مزدور کی حالت اور ٹھیکداری نظام
سابقہ حکومتوں کی طرح اس دور حکومت میں بھی مزدور کی حالت میں کوئی بہتری نظر نہیں آئی بلکہ پہلے کی نسبت مزدور زیادہ پریشان ہے جس کی وجہ کم اجرت اور مہنگائی کی شرح زیادہ ہے چیک اینڈ بیلنس نام کی کوئی شئے نظر نہیں آتی کرونا کی وباء شروع ہوئی تو ایس او پی اور حکومتی احکامات کی بجا آوری کرتے ہوئے ملوں نے بے شمار مزدوروں کو بے روزگار کردیا نکالے گیے مزدوروں کو کیا دیا گیا کسی حکومتی عہدیدار و سرکاری افسر نے نہ مزدور سے پوچھ گچھ کی اور نہ مل مالکان سے باز پرس کی سو ورکرز کا کام پچاس ورکرز کے ذمہ لگا دیا گیا اور تنخواہ وہی رہی کرونا کی آڑ میں مل مالکان نے سالانہ انکریمنٹ بھی روک دی بونس وغیرہ بھی گیا کھوہ کھاتے نتیجہ یہ نکلا کہ مزدور کی حالت اور پتلی ہوگئی مزدوروں کو ملنے والی دیگر سہولیات جس میں بچیوں کے جہیز فنڈ وغیرہ شامل تھے وہ بھی حکومت نے روک لیے حالانکہ کئی کیسز تو تین سے چار سال پرانے جمع ہوئے ہیں لیکن مختلف حیلے بہانے سے انہیں التوا کا شکار کیا جارہا ہے مطلب یہ کہ مزدور کو سکھ کا سانس نہ آسکے اور حکومتی عہدیداران میڈیا پر آکر ایسے ایسے دعوے کرتے ہیں جیسے مزدور کے سب سے بڑے خیر خواہ یہی لوگ ہیں حالانکہ یکم مئی کی چھٹی والے دن یہی لوگ پارٹیاں انجوائے کررہے ہوتے ہیں اور مزدور کے گھر اس دن بھی فاقہ ہوتا ہے اب سنا ہے کہ حکومت نے کم ازکم تنخواہ میں دوہزار اضافے کا اعلان کیا ہے ابھی اعلان ہی ہوا ملے گی پتہ نہیں کب؟ کیونکہ ابھی تک تو بے شمار ملیں ایسی ہیں جنہوں نے پچھلی اعلان کردہ تنخواہ بھی دینا شروع نہیں کی اب بھی کئی ملوں میں تیرہ، چودہ یا پندرہ ہزار تنخواہ دی جارہی ہے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں چھوٹے یونٹ والے تو سرمایے کا رونا روتے ہی ہیں ستم یہ ہے کہ بڑے بڑے نام جن کا مارکیٹ میں طوطی بولتا ہے وہ بھی ورکرز کو کچھ نہیں دے رہے حتی کہ ملٹی نیشن کمپنیاں بھی ورکرز کو ٹھیکے داری نظام کے تحت چلارہی ہیں جن سے ورکرز کا استحصال ہورہا ہے ٹھیکیدار کمپنی سے الگ لیبر ریٹ لے رہا ہے اور ورکرز کو اپنی مرضی کے ریٹ دے رہا ہے اور وہ بھی مہینے بھر کی تنخواہ اپنے نیچے رکھ کر
یعنی مزدور پچاس یا ساٹھ دن کام کرتا ہے تو اس کو ایک ماہ کی اجرت دی جاتی ہے اس مہنگائی کے دور میں جس میں لاکھوں روپیہ تنخواہ لینے والوں کی بھی چیخیں صاف سنائی دے رہی ہیں اک مزدور جس کی تنخواہ ہی پندرہ سے سولہ ہزار روپیہ ہے اس کی گزر بسر کیسے ہورہی گی اس کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں اور اس کا ذمہ دار کون ہے مل مالکان، حکومت وقت یا وہ افسران جو اے سی والے کمرے میں بیٹھ کر مزدوروں کی تنخواہ سے کٹوتی ہونے والے پیسوں سے عیش کررہے ہیں اور فرضی چیکنگ ڈال کر لاکھوں روپے ٹی اے ڈی اے اور پٹرول کی مد میں بھی حکومت سے وصول کررہے ہیں خدارا ان مزدوروں کی حالت پر ترس کھائیں چیک اینڈ بیلنس کا نظام فعال بنائیں کم ازکم تنخواہ بڑھانے کے ساتھ ساتھ ملوں کو ہنرمند ورکرز کی تنخواہ بڑھانے کا بھی پابند بنائیں اور مزدوروں کو ملنے والی سہولیات کو بریکیں نہ لگائیں مزدوروں کا سارا انحصار انہی فنڈز پر ہوتا ہے کیونکہ ملیں جو تنخواہ دیتی ہیں اس سے تو چولہا جل جانا بھی غنیمت ہے نہیں یقین تو کسی وزیر مشیر سے کہہ کر ایک مختصر فیملی کا ماہانہ خرچ مزدور کی کم از کم تنخواہ میں پورا کر کے دکھا دیں ملٹی نیشن کمپنیوں اور دیگر بڑے گروپس جن میں ٹھیکیداری نظام ہے اسے ختم کروایا جائے اور تمام سہولیات جو ایک ورکر کو حاصل ہوتی ہیں ان ورکرز کو بھی دلوائی جائیں جو سالہا سال سے ٹھیکیدار کے رحم وکرم پر چلے آرہے ہیں ڈیوٹی ٹائمنگ ، اورٹائم، میڈیکل، پنشن گریجوایٹی یا پراویڈنٹ فنڈ، سالانہ چھٹیاں ، سالانہ انکریمنٹ، سالانہ بونس ورکرز کا حق ہے خدارا اس مظلوم طبقے کو اس سے محروم نہ رکھیں اور لیبر ڈیپارٹمنٹ کو مذید فعال کریں تاکہ وہ سالانہ رپورٹ ملوں سے طلب کرے جس میں یہ تمام سہولیات ورکرز کو دی گئی ہوں جو ادارہ نہ دے اس کی باز پرس کی جائے اور اس رپورٹ میں باقاعدہ مزدوروں کو شامل کیا جائے تاکہ کسی قسم کی دونمبری نہ ہو سکے.
یاسین یاس
29/4/2021
No comments:
Post a Comment