Thursday, February 29, 2024

نظم ( دغے نوں سلامی ) شاعر : دکھبنجھن

 




نظم     ਦਗੇ ਨੂੰ ਸਲਾਮੀ


دغے نوں سلامی


تیرے دغے نوں سلامی  میرے 

ہوکیاں دا ہاڑا توں بھالدی رہی 

موقعے تے کامیاب ہو گئی


توں ہو کے سپّاں وچ سپ ڈنگ مار         

 ہوئی  اکّاں   وچ   اکّ   تے 

نقاباں   چ   نقاب  ہو   گئی



توں اپنیاں فائدیاں لئی میرے 

کیتے نقصان ڈاھڈے 

میری زندگی تاں خراب ہو گیی


دُکھبنجن  دا  نا  ہُن  سُر   لگّے 

 نہ ریہا سُر جوگا

 زندگی اے بےسُری رباب ہو گئی 

شاعر 

دُکھّبنجن 

چیف ایڈیٹر 

ادارہ شبد قافلہ

نمبر 0351920424466

شاہ مُکھی لپّی 

سلیم آفتاب سلیم قصوری

حمد باری تعالیٰ ( راحت رخسانہ ۔کراچی )

 




حمدِباری تعالی

۔۔۔۔۔

زمانہ جب کبھی رنج و ملال دیتا ہے

نشاط وکیف خدا ذوالجلال دیتا ہے


دکھوں کی دھوپ سےجب جسم وروح جھلستی ہو

حصارِ سایہ وہ رب سر پہ ڈال دیتا ہے


قفس میں طائرِ مضطر کو کھوج لیتا ہے 

وہ ننھی جان کو پتھر میں پال دیتا ہے


غرور اتنا نہ جاہ و حَشَم پہ کر  ناداں

خدا ہی ہے جو عروج و زوال دیتا ہے


نظر شناس سخن دلنواز دل شاداں

وہ دینے والا بھی کتنا کمال دیتا ہے


وہ دل سے نکلی دعاؤں کو رد نہیں کرتا

اندھیرے چِیر کے سورج نکال دیتا ہے


میں ڈوبتی ہوئی کشتی کی اک مسافر ہوں

خدا کا قُرب کنارے اچھال دیتا ہے


رحیم و رازق و رحمان ہے کریم ہے وہ 

منال و مال ہمیں سالہا سال دیتا ہے


کسی بھی شے سے بہلتا نہیں یہ دل راحت

سکونِ قلب جو اس کا خیال دیتا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

راحت رخسانہ

کراچی۔پاکستان

Wednesday, February 28, 2024

نوید ملک ( انٹرویو : یاسر صابری )

 




نوید ملک

تحریر:یاسر صابری

نوید ملک 10 جون 1982 ء کو گلگت میں پیدا ہوئے۔ آج کل کہوٹہ روڈ چکیاں ضلع اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں۔ راقم کی ان سے کئی مشاعروں اور ادبی محفلوں میں ملاقات ہوتی رہتی ہے۔ آپ کا شمار ان نوجوان شعرا میں ہوتا ہے جنہوں نے نظم و غزل دونوں اصناف میں عمدہ کلام کہا اور منفرد شناخت بنائی۔ آپ کا غزلیہ مجموعہ اک سفر اندھیرے میں 2011 میں شائع ہوا، نظمیہ مجموعہ ”کامنی“2013 میں شائع ہوا۔ طویل نظم”منقوش“2021 میں شائع ہوئی جبکہ چوتھا غزلیہ مجموعہ تاب دان 2022 میں شائع ہوا۔

آپ کے تمام شعری مجموعوں کو دنیائے ادب میں پذیرائی حاصل ہوئی اور بین الاقوامی سطح پر قارئین نے سراہا۔ آپ کی شاعری پر نمل یونیورسٹی میں مقالہ لکھا جا چکا ہے۔ آپ کئی ادبی تنظیموں کی سر پرستی کر چکے ہیں اور مشرق کے نام سے اپنی بھی ادبی و ثقافتی تنظیم کی بنیاد رکھی ہے۔ آپ کے فن اور شخصیت پر معتبر شعرا اور ناقدین قلم اٹھا چکے ہیں۔

اعزازات

سخنور ایوارڈ، رحیم یارخان 2012،ایوارڈ برائے حسن کارکردگی 2013 ادب سرائے انٹر نیشنل پاکستان،ادبی دنیا ایوارڈ برائے بہترین شاعری 2020،مجید امجد ایوارڈ برائے سال - 2014 قلم کارواں پاکستان،ایوارڈ برائے حسن کارکردگی) 2014 علمی وادبی تنظیم دائرہ، شیخوپورہ، سند حسن کارکردگی 2018، در پیچ ادب ویلفیئر سوسائٹی، پاکستان، اعزازی سند نسل نو مشاعرہ 2019، پریس کلب راولپنڈی

مجید امجد ایوارڈ - 2021 پر لیس فار پیس فانڈیشن، اعزازی سند برائے ادبی خدمات 2021، انٹرنیشنل رائٹرز فورم پاکستان، ایوارڈ برائے حسن کارکردگی برائے سال - 2021 ادب، سماج، انسانیت، بیسٹ پر فارمنس ایوارڈ - دلبر خان ویلفیئر ٹرسٹ، بھلوال: 2022 ء، سند شراکت، کل پاکستان نسل نو مشاعرہ، آرٹس کونسل الحرا (لاہور)، حکومت پنجاب: 2012، شیلڈ برائے اعتراف سخن، آل پاکستان میڈیا کونسل 2022، 14 ایوارڈ برائے حسن کار کردگی۔ ویلفیئر آرگنائزیشن اوور سیز پاکستان 2014ء نوید ملک سے شعر و ادب کے حوالے سے ایک تفصیلی گفتگو ہوئی جوند رقارئین ہے۔

 شاعری کا آغاز کب کیا؟

 1998 ء میں شاعری کا آغاز کیا جب میں میٹرک کا طالب علم تھا۔ اس زمانے میں ایک نعت خود ہی لکھی اور پڑھی بھی اس کے بعد کالج میں پڑھائی کے دوران آمد کا سلسلہ جاری ہوا۔ شروع شروع میں نہ تو اوزان کا پتا تھا نہ کوئی اساتذہ ایسے ملے جن سے کچھ سیکھ سکوں۔ 2005 ء میں میری ملاقات معروف افسانہ نگار اور ڈرامہ نویس منشا یاد سے ہوئی انہوں نے حلقہ ارباب ذوق میں آنے کی دعوت دی حلقے میں جلیل عالی محمد حمید شاہد، اختر عثمان علی محمد فرشی، ڈاکٹر روش ندیم اور دیگر معتبر ادبی شخصیات کے علمی مباحثوں سے بہت کچھ سیکھا۔ شاعری میں با قاعدہ کوئی استاد نہیں ہے۔ حلقے میں جب میری پہلی غزل تنقید کے لئے پیش ہوئی تو وہ وزن میں تھی 

کسی سے اصلاح نہیں لی۔

 شاعری کے لئے کیا استاد کا ہونا لازمی ہے؟

 استاد کا ہونا لازمی نہیں ہے لیکن شعر کوموزوں بنانے کے لئے سینئر شعرا کی گفتگو سے استفادہ کرنا ضروری ہے اور جہاں تک سیکھنے کی بات ہے آج کل تو انٹر نیٹ پر علم عروض سیکھنے کے کئی

وسائل موجود ہیں۔

 کیا آپ نثر بھی لکھتے ہیں؟

آغاز میں کچھ افسانے لکھے ایک ناول کی ابتدا کی لیکن بعد میں ساری توجہ شاعری پر

مرکوز کی افسانوں اور ناولوں کو چھوڑ دیا۔

 آپ نے نثر لکھنا کیا اس لئے چھوڑ دیا کہ نثر لکھنے کے لئے جم کر بیٹھنا ضروری ہوتا ہے؟

با لکل جم کر بیٹھنا ضروری ہوتا ہے اس کے لئے آپ کو کمرے میں بیٹھ کر کئی کئی

کاغذوں کو الٹ پلٹ کرنا پڑتا ہے جب کہ شاعری آپ چلتے پھر تے بھی کر سکتے ہیں۔ بیٹھنامیرے لئے کافی مشکل ہے۔

 شاعری میں زیادہ تر توجہ غزل کو دی یا نظم کو؟

 دو غزلوں کی کتابیں آئی ہیں دو نظموں کی دونوں میری پسندیدہ اصناف ہیں موزوں اور خیال خود فیصلہ کرتے ہیں کہ نظم بہتر ہے یا غزل۔

 نو جوان شعرا میں اچھی اور معیاری شاعری کے امکانات موجود ہیں؟ 

میرے خیال میں موجودہ دور کے اندر سارے نو جوان شعرا اور شاعرات کی شاعری میں روشن امکانات موجود ہیں۔موجودہ دور کے لاثانی رحجانات کے پیش نظر چمک دار مصرعے کہتے ہیں لیکن دونمبر شاعر اور شاعرہ اس فہرست میں نہیں آتے گو کہ ان کی موجودگی سے بھی کئی مشاعرے چمکتے ہیں۔

کیا لکھنے کے لئے ادبی ماحول کا ہونا ضروری ہے؟

لکھنے کے لئے ادبی ماحول کا ہونا ضروری نہیں بے شمار ادیب ایسے ہیں جن کے خاندان میں دور دور تک کسی ادیب کا نام نہیں آتا البتہ جن لوگوں کو بچپن سے ادبی موحول ملتا ہے ان کے لئے یہ ایک بہت بڑی نعمت ہے۔

 موجودہ دور میں کئی شاعر ایک دوسرے کے خلاف نظر آتے ہیں؟

اس پر میں نے ایک شعر کہا تھا جو کچھ یوں ہے

ہر اک کہنہ روایت توڑنے کا فیصلہ کر کے پرانے جتنے کچھوے تھے نئے تالاب میں آئے کئی شاعر غیر جانبدارانہ ادبی خدمات کا اعلان کر کے میدان عمل میں آتے ہیں اور کچھ عرصے کے بعد اپنی ذات کی تشہیر میں لگ جاتے ہیں۔

آپ کی کن کن ادبی تنظیموں سے وابستگی رہی ہے؟

 میں حلقہ ارباب ذوق راولپنڈی کا جوائنٹ سیکریٹری رہا سخنور پاکستان کا صدر رہا اور اب انٹر نیشنل رائٹر فورم پاکستان کی سر پرستی بھی کر رہا ہوں۔ میں نے”مشرق“ کے نام سے تنظیم بنائی اور اقبال کے اس مصرع سے نام اخذ کیا”مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ“ اس تنظیم کی بنیاد اس لیے رکھی تا کہ ادبی تقاریب کے ساتھ ساتھ نسل نو کی کردار سازی کے لیے قلمی منصوبے تشکیل دیے جائیں۔ ابھی بہت سارے کام ہیں جو کرنے ہیں۔

مشاعروں میں شرکت کس حد تک ضروری ہے؟

جب تک مشاعروں میں شرکت کا جنون ہو شاعر ہر حال میں مشاعرے میں پہنچ جاتے ہیں اور جب جنون ختم ہو جائے تو مشاعروں میں جانے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتے۔ بڑے بڑے اچھے شعرا ہیں جنہیں مشاعروں میں مدعو کیا جائے تو وہ معذرت کر لیتے ہیں۔

ادبی دنیا کاکوئی ایسا موقع جس پر آپ نے خوشی محسوس کی ہو؟

2012 ء میں حکومت پنجاب نے الحمرا آرٹس کونسل ہال لاہورمیں نسل نو مشاعرہ کا انعقاد کیا جس کے لئے میں نے اپنی کچھ تخلیقات بھیجی تو عطا الحق قاسمی صاحب کا فون آیا کہ آپ نے نسل نو مشاعرہ میں شرکت کرنی ہے۔ شعری میدان میں میرٹ پر پورا اتر نا میرے لئے بڑی خوشی کی بات ہے


 نوید ملک آپ کا بہت بہت شکریہ کہ آپ نے اپنے قیمتی وقت سے کچھ وقت مجھے دیا اور

میرے سوالات کے جوابات دیئے۔ آپ کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟

پہلے تو آپ کا شکریہ کہ آپ نے اس قابل سمجھا کہ میری باتوں کا ابلاغ دوسروں تک ہو دوسرا میرا پیغام اُن اداروں کے لئے ہے جن میں اہل قلم کام کرتے ہیں لیکن ان کی عزت افزائی نہیں کی جاتی اس کے بعد میرا پیغام ان شاعروں کے لئے ہے جو گروپ بندی کرتے ہیں اور اپنی تشہیر کے لئے دوسرے شعرا پر الزام تراشی کرتے ہیں انہیں اپنے منفی رویوں کی اصلاح کرنی چاہیے اور تخلیق کاری کو تخریب کاری سے بچانا چاہیے 

میں قدم بھی اُٹھاتا ہوں سفر بنتے ہیں کئی رستے میرے ہونے سے ادھر بنتے ہیں 

کوزہ گر چاک گھماتے ہوئے یہ بھی تو بتا حوصلے کون سی چکی میں کدھر بنتے ہیں 

آپ سورج ہی سہی دھوپ کی دھمکی تو نہ دیں آپ جیسے تو مرے زیر اثر بنتے ہیں 

اس بغاوت سے بھلا کیوں تجھے نفرت ہے بہت جس سے دنیا میں کئی اور نگر بنتے ہیں

ڈاکٹر فاخرہ شجاع ( انٹرویو : صاحب زادہ یاسر صابری )

 




ڈاکٹر فاخرہ شجاع

تنقید نگار۔ کہانی نویس اور پنجابی زبان کی شاعرہ

انٹرویو: صاحبزادہ یاسر صابری 

03115311991


ڈاکٹر فاخرہ شجاع پوسٹ گریجویٹ کالج برائے خواتین سمن آباد لاہور میں تیس سال شعبہ پنجابی سے وابستہ رہی ہیں۔تنقید نگار کہانی نویس اور پنجابی زبان کی شاعرہ ہیں۔تنقید کے مضامین پر مشتمل آپ کی کتاب پنجابی ادب دے تارو 2008ء میں شائع  ہوئی جو کہ راقم کی لائبریری میں موجود ہے۔آج کل ایک شعری مجموعے پر کام کر رہی ہیں جو جلد شائع ہو کر منظر عام پر آ جائے گا۔انٹرویو سے پہلے آپ کے چند اشعار ملاحظہ کیجئے :

بسم اللہ پڑھ کے ہر کم آسان ہووے

آپئی سب ہوندا جاوے جے پکا ایمان ہووے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اقرا نوں سامنے رکھ کے میں پڑھن دا ول سکھیا 

پڑھن دے نال نال علم نوں ودھان دا ول سکھیا 


بسم اللہ نوں پڑھ کے میریاں اوکڑاں حل ہوئیاں

پڑھائی دے نال فاخرہ نے علم سکھان دا ول سکھیا 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رب باہجوں مینوں ترا سہارا کملی والیا سائیاں

کر میرا کوئی بھی چارہ کملی والیا سائیاں 


دکھوں نے ہن گھیرا پایا سمجھ نہ آوے مینوں 

موڑ دے ہن تو میرا دھارا کملی والیا سائیاں 


چنگا آکھاں چنگا کراں چنگا ای میں بولاں

فاخرہ نوں دس جا کوئی اشارہ کملی والیا سائیاں

سوال۔ آپ کی پیدائش کب اور کہاں ہوئی ؟

جواب۔ میں 21 ستمبر 1955ءکو ڈاکٹر عبدالمجید کے گھر لائل پور (فیصل اباد)میں پیدا ہوئی۔

