انتخاب : حسنات یاس
چاچا گلو
چاچا
گلو بیمار اور ہسپتال میں داخل تھا۔ محلے کے چند لوگوں نے مشورہ کیا کہ ویگن والے سے ہسپتال آنے جانے کا کرایہ طے کرتے ہیں اور سارے جا کر چاچے کی خیر خیریت پوچھ آتے ہیں۔ سو روپے فی بندہ طے ہوا اور کل ملا کر تیرہ بندے تیار ہوئے۔
ویگن والے نے بڑا زور لگایا چودہ سیٹیں ہیں ایک اور بندہ ساتھ ملا لو تاکہ میری ایک سیٹ خالی نہ جائے مگر بندوبست نہ ہو سکا۔
تیرہ بندوں کو بٹھا کر ویگن چلنے ہی لگی تھی کہ گلی کی آخری نکڑ والا رانجھا موچی بھاگتا اور آوازیں دیتا ہوا آتا دکھائی دیا۔
ویگن کے تیرہ مسافر کہنے لگے کہ ویگن بھگاؤ اس منحوس کو ساتھ نہ لو، یہ منحوس تمہارا بھی کوئی نقصان کروائے گا۔ مگر کنڈکٹر نے جواب دیا کہ منحوس ہوگا تو تمہارے لیئے ہوگا میرے لیئے تو سو روپے کی سواری ہے میں تو اسے ہر حال میں اُٹھاؤں گا۔
دیگر سواریوں کے پاس کوئی اور چارہ نہیں تھا۔ بادل نخواستہ اپنے محلے بھر کے غیر مرغوب شخص رانجھے کے پہنچنے کا انتظار کرنے لگے۔
ہانپتے کانپتے رانجھے کے پہنچنے پر کنڈکٹر نے اُسے بٹھانے کیلئے دروازہ کھولا مگر رانجھے نے باہر کھڑے کھڑے ہی ٹوٹی سانسوں میں دیگر تیرہ لوگوں سے کہا کہ چاچا گلو تو رات کا ہی ہسپتال سے واپس گھر آ گیا ہے۔ اُترو سارے نیچے، خواہ مخواہ ہسپتال نہ جاؤ۔
No comments:
Post a Comment