" ہاتھ "
ایک ننھی سی وہ خواہش تھی
جو دل میں, میں نے پالی تھی
مولا کے فیض خزینے سے
مجھ کو ایسی سوغات ملے
میرے ان خالی ہاتھوں کو
اک ایسے ہاتھ کا ساتھ ملے
ایک طلسمی لمس میں جس کے
یا خون رگوں میں جم جائے
یا ہاتھ ہی میرا گم جائے
ایسے کہ نظر آئے نہ کبھی
بس ایک لگے وہ مٹھی بند
اور جان سکے نہ کبھی کوئ
اک ہاتھ نہیں ہے وہ دو ہیں
جو آئے نظر وہ تیرا ہو
جو کچھ اس میں پوشیدہ ہو
وہ میرا ہو , بس میرا ہو
پھر کوئ کر پائے نہ الگ
ان دو ہاتھوں کے بندھن کو
میں, میں نہ رہوں تم ہو جاوں
میں دل کی ہر گہرائ سے
اس بندھن میں ضم ہو جاوں
یوں کھو جاوں , یوں ہو جاوں
فریدہ خانم , لاہور , پاکستان .
No comments:
Post a Comment