بشریٰ فرخ:شاعرہ اور سفرنامہ نگار
انٹرویو:صاحبزادہ یاسر صابری
03115311991
بشری فرخ پچھلے پینتالیس سال سے ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے وابستہ ہونے کے ساتھ ساتھ تقریباً تین دہائیوں سے ادب کے میدان میں بھی خدمات انجام دے رہی ہیں۔پشاور ٹیلی ویژن کی پہلی اناؤنسر ہونے کے ساتھ ساتھ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کے تقریبا دو ہزار پروگراموں میں اردو ،ہندکو اور پشتو زبان میں اپنی پرفارمنس دے چکی ہیں۔سترہ کتابوں کی مصنفہ ہیں۔ جن میں آٹھ نعتیہ مجموعے ۔آٹھ شعری مجموعے اور ایک سفرنامہ شامل ہیں ۔ان کی کتابوں میں 13مجموعے ایوارڈ یافتہ ہیں۔خیبرپختونخوا کی پہلی صاحبِ کتاب نعت گو شاعرہ ہیں اور ان کے شعری مجموعے ورفعنا لک ذکرک کو قومی سیرت صدارتی ایوارڈ بھی مل چکا ہے ۔ پاکستان کے دوسرے شہروں کے علاوہ کئی ممالک میں مشاعروں اور کانفرنس کے سلسلے میں بلائی جا چکی ہیں ۔سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر تقریباً200 ایوارڈز گولڈ میڈلز اور اعزازی شیلڈز حاصل کر چکی ہیں ۔ان کی فنی اور ادبی خدمات کے اعتراف میں سات ایم فل اور 4 ایم اے کے تھیسس لکھے جا چکے ہیں۔ خیبر پختونخواہ میں خواتین رائٹرز کو آگے لانے کے لئے کاروانِ حوّا لٹریری فورم کے نام سے تنظیم کی بانی اور چیئرپرسن ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان آرٹسٹس ایکویٹی کی چیئرپرسن بھی ہیں۔
اور خصوصاً خواتین کو آگے بڑھانے کے حوالے سے اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔ ان کی فنی اور ادبی خدمات کو مدِنظر رکھتے ہوئے حکومت پاکستان نے ان کو صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی سے نوازا ہے
کتابوں کے نام۔۔۔
1.اک قیامت ہے لمحۂ موجود … شاعری2000
2۔ ادھوری محبت کا پورا سفر۔ شاعری 2005
3۔بہت گہری اداسی ہے۔شاعری 2007
4۔محبتاں دے مزاج وکھرے۔شاعری 2012
5۔ جدائی بھی ضروری ہے۔شاعری 2013
6۔ورفعنا لک ذکرک۔ تعتیہ 2016
7۔ خمینی کے ایران میں۔سفرنامہ 2016
8۔مجھے آواز مت دینا۔شاعری 2017
9۔ تو کجا من کجا۔ نعتیہ 2018
10۔ ہسدیاں اکھیاں روندے خواب۔ شاعری 2020
11۔ خدائے ما ثنا خوانِ محمدﷺ 2020
12۔ فاذکرونی اذکرکم۔حمدیہ 2021
13۔ لڑکیاں بند کتابوں جیسی۔ شاعری 2022
14۔ بعد از خدا بزرگ توئی۔ نعتیہ 2022
15۔ وحدہُ لا شریک۔ حمدیہ 2023
16۔ توئی سلطانِ عالم یا محمدﷺ 2023
17۔جانانٍ ما محمد۔۔۔2024
سوال۔ بشری فرخ صاحبہ سب سے پہلے آپ اپنی پیدائش اور اپنے خاندانی پس منظر کے بارے میں کچھ بتانا پسند کریں گی؟
جواب۔ میں 16 فروری 1957ء کو پشاور میں پیدا ہوئی۔ہم دو بہنیں ہیں اور چار بھائی ہیں۔ والد صاحب فوت ہو چکے ہیں۔وہ ایک سرکاری افسر تھے۔ میری بڑی بہن مسلم کمرشل بینک سے وائس پریزیڈنٹ کے عہدے سے ریٹائر ہوئی ہیں۔ ایک بھائی بینک آف خیبر کے ایم ڈی ریٹائر ہوئے ہیں۔دوسرے بھائی کینیڈا میں ہوتے ہیں۔ تیسرے اپنا کاروبار کرتے ہیں۔اور چوتھے ایک پراٸیویٹ کمپنی میں جاب کرتے ہیں۔