سوال۔ آپ کے دیگر بہن بھائی کتنے ہیں اور وہ کیا کرتے ہیں؟

جواب۔ ہم پانچ بہنیں اور دو بھائی ہیں۔بڑی بہن طاہرہ جبین اس سے چھوٹی بہن ساجدہ جبین سکول ٹیچر ہیں۔مخمور اختر منہاس نے ایم اے انگلش کرنے کے بعد اسلامیہ کالج برائے خواتین کوتوالی روڈ فیصل آباد میں انگلش کی کلاسز لیں اور بطور پرنسپل ریٹائرڈ ہوئیں۔نصرت نسرین نے ایس وی ٹیچر ٹریننگ کے بعد سکول میں پڑھایا شادی کے بعد سروس چھوڑ دی۔ بڑے بھائی ضیا محمود نے سائل سائنس میں ایم ایس ای زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے کی اور فوجی فرٹیلائزر کمپنی میں اعلی عہدے پر فائض رہے۔ ان سے چھوٹے بھائی خالد مسعود نے بی کام کرنے کے بعد سوئی گیس کے محکمے میں بطور اکاؤٹنٹ کام کیا سروس کے دوران ایک روڈ اکسیڈنٹ میں مارے گئے میرا نمبر سب سے آخر میں ہے۔

سوال۔ آپ کا بچپن کہاں گزرا اور آپ نے تعلیم کہاں سے حاصل کی؟

جواب۔بچپن محلہ شریف پورہ فیصل آباد میں کھیل کود میں گزرا۔میرا ننھیال اسی محلے میں تھا۔میری بڑی بہن کی بیٹی میری ہم عمر  تھی اور ہم دونوں ایک کلاس میں تھیں۔ ماموں کی بیٹیاں اور کچھ گلی کی لڑکیاں مل کر پیدل سکول چلی جاتی تھی۔میری دوستی میری بھانجی ثمر سے تھی میں نے میٹرک ایم سی ہائی سکول جھال خانوآنہ فیصل آباد سے 1971ء میں کیا۔ ایف اے اسلامیہ کالج برائے خواتین کوتوالی روڈ فیصل آباد سے 1973ء میں اور بی اے بھی1976ء میں اسی کالج سے کیا۔ ایم اے 1980ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے کیا میرے استاد محترم حمید اللہ شاہ ہاشمی پروفیسر جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے تھے اور بہت سی کتابوں کے لکھنے والے لائق پروفیسر ہیں ان کی محنت اور میری لگن سے مجھے یونیورسٹی میں دوسری پوزیشن ملی لڑکیوں میں پہلی تھی۔ پی ایچ ڈی دوران سروس 2008ء میں کی اور میرے مقالے کا عنوان تھا پنجابی تحریکی تے سیرتی ادب وچ عبدالطیف عارف دا حصہ۔

سوال۔ اپنی ازدواجی زندگی کے بارے میں کچھ بتائیں؟

جواب۔میری شادی یکم جنوری 1982ء کو اپنے خاندان میں رشتے میں میرے چچا تھے ان کے بڑے بیٹے طارق شجاع سے ہوئی اور 

میں دلہن بن کر لاہور چچا کے گھر آئی۔میری بیٹی کرن شجاع یکم جنوری 1983ء کو پیدا ہوئی اور بیٹا جہانزیب شجاع 4 فروری 1985ء کو پیدا ہوا اسی دوران میں نے پی۔ پی ایس کا امتحان پاس کیا اور بطور پروفیسر میری پہلی تقرری ہیڈھاک ٹوبہ ٹیک سنگھ ڈگری کالج میں ہوئی۔ بیٹے کی پیدائش کے بعد بطور پنجابی لیکچرار سمن آباد کالج برائے خواتین لاہور میں میری تقرری ہوئی۔ میں نے پنجابی زبان کو پروان چڑھانے کے لیے ہر کام کیا۔

پنجابی شعبے کا کوئی بھی کام ہوتا  تو میرا کالج سمن آباد ڈگری کالج ہر کام میں شامل ہوتا۔پنجابی ادبی سوسائٹی کی میں انچارج تھی۔ سٹاف روم کا کام میرے سپرد تھا۔ سٹاف روم کا فنڈ میرے پاس تھا۔ گرل گائیڈ میں گائیڈ ہاؤس لاہور والوں نے مجھے ستارہ امتیاز دیا۔ گرل گائیڈ کے بہت سے کیمپ میرے کالج میں لگے جس میں لڑکیوں کو کام سیکھائے جاتے تھے ادبی سوسائٹی کی انچارج ہونے کے ناطے بہت سے مباحثے کروائے 2000ء سے 2015ء تک پنجاب کی پنجابی مباحثے کی ٹرافیاں سمن آباد کالج کی الماری گواہ ہے پڑی ہوئی ہیں۔

سوال۔ لکھنے کا شوق کب پیدا ہوا ؟

جواب۔ بچپن میں بہت زیادہ نہیں تھا ویسے بھی پنجاب کی عورت نے کیا لکھنا ہوتا تھا وہ جو بھی لکھتی ہے اپنے تکیے کے نیچے رکھ دیتی ہے یہ تو میری خوش قسمتی ہے پڑھے لکھے گھرانے میں پیدا ہوئی اور میری دوسری خوش قسمتی یہ ہے کہ میرے خاوند نے میرا ساتھ دیا تو میرا لکھنے کی طرف زیادہ رجحان ہو گیا ۔اس 

رجحان میں میری زیادہ مدد لہراں کے مدیر اختر حسین اختر نے کی ان کی سب سے چھوٹی بیٹی ام کلثوم نے سائنس کو خیر باد کہہ دیا اور وہ میری طالب علم بن گئی اس طرح میری اختر بھائی سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے مجھے زور دیا کہ لہراں رسالے کے لیے کچھ پنجابی میں لکھوں اس طرح میرا شوق زیادہ پروان چڑھا ان کے رسالے میں میری پنجابی شاعری چھپی میں نے اپنی شاعری ڈاکٹر یونس احقر صاحب کو دکھائی تو انہوں نے کہا غزل بھی لکھا کریں اس طرح اختر بھائی اور یونس بھائی میرے استاد شاعر بنے۔ 

سوال۔ آپ کے تنقیدی مضامین اور شاعری کہاں کہاں شائع ہوتی رہی؟

جواب۔ میری کہانیاں اور تنقیدی مضامین زیادہ لہراں رسالے میں چھپے۔ان کو بعد میں میں نے کتابی شکل دی۔ کالج کا ادبی مجلہ کوئی ایسا نہیں تھا جس میں میں نے کچھ نہ لکھا ہو وارث شاہ تنقیدی مضامین اور شاعری لکھتی رہتی تھی۔ پنجابی میں میری پہلی کتاب 2008ءمیں پنجابی ادب دے تارو کے نام سے آئی۔دوسری شاعری کی کتاب ان شاء اللہ جلد مارکیٹ میں آ جائے گی۔

سوال۔ آپ کے بیٹے اور بیٹیاں کیا کرتے ہیں؟

جواب۔ الله تعالیٰ نے دو بیٹیاں اور دو بیٹیاں عطا فرمائے جن کے نام کرن شجاع جہانزیب شجاع حسن شجاع اور مریم شجاع یکم اگست 1990ء کو پیدا ہوئی سب بچوں نے اعلی تعلیم حاصل کی ہے کرن شجاع نے میری سیٹ سنبھالی وہ سرائے عالمگیر کے ڈگری کالج برائے خواتین میں بچیوں کو تعلیم دے رہی ہے اس نے ڈبل ایم اے ایم فل کیا اور پی ایچ ڈی کر رہی ہے جہانزیب شجاع نے یو۔ ای۔ٹی کی یونیورسٹی سے سول انجینئرنگ کی ہے حسن شجاع شہباز شریف ہسپتال میں معذور افراد کا علاج کرتا ہے۔مریم شجاع ابھی تک گھرداری میں پھنسی ہوئی ہے ماشاءاللہ اس نے بھی ایم فل کیا ہوا ہے سارے بچے ایم فیل ہیں شادی میں نے سب بچوں کی کر دی ہے دونوں بہویں بھی ماشاءاللہ ایم فل ہیں بڑی بہو ایم فل اسلامیات ایل سی ڈبلیو لاہور یونیورسٹی کی پڑھی ہوئی ہے چھوٹی بہو نے ایم فل جی سی یونیورسٹی لاہور سے کیا اور فیڈرل ڈگری کالج لاہور میں فزکس کا مضمون پڑھا رہی ہے۔ 

سوال۔ تنقید و تحقیق ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے آپ نے اس میدان میں قدم کیسے جمایا؟

جواب۔ تحقیق کا میدان بہت بڑا ہے اور تحقیق واقعی بہت مشکل کام ہے اگر ہم کسی لکھاری کے واسطے تنقید نہ کریں تو ان کی کتابیں بالکل بند پڑی رہیں گی اور جب تحقیق اور تنقید کرنے والا کوئی کتاب کو تلاش کر کے اس کے اوپر لکھتا ہے تو پھر دوسرے لوگوں کو پتہ لگتا ہے کہ لکھنے والے نے کیا لکھا ہے اور میں نے تنقید اور تحقیق کا میدان اس لیے چنا ہے کہ مجھے بہت اچھا لگتا ہے کہ پرانا کام کوئی ہاتھ آئے تو لکھاری کو لوگ جانے کی اس نے کیا لکھا ہے۔

سوال۔ پنجابی کے علاوہ آپ نے اردو زبان میں بھی کچھ لکھا ہے؟

جواب۔ اردو زبان میں لکھنے والے بہت زیادہ تھے مجھے پنجابی زبان سے اتنی زیادہ محبت ہے کہ میں نے پنجابی زبان کو ہی اپنایا ہے اسی میں زیادہ شاعری کی ہے کیونکہ مجھے اس زبان پر ابھور حاصل ہے حالانکہ میں نے بی اے  تک اردو پڑھی تھی۔

سوال۔ آپ اردو پنجابی فارسی یا سرائیکی کس زبان میں بہتر اظہار کر لیتی ہیں؟

جواب۔ میری زبان کا اظہار ہے پنجابی ماجھی بولی جو زیادہ فیصل آباد اور لاہور میں بولی جاتی ہے اور زیادہ تر لوگ ماجھی بولی کو ہی سمجھتے ہیں۔

سوال۔ پنجابی زبان کے مستقبل کے بارے میں آپ کیا کہیں گی؟

جواب۔ پنجابی زبان کا مستقبل میں تو روشن سمجھوں گی اس لیے کہ پنجابی ختم نہیں ہو سکتی پنجابی ہمیشہ چلی ہے اور ہمیشہ رہے گی اور آنے والا زمانہ بھی اس کے لیے بہترین ہے پنجابی شاعری میں پنجابی غزل بھی لکھی جاتی ہے اور غزل ایک ماہر شخص ہی لکھ سکتا ہے چونکہ پڑھے لکھے لوگ زیادہ تر پنجابی کی طرف توجہ دے رہے ہیں اس لیے غزل زیادہ اہم اور بہترین ہوئی ہے۔

سوال۔ پنجابی تنقید کیسی لکھی جا رہی ہے اور پنجابی تنقید کے نمایاں نام؟

جواب۔ موجودہ ناموں میں ڈاکٹر ناصر رانا اور ڈاکٹر شہباز ملک اور اس سے پہلے عبدالغفور قریشی شریف کنجائی ڈاکٹر سید اختر جعفری ڈاکٹر عبداللہ اور بہت سارے نام ایسے ہیں جو تنقید کر رہے ہیں تنقید اس لیے کی جاتی ہے کہ ادب جو ہے وہ غلط نہ ہو جائے اور ادب کے دائرے میں رہے تاکہ نئی نسل تباہ نہ ہو۔

سوال۔پنجابی نثر کیوں کم لکھی جا رہی ہے؟

جواب۔نثر میں بہت زیادہ کام ہو رہا ہے نثر میں ناول افسا نے اور نثر کی مختلف کتابیں سامنے آرہی ہیں۔ زاہد حسن بالکل نئے لکھنے والے ہیں کیونکہ ان کے بہت سارے ناول آئے ہیں اور اسی طرح مستنصر حسین تارڑ دیکھ لیں انہوں نے پنجابی میں لکھا ہے ادب کی جتنی بھی اصناف ہیں ان میں پنجابی زبان کسی بھی میدان میں پیچھے نہیں رہی یہ الگ بات ہے کہ لوگ اردو یا انگریزی کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں لیکن پنجابی زبان بھی کسی زبان سے کم نہیں ہے بلکہ تھوڑے دن ہوئے ہیں میں نے لکھا ہے ڈاکٹر شہباز ملک صاحب نے پنجابی زبان کو دوسری زبانوں کے ساتھ کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر کھڑا کیا ہے انہوں نے پنجابی کی بہت زیادہ کتابیں لکھی ہیں اور پنجابی زبان کا مستقبل روشن کیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Tuesday, February 27, 2024

نظم ( شاعر : دکھ بھنجن )پنجاب انڈیا

 




نظم

کاوِ ریکھا چِتّر کویندر چاند 


1 ہر تھاں مِلدا اے ستکار کویندر چاند نوں

بڑا ماں بولی نال پیار کویندر چاند نوں

ہر تھاں مِلدا اے ستکار کویندر چاند نوں

2 ویراں دے لئی بانہواں ورگا تے بھیناں دا بھائی اے

ماں بولی دا لاڈلا پُتّر رگ رگ وچ سمائی اے

سدا ای قلم لگے تلوار کویندر چاند نوں

ہر تھاں مِلدا اے ستکار کویندر چاند نوں

3سوہنا لہجہ گل کرن دا اے رہے چہرے تے مُسکان

جہ وی سنگت کر کے جاندا اوسدی بن جاندا اے جان

 اوس داتے  تے بڑا اعتبار کویندر چاند نون

ہر تھاں مَلدا اے ستکار کویندر چاند نوں

4سبھ دے نال جُڑدا اے کِسے نوں ٹُٹّن نہی دیندا

ہتھ کوئی چھڈدا چھڈ جاوے اپنا چُھٹن نہی دیندا

سدا چنگے لگدے نے سُوتردھار کویندر چاند نوں

ہر تھاں مِلدا اے ستکار کویندر چاند نوں

5شاعر ایسا اکھراں چوں بِنا دھویں اگ کڈھدا جانیں

اکِییاں دے اکتّی وی آوندے پتّھراں وچ کِلّاں گاڈھنا جانیں

سیوا ماں بولی دی نہ جانے بھار کویندر چاند نوں

ہر تھاں مِلدی اےستکار کویندر چاند نوں

6بڑے ہی گائیک چاند دیاں رچناواں گاون

سُن سوہنیاں رچناواں اکھّاں بھر آون

بڑے گاوندے نے کلاکار کویندر چاند نوں

ہر تھاں مَلدا اے ستکار کویندر چاند نوں

7چرن سنگھ سمانان جی دے بھاگ ویہڑے سی لگّے

امبڑی گیان کور دے گیان نوں دیوے بالے اگّے

بنایا اسیساں دا حقدار کویندر چاند نوں

ہر تھاں مِلدا اے ستکار کویندر چاندنوں

8گُرویندر تے امن جوت دونویں چاند دیاں نوہاں

سِمرن تے گُروپال پُتّر رکھن سُچیاں جوہاں

مِلیا سوہنا اے گھر سنسار کویندر چاند نوں

ہرتھاں مَلدا اے ستکارکویندر چاند نوں

9ساتھی جسپریت نے جیون وچ جس ای جس کماییا

اوسے جس چوں رچناواں نکلیاں خوب گائیکاں گائیاں

برہمنڈی معیار کویندر چاند نوں

ہر تھاں مِلدا اے ستکار کویندر چاند نوں

10و یہڑے الپ سِمناج آرزو دادو نال کرن کلولاں

عُمراں ہون دراز مالکا میں تاں ایہ ہی بولاں

گرمی وچ پانی مِلدا ٹھنڈا ٹھار کویندر چاند نوں

ہر تھاں مِلدا اے ستکار کویندر چاند نوں

11بنسری کِدھر گائی اشرفیاں کِن کِن اتہاس رچائے

پڑھ پُستکاں دُکھ بھنجن نوں ہُن ہو سکدا ہوش آجائے

مَلے یار وی سبھ دلدار کویندر چاند نوں

ہر تھاں مِلدا اے ستکار کویندر چاند  نوں

شاعر دُکھ بھنجن 

چڑھدا پنجاب انڈیا

نمبر +351920424466

سیدہ مصور صلاح الدین ( انٹرویو : صاحب زادہ یاسر صابری )

 




سیدہ مصور صلاح الدین۔

تحریر و ملاقات۔

صاحبزادہ یاسر صابری۔

03115311991.

سیدہ مصورہ صلاح الدین نعت کے حلقوں میں جانا پہچانا نام ہیں۔آپ 10 نومبر 1978ءکو راولپنڈی میں پیدا ہویئں ۔علم و فضل اور تصوف کے گھرانے سے تعلق ہے اور علم و ادب انہیں ورثے میں ملا ہے ۔

والد صاحب سید محمد صلاح الدین  کے کاروبار کے سبب بچپن میں متحدہ عرب الامارات میں رہائش پذیر ہویئں اور میٹرک 1994 ء میں شیخ زید بن عرب پاکستانی اسکول ابو ظہبی سے مکمل کیا ۔

بعد ازاں پاکستان واپس لوٹیں اور پنجاب یونیورسٹی سے گریجویشن مکمل کیا ۔

نعت خوانی کا شغف بچپن سے ہی تھا خوبصورت آواز کی بدولت پاکستان اور ابوظہبی کے اسکولوں میں مختلف انعامات حاصل کئے ۔

عرصہ تین سال سے نعت گوئ کی طرف مائل  ہویئں ۔اور یہاں بھی نعت کے ادبی حلقوں میں اپنے منفرد لب و لہجے اور پر تاثیر کلام کی وجہ سے مقام بنانے کی ساعی ہیں ۔

ان کی شعری عمر کم لیکن ان کی نعتوں میں ادب ،خلوص ، احترام فنی مہارت اور جدید اسلوب واضح جھلکتا ہے ۔

اظہار لطافت، تلازمہ کاری  ان کی شاعری کا بہترین خاصہ ہے ۔جس کے باعث انہوں نے نعت کمیونٹی کو اپنی طرف متوجہ کر لیا ہے ۔

آپ کی شاعری میں جہاں مصارع  اور اشعار جدید تراش کے حامل ہوتے ہیں وہیں ان میں خلوص و ادب کی چاشنی بھی بدرجہ اتم موجود ہوتی ہے ۔محترمہ کی تمام نعوت دلکش اور منفرد انداز ہونے کی وجہ سے قارئین اور سامعین دونوں کے دلوں میں حب رسول صل اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پھول اگاتیں ہیں ۔جو کسی بھی نعت گو شاعرہ کے لئے باعث فخر  اور اعزاز ہے ۔

 حال ہی میں ان کے ساتھ ہونے والی طویل نشست میں لیا جانے والا انٹرویو ملاحظہ کیجئے۔      س۔ آپ کو نعت خوانی سے لگاو کس عمر سے ہوا؟ 

ج۔  میرے دادا محترم پیرزادہ سید محمد سلام الدین نصیری  چشتی رحمہ اللہ پیر نصیر الدین چراغ دہلوی رحمتہ اللہ علیہ کے خلیفہ تھے ۔بچپن سے ہی تصوف سے منسلک علمی اور فکری تربیت کی بدولت بزرگان سے ایک خاص عقیدت رہی ۔

نعت خوانی بچپن سے ہی کرنے کی وجہ سے اسکول اور اہل علاقہ میں ایک نام پیدا ہو گیا کئ بار ٹی وی سے بھی نعت خوانی کی آفر آئ مگر گھریلو ماحول کی وجہ سے اجازت نا ملی ۔

میٹرک میں شیخ زید بن پاکستان کالج کے زیر اہتمام ہونے والے نعتیہ مقابلے میں بھی پوزیشن حاصل کی 

اور پاکستان واپس آ کر بھی انعامات کا سلسلہ جاری رہا ۔

مگر پھر شادی کے بعد  گھریلو امور اور ذمہ داریوں نے ہر فن کو خیر آباد کہہ دیا ۔اور بچوں کی تربیت کی طرف متوجہ ہو گئ ۔

ماشاءاللہ  دو بیٹیاں اور دو بیٹے ہیں 

بڑے صاحبزادے حافظ  قرآن بن چکے اور دوسرے صاحبزادے ابھی حفظ کر رہے ہیں

اللہ ان سب کی بہترین تربیت کی ذمہ داری پوری کرنے میں میری مدد فرمایئں آمین۔

س۔ آپ نعت گوئ کی طرف کیسے راغب ہوئیں؟  

ج۔ شاعری کا شوق اوئل عمری سے تھا مگر تب عشقیہ شاعری ہی پیش نظر تھی جسے کہ شادی کے بعد مکمل طورپر خیر آباد کہہ دیا ۔

  2018ء میں روحانی سفر شروع ہوا اور روحانیت خون میں شامل ہونے کی وجہ سے اس طرف مائل ہوئ درود کی کثرت کی اور قلم اٹھایا شروع میں بہت سے کالم لکھے جو آج بھی فیس بک پر موجود ہیں ۔اللہ سے محبت بیان کرتے کرتے معلوم ہی نہیں ہوا کس وقت نعت کے لئے قلم اٹھایا۔

اور پھر قلم پر عطا کا معاملہ شروع ہوا 

اس معاملے میں میں اللہ کی بہت شکر گزار ہوں کہ اس ذات نے مجھے ہمیشہ اچھے لوگوں سے ملوایا۔

س۔ آپ نے باقاعدہ رہنمائ کس شاعر سے لی؟  

ج۔ سوشل میڈیا سے آرٹس کونسل کا سفر محترمہ تسلیم اکرام کے ذریعے ہوا جس میں میرے استاد محترم عبد الرحمن واصف سے مجھے بہت کچھ سیکھنے کو ملا ۔اور پہلی ڈھائ مصرعی نظم کی اصطلاح کو نعت میں استعمال کیا ۔

یہ ایک بلکل جدید طرز شاعری ہے جو اس سے پہلے  نعت گوئ میں استعمال نہیں ہوئ تھی ۔

بعد ازاں کیونکہ میرا قلم صرف نعت کے لئے مختص تھا ۔

تو مقصود علی شاہ صاحب کی زیر سرپرستی نعت کے اشعار کو مزید تقویت ملی ۔

محترم مقصود علی شاہ صاحب کسی تعارف کے محتاج نہیں وہ نعتیہ کلام میں دور حاضر کے سب سے بہترین نعت گو شاعر ہیں محترم کو تین بار صدارتی ایوارڈ سے نوازہ گیا 

محترم کی خدمات کو صوبائ سطح پر بھی پزیرائ حاصل رہی ۔

میرے اس پورے سفر میں بلا شبہ میرے والدین کی دعا اور تربیت کا عمل دخل ہے 

مگر کسی بھی عورت کے لئے اس کے گھر کا مکمل ہونا اس کے شوہر کے بہترین اخلاق کی بدولت ہے 

اور مجھے یہ دولت ہمیشہ نصیب رہی ۔اور موجود صورت حال میں میری ہر کامیابی میں ان کی مرہون منت ہے ۔

میں ان خوش نصیب خواتین میں سے ایک ہوں جس کی زندگی میں مرد سے منسلک چاروں رشتے باپ ، بھائ ، شوہر اور بیٹے کی حیثیت سے خوبصورت ترین ہیں ۔

س۔ نعتیہ شاعری میں اب تک کتنے ایوارڈز حاصل کر چکی ہیں؟ 

ج۔  مجھے اب تک تین ایوارڈز نعتیہ شاعری پر مل چکے   اور یہ بھی کسی شاعرہ کے لئے اعزاز کی بات ہے کہ بزم ندرت و فکر کی جانب سے حضرت حسان بن ثابت ایوارڈ میرے نام ہوا جو ڈاکٹر فرحت عباس شاہ جیسے مسند شاعر کی طرف سے دیا گیا 

 بزم تسلیم اور میلاد اسٹوڈیو  کی جانب سے  بہترین نعت گو شاعرہ کا ایوارڈ دیا گیا ۔ 

الفانسے ٹی وی چینل کی جانب سے بھی یہ ایوارڈ میرے حصے میں آیا ۔س۔ آپ کی شاعری کو سراہا جا رہا ہے؟ 

 ج۔ الحمدللہ نعتیہ حلقوں میں مجھے جو عزت ملی وہ صرف میرے پروردگار کی عطا ہے۔ ان شاءاللہ نعتیہ مجموعہ بھی جلد کتابی شکل میں شائع کرنے کا ارادہ ہے ۔جس کے لئے اپ سب سے دعا کی گزارش ہے  ۔

ماضی کے شعراء میں مجھے کسی بھی مقابلے کے بغیر مظفر وارثی صاحب کی شاعری اور انداز بیان پسند ہے انتہائ سادہ انداز میں شاعری کی مشکل ترین صنف کسی اور شاعر میں دستیاب نہیں ۔

س۔ موجودہ دور کے شعرائے کرام جن سے آپ متاثر ہیں۔ ؟

ج۔ موجودہ دور کی شاعرات میں محترمہ صفیہ صابری اور محترمہ شگفتہ نعیم ہاشمی صاحبہ سے متاثر ہوں ۔

شعراء حضرات میں مقصود علی شاہ صاحب اور محترم نسیم سحر صاحب کی نعت گوئ  سے شدید متاثر ہوں ۔

س۔آپ کس ادبی تنظیم سے وابستہ ہیں؟ 

ج۔ میں فی الحال کسی تنظیم سے تعلق نہیں رکھتی اور مستقبل قریب میں بھی ایسا کوئ ارادہ نہیں ۔

کیونکہ جیسے پاکستان میں تمام ادارے کرپشن اور سیاست کی نذر ہو چکے ویسے ہی ادب سے منسلک تنظیمیں بھی مختلف گروہ بندی کا شکار ہیں ۔ اور ایک نعت گو شاعر کو جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہوتی ہے وہ توجہ اور یکسوئ ہے ۔

س۔نعتیہ شاعری کو شعرا شاعری کی صنف میں نہیں لاتے کیوں؟ 

ج ۔نعتیہ شاعری کو شعرا ء شاعری کی صنف میں نہیں لاتے مگر میں کہتی ہوں یہ شاعری کی سب سے مشکل اور مستند صنف ہے جس میں مکمل قبولیت کی سند کے ساتھ اور حدود میں رہتے ہوئے کام کرنا ہوتا ہے۔ خواتین شعراء میں نعت گو شاعرات بہت کم ہونے کی وجہ بھی یہی ہے کہ خواتین میں یکسوئ اور مکمل سکون کا فقدان ہے گھریلو زمہ داریاں اور فطری بے صبرا پن انہیں اس صنف سے دور رکھتا ہے ہاں البتہ اپنی نازک طبیعت کے سبب خواتین عشقیہ شاعری میں کئ مقام پر مرد حضرات سے بھی آگے ہیں ۔

الحمدللہ مجھے فخرہے کہ مجھے مدحت مصطفی صل اللہ علیہ و آلہ و سلم نصیب ہوئ اور میں نے اپنےقلم کو صرف نعت گوئ کے لئے مختص کیا ۔

میری خوش نصیبی ہے کہ بہت کم وقت میں درود کی برکت سے مجھے بہترین اساتذہ ملے اور اللہ پاک نے اپنی توجہ سے مجھے نعت کا فن عطا کیا۔

س۔ قارئین کے لئے نمونہ کلام؟ 

ج۔ ایک نعت کے چند اشعار پیش خدمت ہیں۔ 


حسین چہرہ شمائل کا گوشوارہ ہے 

کمال خلق خصائل کا اک شمارہ ہے


خیال خام ہے تیرے بغیر شنوائ 

تو کل جہان میں رحمت کا استعارہ ہے


عطا ہوئ تجھے ندرت کتاب و حکمت کی 

تو انبیاء کے دبستاں کا شاہ پارہ ہے


تو ابتدائے حقیقت کے وقت کا ناظر 

تو سب جہانوں کی تخلیق کا اشارہ ہے


اے میرے خانۂ خستہ خیال کے والی 

تو میری آس ہے، امید ہے، سہارا ہے


ہے تیرا وصل ہی وجہِ وجودِ رنگِ حیات

ترا فراق تو اِک بجھ چکا شرارہ ہے


تو میرا حامی و ناصر ، تو رہبر و مولا

کہ تیری یاد ہی منزل نما ستارہ ہے


مَیں بے قرار سی اِک موج بحرِ عصیاں کی

تو بادبان ہے، کشتی ہے، تو کنارہ ہے


تری عطا ہی کو زیبا ہے دو جہاں کی عطا

ترے کرم کا شفاعت پہ بھی اجارہ ہے


شعور کس کو ہے شاہا ! تری حقیقت کا 

ہمیں تو اتنا بہت ہے کہ تو ہمارا ہے۔


میرے کلام سے ڈھائ مصرعی نظمیں جو اسمائے نبی پر مشتمل ہیں ۔پیش خدمت ہیں۔


والنجم کی آیت میں ہے صاحب کا خلاصہ 

والیل کے پردے میں چھپی زلف کی تفسیر 

سرمایہء تبشیر 


کونین کے پردوں سے نمایاں ترے جلوے 

مشہور ترے نام سے عالم میں ضیا ہے 

تو نور ھدی ہے ۔

Sunday, February 25, 2024

کرمانی ویلفئیر فاؤنڈیشن موڑ کھنڈا تقریب رونمائی کتب و مشاعرہ ( یاسین یاس )

 





کرمانی ویلفٸیر فاونڈیشن موڑکھنڈا کے زیر اہتمام محفل مشاعرہ اور تقریب رونماٸی کتاب۔

کرمانی ویلفٸیر فاونڈیشن موڑکھنڈا کے زیر اہتمام محفل مشاعرہ اور تقریب رونماٸی کتاب دی سپرٹ سکول موڑکھنڈا میں منعقد ہوٸی۔

تقریب کی صدارت معروف ماہر تعلیم و ادبی شخصیت جناب سید اظہر حسین شاہ بخاری نے کی۔

تقریب کے مہمان خصوصی سماجی و ادبی شخصیت جناب عابد حسین گل تھے۔

تقریب میں علاقہ کے نامور پنجابی شاعر جناب راٸے محمد خاں ناصر نے خصوصی شرکت کی اور اپنے منفرد انداز میں حاضرین کے دلوں کو جیت لیا۔

تقریب میں علاقہ کے دو نوجوان شاعروں عمران سحر کی کتاب چپ تے میں اور رنگ الہی رنگ کی کتاب دل دا ویہڑا کی تقریب رونماٸی بھی ہوٸی۔اس موقع پر نامور پنجابی شعرا جناب حافظ صادق فدا صاحب لاہور اور جناب یاسین یاس صاحب پھول نگر نے اپنا کلام پیش کیا اور خوب داد سمیٹی. اس موقع پر مقامی شاعرہ روبینہ اکبر نے مشہور شعرا جناب راٸے محمد خاں ناصر اور عمران سحر کا کلام پیش کیا۔

۔مقامی شعرا راشد محمود اعلی بچیکی۔ثمر عباس زر ساٸیں۔جمیل احمد وسیر۔حاجی رحمت اللہ سندھو  جناب محبوب الہی عبد الروف روفی نے اپنے کلام سے حاضرین سے خوب داد وصول کی۔

تقریب کی نقابت علاقہ کی ہر دل عزیز شخصیت اور پنجابی زبان کے شاعر جناب اشفاق احمد صابری نے انجام دیے اور محفل کو جاندار بنایا۔

تقریب میں خصوصی طور پر ایس ایچ او تھانہ مانگٹانوالہ جناب شہباز ڈوگر نے شرکت کی اور انتظامیہ تقریب کی اس کاوش کو سراہا۔

تقریب میں پرنسپل گورنمنٹ ہاٸیر سیکنڈری سکول جناب تنویر عباس اعوان۔سابقہ پرنسپل جناب شہباز الہی قادری۔اےای او جناب جاوید اقبال۔ہیڈ ماسٹر گورنمنٹ ہاٸی سکول ہفت مدر جناب ملک ممتاز صاحب۔

چٸرمین پراٸیویٹ سکول ایسوسی ایشن جناب مہر احمد علی پڈھیار پرنسپل کنٹری کالج بچیکی جناب رانا ثنا ٕ الرحمان۔ڈاریکٹر دارارقم جناب طارق شہزاد۔ڈاریکٹر الاٸیڈ سکول جناب سلیم ارشد۔ڈاریکٹرز دی سپرٹ سکول مہر مزمل پڈھیار۔ڈاریکٹرز دی ایجوکیٹر جناب ہارون عارف۔جناب فیاض صاحب۔ڈاریکٹر النور سکول جناب اشفاق صاحب۔

