُسن کاحق یہ ہےجانِ دل
صحرا بہے کہیں کہیں راوی غزل کہے!
کچھ اِس لیے بھی اُس کو دِکھاتا ہوں آئینہ
یہ چاہتا ہوں میں کہ وہ لڑکی غزل کہے
یزدان نقوی
No comments:
Post a Comment