میں ایف اے میں پڑھ رہی تھی تو شادی ہو گئی تھی اس کے بعد بی اے پرائیویٹ کیا۔ ساتھ ساتھ گھریلو ذمہ داریاں بھی نبھاٸیں۔
میرے والدین کے گھر کا ماحول بہت صاف ستھرا پیار محبت والا تھا۔ والد صاحب خود تعلیم یافتہ تھے۔ تو پڑھائی پر زور دیتے تھے کہ بچوں کے لیے تعلیم بہت ضروری ہے۔اس لیے ہم سارے بہن بھائی پڑھائی میں تیز تھے۔ میں اپنی کلاس میں ہمیشہ فرسٹ آتی تھی۔
سوال۔ آپ کی یہ خوش قسمتی ہے کہ آپ پشاور ٹیلی ویژن کی پہلی اناؤنسر ہیں یہ بتا دیں کہ اداکاری کی طرف کیسے اور کیوں آئیں؟ جواب۔ مجھے ایکٹنگ کا بہت شوق تھا یہی وجہ ہے کہ جب میں نے تیرہ سال کی عمر میں ریڈیو ٹیلی ویژن میں کام شروع کیا اس وقت پشاور میں ٹیلی ویژن نہیں ہوتا تھا اسلام آباد سے پروگرام ہوتے تھے تو اس میں آغوش کوہستان کے نام سے پشاور کو وقت دیا گیا تھا اس میں ہندکو ڈرامہ ہوتا تھا۔ پشتو ڈرامہ ہوتا تھا۔میوزک کے پروگرام ہوتے تھے۔ اور دوسرے علاقاٸی پروگرام ہوتے تھے۔
پشاور ٹیلی ویژن 1974ءکے اختتام پر شروع ہوا۔چونکہ مجھے اس وقت تک ریڈیو ٹیلی ویژن کا تھوڑا بہت تجربہ ہو چکا تھا تو اناؤنسمنٹ کے لیے ٹیسٹ دیا اور سلیکٹ ہو گئی ۔ اس طرح پشاور ٹیلی ویژن سے اوپننگ اناوننسمنٹ میں نے کی تھی۔ میرے بعد پھر اور بہت سی اناٶنسرز آئیں لیکن شروع میں تقریباً چھہ مہینے تک میں نے اکیلے ساری ٹرانسمیشن سنبھالی۔ زیادہ تر جو آتی تھیں دو چار دن کے بعد واپس چلی جاتی تھیں۔ کسی کو گھر سے پرمیشن کا مسئلہ تھا کسی کو رات کی کلوزنگ لیٹ ہونے کے مسائل ہوتے تھے۔
اس وقت ٹیلی ویژن زیادہ عام بھی نہیں تھا اور پرمیشن بھی مشکل سے ملتی تھی۔ٹیلی ویژن یا ریڈیو کی طرف آنا میرے لیے بھی بڑا مشکل تھا لیکن چونکہ میرے والد صاحب میرے ساتھ تھے ۔انہوں نے مجھے اجازت دی ہوئی تھی تو میں بڑی آسانی سے کام کر رہی تھی ورنہ تو اس وقت ریڈیو ٹیلی ویژن کا نام لینا بھی لڑکیوں کے لیے گناہ سمجھا جاتا تھا۔ لڑکیوں کے لیے اس زمانے میں یہی ہوتا تھا کہ ٹیچنگ کر لیں ۔ بہت ہوا تو ڈاکٹر بن جائیں اس کے علاوہ کسی تیسری جگہ پر کام کرنا اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا لیکن میں نے ہمت کی اور اس طرح اداکاری کا سلسلہ شروع ہوا۔
سوال۔ آپ کی شادی کب ہوئی اور آپ کی اولاد؟
جواب۔ میری شادی ٹیلی ویژن میں کام کرنے کے دوران ہوئی۔ میرے خاوند پشاور ٹیلی ویژن میں پروڈیوسر تھے میں وہاں کام کرتی تھی۔انہوں نے مجھے دیکھا پسند کیا اور شادی ہو گئی۔ ہماری بہت اچھی انڈرسٹینڈنگ بھی رہی۔ چار بچیاں ہوئیں۔ میرا گھر ایک چھوٹی سی جنت تھی۔ ٹیلی ویژن سٹیشن میں سب بھابھی کہتے تھے اورٹیلی ویژن سٹیشن مجھے میرا سسرال لگتا تھا۔فرخ بڑے پیار کرنے والے محبت کرنے والے ہر ایک کی عزت کرنے والے تھے۔اپنی بچیوں سے بہت پیار کرتے تھے۔ پٹھان تھے لیکن انہوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ میرا بیٹا نہیں ہے تو ہونا چاہیے۔