سماجی شخصیات جناب خواجہ مسعود اویسی صاحب۔صدیق مغل صاحب۔شیخ شکیل احمد سیفی۔ڈاکٹر دلشاد احمد حضوری۔ڈاکٹر نثار احمد۔طاہر قادری۔راٸے مہندی کھرل۔شیخ احسن نور۔شیخ کاشف منا۔شیخ شانی۔

چٸیرمین پریس کلب جناب مہر طاہر غوث پڈھیار۔صدر پریس کلب جناب چوہدری غلام رسول نواز صاحب۔جاوید قادری۔صدر میڈیا اتحاد جناب مہر عبد الغفور صاحب۔چیف ایڈیٹر پندار نیوز جناب راٸے اشرف شاہین۔بانی صارم نشریات جناب حماد صارم۔امانت علی سیف۔مدثر نواز کھوکر۔شیخ نبیل احمد۔صدر یوتھ کلب جناب طارق صاحب۔

کرمانی فاونڈیشن کے ممبران جناب طارق بھٹی واٸس چٸیرمین۔جناب عبید اللہ صاحب سینٸیر ناٸب صدر۔جناب اعظم اجمل ناٸب صدر۔جناب حافظ کاشف جنرل سیکرٹری۔جناب مزمل نور فنانس سیکرٹری۔معاون فنانس جناب قیصر اقبال منا۔امانت علی سیف پریس سیکرٹری۔جناب مہر خلیل الرحمان انفارمیشن سیکرٹری۔جناب امجد مغل سوشل میڈیا۔جناب یاسر بھٹی انچارج سوشل میڈیا۔جناب ملک نوید اختر ۔جناب شعیب ظفر پڈھیار۔جناب اظہر ڈار صاحب ۔ جناب عبدالروف روفی ۔جناب رنگ الہی رنگ صاحب ممبران ایگزیکٹیو کونسل نے شرکت کی۔اس کے علاوہ

تقریب میں سیاسی۔سماجی۔کاروباری ۔صحافتی اداروں کے نماٸیندوں اور 

۔تعلیمی میدان سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔

صدر کرمانی ویلفٸیر فاونڈیشن جناب وقار علی گھگ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوٸے نوجوان شعرا کی کتابوں کو سراہا اور کہا کہ ماں بولی زبان پر ہمیں فخر کرنا چاٸیے انہوں نے مزید کہا کہ ہر بڑی تہزیب و ادب کی پہچان اس کی زبان سے ہوتی ہے اور ہماری ماں بولی تقریبا 5000 سال پرانی اور دنیا میں سب سے زیادہ سمجھی اور بولی جانے والی زبان ہے۔

مہمان خصوصی عابد حسین گل نے کہا کہ عمران سحر جیسے پھول کی خوشبو ان کو لاہور محسوس ہوٸی تو ان کی کلام کو کتابی شکل میں سانجھ پریت آرگناٸزیشن کے تعاون سے پبلش کروایا۔انہوں نے مزید کہا کہ علاقہ کے ماضی کے شعرا کے کلام کو اکٹھا کر کے کتابی شکل دی جاٸے گی۔انہوں نے نوجوان شعرا کو اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔

تقریب رات گے تک جاری ہے۔

تقریب کے شرکإ نے تقریب کے منتظمین کو کامیاب تقریب کروانے پر مبارکباد پیش کی۔

آخر میں چٸیرمین کرمانی ویلفٸیر فاونڈیشن ملک ساجد نے تمام مہمانوں کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ آٸندہ بھی ایسی تقریبات کرواٸی جاٸیں گی۔

اس سلسلے میں سید اظہر حسین شاہ بخاری نے عید کے بعد دی ایجوکیٹر سکول میں اردو مشاعرے کا اعلان کیا جس میں علی زرعون اور سید علی شاہ رخ بخاری تشریف لاٸیں گے۔

تقریب کے اختتام پر ڈاکٹر سیف اللہ ندیم نے دعا کرواٸی۔

محبتوں کا سفر ( عابد محمود عابد ۔ڈسکہ )

 







محبتوں کا سفر

تحریر۔ عابد محمود عابد ۔ ڈسکہ 

(رپورٹ سالانہ اجلاس بزم امروز 2024)

مجھے یاد ہے کہ امروز کے زمانے میں میری ایک تحریر بچوں کی دنیا امروز میں شائع ہوئی ، جس کا نام ۔۔۔ اجلاسی بیماری تھا۔۔۔ وہ تحریر تو اب میرے پاس محفوظ نہیں ، بہرحال اسکا لب لباب میرے ذہن میں ہے کہ یہ امروز کے تقریباً سب لکھاریوں کو اجلاسی بیماری کیوں لاحق ہوگئی ہے اور سب ہر وقت  اجلاس اجلاس کیوں کرتے رہتے ہیں ۔۔۔۔ اب جب برسوں بعد سوشل میڈیا کے ذریعے امروز کے لکھاریوں کا ایک دوسرے سے رابطہ ہوا اور بزم امروز کے نام سے ایک واٹس ایپ گروپ تشکیل پایا اور پھر 2020 میں اسکا پہلا اجاس لاہور میں منعقد ہوا تو اس وقت میں ابھی گروپ کا حصہ نہ بننے کی وجہ سے اس میں شرکت نہ کر سکا اور پھر دوسرا اجلاس 2022 میں منعقد ہوا تو میں بوجہ بیماری اس میں شرکت نہ کرسکا لیکن جب 2023 میں میں نے پہلی دفعہ بزم امروز کے اجلاس میں شرکت کی تو اسکے بعد تو جیسے میں اپنی سب بیماریاں بھول گیا اور صرف ایک بیماری میں مبتلا ہوگیا ، جس کا نام  اجلاسی بیماری  تھا، بس پھر پورا سال  انتظار رہا کہ وہ لمحہ آئے کہ دوبارہ اجلاس منعقد ہواور پھر اپنے دوستوں سے ملنے کا موقع ملے ، آخر وہ لمحہ آن پہچا اور 4 فروری بروز اتوار کو انڈیگو ہوٹل لاہور میں اجلاس کا اعلان ہوگیا ، 3 فروری کی رات کو میں پوری تیاری کر کے سویا تو بار بار جاگ آرہی تھی ٹائم دیکھتا تھا کہ جلدی سے صبح ہو اور میں محبتوں کے اس سفر پر روانہ ہوجاوں اور پھر صبح ہوئی اور تیاری کرنے کے ساتھ ہلکا سا ناشتہ کرکے جلدی سے ڈائیوو کے ٹرمینل پر جا پہنچا اور 9 بجے والی بس میں بیٹھ گیا جس نے 10.45 پر لاہور پہنچا دیا اور ہھر جب 11.15 پر  انڈیگو ہوٹل میں پہنچا تو ایسا لگا کہ میں بہت پہلے آگیا ہوں ، لیکن پھر اندر داخل ہوتے ہی ظفر اللہ ضیا صاحب پر نظر پڑی اور دل کو حوصلہ ہوا ، وہ بھی شاید اکیلے بیٹھ کر بور ہورہے تھے ، مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور بہت پرتپاک انداز میں ملے ، پھر ہماری گپ شپ شروع ہوگئی ، تھوڑی دیر بعد مسعود سیفی صاحب بھی آگئے ، پھر کچھ دیر گذری تو آپی روبینہ ناز روبی بھی آگئیں ،پھر اسد بخاری بھائی  آئے تو اسکے بعد تو جیسے لگاتار دوستوں کی آمد شروع ہوگئی اور آہستہ آہستہ سب دوست اکٹھے ہونے لگے ، جہاں اس مرتبہ اس بات سے تھوڑی پریشانی تھی کہ تقریب کے میزبان رانا گلزار احمد نہیں آسکے تھے تو وہاں ایک خوشگوار سرپرائز بھی ملا کہ آپی ثمرینہ جمال ثمر جلدی آگئیں اور انہوں نے اپنے مزاج کے عین مطابق پوری تقریب میں رونق لگائے رکھی ، 1 بجے کھانے کا دور شروع ہوا تو سب دوست کھانا بھی کھا رہے تھے اور ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے گپ شپ بھی چلتی رہی ، میں تو کھانے کے اس دور میں میاں چنوں کے سجاد بھائی کے ساتھ ہی رہا تاکہ مجھے بھی انہی کے انداز میں کھانے کے ساتھ انصاف کرنے کا پورا موقع مل سکے ، 3 بجے تک کھانے کا دور چلا اور اسکے بعد بیسمنٹ میں باقاعدہ طور پر اجلاس کی کاروائی کا آغاز ہوا ، فیصل آباد کے راشد قمر بھائی نے   اجلاس کی نظامت کی ذمہ داری سنبھالی، تلاوت مسعود سیفی صاحب نے کی اور نعت پڑھنے کی سعادت الحمدللہ مجھے نصیب ہوئی ، دیپالپور کے اختر جاوید بھائی حسب روایت اپنی فلیکسوں کے ساتھ موجود تھے ، ان کے ساتھ اس مرتبہ سیلم ایاز اور سید موج دریا بھائی بھی موجود تھے ، ان سے مل کر بہت خوشی ہوئی ، ایک اور پہلی ملاقات اپنے ایک پرانے لکھاری دوست عمر فاروق ناز آف گوجرانوالہ سے ہوئی جو تقریب میں بہت دیر سے پہنچے اور پیار  سے ملے ، ثمرینہ جمال ثمر آپی نے حسب وعدہ کلاک کے گفٹ پیش کیے جو مجھے بھی ملا ،تقریب میں موجود انکی بہن موجودہ دور کی نامور لکھاری آئینہ مثال کا نام بھی کلاک پر موجود تھا جو کہ گفٹ وصول کرنے والوں کے لیے یقینی طور پر فخر کی بات تھی ،  فاروق ندیم کی اے ٹی الفا کی جانب سے موبائل اسیسریز کے گفٹ سب کو بدست جناب فضل احمد فانی پیش کے گئے ، فانی بھی حسب روایت تقریب کے روح رواں تھے اور  سب کو اپنی محبتوں اور مسکراہٹوں سے نواز رہے تھے ، آپی ثمرینہ کی جانب سے یش کی گئیں ، رانا گلزار احمد اور فانی بھائی کی تصاویر بہت شاندار تھی، ہمیشہ کی طرح سجاد بھائی کی خوشی کی برفی سب کی خوشیوں کا محور تھی ، اسی طرح خوشی کی برفی کے ساتھ ساتھ خوشیاں بانٹتے اور محبتیں بکھیرتے یہ تقریب اپنے اختتام پر پہنچی اور سب شرکائے تقریب اس دعا کے ساتھ اپنے گھروں کو چل دیے کہ محبتوں کا یہ سفر یوں ہی رواں دواں رہے ، آمین

نوجوان شاعرہ حسین ناز ( انٹرویو : صاحب زادہ یاسر صابری )

 




حسین ناز ۔۔نوجوان شاعرہ

انٹرویو: صاحبزادہ یاسر صابری

03115311991

سرخیاں


میرے دادا محمد ادریس انور میرٹھی خود بڑے شاعر تھے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شاعری اور طب مجھے وراثت میں ملی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔ 

جب ہم مذہب کی بات کرتے ہیں تو ہمارا مذہب ہمیں ادب سکھاتا ہے 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حسین ناز اردو شاعرات کے حلقے میں نوارد ہے لیکن اس کے کلام میں جان ہے اور اسے اپنے آپ پر اعتماد ہے۔حسین ناز کے کلام میں نغمگی اور شعریت پائی جاتی ہے اس نے اپنے احساسات اور جذبات کو اشعار کا روپ دیا ہے ان کے کلام میں لطافت اور پاکیزگی کا احساس ہوتا ہے غزل میں سادہ اسلوب اختیار کرتی ہیں۔ حسین نال نے زندگی کے تجربات و مشاہدات کو بڑے عمدہ اور دلکش انداز میں پیش کیا ہے۔ اس کی شاعری انسانی کیفیات کی مظہر ہے ۔وہ جو سوچتی ہے اس کا اظہار کر گزرتی ہے ۔ 

سوال۔ آپ کا اصل نام کیا ہے اور آپ دنیا ادب میں کس نام سے معروف ہیں؟ 

جواب۔۔۔۔میں سمجھتی ہوں بہت اچھا سوال کیا آپ نے۔۔۔کیونکہ بالکل ایسا ہی ہے کہ بس ہر کوئی ہمیں  اپنی مرضی اور پسندیدگی کی بناء پر اپنے پسندیدہ ناموں سے پکار لے تو کئی ناموں سے شہرت  ملتی بھی ہے۔۔

جیسے میرا ایک شعر بھی ہے کہ،

  کیسے کیسے نام دئیے ہیں رشتوں نے

خوشبو ملکہ اور شہزادی عورت ہے۔۔

یوں تو میرا اصل نام،  ”ناز فاطمہ“ ہے۔۔نک نیم شاداب“ پھر شادی کے بعد ”ناز عارف “ جو ہمارے ہاں فرسودہ نظام رائج ہے۔۔میں سمجھتی ہوں ضروری نہیں ہوتا کہ شادی کے بعد شوہر کا نام لگایا جائے اور ہمارے ہاں اسلام میں بھی یہ ضروری نہیں۔

اور شوہر نے جو نام دیا ہے سو اب ”حسین ناز“  ہی پہچان بن گٸی ہے۔۔۔

سوال۔ آپ کی پیدائش کا دن مہینہ اور سال؟ 

جواب.... آپ نے ایک ہی سانس میں تین سوال کر ڈالے۔

میری پیدائش14 نومبر کی  ہے اور یہ لوگ 100 %  Scorpion ہوتے ہیں ۔۔میرے ایک شعر کا  مصرعہ قارٸین کے لیے

”مضبوط مرا عزم ہے فولاد ارادے“

اور ۔۔،

کہہ دو کہ وہ ترک کے تعلق کا نہ سوچے

میں اس کی انگوٹھی میں نگینے سی جڑی ہوں۔۔

اور ایک قطعہ۔۔

”لڑنا پڑے گا اب ہمیں ظالم سماج سے 

بیزار ہو گئے ان رسم و رواج سے

 

 حق بات کے حصول کو میداں میں آئیے

 ملتا نہیں ہے کچھ یوں فقط احتجاج سے“

سوال۔ اپنے ادبی سفر کے آغاز کے بارے میں کچھ بتائیں؟

جواب۔۔۔یوں تو ادبی سفر، مطلب لکھنے لکھانے کا سلسلہ میٹرک سے ہی شروع ہو گیا تھا کیونکہ ہماری دھدیال اور ننھیال میں سبھی لکھنے پڑھنے سے شغف رکھتے ہیں۔۔

ہمارے دادا، ” محمد ادریس انور میرٹھی“ خود بڑے شاعر تھے۔۔

دادا کی اک غزل یاد آرہی ہے جب وہ انڈیا سے اپنے والد کے ساتھ پاکستان آ گئے تھے اور  ہمارے والد صاحب  ان کے ساتھ تھے جو کہ صرف ڈھائی سال کے تھے  تو بیگم سے دوری پر انہوں نے خط میں جو غزل لکھی وہ ہمارے ہاتھ لگی۔۔!_

”جب بھی جس وقت بھی سامنے آؤ گے 

رنگ اڑ جائے گا اور گھبراؤ گے

 دل میں پاؤ گے انجان سی اک خلش 

خود بھی تڑپو گے ہم کو بھی تڑپاؤ گے 

دور پردے میں چھپ کر جو بیٹھے ہو تم

 تم نے سوچا ہے نظروں سے بچ جاؤ گے

تم کو فرصت نہیں ہم کو اجلت نہیں 

ہم بھی دیکھیں کہ کب تک نہیں آؤ گے 

زندگی عشق نے حسن کو بخش دی 

جان انور یہ تم نہ سمجھ پاؤ گے۔۔“

ہم اکثر و بیشتر اس طرح کے باتیں سنتے ہیں کہ،

”کون لکھتا ہے شوہر اور بیوی کے لیے“۔۔

میں سمجھتی ہوں کہ محبت کے جذبات ظاہر ہے ماں سے شروع ہوکر پھر ماں سے لے  کر  پھر کٸی رشتوں میں بٹ جاتے ہیں۔۔

سوال۔ ادبی دنیا سے آپ کو کس نے متعارف کروایا؟

جواب۔۔۔  یوں تو ادبی دنیا سے رشتوں نے ہی متعارف کروایا اور جب آرٹس کونسل میں اک پروگرام میں مشاورتی سلسلے کے حوالے سے شہانہ جاوید نے اپنے والد کی کتاب کے لیے مدعو کیا  تو وہاں پر لوگوں نے کہا کہ آپ اچھا لکھتی ہو اچھا کہتی ہو تو پڑھ بھی ڈالو۔۔ یوں پہلی بار گٸی تھی مشاعرہ سننے۔۔۔

 اور ادبی دوستوں کے اسرار پر کلام سنا بھی ڈالا۔۔۔اور یہ غزل بہت پسند کی گٸی بلکہ یوں کہا جائے کہ  باعث شہرت بنی ۔۔ 

اپنے قارئین کی بصارتوں کی نذر کرنا چاہوں گی۔۔

”کوئی مجرم ہے یہاں کوئی سہولت کار ہے

 ایک ٹولہ ہے جو ہم سے برسر پیکار ہے

 پڑ گیا تخریب کاری کا یہاں جب سے رواج 

خون میں لتھڑا ہوا ہر روز کا اخبار ہے 

ہو گئی ماحول میں آلودگی بھی اس قدر 

سانس لینا بھی ہمارے واسطے دشوار ہے

دل ہمارا توڑ کر جو چل دیا ہے لمحہ بھر

اس سے اب امید کوئی رکھنا بھی بیکار ہے

کس طرح انصاف ہوگا ایسی حالت میں کہ اب۔!!

