Wednesday, April 24, 2024

پروفیسر رضیہ سبحان قریشی ( شاعرہ مصورہ )

 








پروفیسر رضیہ سبحان قریشی

شاعرہ اور مصورہ

انٹرویو: صاحبزادہ یاسر صابری

03115311991


پروفیسر رضیہ سبحان قریشی کراچی میں 9 دسمبر کو پیدا ہوئیں۔  انہوں نے انگریزی میں ایم اے انرز کیا ہوا ہے درس و تدریس کے شعبہ سے وابستہ رہی ہیں۔ عبداللہ گورنمنٹ کالج برائے خواتین سے پرنسپل ریٹائرڈ ہوئی ہیں۔ مشاغل میں شاعری اور مصوری شامل ہیں۔ ان کی منددجہ زیل چھ کتابیں زیور طباعت سے آراستہ ہو چکی ہیں۔ سرد اگ 1997ء۔ خاموش دستک 2002ء۔ سیپیاں  محبت کی 2006ء۔ مکان لا مکان 2015ء۔آ گئی کی منزل پر 2019ء۔  حاصل لا حاصل 2023ء۔ 

دو کتابوں پر نمل یونیورسٹی سے مقالہ لکھا گیا دو کتابوں سرد آگ جو1997 ء میں شائع ہوئی انگریزی نظموں کا منظوم ترجمہ کیا گیا اس کتاب کو لٹریری ایوارڈ سے نوازا گیا اور حاصل لا حاصل جو 2023ء میں شائع ہوئی اس کتاب کو بھی لٹریری ایوارڈ سے نوازا گیا ہے اس کے علاوہ پانچ سے زیادہ ایوارڈز مل چکے ہیں مصوری شوقیہ کرتی ہیں کہیں سے تربیت نہیں لی ساتویں کتاب اشاعت کے مرحلے میں ہے جس میں مولانا روم کی نظموں کے اردو ترجمے ہیں۔

سوال۔ رضیہ سبحان صاحبہ پہلا سوال روایتی سا ہے یہ بتا دیں کہ آپ نے پہلا شعر کب کہا۔

جواب۔ پہلا شعر جب آٹھویں جماعت میں تھی تب کہا تھا وہ شعر کچھ یوں تھا:

 زمانے بھر میں ان کی گونج ہوتی اگر چھونے سے پتھر بول سکتے  

سوال۔ آپ کے مجموعہ کلام حاصل لا حاصل کا خلاصہ کیا ہے؟ 

جواب۔میری تمام کتابیں مختلف ادوار کی ہیں وقت کے ساتھ ساتھ انسان میں تبدیلیاں اتی رہتی ہیں آج میں عمر کے اس حصے میں ہوں جہاں زندگی کی حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کیا حاصل کیا ۔کیا کھویا۔ اس کا اندازہ بخوبی ہونے لگتا ہے بس یہی اس کتاب کا عنوان ہے کتاب  حاصل لا حاصل کا خلاصہ اس شعر میں ہے:

 اسے میں زیست کا حاصل کہوں کہ لاحاصل

 اسے تو ڈھونڈ لیا اور گنوا دیا خود کو

سوال۔ کیا محبت میں ہار جیت ہوتی ہے؟

جواب۔ یہ سوال یوں تو سطحی سا   ہے مگر اس کا جواب بہت طویل ہو سکتا ہے کیونکہ محبت ہر کسی کے لیے الگ انداز لئے ہے۔  محبت عشق میں بدل جائے تو وہ تصوف ہے وگرنہ وہ محبت جس کی اس سوال میں بات کی جا رہی ہے وہ محض ایک تجارت کے علاوہ کچھ نہیں جس میں سو دوریاں سو ہار جیت کا حساب رکھا جاتا ہے میری نظر میں وہ محبت نہیں ہے اس لیے محبت جیت کر بھی ہار ہے اور ہار کر بھی جیت ہے۔  میرا ایک شعر ہے: دل شکستہ نہ رہا آنکھ میں وحشت نہ رہی

 اے محبت مجھے اب تجھ سے محبت نہ رہی 

سوال۔ آپ نے کن شعراء کا زیادہ مطالعہ کیا ہے؟ 

جواب۔ میں نے تقریبا تمام اساتذہ کو پڑھا ہے مجھے مرزا غالب علامہ اقبال فیض احمد فیض اور مصطفی زیدی نے بہت متاثر کیا میں اکثر مختلف شعراء کو پڑھتی ہوں مطالعہ بہت ضروری ہے۔