سوال۔ آپ نے شاعری کا آغاز کب کس عمر میں اور کیسے کیا؟
جواب۔میری شاعری کا آغاز حادثاتی طور پر ہوا۔جیسے لڑکیاں ہوتی ہیں فرسٹ ایئر میں سیکنڈ ایئر میں ہر ٹین ایجر شعر و شاعری میں دلچسپی لیتا ہے کوئی افسانے لکھتا ہے تو میں بھی تھوڑی تھوڑی شعر و شاعری کیا کرتی تھی۔ اس وقت کچھ غزلیں لکھی تھیں پھر شادی ہوگٸی اور اس کے بعد لکھنے لکھانے کی طرف کبھی ذہن ہی نہیں گیا ۔ زیادہ تر دھیان ایکٹنگ کی طرف رہا ۔ اور یہ ذہن میں بھی نہیں تھا کہ کبھی لکھنا ہے اور شاعرہ بھی بننا ہے۔ ایک حادثہ میرے ساتھ ہوا کہ 1997ء میں میرے شوہر جوانی میں فوت ہو گئے جس کا میں نے بہت اثر لیا اور یوں پتہ نہیں کیسے آمد ہونے لگی۔پہلا شعر میں نے اپنے شوہر کی قبر کے سرہانے کھڑے ہو کر کہا جو آج بھی ان کی قبر کے کتبہ پر لکھا ہوا ہے۔ جو کچھ یوں تھا
میری جاں ہو مبارک تجھ کو یہ گھر
یہ غنچہ اب یہاں مہکا کرے گا
کہا کس نے کہ فرخ مر گیا ہے
دلٍ بشریٰ میں تو زندہ رہے گا
سوال۔ شروع میں آپ کی شاعری کا تاثر کیا پڑا ؟
جواب۔ جیسا کہ ہمارے معاشرے کا دستور ہے کہ نئے لوگوں کو اتنی جلدی قبول نہیں کیا جاتا اور خاص کر شاعری میں مقبول ہونا تو لوگ بڑے حیران ہوئے کہ اچانک ایک ٹی وی آرٹسٹ شاعرہ کیسے بن گئی یہاں تو لوگ دس دس سال میں عروض سیکھتے ہیں پھر بھی اتنی پرفیکٹ شاعری نہیں کر سکتے۔کچھ ایسا ہوا کہ میں ریڈیو پاکستان سے ایک پروگرام کرتی تھی شعر و نغمہ۔ دس سال تک میں نے وہ پروگرام کیا اس میں یہ ہوتا تھا کہ لوگ شعر بھیجتے تھے اور وہ شعر میں پڑھتی تھی کسی ایک شعر کے ساتھ کوئی نغمہ لگا دیا تو شاعری میں انٹرسٹ بھی تھا۔اور کچھ قدرتی طور پر ہوتا ہے تو جو میں لکھتی تھی ان کی بحریں درست ہوتی تھیں ۔ یہ اللہ پاک کا کرم ہے کہ یہ علم عطا فرمایا حالانکہ میں نے باقاعدہ اوزان و بحور کا علم حاصل نہیں کیا لیکن اللہ کا شکر ہے کہ شروع سے ہی میری شاعری میں فنی خامیاں موجود نہیں تھیں جب میں نے پہلی کتاب اک قیامت ہے لمحہ موجود شائع کرائی۔
سوال۔ تو گویا آپ نے شاعری میں کسی سے باقاعدہ رہنمائی حاصل نہیں کی؟
جواب۔ ہمارے یہاں خاطر غزنوی اور محسن احسان تھے یہ دونوں میرے استاد بھی ہیں اور رشتہ دار بھی ۔ ان کو جب شعر دکھاتی تو وہ بھی بڑے حیران تھے کہ آپ اچھی شاعری کر رہی ہیں بلکہ خاطر غزنوی صاحب نے میری کتاب اک قیامت ہے لمحہء موجود کے دیباچےمیں لکھا کہ شروع میں ہمیں ان کی قادر الکلامی پر یقین نہیں آتا تھا کہ ایک اچھی شاعرہ ایک دم سے کیسے سامنے آگئی۔ اس کے بعد انہوں نے مجھے بہت زیادہ انکرج بھی کیا لیکن پہلی کتاب پہ سب نے ڈسکرج کیا کہ یہ آپ کیوں چھپوا رہی ہیں ۔جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوۓ شاعری کرتے ہوئے۔ لوگ تو دس دس سال میں سیکھتے ہیں اور اس کے بعد کتاب لاتے ہیں آپ اتنی جلدی نہ کریں کتاب لانے میں تو میں نے کہا ۔ انسان کی زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں اپنے شوہر کے لیے جو میں نے لکھا ہے وہ میں جمع کرنا چاہتی ہوں تو مجھے کہا گیا اس میں آپ کو نقصان ہوگا پیسے بھی خرچ ہوں گے کتاب لوگ خریدیں گے نہیں شہرت آپ کو اس سے ملنے والی نہیں ہے ۔ میں نے کہا چونکہ میں پہلے ہی ایک سیلیبرٹی ہوں تو شہرت بہت مل چکی ۔ پیسے کمانے کے چکر میں بھی نہیں ہوں کہ اللہ کےفضل سے مجھے کمی نہیں بس میرے جذبات جن کا اظہار میں نے اپنے شوہر کے لیے کیا اس کو کتابی شکل میں محفوظ کرنا چاہتی ہوں اور بس۔ بہرحال ڈسکرجمنٹ کے باوجود میں نے خود پر بھروسہ کرتے ہوئے 500 کی تعداد مںں کتاب چھپوائی وہ کتاب لوگوں کو اتنی پسند آئی کہ چھ مہینے بعد اس کا دوسرا ایڈیشن آ گیا ۔ خواتین نے بہت خرہدیں۔
میرا ماننا یہ ہے جو آپ کے جذبوں کا اظہار ہوتا ہے اگر آپ کے جذبے سچے ہوں تو وہ ضرور اپنی جگہ بنا لیتے ہیں تو اس حوالے سے بھی بہت زیادہ پسند کی گئی اس کے بعد یکے بعد دیگرے میری کتابیں شائع ہوتی گئیں۔
سوال۔ آپ نے اردو زبان کے علاوہ علاقائی زبان میں بھی ادب تخلیق کیا؟
جواب۔ ہمارے گھر میں چونکہ پشتو اور ہندکو دونوں زبانیں بولی جاتی تھیں شوہر بٹھان تھے میں ہندکو زبان بولتی تھی لیکن زیادہ تر گھر میں اردو بولی جاتی تھی بچوں کے ساتھ بھی والدین کے ساتھ بھی تو زیادہ تر میرا اسی لیے اردو کی طرف رجحان تھا ریڈیو میں بھی اردو میں زیادہ کام کیا۔ ہند کو اور پشتو میں بھی پروگرام کیے لیکن زیادہ اہمیت اردو کو دی اور اسی لیے میری کتابیں بھی اردو میں آئیں پھر اس وقت مجھے احساس ہوا کہ ماں بولی کا حق بھی ادا کرنا چاہیے اس کے بعد حالانکہ مجھے ڈر تھا کہ اردو میں چار کتابیں شائع چکی تھیں اور
اللہ نے بہت عزت دی اس وقت میں دو تین ممالک کے سفر بھی کر چکی تھی کانفرنس وغیرہ کے حوالے سے تو آپ کو پتہ ہے قومی زبان سے علاقائی زبان کی طرف واپس آنا بڑا مشکل ہوتا ہے ۔ میں نے سوچا پتہ نہیں کیسا لکھتی ہوں پذیرائی ملے گی یا نہیں ملے گی زبان کا حق ادا کرنا ہوتا ہے صرف لکھنا نہیں ہوتا لیکن اللہ کا فضل ہے جب میں نے پہلی کتاب لکھی محبتاں دے مزاج وکھرے اس کو بھی بہت پذیرائی ملی۔
سوال۔ادب کے حوالے سے آپ کو باہر کے ممالک میں بھی جانے کا اتفاق ہوا؟
جواب۔ میں سات آٹھ ممالک میں کانفرنس اور مشاعروں کے سلسلے میں بلاٸی جا چکی ہوں۔ لیکن سفرنامہ صرف ایک ملک کا لکھا۔
ہوا یوں کہ ایران میں 2012ء کو ایک انٹرنیشنل کانفرنس ہوٸی تھی خواتین کی اسلامی بیداری کے حوالے سے ۔بہت سارے ممالک کی خواتین کو بلایا گیا تھا ۔ پاکستان سے ایک میں اور دوسری کراچی سے ڈاکٹر شاٸستہ زیدی تھیں۔ ہم دونوں نے وہاں پیپر پڑھنا تھا ۔ ایران ایک شیعہ ملک ہے اور میں اہل سنت ہوں ۔ذہن میں تھا کہ پتہ نہیں وہاں کا ماحول کیسا ہوگا ۔لیکن وہاں جا کر بہت ساری مثبت چیزیں نظر آٸیں تو سوچا کہ اتحاد بین المسلمین کے حوالے سے اپنا حصہ ڈالنا چاہیے اور یہ سوچ سفرنامہ لکھنے کا محرک بنی
سوال۔ آپ نے نعت گوئی کی طرف زیادہ توجہ دی اس کی وجہ کیا ہے؟
جواب۔ ہم مسلمان ہیں اللہ اور اللہ کے رسول کی محبت ہر دل میں ہے یہ نہیں کہ کسی مسلمان کے دل میں محبت نہیں ہے یا عقیدت نہیں ہے لیکن وہ محبت اندر کہیں دفن ہوتی ہے تو پھر آہستہ آہستہ جب اللہ کا کرم ہوتا ہے تو محبت کھل کر سامنے آتی ہے تو میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا دل میں محبت تو تھی لیکن نعت لکھنا بہت مشکل لگتا تھا میری پہلی کتاب اک قیامت یے لمحہ موجود کے شروع میں ایک نعت لکھنا تھی جو بڑی مشکل سے لکھی۔ 2016ء میں میرا پہلا نعتیہ مجموعہ ورفعنا لک ذکرک آیا اور اللہ کا کرم ہوا کہ اس کو صدارتی سیرت ایوارڈ بھی ملا گورنمنٹ آف پاکستان کی طرف سے تو میرا یقین اور ایمان پختہ ہوا میرا اعتماد بھی قائم ہوا پھر میں نے نعت لکھنا شروع کی۔
سوال۔آپ کی شاعری پر اب تک کتنا کام ہو چکا ہے؟
جواب۔ تین چار ایم اے کی سطح پر مقالے لکھے جا چکے ہیں اور سات ایم فل اب تک ہو چکے ہیں ۔اللہ کا شکر ہے بہت عزت ملی۔
سوال۔ آپ ہم عمر شاعرات میں کس سے متاثر ہیں؟
جواب۔ میں کسی سے متاثر نہیں اور سب سے متاثر ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نام نہیں دیکھتی ہوں بہت ساری ایسی شاعرات ہیں جن کے بہت سارے شعر اچھے ہیں بہت ساری ایسی ہیں جن کے کچھ شعر اچھے ہیں تو جہاں مجھے اچھا شعر ملتا ہے میں ضرور پڑھتی ہوں اور میں اس سے متاثر ہوتی ہوں چاہے اس پہ شاعر کا نام ہے یا نہیں ہے مقام ہے یا نہیں ہے اچھا شعر اگر کوئی لکھ رہا ہے تو اس کی پزیراٸی کرنی چاہیے۔ میں تقریبا سبھی کو پڑھتی ہوں۔
سوال۔اپنے تجربے کی روشنی کی بنا پر قارئین کو کیا پیغام دینا چاہیں گی؟
جواب۔اگر آپ کی نیت صاف ہے اور آپ محنت کریں گے تو اللہ پاک آپ کو اس کا صلہ ضرور دے گا آپ کسی سے حسد مت کریں صرف یہ سوچیں کہ آپ کے حصے کی جو عزت ہے وہ کسی اور کو نہیں مل سکتی۔آپ دوسروں کے لیے راستے بنائیں گے تو اللہ پاک آپ کے لیے راستے بنائے گا آپ کے سارے کام آسان کرے گا اگر زندگی میں جینا ہے تو ایسے جییں کہ دوسروں کے کام آٸیں اپنے لیے تو سبھی جیتے ہیں دوسروں کے لیے راستے آسان کریں گے آپ کے راستے خود بخود آسان ہوں گے۔
سوال۔آپ کے اپنی کہی ہوئی کوئی پسندیدہ غزل؟
جواب۔ایک غزل پیش خدمت ہے:
مرحلہ خشک وتر سے آگے کا
ڈھونڈ کچھ بحر و بر سے آگے کا
سوچ بارِ دگر سے آگے کا
کوئی حل، چارہ گر سے آگے کا
صرف دو گز پہ اختتامی ہے
سلسلہ کرّوفر سے آگے کا
زندگی تو ہی ڈھونڈ لا اب کے
راستہ دکھ نگر سے آگے کا
اور کوئی فریب دے ہم کو
ناصحا! سیم و زر سے آگے کا
جانبِ خلد ہی تو جاتا ہے
راستہ درگذر سے آگے کا
ساحلوں کا نہیں خیال مجھے
سوچتی ہوں بھنور سے آگے کا
کوئی اپنا مزاج داں نہ ملا
تیرے حسنِ نظر سے آگے کا
قصۂ مختصر نہیں بشریٰ
ذکر ہے چشمِ تر سے آگے کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