پاسبان عدل بھی ہر اک جانبدار ہے

اجلے کپڑوں سے ہی ہوتی ہے یہاں تکریم ناز۔۔۔ 

دنیا والوں کے لیے تو اک یہی معیار ہے“

اور جب اس کی غزل کا شارٹ کلپ  جو کہ ہمارے بہت اچھے ادب دوست شاعر، ”ارشد عرشی“ کی بدولت خبروں اور گروپس وغیرہ کی زینت بنا اور ساتھ ہی شاہانہ جاوید جن کے والد خود استاتذہ میں شمار ہوتے ہیں۔۔ ان ادب دوستو ں کے  اسرار پر کٸی بہترین اساتذہ کی صدارت  میں پڑھا۔۔ جن میں چیدہ چیدہ نام۔آفتاب مضطر، سعید الظفر، دلاور علی آزر اور کٸی بہترین شاعر شامل  ہیں۔

 پھر اچانک سے پروفیسر مقصود جعفری کی کال آئی میرے پاس اور انہوں نے بہت ہی داد و تحسین سے نوازا۔۔جو میرے لیے ایک بہت بڑی خوشی کا لمحہ تھا۔

سوال۔ ہربل ڈاکٹر اور شاعری دونوں کیسے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں ؟

جواب۔ کبھی بھی وقت ملتا نہیں نکالنا پڑتا ہے۔۔جناب شاعری تو وقت کے ساتھ ساتھ جگر کا خون مانگتی ہے۔ آسان کام نہیں۔۔

اور کبھی کبھی تو ابر بن کر آپ کے آنگن میں برس جاتی ہے  تو کبھی روح کی تشننگی کے لیے برسات کے منتظر ہی  رہتے ہیں کہ شاید کوٸی لفظ قطرہ بن کر پیاس بجھاۓ۔

رہا ہربل کا تو جناب اس کے لیۓ خدمت خلق کا جذبہ اولین  حیثیت رکھتا ہے۔۔ دراصل شاعری اور  طب مجھے وراثت میں ملی۔۔ تو بس خون میں جو جراثہم ہوتے ہیں وہ مرتے نہیں۔کہیں نہ کہیں منظر پر آ  ہی جاتے ہیں۔ اب ہربل باقاٸدہ نئے نام کے ساتھ متعارف کروارہی ہوں ۔۔۔پہلے  ”الشفاء ہوم میڈ ہربل پروڈکٹ“ کے نام سے آن لائن کررہی تھی جو اب 

 “BlissNaz  Naturals ”

سے  شروع کیا ہے۔۔۔ سو یہ میرے خون میں رچا بسا ہے تو دعا کریں بہ خیر و خوبی انجام دے سکوں۔۔۔سوال۔ آپ کے گھر والے آپ کے ادبی کارناموں کو کس زاویے سے دیکھتے ہیں ؟

جواب۔۔الحمد لله.۔۔ !! نہ صرف ہمارا گھرانہ  بلکہ میرے سسرال والے بھی ادب کا ذوق  رکھتے ہیں اور میری ساس اللہ انھیں جنت  میں اعلی مقام عطا کرے  ہمیشہ میری دلجوٸی کیا کرتی تھی۔۔اور جب کوئی انٹرویو آتا تو پورا گھر جمع ہو کر دیکھتا تھا۔۔  مگر یہ ساری خوشیاں  ان ہی کے دم سے تھیں ۔۔۔مختصر یہ ہے کہ میرے بچے بھی  لکھنے اور گانے کا شوق رکھتے ہیں۔۔

سوال۔ آپ کی کوئی کتاب شائع ہوئی ہے ؟

جواب۔۔۔کتاب شائع کرنے کی خاص جلدی نہیں۔۔کئی سالوں سے کوشش میں ہوں مگر۔۔۔،!! زندگی کی کتاب  کے کٸی اوراق سمیٹنے کی جستجو میں ہوں۔۔۔

 چند اشعار  زیر لب آ گئے۔۔

رشتوں کی تقسیم میں بکھری بکھری ناز 

پوری دنیا میں بس آدھی عورت ہے۔۔

ہر قربانی ہنستے ہنستے دے جائے

نفسا نفسی میں دل زادی عورت ہے۔۔

اس کی رحمت سب پر کھل کر برسے گی 

اب دربار میں اک فریادی عورت ہے۔

سوال۔ آپ کو اپنی کون سی غزل زیادہ پسند ہے ؟

جواب۔کلام تو سب ہی اچھا لگتا ہے یہ تو یوں ہی ہوا کہ اپ کو اپنے سارے بچے عزیز ہوتے ہیں کس کا انتخاب کیا جاۓ

چند اشعار بتاتی ہوں 

آدمیت کا بھی اک معیار ہونا چاہیے 

ایک دوجے سے سبھی کو پیار ہونا چاہیے

صبح صادق کی اذاں سے آ رہی ہے یہ صدا 

خواب غفلت سے ہمیں بیدار ہونا چاہیے

ہر جگہ سے آ  رہی ہے اب تو نفرت کی خبر 

اب محبت کا بھی ایک اخبار ہونا چاہیے

 تخلیق میں شعور کو اولین حیثیت حاصل ہے۔۔ کسی بھی چیز کے شعور کےبغیر تو اپ کوئی کام کر ہی نہیں سکتے۔۔

چند اشعار۔۔


صبح کرتے ہیں شام کرتے ہیں

ذکر ترا مدام کرتے ہیں

باوضو تجھ کو سوچتے ہیں

 ہم سوچ کا احترام کرتے ہیں 

 جتنی سانسیں بچی ہیں سینے میں 

وہ سبھی تیرے نام کرتے ہیں

ناز قسمت ہے خوب بھنوروں  کی

 گل کے رخ پر قیام کرتے ہیں۔۔

سوال۔ ادب میں مقبولیت کا مسئلہ بڑی اہمیت رکھتا ہے اس وقت اپنے آپ کو کس مقام پر محسوس کرتی ہیں ؟

جواب۔ ابھی میں ناچیز خود کو کس مقام پہ محسوس کروں میں نہیں سمجھتی ابھی بہت کچھ  سیکھنے کی ضرورت ہے۔۔ ابھی  کئی مرحلوں سے گزرنا پڑے گا۔

خواتین کا عالمی دن  قریب ہے  دو شعر قارٸین  کی بصارتوں  کی نذزر کرنا چاہوں گی۔


عورت ہُوں تواریخ کے اوراق ہیں شاہد

میں دوست بھی گہری ہوں تَو دشمن بھی بڑی ہوں


اے مرد۔!  تجھے چاہئیے تسلیم کرے تُو

میں ماں ہوں، تری فہم و فراست سے بڑی ہوں۔ ۔

سوال۔ کیا ادب اور مذہب میں کوئی تعلق ہو سکتا ہے ؟

جواب۔۔جب ہم مذہب کی بات کرتے ہیں تو  ہمارا مذہب ہمیں ادب سکھاتا ہے۔ادب  نہیں تو ہر چیز محور سے ہٹ جائے گی، بٹ جائے گی، چکنا چور ہو جائے گی ہر فرد معاشرے کی بہتری کے لیے کام کر رہا ہے ۔ جاوید عاطف صاحب نے کیا خوب کہا تھا کہ


گلے کے سانپوں سے لڑنے والو اِن آستینوں کا کیا کرو گے

جو یار سینے میں بُغض رکھتے ہوں اُن کمینوں کا کیا کرو گے


تمہاری آنکھوں کو زرد بیلوں کی آبیاری سے کیا ملے گا 

نکال پھینکو حنوط لمحوں کو اِن دفینوں کا کیا کرو گے 


نظر کے عدسے میں ایک مُشتِ غبار کب  تک دکھائی دے گا

خلا سے خالی نگاہ لوٹی تو دور بینوں کا کیا کرو گے 


ہزار ماتھوں پہ لَو بناؤ , ہزار سجدے نشان ڈالیں 

جو دل کے دامن پہ داغ ٹھہرے تو اِن جبینوں کا کیا کرو گے


حیا کا, پردے کا درس دیتے شریف زادوں سے پوچھنا تم 

کہ ساری باتیں بجا ہیں لیکن تماش بینوں کا کیا کرو گے

سوال۔ کیا آپ سمجھتی ہیں کہ آپ کے کلام میں نغمگی اور شعریت پائی جاتی ہے؟

جواب۔ آپ نے بہت خوبصورت بات کہی یوں تو ہر کلام میں نغمگی نہیں پاٸی جاتی۔۔  بلاشبہ کلام میں اگر روانی اور  تسلسل نہیں تو وہ ہر ایک کے دل میں گھر نہیں کرتا۔۔ 

 جس طرح رب کاٸنات نے نہ صرف قران پاک بلکہ   دنیا کی ہر چیز میں ایک تسلسل، روانی اور نغمگی رکھی ہے اسی طرح اس ذات کا کرم ہے کہ اس نے   خوبصورت  عقل و فہم  سے دل  و دماغ کو آراستہ کیا ہے۔۔

اک غزل۔۔۔


رابطہ گر بحال ہو جائے

 تم جو آؤ کمال ہو جائے

 

 تجھ پہ پڑ جائے ایک بار کبھی وہ نظر بھی سوال ہو جائے


مرے اندر ہے وجد کی حالت

 اے فقیروں دھمال ہو جائے


زندگی سے تجھے نکال جو دوں تیرا جینا محال ہو جائے

سوال۔ پاکستان کی جدید ترین شاعرات کے نام ؟

جواب۔ پاکستان میں کئی ایک شاعرات ہیں جو بہت اچھا کلام  کہہ رہی ہیں بہت اچھا لکھ رہی ہیں۔۔


ایسا نہ ہو کہ وہ کہتے ہیں نا کہ ناموں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے

ساری ہی خواتین بہت اچھا کلام کہہ رہی ہیں نغمگی بھی ہے شائستگی کے ساتھ بھی ہے نسوانیت بھرے لہجے بھی ہیں سب ہی کا بہت زبردست کلام ہے


”پروفیسر رضیہ سبحان“ کا ایک خوبصورت شعر جو شاید ہر عورت کی اواز ہے۔۔۔

میں نے جس گھر کو سجایا تھا بڑی چاہت سے

 آج دیکھا تو وہاں میری ہی تصویر نہ تھی

سوال۔کوئی خوبصورت کام جو منظر عام پر آنے کے باوجود ارباب علم و فن کی نظر میں دیر سے آیا ہو اور پھر آپ کو کھل کر داد ملی ہو؟  

جواب۔ ویسے تو میں اپنے پروردگار کی شکر گزار ہوں کہ میرا پہلا کلام ہی منظر پر ایا اور شہرت و کامیابی ملی

اورنہ صرف پروفیسر مقصود جعفری نے بہت ہی دادو تحسین سے نواز۔۔ بلکہ انٹرویوز وغیرہ اور اس کا ایک سلسلہ جاری و ساری ہو گیا مگر میرے خیال میں ابھی میرا کوئی کام بھی منظر پر آیا نہیں ہے جو میں منظر پہ لانا چاہتی ہوں یا میرے پاس ہے ان شاءاللہ آئے گا بہت جلد۔

سوال۔ آپ کی ذات کی کون سی ایسی کمزوری ہے جسے آپ دور کرنا چاہتی ہیں؟

جواب۔۔۔میں سمجھتی ہوں کہ بس جس کام کے پیچھے لگ جاؤں تو وہ چھوڑ نہیں سکتی۔

سوال۔ کیا آپ خود کو کامیاب سمجھتی ہیں؟

جواب۔ کامیاب تو کوئی بھی نہیں ہوتا کوئی نہ کوئی خامی کوئی نہ کوئی ادھورا پن رہ جاتا ہے رب کی  ذات  کے علاوہ کوئی بھی ذات مکمل نہیں۔۔۔

اج بھی کام محبت کے بہت نازک ہیں

دل کا انداز وہی خانہ خرابوں والا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔باغ میں پھول ڈھونڈنے ہیں تو

میری خوشبو تلاش کر لینا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Saturday, February 24, 2024

احسان الٰہی احسان شاعر اردو ، پنجابی اور انگریزی( انٹرویو : صاحب زادہ یاسر صابری )

 





احسان الٰہی احسان

اردو۔ پنجابی اور انگریزی زبان کے شاعر

انٹرویو: صاحبزادہ یاسر صابری

03115311991

آج ہم جس ادبی شخصیت سے آپ

 کی ملاقات کرآئیں گے ان کا نام احسان الہی احسان ہے جن کا تعلق تترال نزد چکوال سے ہے۔ آپ اردو، پنجابی اور انگریزی میں شاعری و افسانہ نگاری کرتے ہیں۔ دو اردو شعری مجموعے ”یہ خواب میرے خیال میرے (1999)، سبھی رنگ میرے اپنے“ (2007) اور ایک انگریزی مجموعہ کلام The lost world (1999)شائع ہو چکے ہیں۔  سوال۔ سب سے پہلے آپ اپنی زندگی کے حالات و واقعات کا مختصر سا جائزہ لیتے ہوئے کیا کہیں گے؟

جواب۔  میری پیدائش موضع تتر ال چکوال کی ایک مڈل کلاس فیملی میں 15 مارچ 1941ء کو ہوئی۔با قاعدہ تعلیم میٹرک تک گورنمنٹ ہائی سکول چکوال سے حاصل کی اس کے بعد تمام تعلیم پرائیویٹ

حاصل کی۔ ایم اے انگلش پنجاب یونیورسٹی سے پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے کیا۔ میرےوالد محترم حاجی اللہ داد معمار کا کام کرتے تھے۔ میٹرک کرنے کے بعد میری انتہائی خواہش تھی کہ باقاعدہ کالج سٹوڈنٹ کے طور پر تعلیم حاصل کروں لیکن والد صاحب کے مالی حالات ایسے نہیں تھے کہ تعلیم کو جاری رکھ سکوں۔ 1957میں میٹرک کرنے کے بعد ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفس جہلم اور راولپنڈی میں ملازمت کی۔1967 میں ایم اے انگلش کیا پھر ملازمت سے استعفیٰ دینے کے بعد تعلیمی میدان میں آگیا۔ آر اے کالج پیر پھلا ہی بطور انگلش پروفیسر رہاوہاں کی انتظامیہ سے کسی وجہ سے اختلاف ہونے کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا اور پرائیویٹ ٹیچر کے طور پر کام شروع کر دیا۔ 1976 میں سعودی عرب چلا گیا

