عالمی یوم ارض
دنیا بھر میں عالمی یوم ارض (Earth Day) 22 اپریل کو منایا جاتا ہے 2015 سے تمام ممالک جو اقوام متحدہ کے رکن ہیں اس دن کو مناتے ہیں اس دن کے منانے کا مقصد آس زمین کو درپیش مسائل زمینی کٹاو, بدلتی موسمی صورتحال, زمینی آلودگی , درختوں کی کٹائی, زمین میں پانی کی کمی, سمیت موضوعات پہ آگاہی دی جاتی ہے . تاکہ زمین کو قدرت کے تحفے کے طور پہ استعمال کیا جا سکے. زمین اللہ رب العزت کا عظیم تحفہ ہے جس میں اللہ تعالٰی نے انسان کے لئے پودے درخت کھانے والے پھل اناج دریا ندی نالے دریا سمندر پہاڑ جنگلی حیاتیات سمیت بے شمار نعمتیں عطا فرمائی. انسان نے ٹیکنالوجی کے بے جا استعمال اور پختہ گھر سٹرکیں ٹریفک سمیت مختلف سہولیات کو حد سے زیادہ استعمال شروع کیا جس سے سب سے زیادہ زمین متاثر ہوئی اور اوپر سے ظلم یہ کرنا شروع کردیا کہ دھڑادھڑ درختوں کو کاٹنا شروع کردیا اور نئے درخت لگانے بند کردیے اور کچھ ایسے درخت دوسرے ملکوں سے منگوا کر پیارے پاکستان میں لگانا شروع کردے جو پانی بہت زیادہ استعمال کرتے تھے.لکڑی کا بےدریغ استعمال شروع کردیا گیا بڑے بڑے جنگلوں کے ساتھ آرے لگا کر لکڑی چوری کرنی شروع کردی گئی اور انسانوں کے ساتھ چرند، پرند اور حیوانوں تک کے لیے زندگی اجیرن کردی گئی. نتیجہ یہ نکلا کہ زیرزمین پانی پینے کے قابل نہ رہا اور ملٹی نیشن کمپنیاں ہمارا خون چوسنے کے لیے ہمارے ہی ملک سے چند پیسہ فی لیٹر پانی نکال کر ہمیں ہی پچاس روپے لیٹر فروخت کرنے لگیں دریا گٹروں اور نالیوں کے پانی سے بدبو مارنے لگے اور بندہ کسی نہ کسی بیماری میں مبتلا ہوتا گیا .ہم ارتھ ڈے تو بڑے شوق سے مناتے ہیں تاکہ دنیا یہ جان لے کہ ہم بھی زمین کی بھلائی چاہتے ہیں ہم انسانوں کی جانوروں کی اور دیگر مخلوقات کی بھلائی چاہتے ہیں لیکن حقیقت میں ایسا بالکل نہیں ہے ہم نے تو اپنے گھروں میں درخت نہیں چھوڑے جن کی ہمیں ہروقت ضرورت رہتی ہے آکسیجن جیسی اہم شے ہمیں درخت مفت میں فراہم کرتے ہیں لیکن ہم ہیں کہ جہاں درخت ملا کاٹ دیا میوے، پھل،اور پھول یہ سب کچھ ہم درختوں سے حاصل کرنے کے باوجود ہم ان کے دشمن ہیں ہمیں یہ درخت ایک آنکھ نہیں بھاتے اس کے علاوہ یہ ہمیں چھاؤں، ایندھن اور فرنیچر مہیا کرتے ہیں سب سے بڑھ کر دھرتی کا حسن ہیں وہی دھرتی جسے ہم سب دھرتی ماں کہتے ہیں دھرتی بھی وہ جس نے ہم سے کبھی یہ نہیں پوچھا کہ جس کو میرے اندر دفن کرنے لگے ہو یہ نیک تھا یا گنہگار بغیر پوچھے اپنے اندر جگہ دیتی ہے یہ زمین کا ظرف ہے اسی حوالے سے میرے پنجابی مجموعہ کلام " صِفرا" میں سے ایک شعر ہے
" عیباں سنے لکا لیندی دھرتی وی تے امی ایں
زمین کو بہت سارے مسائل کا سامنا ہے ھس میں پانی اور آب و ہوا سب سے اہم مسئلے ہیں اجکل آبادی جس تیزی سے بڑھ رہی ہے رہائشی مسائل حل کرنے کے لیے کالونیاں اور اسکیمیں زور شور سے جاری لیکن نہ کوئی قائدہ ہے اور نہ کلیہ پوری دنیا میں زرخیز زمین کو کاشت کاری کے لیے بچایا جاتا اور بنجر زمینوں کو کاشت کاری کے قابل بنایا جاتا ہے مگر ہمارے ہاں بابا آدم ہی نرالا ہے ہم زیر کاشت رقبہ پر رہائشی کالونیاں بنارہے ہیں جو پھیلتے پھیلتے خطرناک حد تک پھیل گئی ہیں اور اب ہم لوگوں کو گھروں کی چھتوں پر سبزیاں اگانے کی ترغیب دے رہےہیں. دریاؤں پر ڈیم بنانے کی بجائے ہم سارا پانی سمندر برد کرتے رہے اور اب زمینیں بنجر ہونے کا شور مچارہے ہیں. کاشتکاری کےلیے زمین کم ہونے کی وجہ سے مصنوعی کھادوں سے زیادہ پیداوار لینے کی وجہ سے بھی زمین کا حسن برباد ہوا زرعی ادویات کے چھڑکاؤ نے بھی انسانی بیماریاں اور حشرات الارض کی اموات کا اندیہ دیا. اگر ہم اب بھی جاگ جائیں اور مخلص ہوکر دھرتی ماں کے لیے سوچیں تو زمین کے حسن کو اس پر ہنستی کھیلتی مسکراتی اور لہلہاتی زندگی کو دوام دے سکتے ہیں.
تحریر:
یاسین یاس
No comments:
Post a Comment