تحریر : یاسین یاس
جب سے منہ زور مہنگائی کا نہ رکنے والا طوفان اٹھا ہے روز سوچتاہوں اس پر کچھ لکھوں لیکن روز ہمت جواب دے جاتی ہے درمیانے اور نچلے طبقے کے دکھ زیادہ ہیں اور میرے الفاظ کا ذخیرہ محدود مگر لکھنا ہے تو لکھنا ہے ٹوٹے پھوٹے الفاظ ہیں مگر دل سے نکلے ہیں قبول کیجئیے گا موجودہ مہنگائی جہاں عالمی مسئلہ ہے وہاں ہمارا ذاتی مسئلہ بھی ہے آپ سوچ رہے ہوں گے ذاتی کس طرح چلیں یہاں کچھ بات کرلیتے ہیں پرسوں مجھے پیاز لینا تھے سو سبزی منڈی کا رخ کیا ریٹ پوچھا تو دو سو روپے کلو بتایا گیا تھوڑا آگے چل کر ریٹ پوچھا تو ایک سو اسی تھوڑا اور آگے ایک سو پچاس وہی پیاز وہی کوالٹی وہی سائز اور وہی جگہ چند قدم کا فاصلہ اسی طرح دیگر اشیاء کی صورت حال ہے جس کی چیز اس کا ریٹ کوئی پوچھنے والا نہیں سب ہڈ حرامی ، گراں فروشی اور ذخیرہ اندوزی کی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں کسی صاحب اختیار، صاحب زر ، صاحب مال کو درمیانے اور نچلے طبقہ کی پرواہ نہیں ہر کوئی اپنا منافع دوگنا کرنے کے چکر میں ہے اور سارا ملبہ حکومت اور سیاستدانوں پر ڈال رہے ہیں جہاں تک میرا ذاتی خیال ہے آپ کا متفق ہونا ضروری نہیں ہم مجموعی بے حسی کا شکار ہیں اپنی ذات کے علاوہ ہم کچھ نہیں سوچتے اپنا الو سیدھا کرنے کے چکر میں ہم نے کئی گھروں کے چولہے ٹھنڈے کردئیے کئی جانیں لے لیں مارکیٹ کمیٹیاں مردہ حالت میں کفن دفن کی منتظر ہیں سوائے ریٹ لسٹیں سپلائی کرنے کے کوئی کام نہیں کرتے وہ بھی نہ کرتے اگر فوٹو کاپی کے بیس تیس روپے نہ لینے ہوں اے سی صاحبان اس قدر مصروف ہیں کہ انہیں ان چھوٹے موٹے کاموں کے لیے فرصت ہی نہیں ان کی کولیکشن ہی اتنی ہوجاتی ہے کہ تنخواہ کو سالہا سال بینکوں میں ہی گھومنا پڑتا ہے وہ افسران کی جیب کو ہی ترستی رہتی ہے کھانے پینے کی اشیاء عام آدمی کی پنہچ سے دور کردی گئی ہیں جس میں صاحب اختیار و اقتدار کے ساتھ ساتھ ہم اور ہمارے جیسے برابر شریک ہیں لالچ و ہوس نے اندھا کرکے رکھ دیا ہے انسانیت شرما رہی ہے ایک دوسرے کو گالیاں سبھی نکالتے ہیں لیکن اپنے گریبان میں دیکھنا کوئی بھی گوارا نہیں کرتا اگر ذخیرہ اندوز ، منافع خور الٹی چھری سے عوام الناس کی کھال اتار رہا ہے تو ہمارے گھر میں جو گندم اضافی پڑی ہے چاول اضافی پڑے ہیں یا ایسا ہی کچھ پڑا ہے جو ہماری ضرورت سے وافر ہے تو کیا وہ ہم اپنے عزیز پڑوسی جاننے والے کو اصل قیمت میں دے رہے ہیں نہیں دے رہے بلکہ اس پر سانپ بن کر بیٹھے ہوئے ہیں کام ہم بھی وہی کررہے ہیں جو ذخیرہ اندوز و ناجائز منافع خور کررہے ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ اس کے پاس گنجائش / مڈھی / سرمایہ زیادہ ہے تو وہ زیادہ کررہا ہے اور ہمارے پاس کم تو ہم کم کررہے ہیں سب جانتے ہیں عالمی سطح پر مہنگائی ہورہی ہے لیکن لیکن جو اشیاء مقامی پیدا ہورہی ہیں اور وافر ہیں ان کے ریٹس کیوں آسمان سے باتیں کررہے ہیں وہ اس لیے کہ سب اپنی اپنی جگہ ایک دوسرے لوٹ رہے ہیں حالانکہ سب لٹ رہے ہیں
لیکن ایک دوسرے کے ہاتھوں ۔ سرمایہ دار تو سرمایہ دار ہے وہ تو نہ پہلے عوامی مفاد مدنظر رکھتا تھا نہ اب رکھے گا لیکن ہم تو ایک دوسرے کا خیال رکھ سکتے ہیں جائز اور حلال منافع لے کر جو کرسکتے ہیں جتنا کرسکتے ہیں ضرور کریں ورنہ جواب تو دینا پڑے گا یہاں نہیں تو وہاں
No comments:
Post a Comment