اور وہاں دو مرحلوں میں ایک ہی کمپنی میں بطور ایڈمینسٹریٹر دس سال مقیم رہا۔

واپسی پر میں نے دوبارہ تعلیمی سرگرمیاں شروع کیں اور آج میری اپنی اکیڈمی اقراء قائد اکیڈمی کے نام سے قائم ہے جہاں ایف اے، بی اے اور ایم اے کی کو چنگ کے ساتھ ساتھ پی وی پی۔سی

ایس اور سی ایس ایس کے امتحانات کی تیاری کراتا ہوں۔

سوال۔ سعودی عرب کی ادبی سرگرمیوں کے حوالے سے کوئی بات؟

 جواب۔ سعودی عرب میں قیام کے دوران بزم فانوس کا میں سرگرم کارکن رہا ہوں اور اس کے تقریباً تمام مشاعروں میں شرکت کرتا رہا اس تنظیم میں برصغیر پاک و ہند کے شعراشرکت فرماتے تھے۔ نسیم سحر صاحب سے میری ملاقات انہی مشاعروں میں ہوتی رہی۔ سعودی عرب میں یا کسی بھی مڈل ایسٹ میں اپنے لوگوں سے ملنے کا اپنی زبان کو سننے اور مشاعروں میں سامعین کی شرکت بڑےذوق وشوق سے ہوتی ہے کیونکہ دوسرے ملکوں میں جا کر پاکستانیوں کو اپنے وطن کے لوگوں اور زبان کا بے پناہ شوق پایا جاتا ہے اور ایسی تقریبات میں شامل ہونے کے لئے لوگوں میں ایک بہت پاکیزہ قسم کی بھوک پائی جاتی ہے بد قسمتی سے ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہوتا اس کی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ تو مالی ضرورتیں ہیں جو ہمارے سماج میں باقی تمام چیزوں پر حاوی ہیں۔

سوال۔  چکوال کے اندراد بی میدان میں آپ کی کیا خدمات ہیں؟

جواب۔ ادبی میدان میں ایوانِ ادب چکوال کا صدر ہوں یہ تنظیم میں نےاور باقروسیم نے 1994ء میں قائم کی جو آج تک چل رہی ہے جو کہ ادبی میدان میں ایک نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔ ایوان ادب کے عہدے داران میں عابد جعفری چیئر مین، ناسک اعجاز اور اسلم ایوب نائب صدر، قاضی با قر وسیم سیکرٹری جنرل، ناطق جعفری جوائنٹ سیکرٹری فقیر عباس تاجر ایڈیشنل جوائنٹ سیکرٹری نعیم شاہد چیف آرگنائزر اور نور علی شکوری ایڈوکیٹ سپریم کورٹ لیگل ایڈوائزر ہیں۔

اس تنظیم کے ایک سو ممبران ہیں جن میں پچیس نمایاں شاعرہیں۔ تنظیم کا ایک شعبہ خواتین ونگ بھی ہے جس کی صدر شمیم جاوید اور سیکرٹری جنرل عظمیٰ صرف ہیں عصمت نورین جعفری ایڈیشنل سیکرٹری جنرل اور فرزانہ یاسمین سیمیں جوائنٹ سیکرٹری ہیں۔ ایوانِ ادب اب تک سولہ کتابیں شائع کر چکی ہے۔ میری تخلیقات میں دو کتابیں اردو شاعری کی خواب میرے خیال میرے بھی رنگ میرے اپنے اور ایک کتاب انگلش شاعری The lost world شامل ہیں۔ اس کے علاوہ جناب یحییٰ خان کی تمام کتابوں کا انگریزی میں ترجمہ کیا جس کو بین الاقوامی سطح پر پذیرائی ملی ہے۔

سوال۔  آپ اردو، پنجابی اور انگریزی تینوں زبانوں میں شاعری کرتے ہیں کیا یہ بتانا پسند کریں گےکہ آپ نے لکھنے کا آغاز کب اور کن حالات میں کیا؟

جواب۔ میں نے باقاعدہ لکھنے کا آغاز1959میں کیا۔ چکوال میں ادبی تحریک کی ابتدا کرنے کا سہرا چکوال کی دو تنظیموں بزم ثقافت اور اردو مجلس چکوال کے سر ہے۔ میں اردو مجلس چکوال کا ایک کارکن اور مجلس عاملہ کا ممبر رہا ہوں سب سے پہلے میری غزلیات اردو مجلس کی کتاب جو کہ1964 میں شائع ہوئی جس کا نام سبزہ بیگانہ ہے میں شائع ہوئیں۔

سوال۔ آپ اردو، پنجابی اور انگریزی شاعری میں سے کس کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور کیوں؟ جواب۔ اصل میں جو بنیادی چیز ہے وہ جذبات اور جذبات کی صحیح طرح سے ترتیب اور تنظیم ہوتی

ہے مجھے ان تینوں زبانوں میں شاعری کرنے میں کوئی زیادہ فرق محسوس نہیں ہوتا۔

سوال۔ کیا آپ آج کل کی شاعرات کی شاعری سے مطمئن ہیں؟

جواب۔ آج کل شاعری فنی لحاظ سے تو شاید اتنی مکمل نہیں ہے لیکن جذبہ اور جذبات ہوں تو فنی اکتساب سفر کے ساتھ ساتھ ہوتا رہتا ہے اس لحاظ سے شاعرات کی قدر کرنا اور ان کی حوصلہ افزائی

کرنا ضروری ہے اور ان کا جذ بہ اور جذبات حوصلہ افزا ہیں۔

سوال۔ آپ کے خیال میں ادب پہلے سے بہتر تخلیق ہو رہا ہے یا کم تر؟ جواب۔ میرے خیال میں موجودہ ادب پہلے سے بہتر تخلیق ہورہا کیونکہ زندگی کے اتار چڑھاؤ میں بڑا فرق آگیا ہے اور یہ فرق موجودہ شاعری میں بھر پور طور پر منعکس کیا جارہا ہے۔

سوال۔ آپ کے خاندان میں آپ سے پہلے بھی کوئی لکھتا تھا یا اب کوئی لکھتا ہے تو اس کا ذکر اگر آپ مناسب سمجھتے ہیں تو ہو جائے؟

 جواب۔ پہلے تو کوئی نمایاں نام نہیں تھا البتہ اب میرے خاندان میں نئے نام شامل ہیں جن میں میرا بیٹا سائل محمود سائل افسانہ لکھتا ہے اور اس کی بیوی عظمی صدف جو کہ میری بہو ہے شاعری کرتی ہے اس کے علاوہ نور علی شکوری اور شکیل احمد شکیل شامل ہیں۔

 سوال۔ نئے لکھنے والوں میں آپ کسی کو زیادہ پسند کرتے ہیں اور کیوں؟

جواب۔ میں شاعروں کے بجائے اشعار کو زیادہ اہمیت دیتا ہوں کیونکہ بنیادی حیثیت شعر کی ہوتی ہے، چاہے وہ کسی کا ایک ہی شعر کیوں نہ ہو۔ نئے لکھنے والوں میں قابل جعفری، اسلم ایوب، ناطق

جعفری اور حسین اختر نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔

سوال۔ آپ کا اپنا پسندیدہ کلام؟

جواب۔ دو شعر پیش خدمت ہیں۔ 

تمام عمر کا حاصل ہوا یہی احسان ہمیں جہاں میں کسی اور طرح جینا تھا


جو بات کرنے کی خاطر ہم عمر بھر ترسے

وہ بات پھر بھی ادھوری ہی رہ گئی اپنی

سوال۔ آپ کافی عرصہ ہو گیا ہے ادب سے وابستہ ہیں کیا وجہ ہے کہ آج کل ادیب اور شاعر کی اس

طرح قدر کیوں نہیں کی جاتی جیسے پہلے کی جاتی تھی؟

جواب۔ اس بارے میں سب سے بڑا ہا تھ بک پبلشرز کا ہے جو اپنی پسند کی شاعری کو شائع کرنے

کو اہمیت دیتے ہیں، دوسرا کتابوں کی اشاعت میں بہت زیادہ روپے کی ضرورت ہے، تیسرے پاکستان کے ہر صوبے کی طرح ادب میں اجارہ داریاں قائم ہیں جن کی وجہ سے اصل شعرا کو آگے آنے میں بہت دشواری آتی ہے حکومتی کوئی ادارہ ایسا نہیں ہے جس میں تخلیق کاروں کی تخلیقات کو سامنے لانے کا کوئی بندوبست ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سارے لوگ حوصلہ شکنی کا شکار ہیں جو نام نہا د ادارے اس کام کے لئے مختص کئے گئے ہیں ان میں بھی دو نمبر کے لوگ آگئے ہیں جن کی اجارہ داریاں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ الیکٹرانک میڈیا بھی شہروں اور مخصوص لوگوں تک محدود ہے۔ اصل شاعری مضافات شہر میں ہوتی ہے جس کی طرف کوئی رخ بھی نہیں کرتا۔ یہ اجارہ داریاں بھی زندگی کے دوسرے شعبہ جات میں قائم کی گئی اجارہ داریوں کی طرح ہیں اور ان اجارہ داریوں کو ختم کرنے کے لئے ہمیں صیح معنوں میں پورے سماجی ڈھانچہ میں تبدیلی کی ضرورت ہےجس کی ابتدا ابتدائی تعلیم اور سکولوں کی تعلیم سے کی جاسکتی ہے۔

سوال۔ انٹرویو کے آخر میں آپ کا پیغام کیا ہے؟

جواب۔  میرا پیغام تمام تخلیق کاروں کے لئے چاہے وہ شاعری سے تعلق رکھتے ہوں یا کسی بھی فن سے وابستہ ہیں یہ ہے کہ تقدیر پر بھروسہ رکھیں اور اپنے جس بھی مشن کو جاری کیا ہوئے ہیں اس کو پوری لگن کے ساتھ جاری رکھیں۔

Friday, February 23, 2024

سعدیہ ہما شیخ ( شاعرہ / ادیبہ ) انٹرویو : صاحب زادہ یاسر صابری

 





سعدیہ ہما شیخ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 شاعرہ اور ادیبہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انٹرویو: صاحبزادہ یاسر صابری

03115311991


معروف شاعرہ اور ادیبہ سعدیہ ہما  شیخ 26 جنوری1989ء کو سرگودھا میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد واپڈا سے آر او ریٹائرڈ ہیں اور غلہ منڈی میں آڑھت کا کاروبار کرتے ہیں جبکہ والدہ ہاوس وائف ہیں۔ ایم سی گرلز ہائی سکول سے میٹرک ڈگری کالج سے بی ایس سی قائد اعظم لا کالج سے لا سرگودھا یونیورسٹی سے ایم اے  پولیٹیکل سائنس ایم اے پاک سٹڈیز اور النور انٹرنیشنل سے ڈپلومہ ان اسلامک ایجوکیشن کیا۔

سعدیہ ہما شیخ کا شمار سرگودھا کی معروف شخصیات میں کیا جاتا ہے۔زندگی کے تمام شعبوں میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہیں وکالت شاعری اور معروف لکھاری ہونے کے علاوہ مختلف رفاعی وفلائی تنظیموں سے وابستہ ہیں اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ہر وقت سرگرم عمل رہتی ہیں۔سعدیہ عمر شیخ سے ایک تفصیلی گفتگو ہوئی جو نظر قارئین ہے۔  

سوال۔ آپ نے  لکھنے کا آغاز کب اور کیوں کیا؟ 

جواب۔ لکھنے کا آغاز سکول دور سے ہی ہو گیا جب اپنی تقریریں لکھنا شروع کیں ادیب پیدائشی طور پر ذہین یوتا یے آپ کے اندر ایک بے چینی ہوتی ہے اردگرد کے حالات آپ کو لب کھولنے پر مجبور کرتے ہیں اسی طرح معاشرتی نا انصافی اور ظلم ہوتا دیکھ کر میں نے آواز بلند کی اور لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔

سوال۔ آپ کی نثری تخلیقات؟ 

جواب۔ میں نے نثر میں افسانہ ناول کالم اور سفرنامہ لکھا یے میرے کالم اور افسانے رومانوی نہیں معاشرتی اور اصلاحی ہیں اسی طرح کالم میں بھی مسائل کی نشاندہی اور ان کا حل ہوتا ہے۔

سوال۔ آپ کی اب تک کتنی کتابیں شائع ہو چکی ہیں ؟

جواب۔ؔمیری اب تک 8 کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ وصل میں تشنگی۔ اقوال ہما۔ بال ہما۔ وادی کالام کا فسوں( افسانہ )۔خوابوں کے رنگ (ناول)۔تعزیر وحد( مختصر کہانیاں) ۔مشرک پیا( مجموعہ کلام) ۔ سیرت ہر امت کے وکیل۔

سوال۔ آپ شاعری میں نظم کی بجائے غزل کی طرف زیادہ مائل نظر آتی ہیں اس کی کوئی خاص وجہ؟

جواب۔ غزل مجھے اس لیے پسند ہے کہ یہ مکمل جزبات کی تشریح کر دیتی ہے اور اس میں ایک موسیقیت ایک ردھم ہوتا ہےمگر اب جدید نظم غزل سے آگے اس لیے جا رہی ہے کیونکہ نظم اوزان سے عاری ہوتی ہے اور غزل سے آسان ہے۔

سوال۔ شاعری میں باقاعدہ اصلاح آپ نے کس سے لی؟

جواب۔ اصلاح میں نے امجد اسلام امجد سے لی بہت گریٹ تھے وہ میری پہلی کتاب پر اپنی بھرہور رایے دی۔

سوال۔ افسانہ۔ ناول ۔کہانی اور ڈرامہ کے بارے میں آپ کیا کہیں گی؟

جواب۔ مجھے افسانہ پسند یے کیونکہ یہ مختصر ہوتا ہے اب لمبے طویل ناولوں کی فرصت کسی کے پاس نہیں اور ڈرامہ زیادہ اٹریکٹ کرتا ایک بہترین تفریح۔

سوال۔ شاعری کے لیے کیا علم عروض سیکھنا ضروری ہے ؟

جواب۔ عروض کے بغیر تو شاعری ایسے ہی ہے جیسے روح کے بغیر جسم جیسے سر کے بغیر سنگیت  جسے عروض کا نہیں پتہ اسے میں شاعر مانتی ہی نہیں۔ 

سوال۔ ڈاکٹر وزیر آغا کی تنقید ۔زبان۔ اسلوب اور افکار گہرے ہیں۔ آپ کے ان کے ساتھ قریبی روابط رہے ہیں ان کے بارے میں کیا کہیں گی؟ 

جواب۔  ڈاکٹر وزیر آغا سرگودھا کا بہت بڑا ادبی حوالہ ہیں اور مجے یہ فخر ہے کہ میری پہلی کتاب کا فلیپ آغا جی نے لکھا ان دنوں وہ بیمار تھے اور لاہور میں مقیم تھے ان کا خلاء جو ہے اسے کوئی  پورا نہیں کر سکتا مجھے ان کی شفقت ملی یہ میرا مان ہے میرے شعری مجموعے وصل میں تشنگی پر انہوں نے فلیپ لکھا۔

سوال۔آپ کی ہم عصر شاعرات؟ 

جواب۔ ہم عصر شاعرات سے میں یہ کہوں گی کہ دوسرے کو کاپی کرنے سرقہ کرنے اور نقل محض سے نکل کر اپنی پہچان بنائیں تا کہ  آپ کا کلام بولے۔

سوال۔ معروف شاعرہ ثمینہ گل کے ساتھ تعلق کا اظہار کس طرح کریں گی ؟

جواب۔ ثمینہ گل بہت اچھی شاعرہ اور نفیس خاتون ہیں اس کے ساتھ ساتھ استاد بھی ہیں اکثر مشاعروں میں ملاقات ہوتی رہتی ہے۔

سوال۔ آپ اپنی اقوال زریں کی  کتاب سے چند اقوال زریں قارئین کے لئے شامل کرنا چائیں گی؟  