سوال۔ آپ کو موسیقی سے وابستہ لوگوں سے ملنے کا موقع ملا؟ جواب۔ موسیقی سے بہت لگاؤ ہے کلاسیکی نغمے اور غزلیں سننا مجھے بہت پسند ہے مہدی حسن امانت علی اقبال بانو نورجہاں کو بہت سنتی ہوں۔

سوال۔ موجودہ اردو شاعری کو عالمی ادبی تناظر میں کس طرح محسوس کرتی ہیں؟

جواب۔ موجودہ شاعری بہت عمدگی سے آگے بڑھ رہی ہے سوشل میڈیا نے اس ارتقاء میں بہت ساتھ دیا ہے نئے نئے شاعر اور شاعرات اور ان کا کلام منظر عام پر آیا اور پڑھنے کو ملا جس کی وجہ سے عالمی ادب تک قاری بہت جلد پہنچ جاتا ہے۔

سوال۔  ادب کی ترویج و ترقی میں ادبی تنظیموں کا کیا کردار ہے؟

جواب۔  ادبی تنظیموں سے ادب کی ترویج ممکن تو ہے مگر آج کل جس طرح کی تنظیمیں ہیں نظر نہیں آتیں۔  ادب میں تعصب نہیں ہونا چاہیے۔ ایمانداری نہیں ہے۔ جس کی وجہ سے جینوئن ادیب پیچھے رہ جاتے ہیں تنظیمیں کم اور فعال ہوں تو بہتر ہے۔

سوال۔ کیا قیام پاکستان کے بعد ادب نے بھرپور ترقی کی ہے؟

جواب۔ پاکستان کے قیام کے بعد جس طرح زندگی کے ہر شعبے میں واضح تبدیلی آئی اسی طرح شعر و ادب بھی متاثر ہوا ہماری شاعری ہجرت کرنے والوں کا درد لیے ہوئے تھی۔ شاعروں نے سیاست اوت ہجرت کو موضوع بنایا پاکستان میں شعری ادب کو اس استحکام بخشنے میں خواتین نے بھی بھرپور کردار ادا کیا ادا جعفری فمیدہ ریاض پروین شاکر اور کشور ناہید نے غزل میں درد و محبت کو اجاگر کیا مختلف شاعرات نے عورتوں کے حقوق پر شاعری کی پروین شاکر پھول اور محبت کی شاعرہ ہو کر کامیاب رہیں پھر اور شاعرات بھی میدان عمل میں آئیں جن میں شاہدہ حسن فاطمہ حسن اور شبنم شکیل کے نام شامل ہیں۔

آج کے دور میں غزل نے اپنا رنگ و جمال قائم رکھا۔ مگر یہ کہنا کہ آج کی شاعرات ایسا ادب تحریر کر رہی ہیں جس سے اردو ادب کا ارتقا نظر آتا ہے مشکل ہے کیونکہ اب نمود و نمائش کا دور ہے ادب کو سنجیدگی کی بجائے شہرت حاصل کرنے کا پلیٹ فارم سمجھا جا رہا ہے بے شمار پاکستانی شاعرات سامنے آئیں مگر کوئی بھی دیر تک اپنا سکہ نہ جما سکیں آج کل Quantity کا دور ہے Quality کا نہیں اس لیے میری ناقص رائے میں ہماری شاعری سنبھلی ہوئی تو ہے مگر اتنی ترقی نہیں کر رہی جتنا کہ اس کا حق ہے۔

سوال۔ آخر میں یہ بتا دیں کہ پاکستانی خواتین کا ادب میں کیا کردار رہا ہے؟

جواب۔  پروین شاکر۔ ادا جعفری۔ زہرا نگاہ ۔شبنم شکیل فہمیدہ ریاض۔ کشور ناہید۔ سارہ شگفتہ اور ثمینہ راجہ ادب کی نمائندہ شاعرات ہیں اور ان کے بعد آنے والی شاعرات نے بھی ادب میں اپنا لوہا منوایا ہے پاکستان میں شعری ادب کا استحکام خواتین کے ادب سے بھرپور ثابت ہوا ہے ان شاءاللہ مستقبل میں شاعرات بہترین کلام سے ادب کو سرخرو کریں گی۔

سوال۔  قارئین کے لیے چند اشعار؟ جواب۔ ایک غزل کے چند اشعار ملاحظہ کیجئے: 

فضا میں زہر گھلا وہ کہ ڈر گئی ہوں بہت

 سمیٹتے ہوئے خود کو بکھر گئی ہوں بہت


 کشید کر کے لہو دل سے اپنے شام و سحر

کچھ اپنی حد سے بھی زیادہ نکھر گئی ہوں بہت


 الہی مجھ پہ ہو آسان قضا کا ہر لمحہ

 کہ جیتے جی تیری دنیا میں مر گئی ہوں بہت


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment