حسین ناز ۔۔نوجوان شاعرہ
انٹرویو: صاحبزادہ یاسر صابری
03115311991
سرخیاں
میرے دادا محمد ادریس انور میرٹھی خود بڑے شاعر تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاعری اور طب مجھے وراثت میں ملی ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔
جب ہم مذہب کی بات کرتے ہیں تو ہمارا مذہب ہمیں ادب سکھاتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حسین ناز اردو شاعرات کے حلقے میں نوارد ہے لیکن اس کے کلام میں جان ہے اور اسے اپنے آپ پر اعتماد ہے۔حسین ناز کے کلام میں نغمگی اور شعریت پائی جاتی ہے اس نے اپنے احساسات اور جذبات کو اشعار کا روپ دیا ہے ان کے کلام میں لطافت اور پاکیزگی کا احساس ہوتا ہے غزل میں سادہ اسلوب اختیار کرتی ہیں۔ حسین نال نے زندگی کے تجربات و مشاہدات کو بڑے عمدہ اور دلکش انداز میں پیش کیا ہے۔ اس کی شاعری انسانی کیفیات کی مظہر ہے ۔وہ جو سوچتی ہے اس کا اظہار کر گزرتی ہے ۔
سوال۔ آپ کا اصل نام کیا ہے اور آپ دنیا ادب میں کس نام سے معروف ہیں؟
جواب۔۔۔۔میں سمجھتی ہوں بہت اچھا سوال کیا آپ نے۔۔۔کیونکہ بالکل ایسا ہی ہے کہ بس ہر کوئی ہمیں اپنی مرضی اور پسندیدگی کی بناء پر اپنے پسندیدہ ناموں سے پکار لے تو کئی ناموں سے شہرت ملتی بھی ہے۔۔
جیسے میرا ایک شعر بھی ہے کہ،
کیسے کیسے نام دئیے ہیں رشتوں نے
خوشبو ملکہ اور شہزادی عورت ہے۔۔
یوں تو میرا اصل نام، ”ناز فاطمہ“ ہے۔۔نک نیم شاداب“ پھر شادی کے بعد ”ناز عارف “ جو ہمارے ہاں فرسودہ نظام رائج ہے۔۔میں سمجھتی ہوں ضروری نہیں ہوتا کہ شادی کے بعد شوہر کا نام لگایا جائے اور ہمارے ہاں اسلام میں بھی یہ ضروری نہیں۔
اور شوہر نے جو نام دیا ہے سو اب ”حسین ناز“ ہی پہچان بن گٸی ہے۔۔۔
سوال۔ آپ کی پیدائش کا دن مہینہ اور سال؟
جواب.... آپ نے ایک ہی سانس میں تین سوال کر ڈالے۔
میری پیدائش14 نومبر کی ہے اور یہ لوگ 100 % Scorpion ہوتے ہیں ۔۔میرے ایک شعر کا مصرعہ قارٸین کے لیے
”مضبوط مرا عزم ہے فولاد ارادے“
اور ۔۔،
کہہ دو کہ وہ ترک کے تعلق کا نہ سوچے
میں اس کی انگوٹھی میں نگینے سی جڑی ہوں۔۔
اور ایک قطعہ۔۔
”لڑنا پڑے گا اب ہمیں ظالم سماج سے
بیزار ہو گئے ان رسم و رواج سے
حق بات کے حصول کو میداں میں آئیے
ملتا نہیں ہے کچھ یوں فقط احتجاج سے“
سوال۔ اپنے ادبی سفر کے آغاز کے بارے میں کچھ بتائیں؟
جواب۔۔۔یوں تو ادبی سفر، مطلب لکھنے لکھانے کا سلسلہ میٹرک سے ہی شروع ہو گیا تھا کیونکہ ہماری دھدیال اور ننھیال میں سبھی لکھنے پڑھنے سے شغف رکھتے ہیں۔۔
ہمارے دادا، ” محمد ادریس انور میرٹھی“ خود بڑے شاعر تھے۔۔
دادا کی اک غزل یاد آرہی ہے جب وہ انڈیا سے اپنے والد کے ساتھ پاکستان آ گئے تھے اور ہمارے والد صاحب ان کے ساتھ تھے جو کہ صرف ڈھائی سال کے تھے تو بیگم سے دوری پر انہوں نے خط میں جو غزل لکھی وہ ہمارے ہاتھ لگی۔۔!_
”جب بھی جس وقت بھی سامنے آؤ گے
رنگ اڑ جائے گا اور گھبراؤ گے
دل میں پاؤ گے انجان سی اک خلش
خود بھی تڑپو گے ہم کو بھی تڑپاؤ گے
دور پردے میں چھپ کر جو بیٹھے ہو تم
تم نے سوچا ہے نظروں سے بچ جاؤ گے
تم کو فرصت نہیں ہم کو اجلت نہیں
ہم بھی دیکھیں کہ کب تک نہیں آؤ گے
زندگی عشق نے حسن کو بخش دی
جان انور یہ تم نہ سمجھ پاؤ گے۔۔“
ہم اکثر و بیشتر اس طرح کے باتیں سنتے ہیں کہ،
”کون لکھتا ہے شوہر اور بیوی کے لیے“۔۔
میں سمجھتی ہوں کہ محبت کے جذبات ظاہر ہے ماں سے شروع ہوکر پھر ماں سے لے کر پھر کٸی رشتوں میں بٹ جاتے ہیں۔۔
سوال۔ ادبی دنیا سے آپ کو کس نے متعارف کروایا؟
جواب۔۔۔ یوں تو ادبی دنیا سے رشتوں نے ہی متعارف کروایا اور جب آرٹس کونسل میں اک پروگرام میں مشاورتی سلسلے کے حوالے سے شہانہ جاوید نے اپنے والد کی کتاب کے لیے مدعو کیا تو وہاں پر لوگوں نے کہا کہ آپ اچھا لکھتی ہو اچھا کہتی ہو تو پڑھ بھی ڈالو۔۔ یوں پہلی بار گٸی تھی مشاعرہ سننے۔۔۔
اور ادبی دوستوں کے اسرار پر کلام سنا بھی ڈالا۔۔۔اور یہ غزل بہت پسند کی گٸی بلکہ یوں کہا جائے کہ باعث شہرت بنی ۔۔
اپنے قارئین کی بصارتوں کی نذر کرنا چاہوں گی۔۔
”کوئی مجرم ہے یہاں کوئی سہولت کار ہے
ایک ٹولہ ہے جو ہم سے برسر پیکار ہے
پڑ گیا تخریب کاری کا یہاں جب سے رواج
خون میں لتھڑا ہوا ہر روز کا اخبار ہے
ہو گئی ماحول میں آلودگی بھی اس قدر
سانس لینا بھی ہمارے واسطے دشوار ہے
دل ہمارا توڑ کر جو چل دیا ہے لمحہ بھر
اس سے اب امید کوئی رکھنا بھی بیکار ہے
کس طرح انصاف ہوگا ایسی حالت میں کہ اب۔!!
پاسبان عدل بھی ہر اک جانبدار ہے
اجلے کپڑوں سے ہی ہوتی ہے یہاں تکریم ناز۔۔۔
دنیا والوں کے لیے تو اک یہی معیار ہے“
اور جب اس کی غزل کا شارٹ کلپ جو کہ ہمارے بہت اچھے ادب دوست شاعر، ”ارشد عرشی“ کی بدولت خبروں اور گروپس وغیرہ کی زینت بنا اور ساتھ ہی شاہانہ جاوید جن کے والد خود استاتذہ میں شمار ہوتے ہیں۔۔ ان ادب دوستو ں کے اسرار پر کٸی بہترین اساتذہ کی صدارت میں پڑھا۔۔ جن میں چیدہ چیدہ نام۔آفتاب مضطر، سعید الظفر، دلاور علی آزر اور کٸی بہترین شاعر شامل ہیں۔
پھر اچانک سے پروفیسر مقصود جعفری کی کال آئی میرے پاس اور انہوں نے بہت ہی داد و تحسین سے نوازا۔۔جو میرے لیے ایک بہت بڑی خوشی کا لمحہ تھا۔
سوال۔ ہربل ڈاکٹر اور شاعری دونوں کیسے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں ؟
جواب۔ کبھی بھی وقت ملتا نہیں نکالنا پڑتا ہے۔۔جناب شاعری تو وقت کے ساتھ ساتھ جگر کا خون مانگتی ہے۔ آسان کام نہیں۔۔
اور کبھی کبھی تو ابر بن کر آپ کے آنگن میں برس جاتی ہے تو کبھی روح کی تشننگی کے لیے برسات کے منتظر ہی رہتے ہیں کہ شاید کوٸی لفظ قطرہ بن کر پیاس بجھاۓ۔
رہا ہربل کا تو جناب اس کے لیۓ خدمت خلق کا جذبہ اولین حیثیت رکھتا ہے۔۔ دراصل شاعری اور طب مجھے وراثت میں ملی۔۔ تو بس خون میں جو جراثہم ہوتے ہیں وہ مرتے نہیں۔کہیں نہ کہیں منظر پر آ ہی جاتے ہیں۔ اب ہربل باقاٸدہ نئے نام کے ساتھ متعارف کروارہی ہوں ۔۔۔پہلے ”الشفاء ہوم میڈ ہربل پروڈکٹ“ کے نام سے آن لائن کررہی تھی جو اب
“BlissNaz Naturals ”
سے شروع کیا ہے۔۔۔ سو یہ میرے خون میں رچا بسا ہے تو دعا کریں بہ خیر و خوبی انجام دے سکوں۔۔۔سوال۔ آپ کے گھر والے آپ کے ادبی کارناموں کو کس زاویے سے دیکھتے ہیں ؟
جواب۔۔الحمد لله.۔۔ !! نہ صرف ہمارا گھرانہ بلکہ میرے سسرال والے بھی ادب کا ذوق رکھتے ہیں اور میری ساس اللہ انھیں جنت میں اعلی مقام عطا کرے ہمیشہ میری دلجوٸی کیا کرتی تھی۔۔اور جب کوئی انٹرویو آتا تو پورا گھر جمع ہو کر دیکھتا تھا۔۔ مگر یہ ساری خوشیاں ان ہی کے دم سے تھیں ۔۔۔مختصر یہ ہے کہ میرے بچے بھی لکھنے اور گانے کا شوق رکھتے ہیں۔۔
سوال۔ آپ کی کوئی کتاب شائع ہوئی ہے ؟
جواب۔۔۔کتاب شائع کرنے کی خاص جلدی نہیں۔۔کئی سالوں سے کوشش میں ہوں مگر۔۔۔،!! زندگی کی کتاب کے کٸی اوراق سمیٹنے کی جستجو میں ہوں۔۔۔
چند اشعار زیر لب آ گئے۔۔
رشتوں کی تقسیم میں بکھری بکھری ناز
پوری دنیا میں بس آدھی عورت ہے۔۔
ہر قربانی ہنستے ہنستے دے جائے
نفسا نفسی میں دل زادی عورت ہے۔۔
اس کی رحمت سب پر کھل کر برسے گی
اب دربار میں اک فریادی عورت ہے۔
سوال۔ آپ کو اپنی کون سی غزل زیادہ پسند ہے ؟
جواب۔کلام تو سب ہی اچھا لگتا ہے یہ تو یوں ہی ہوا کہ اپ کو اپنے سارے بچے عزیز ہوتے ہیں کس کا انتخاب کیا جاۓ