جواب۔ اقوال ہما کو لوگوں نے بہت پسند کیا اس پسندیدگی کے لیے مشکور ہوں۔محبت چاند کی طرح گھٹتی بڑھتی  نہیں کہ وفا دیکھ کر زیادہ اور بے وفائ دیکھ کر کم ہو جایے یہ تو ایک میٹھا زہر ہے جو آپ کی رگوں میں سرائیت کر جاتا ہے۔ابلیس نےآدم کو سجدے سے انکار کر کے سب سے پہلے میری مرضی کا نعرہ لگایا اور جنت سے نکل کر زندہ درگور ہو گیا۔

رات کے تیسرے پہر شر اور خیر دونوں قوتیں زور پر ہوتی ہیں یہ انسان کے اپنے اختیار میں ہے کہ وہ رحمان کو چنتا ہے یا شیطان کو۔

سوال۔ شعبہ وکالت آپ نے کیوں اختیار کیا؟ 

جواب۔ شعبہ وکالت میری گھٹی میں یے میرے نانا چاچو اور بھائ سب وکیل ہیں خواتین کی بدتر حالت دیکھ کر میں نے سائنس چھوڑ کر وکالت کرنے کا فیصلہ کیاادیب پیدائشی ہوتا یے اور شعبہ آپ منتخب کرتے ہیں  نا انصافی اور عورت کی آواز بننے کے لیے یہ شعبہ منتخب کیا سپیشلی جیل کی خواتین کے لئے جو سب سے مظلوم ہیں جن کی کوی داد رسی نہیں کرتا۔میں جیل ریفارمر کمیٹی کی چئیر ہرسن بھی ہوں۔

سوال۔ گھر کے کاموں کے لیے کس طرح وقت نکالتی ہیں ؟

جواب۔ گھر میری پہلی زمہ داری ہے اپنے بچوں کی ڈرائیور اور کک بھی ہوں۔

سوال۔ آپ کی زندگی کے قابل فخر لمحات ؟

جواب۔ زندگی میں کوئی نہ کوئی ایسے لمحات ضرور آتے ہیں جنہیں انسان ہمیشہ یاد رکھتا ہے ایسے کچھ لمحات میری زندگی میں بھی آئے جنہیں میں ہمیشہ یاد رکھوں گی۔ جب میں نے گولڈ میڈل لیا۔ جب میں نے وکالت کی ڈگری لی اور جب میں نے سرگودھا بار کا الیکشن بھاری اکثریت سے جیتا۔

سوال۔ ہمارے قارئین کے لئے کلام؟ 

جواب۔ تازہ کلام پیش خدمت ہے جس کا عنوان ہے عورت :

کبھی سوچو تو رشتوں کی ہے پوری کہکشاں عورت

بہن،بیوی کہیں بیٹی کہیں دیکھو ہے ماں عورت


یہ ہر اک روپ میں پیاری یہ ہر اک رنگ میں اعلیٰ

کہیں نازک کلی سی ہے کہیں کوہِ گراں عورت


عدالت ہو کہ مکتب ہو شفاخانہ یا دفتر ہو

ہمیں آسانیاں بانٹے جہاں دیکھو وہاں عورت


کبھی گھر میں یہ ماں ہے تو کبھی جج ہے عدالت میں

سدا انصاف کرتی ہے بنے منصف جہاں عورت


ہمیشہ احترامِ باہمی ہے فلسفہ اس کا

غلط فہمی میں مت رہنا کہ ہو گی ناتواں عورت


کہیں پھولوں سے نازک ہے کہیں تصویر ہمت کی


کبھی جھرنا خوشی کا تو کبھی عزمِ جواں عورت


ہما تصویر چاہت کی وفا کا استعارہ ہے 

تو استبداد کے آگے ہے جرآت کا نشاں عورت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہماری بات کا ہوگا اثر آہستہ آہستہ 

نکل جائے گا تیرے دل سے ڈر آہستہ آہستہ 


ملک پر جو ستارے کہکشاں  بن کے چمکتے ہیں 

انہی کے خون سے ہوگی سحر آہستہ آہستہ 


ذرا سی بات پر یک دم نگاہیں پھیر لیں تم نے 

کیا کرتے ہیں اپنوں سے مفر آہستہ آہستہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کانوں میں پڑنے والی پہلی آواز ( یاسین یاس )

 





کانوں میں پڑنے والی پہلی آواز 

تحریر : یاسین یاس 

جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اس کے کانوں میں گونجنے

 والی سب سے پہلی آواز اس کی ماں کی ہوتی ہے حتی کہ اذان بھی اس کے کانوں میں اس کے بعد دی جاتی ہے اس لیے بچہ کان میں پڑنے والی پہلی آواز کو کبھی نہیں بھول سکتا یہی وجہ ہے انسان جتنا مرضی لکھ پڑھ لے چاہے جتنی زبانوں پر مرضی عبور حاصل کر لے اس کی ماں کی بولی ان سب پر ہمیشہ حاوی رہتی ہے ہر سال کی طرح اکیس فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن منایا گیا شہر شہر گاؤں گاؤں لوگوں نے  اپنی ماں بولی کے حوالے سے جلسے جلوس سیمینار اکٹھ مشاعرے ڈھول ڈھمکا اور اپنا کلچر نمایاں کیا پنجابی زبان ایک بڑی زبان ہے جس کے پروگرام بھی زیادہ ہوئے اور نمایاں رہے خوشی کی بات ہے 

ماں بولی پنجابی کے لیے بہت ساری ادبی تنظیمیں  اپنی مدد آپ کے تحت مختلف قصبوں شہروں اور ملکوں میں کام کر رہی ہیں آج میں جس ادبی تنظیم کا ذکر کرنے جا رہا ہوں اس کا نام ہے بزم عابد تمیمی انٹرنیشنل جس کو عابد تمیمی کے شاگرد اپنے اپنے انداز میں چلا رہے ہیں کوئی کسی شہر میں تو کوئی کسی شہر میں مجھے بھی بزم عابد تمیمی چنیوٹ کے پلیٹ فارم نے موقع فراہم کیا اور میں چنیوٹ کے دوستوں سے ملا ان کو سنا ان سے بہت کچھ سیکھا بھی عابد تمیمی صاحب کے شاگرد قابل رشک ہیں جو اپنے استاد کا لگائے ہوئے پودے کا پھل بھی کھا رہے ہیں اور اسے سنبھالے ہوئے بھی ہیں اور نئے آنے والے دوستوں کی راہنمائی بھی کر رہے ہیں اللہ کریم ان کو استقامت دے ۔آمین  آج میں عابد تمیمی کے جس شاگرد جس نوجوان کا ذکر کرنے جارہا ہوں وہ خوبصورت دل رکھنے والا جواں حوصلہ بہترین انسان یاروں کا یار بزم عابد تمیمی کا چمکتا ہوا ستارہ کاشف پنجابی ہے جس نے عابد تمیمی کا شاگرد ہونے کا حق ادا کر دیا وہ ہر روز گرمی ہو یا سردی گھر میں ہو یا گاڑی میں حتی کہ وہ سفر میں بھی ہو تو سانجھا ویہڑا پنجاب دا پروگرام کر رہا ہوتا ہے کیونکہ وہ اس کے استاد سے جڑی ادبی تنظیم بزم عابد تمیمی کا پروگرام ہے میں آپ کو سلام پیش کرتا ہوں بھائی وہ پاکستان میں ہو یا کینیڈا میں بزم عابد تمیمی کو نہیں بھولتا وہ روزانہ فیس بک پر لائیو آکر بزم عابد تمیمی کے پلیٹ فارم سے سانجھا ویہڑا پنجاب دا پروگرام کرتا ہے اور محبتیں بانٹتا ہے اور محبتیں سمیٹتا ہے کاشف پنجابی نے ثابت کیا ہے کہ محبتوں کی کوئی سرحد نہیں ہوتی کوئی دیس نہیں ہوتا کوئی ذات پات نہیں ہوتی محبت بس محبت ہوتی ہے وہ اپنی ماں بولی سے جڑے ہوئے ہر اس بندے سے کنیکٹ کرتا ہے جو کسی نہ کسی طریقے سے ماں بولی کی خدمت کر رہا ہے بزم عابد تمیمی مشاعرے بھی کرواتی ہے سیمینار بھی کرواتی ہے ماں بولی کی کتابوں کی تقریب رونمائی بھی کرواتی ہے نئے آنے والے دوستوں کی اصلاح بھی کرتی ہے اور ان کی حوصلہ افزائی بھی کرتی ہے اپنے ساتھ پورا سال جڑے رہنے والے دوستوں کو اعزازی سرٹیفکیٹ دیتی ہےسال 2023 میں  بزم عابد تمیمی اور سانجھا ویہڑہ پنجاب کی طرف سے پنجابی زبان دے مان تران ارشاد سندھو ، زاہد جرپالوی، آصف علی علوی۔ کلبیر سنگھ حسرت ، یاسین یاس ،ستندر جی  کور ، آصفہ مریم ، کملیش سندھو،  فلک شیر نوید،اعظم رانجھا ، مومن ہاشمی، زین جٹ ،صادق 

فدا قادری، امجد عارفی،کاشف تنویر ، مزمل زائر ۔ 

 کو اعزازی سرٹیفکیٹ دیے گئے 

بزم عابد تمیمی انٹرنیشنل کے سیوک کاشف تنویر کی گورمکھی میں کتاب " سوچ دے اکھر "  کی  

تقریب رونمائی چڑھدے پنجاب 24 فروری کو  پھگواڑا شہر انڈیا 

میں ہو رہی جس کا اہتمام پنجابی ورثہ کی جانب سے کیا گیا ہے پنجابی ادب کا بڑا نام سکھی باٹھ کینیڈا سے شرکت کریں گے میں پنجابی ماں بولی کے سیوک کاشف پنجابی کو ان کی کتاب سوچ دے اکھر کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں میری دعا ہے کہ پنجابی کا یہ خوبصورت پھول اسی طرح ہنستا مسکراتا رہے اور پوری دنیا اس کی خوشبو سے مہکتی رہے 


Wednesday, February 14, 2024

سانجھا ویہڑا پنجاب دا تے بزم عابد تمیمی ( کاشف پنجابی )

 





بزم عابد تمیمی انٹرنیشنل دا سانجھا ویہڑا پنجاب دا


پنجابی ادب دی سیوا اتے ماں بولی دے پرچار لئی بزم عابد تمیمی انٹرنیشنل 3 سال توں سوہنے ڈھنگ نال نبھا رہی اے۔

گورمکھی ہووے یا شاہ مکھی لہندا ہووے یا چڑھدا پوری دنیا وچ کتاباں تے مشاعرے آں دے نال نال پنجابی رہتل، وسیب نوں جیوندا رکھن لئی میلے تے پنجابی رسماں رواجاں دے پروگرام کروا کے بزم عابد تمیمی انٹرنیشنل نے کینڈا توں پنجاب تک دیس، ودیشاں وچ اپنی ماں بولی دی سیوا کر کے سوہنی  پہچان تے نام کمایا اے۔ 

اجوکے ویلے نوں مکھ رکھیئے تاں سوشل میڈیا تے ہر دن لائیو پروگرام سانجھا ویڑھاپنجاب دا سجایا جاندا اے جہدے وچ دنیا بھر دے پنجابی اک دوجے نال وچار وٹاندرا دے نال نال اک دوجے نال اپنیاں لکھتاں تے سوچاں بڑی محبت نال سانجھیاں کردے نیں۔سانجھا ویڑھا پنجاب دا لائیو پروگرام دنیا دے بہت سارے دیساں وچ ویکھیا جا رہئیا اے جہدے نال ودیشاں وچ وسن آلی ساڈی نویں پنیری ، بچے پنجابی سکھدے نیں اتے لکھاری پنجابی ادب،شاعری عروض دے نال نال ہر دن دیاں خبراں وی اک دوجے نال سانجھیاں کردے نیں۔ 

بزم عابد تمیمی انٹرنیشنل نال جڑے ہوئے لوکاں پورا سال نال جڑ کے محبت پیار سانجھا کرن تے ہر سال ہر ممبر نوں سرٹیفکیٹ۔ مان سمان پتر دتا جاندا اے 2024 دے پیار دے پتر بہت سارے دوستاں نوں دتے گئے نیں تاکہ سارے متر، بہن بھرا اپنی رہتل دیس پنجاب نال جڑے رہن تے پنجابی ادب دی سیوا کردے رہن۔ 

جنہاں دے وچ ۔۔۔

ارشاد سندھو۔ زاہد جرپالوی، آصف علی علوی۔ کلبیر سنگھ حسرت ، یاسین یاس۔ ستندر جیت کور ۔آصفہ مریم۔ کملیش سندھو،  فلک شیر نوید،اعظم رانجھا ۔ مومن ہاشمی، زین جٹ۔صادق فدا قادری۔ امجد عارفی۔کاشف تنویر ۔مزمل زائر ۔ ہور بہت سارے لوگ شامل نین۔

بزم عابد تمیمی انٹرنیشنل دے سیوک کاشف تنویر ہوراں دی گورمکھی وچ کتاب " سوچ دے اکھر "  دی گھنڈ چکائی کرن لئی چڑھدے پنجاب 24 تریخ نوں  پھگواڑا شہر انڈیا وچ پنجابی ورثہ ولوں  پنجابی ادب دا بہت وڈا نام سکھی باٹھ جی کینڈا توں آ رہے نیں۔

Wednesday, February 7, 2024

شب معراج کے نوافل اور روزے ( حسنہ نور )

 





*شب معراج کے نوافل اور روزے*


ستّائیسویں رَجَبُ الْمُرَجَّب کی عظمتوں کے کیا کہنے ! اس رات کواللہ عزوجل نے اپنے پیارے محبوب صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کو معراج شریف کی دولت عطا فرمائی اور پیارے آقا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جنت اور دوزخ کو ملا حظہ فرمایا اور چشمان مبارک سے اللہ عزوجل کا دیدار کیا۔لہذا اس رات کوخوب عبادت میں گزارنا چاہنے


حضرت ِسیِّدُناسلمان فارسی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی ہے ،اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوب ، دانائےغُیُوب،مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیُوب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ ذِیشان ہے:’’رجَب میں ایک دن اور رات ہے جو اُس دن روزہ رکھے اور رات کو قِیام (عبادت )کرے تو گویا اُس نے سو سال کے روزے رکھے ، سو برس کی شب بیداری کی اور یہ رَجَب کی ستائیس(ست۔تا۔ئیس) تاریخ ہے۔‘‘(شُعَبُ الْاِیْمَان ج۳ص۳۷۴حدیث ۳۸۱۱)


*ایک نیکی سو سال کی نیکیوں کے برابر*

رجب میں ایک رات ہے کہ اس میں نیک عمل کرنے والے کو سو برس کی نیکیوں کا ثواب ہے اور وہ رجب کی ستائیسویں شَب ہے ۔جو اس میں بارہ رکعت اس طرح پڑھے کہ ہر رکعت میں سورۂ فاتِحہ اورکوئی سی ایک سُورت اور ہر دو رکعت پراَلتَّحِیّاتُ پڑھے اور بارہ پوری ہونے پر سلام پھیرے ، اس کے بعد100بار یہ پڑھے: سُبْحٰانَ اللہِ وَالْحَمْدُلِلّٰہِ وَلَآاِلٰہَ اِلَّااللہُ وَاللہُ اَکْبَر ، اِستِغفار100 بار، دُرُود شریف 100 بار پڑھے اوراپنی دنیاوآخِرت سے جس چیز کی چاہے دُعا مانگے اور صبح کوروزہ رکھے تو اللہ عَزَّ وَجَلَّ اس کی سب دُعائیں قَبو ل فرمائے سوائے اُس دُعا کے جوگناہ کے لئے ہو۔ (شُعَبُ الْاِیمان ج۳ص۳۷۴حدیث۳۸۱۲)


چھ رکعات نفل دو سلام سے ہر رکعت میں سورۂ فاتِحہ کے بعد7 بار سورہ اخلاص پڑھیں۔ چھ رکعات مکمل ہونے کے بعد50 بار دُرُود شریف پڑھے - انشااللہ تعالیٰ جو بھی حاجت ہو قبول ہوگی


دو رکعات نفل پڑھے ہر رکعت میں سورۂ فاتِحہ کے بعد27 بار سورہ 

اخلاص پڑھیں اَلتَّحِیّاتُ کے بعد27 بار درود شریف پڑھیں پِھر سلام پھیرے اس کا ہدیہ حضور صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کریں


دو رکعات نفل پڑھے پہلی رکعت میں سورۂ فاتِحہ کے بعد1 بار سورہ علم نشرح اور دوسری رکعت میں سورۂ فاتِحہ کے بعد1 بار سورہ قریش پڑھے - انشااللہ تعالیٰ یہ نماز پڑھنے سے اولیا کے ساتھ نماز پڑھنے کا ثواب ملےگا


دس رکعات نفل پانچ سلام سے ہر رکعت میں سورۂ فاتِحہ کے بعد ۳ بار سورہ کافروں اور۳ بار سورہ اخلاص پڑھیں دس رکعات پوری ہونے پر 1بار کلمہ توحید یعنی چوتھا کلمہ پڑھیں


شب میں اپنی قضا نمازیں پڑھے ، غسل کرے غسل یا وضو کے بعد ٢ رکعت نفل تہایتول وضو پڑھے ، عطر لگاے، سرما پہنے ، اپنی گناہوں سے توبہ کرے استغفار پڑھے ، دررود شریف ، قرآن شریف پڑھے ، سورہ یاسین پڑھے ،دوا مانگے ، صدقہ - خیرات کرے ، بے ہودہ اور خرافاتی باتوں سے بچے


رجب کے نفلی روزے


60 مھینوں کا ثواب

حضرتِ سیِّدُنا ابوہُریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں : ستّائیسویں رجب کا جو کوئی روزہ رکھے، اللہ تَعَالٰی اُس کیلئے ساٹھ مہینے کے روزوں کا ثواب لکھے۔ (فَضائِلُ شَہْرِ رَجَب ، لِلخَلّال ص۱۰)


سوسال کے روزے کا ثواب

ستّائیسویں رجب کا جو کوئی روزہ رکھے تو گویا اُس نے سو سال کے روزے رکھے


*جنّتی محل*

تابِعی بُزُرگ حضرتِ سَیِّدُنا ابوقِلابہ رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں :رجب کے روزہ داروں کیلئے جنت میں ایک مَحَل ہے۔(شُعَبُ الْاِیمان ج۳ص۳۶۸حدیث۳۸۰۲)


ایک جنّتی نہر کا نام رجب ہے

حضرت ِسَیِّدُنا اَنَس بن مالِک رضی اللہ تعالٰی عنہ سےروایت ہے کہ رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:’’جنت میں ایک نَہر ہے جسے ’’رجب‘‘ کہا جا تا ہے جو دودھ سے زیادہ سفید اور شہد سے زیادہ میٹھی ہے تو جو کوئی رجب کا ایک روزہ رکھے تو اللہ عَزَّوَجَل اسے اس نَہر سے سیرَ اب کر ے گا۔‘‘ (شُعَبُ الْاِیمان ج۳ص۳۶۷حدیث۳۸۰۰)


*ایک روزے کی فضیلت*

مُحَقِّق عَلَی الِاْطلاق ، خاتِمُ المُحَدِّثین ، حضرتِ علّامہ شیخ عبدُالحقّ مُحَدِّث دِہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی نَقْل کرتے ہیں کہ سلطانِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی علیہ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمان ہے:ماہِ رجَبَ حُرمَت والے مہینوں میں سے ہے اور چھٹے آسمان کے دروازے پر اِس مہینے کے دن لکھے ہوئے ہیں۔اگر کوئی شخص رجَبَ میں ایک روزہ رکھے اور اُسے پرہیزگاری سے پورا کرے تو وہ دروازہ اور وہ(روزے والا)دن اس بندے کیلئےاللہ عَزَّ وَجَلَّ سے مغفِرت طلب کریں گے اور عرض کریں گے:یااللہ عَزَّ وَجَلَّ !اِ س بندے کو بخش دے اور اگر وہ شخص بغیر پرہیزگا ر ی کے روزہ گزارتا ہے تو پھر وہ دروازہ اور دن اُس کی بخشِش کی درخواست نہیں کریں گے اور اُس شخص سے کہتے ہیں :’’اے بندے !تیرے نفس نے تجھے دھوکا دیا۔‘‘ 

(مَاثَبَتَ بِالسُّنۃ ص۲۳۴،فَضائِلُ شَہْرِ رَجَب ، لِلخَلّال ص۳،۴)بخاری، کتاب الدعوات، باب أفضل الاستغفار، حدیث نمبر:5831)

................ *شب معراج کیسے گزاریں؟* ...................

..... شب معراج کی عبادت اور ستائیسویں تاریخ کے روزہ کی فضیلت


سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے،آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: رجب میں ایک ایسادن اور ایک ایسی رات ہیکہ جس نے اس دن روزہ رکھا اور اس رات قیام کیا گویا اس نے سو 100 سال روزہ رکھا اور سو100 سال شب بیداری کی اور وہ رجب کی ستائیسویں شب ہے-(فضائل الاوقات للبیہقی،باب فی فضل شہر رجب،حدیث نمبر11-کنز العمال ، فضائل الازمنۃ،حدیث نمبر:35169۔ماثبت بالسنۃ ،ص :70۔الغنیۃ لطالبی طریق الحق ج1 ص182,183۔ شعب الإیمان للبیہقی،باب الصیام، تخصیص شہر رجب بالذکر،حدیث نمبر:3650۔ جامع الأحادیث للسیوطی، حرف الفاء ، حدیث نمبر: 14813۔ الجامع الکبیر للسیوطی، حرف الفاء ، حدیث نمبر: 172۔کنز العمال، فضائل الأزمنۃ والشہور، حدیث نمبر: 35169۔ تفسیر در منثور،زیر آیت سورۂ توبہ :36)


....... *شب معراج میں بارہ رکعات نفل نمازکی خصوصی 

چونکہ معراج میں صلوٰۃ التسبیح بھی پڑھی جاتی ہے اسی لئے یہاں صلوٰۃ التسبیح کی فضیلت اور اس کا طریقہ بیان کیا جاتاہے ۔صلوٰۃ التسبیح کا طریقہ یہ ہے کہ صلوٰۃ التسبیح کی نیت سے چاررکعت اس طرح اداکریںکہ تکبیر تحریمہ اور ثناء کے بعد پندرہ مرتبہ یہ تسبیح پڑھے: سُبْحَانَ اللَّہِ وَالْحَمْدُ لِلَّہِ وَلاَ إِلَہَ إِلاَّ اللّٰہُ وَاللّٰہُ أَکْبَر پھر تعوذ،تسمیہ،سورہ فاتحہ اور ضمِ سورہ کے بعد دس مرتبہ یہی تسبیح پڑھے‘ پھر رکوع کرلے اور سبحان ربی العظیم کے بعد دس مرتبہ تسبیح پڑھے‘ رکوع سے سراٹھاکر تسمیع وتحمید کے بعد قومہ میں دس بار تسبیح پڑھے‘ پھر پہلے سجدے میں سبحان ربی الاعلی کے بعد دس مرتبہ تسبیح پڑھے اور دونوں سجدوں کے درمیان کے جلسہ میں دس مرتبہ تسبیح پڑھے‘ اور دوسرے سجدہ میں بھی سبحان ربی الاعلی کے بعددس مرتبہ تسبیح پڑھے‘ اور دوسرے سجدے سے کھڑے ہوکر سورہ فاتحہ پڑھنے سے پہلے پندرہ مرتبہ تسبیح پڑھے۔ 


........... *شبِ معراج میں حسب ذیل ماثور دعائیں پڑھیں:*


اللَّہُمَّ إِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی۔


ترجمہ :ائے اللہ! تو بہت معاف فرمانے والاہے، اور معافی کوپسند کرتاہے‘ پس مجھے معاف فرمادے۔(جامع ترمذی،ابواب الدعوات،باب ای الدعاء


ترجمہ: اے اللہ! میرے دینی امور کو درست فرمادے جو میرے معاملہ کی حفاظت کا ذریعہ ہیں اور میری دنیا درست فرمادے جس میں میری معیشت ہے ‘میری آخرت درست فرمادے جہاں مجھے لوٹنا ہے‘ میری زندگی کو میرے لئے ہر بھلائی میں زیادتی کا ذریعہ بنا ‘اور میری موت کو میرے لئے ہر مصیبت سے راحت کا سبب بنا۔ (صحیح مسلم،کتاب 


اللہ رب العزت تمام امت مسلمہ کو اس رات کے فیوض و برکات سمیٹنے کی توفیق عطا فرمائے اور بغیر حساب کتاب جنت عطا فرمائے۔

آمیـن یارب العالمیـن 🌸🍃


*آپ معراج پر بھی نہ بھولے ہمیں*

*ان کی ایسی محبت پہ لاکھوں سلام*


*آمین ثمہ آمین۔*


🍃💚🍃💛🍃💜🍃💙🍃🤎🍃🤎

Tuesday, February 6, 2024

چھوٹے ( یاسین یاس )

 





چھوٹے 


تحریر : یاسین یاس 


چھوٹےایک لفظ ہی نہیں ہے

 بلکہ اس  میں زمانے بھر کے دکھ ، تکلیفیں اور محرومیاں سمٹی ہوئی ہیں ان چھوٹوں کو آپ کسی چائے والے کھوکھے، روڈز پر بنے ٹرک ہوٹل , ورکشاپس پنکچر والوں ، جوتے اور کپڑے کی دکانوں ، ٹیکسٹائل ملوں , پوش علاقے کے گھروں میں , برتن دھوتے ، پنکچر لگاتے ، لوگوں کو چائے پانی دیتے ہوئے , اپنے استادوں میں چابی پانہ اور ہتھوڑی دیتے ہوئے کہیں تپڑی پوچا کرتے ہوئے تو کہیں بسوں میں ٹھنڈے پانی کی آواز لگاتے ہوئے دیکھ سکتے ہیں یہ وہ کردار ہے جسے ہماری توجہ کی اشد ضرورت ہے ہم میں سے اکثر جب کبھی باہر ہوٹل یا چائے کی دکان میں جاتے ہیں کسی دکان یا مالز پر جاتے ہیں تو ان کو دیکھ کر کیوں ہمیں اپنے بچے یاد نہیں آتے کیوں ہم بلاوجہ ان کی چھوٹی سی غلطی پر انہیں ڈانٹ دیتے ہیں یہ زمانے کے ستائے ہوئے مہنگائی کی چکی میں پسے ہوئے غریب گھرانوں کے غیور چشم و چراغ ہیں جو چھوٹی سی عمر میں بھی اپنے بوڑھے والدین کو بہن بھائیوں کا سہارا بنے ہوئے اور اس عمر میں بھی ان کی ترجیح محنت مزدوری ہے ہمیں ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے ان سے پیار کرنا چاہیے اور جہاں کہیں بھی ایسے کسی کردار کے ساتھ زیادتی ہوتی ہوئی محسوس کریں ان کو اپنا بچہ سمجھ کر ان کی وکالت کرنی چاہیے ان کا خیال رکھنا چاہیے ان سے پیار کرنا چاہیے کچھ بھی نہ کرسکتے ہوں تو ان کو پیار سے مخاطب کرنا چاہیے کوئی بھی ماں باپ یہ نہیں چاہتا کہ اس کا بچہ ایسا کام کرے تمام والدین یہ چاہتے ہیں کہ ان کا بچہ اعلی تعلیم حاصل کرے اور بڑا ہوکر انجینئر ، ڈاکٹر اور پائلٹ بنے لیکن یہ حالات و مجبوری انسان کو ایسا کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں اس لیے ہمارا بھی فرض ہے کہ ہم ان کے زخموں پر مرہم رکھیں نہیں رکھ سکتے تو کم ازکم ان کو ستانے والوں میں شمار نہ ہوں یہ چھوٹے ہمارا مستقبل ہیں کل کو ان چھوٹوں نے بڑا ہونا ہے اگر ہم ان سے اچھا سلوک کریں گے تو کل کو جب ان کے پاس چھوٹے آئیں گے تو یہ بھی ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں گے یہی کل کو اچھے مکینک ہوں گے یہی کل کے اچھے ہوٹل مالک ہوں گے یہی کل کے ٹرانسپورٹ ہونگے یہی کل کے دکان دار ہوں گے ان میں سے کچھ لوگ محنت کے بل بوتے پر سیٹھ و سرمایہ دار ہون گے اگر آج ہم ان سے اچھا برتاؤ کریں گے تو ہمارے بچے یا ان کے بچے ان چھوٹوں سے کام کرواتے ہوئے ان کے ہاں کھانا کھاتے ہوئے ان کے ہاں سے خریداری کرتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے اس لیے ان چھوٹوں کو عزت و احترام دیا کریں ان سے پیار کیا کریں اس طرح ہم ایک اچھا معاشرہ تشکیل دینے میں کارامد ثابت ہوں گے

" واہ " کی واہ واہ ( رپورٹ اسلوب انٹرنیشنل )

 




محبتوں سے " واہ " کی واہ واہ 


04 فروری 2024 بروز اتوار دن ایک بجے رائل گارڈن دینا ناتھ میں خوبصورت لب و لہجہ کے نوجوان شاعر حافظ صادق فدا کے پہلے پنجابی شعری مجموعہ " واہ " کی تقریبِ پذیرائی و مشاعرہ کا  انعقاد کیا گیا۔ جس کی میزبانی بابا لطیف ، ظفر پہلوان ، صابر و دیگر نے کی۔


جس کی صدارت ساہیوال سے تعلق رکھنے والے اُردو و پنجابی زبان کے معروف استاد شاعر سید فدا بخاری صاحب نے فرمائی۔


مہمانانِ خصوصی:

 جناب عامر رفیق عامر (ڈسکہ سیالکوٹ)

جناب عمران سحر (موڑ کھنڈا)


 نقابت کے فراٸض اردو و پنجابی زبان کے نوجوان شاعر جناب اکمل حنیف نےخوبصورتی سے سر انجام دیئے۔

تقریب کا آغاز تلاوتِ قرآن پاک اور نعتیہ کلام سے کیا گیا۔


پروگرام دو حصوں پر مشتمل تھا پہلے حصہ میں شعری مجموعہ" واہ " اور صاحبِ کتاب حافظ صادق فدا کی شخصیت پر جناب صاحبِ صدر سید فدا بخاری، اکمل حنیف، ولی محمد عظمی، یاسین یاس، عامر رفیق عامر، عمران سحر اور نذیر نذر نے خوبصورت گفتگو فرمائی۔


صاحبِ کتاب حافظ صادق فدا نے تمام منتظمین بالخصوص بابا لطیف، آنے والے شعراء کرام اور سامعین کا شکریہ ادا کیا اور اپنا کلام سنا کر حاضرینِ محفل سے خوب داد وصول کی۔


دوسرا حصے میں مشاعرہ منعقد ہوا جس میں جن احباب نے اپنا کلام پیش کیا ان کے اسماء گرامی یہ ہیں

سید فدا بخاری ، حافظ صادق فدا ، عامر رفیق عامر ، عمران سحر، اشتیاق اثر ، ولی محمد عظمی ، یاسین یاس ، رائے ظہیر ایڈووکیٹ ، سلیم نجمی ، ملک ارشاد ، ذین جٹ ، متر سید مہدی بخاری ، فرید عشق زادہ ، نذیر نذر ، مزمل زائر ، صابر پیا ، محمد اعجاز اور بطور ناظم مشاعرہ اکمل حنیف نے سب سے پہلے اپنا کلام سنایا۔

تقریب میں شعراء کرام کے ساتھ ساتھ باذوق سامعین کی بھی اچھی خاصی تعداد موجود تھی۔


صاحبِ صدر اور باقی دوستوں نے جناب حافظ صادق فدا کو ان کے شعری مجموعہ " واہ " کی اشاعت پر مبارکباد دی اور نیک خواہشات کا اظہار کیا۔


بابا لطیف اور ظفر پہلوان کو خوبصورت پروگرام کے انعقاد پر اور حافظ صادق فدا کو شعری مجموعہ واہ کی پذیرائی پر دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارکباد 


رپورٹ:

ادبی تنظیم "اسلوب انٹرنیشنل"