چند اشعار بتاتی ہوں
آدمیت کا بھی اک معیار ہونا چاہیے
ایک دوجے سے سبھی کو پیار ہونا چاہیے
صبح صادق کی اذاں سے آ رہی ہے یہ صدا
خواب غفلت سے ہمیں بیدار ہونا چاہیے
ہر جگہ سے آ رہی ہے اب تو نفرت کی خبر
اب محبت کا بھی ایک اخبار ہونا چاہیے
تخلیق میں شعور کو اولین حیثیت حاصل ہے۔۔ کسی بھی چیز کے شعور کےبغیر تو اپ کوئی کام کر ہی نہیں سکتے۔۔
چند اشعار۔۔
صبح کرتے ہیں شام کرتے ہیں
ذکر ترا مدام کرتے ہیں
باوضو تجھ کو سوچتے ہیں
ہم سوچ کا احترام کرتے ہیں
جتنی سانسیں بچی ہیں سینے میں
وہ سبھی تیرے نام کرتے ہیں
ناز قسمت ہے خوب بھنوروں کی
گل کے رخ پر قیام کرتے ہیں۔۔
سوال۔ ادب میں مقبولیت کا مسئلہ بڑی اہمیت رکھتا ہے اس وقت اپنے آپ کو کس مقام پر محسوس کرتی ہیں ؟
جواب۔ ابھی میں ناچیز خود کو کس مقام پہ محسوس کروں میں نہیں سمجھتی ابھی بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔۔ ابھی کئی مرحلوں سے گزرنا پڑے گا۔
خواتین کا عالمی دن قریب ہے دو شعر قارٸین کی بصارتوں کی نذزر کرنا چاہوں گی۔
عورت ہُوں تواریخ کے اوراق ہیں شاہد
میں دوست بھی گہری ہوں تَو دشمن بھی بڑی ہوں
اے مرد۔! تجھے چاہئیے تسلیم کرے تُو
میں ماں ہوں، تری فہم و فراست سے بڑی ہوں۔ ۔
سوال۔ کیا ادب اور مذہب میں کوئی تعلق ہو سکتا ہے ؟
جواب۔۔جب ہم مذہب کی بات کرتے ہیں تو ہمارا مذہب ہمیں ادب سکھاتا ہے۔ادب نہیں تو ہر چیز محور سے ہٹ جائے گی، بٹ جائے گی، چکنا چور ہو جائے گی ہر فرد معاشرے کی بہتری کے لیے کام کر رہا ہے ۔ جاوید عاطف صاحب نے کیا خوب کہا تھا کہ
گلے کے سانپوں سے لڑنے والو اِن آستینوں کا کیا کرو گے
جو یار سینے میں بُغض رکھتے ہوں اُن کمینوں کا کیا کرو گے
تمہاری آنکھوں کو زرد بیلوں کی آبیاری سے کیا ملے گا
نکال پھینکو حنوط لمحوں کو اِن دفینوں کا کیا کرو گے
نظر کے عدسے میں ایک مُشتِ غبار کب تک دکھائی دے گا
خلا سے خالی نگاہ لوٹی تو دور بینوں کا کیا کرو گے
ہزار ماتھوں پہ لَو بناؤ , ہزار سجدے نشان ڈالیں
جو دل کے دامن پہ داغ ٹھہرے تو اِن جبینوں کا کیا کرو گے
حیا کا, پردے کا درس دیتے شریف زادوں سے پوچھنا تم
کہ ساری باتیں بجا ہیں لیکن تماش بینوں کا کیا کرو گے
سوال۔ کیا آپ سمجھتی ہیں کہ آپ کے کلام میں نغمگی اور شعریت پائی جاتی ہے؟
جواب۔ آپ نے بہت خوبصورت بات کہی یوں تو ہر کلام میں نغمگی نہیں پاٸی جاتی۔۔ بلاشبہ کلام میں اگر روانی اور تسلسل نہیں تو وہ ہر ایک کے دل میں گھر نہیں کرتا۔۔
جس طرح رب کاٸنات نے نہ صرف قران پاک بلکہ دنیا کی ہر چیز میں ایک تسلسل، روانی اور نغمگی رکھی ہے اسی طرح اس ذات کا کرم ہے کہ اس نے خوبصورت عقل و فہم سے دل و دماغ کو آراستہ کیا ہے۔۔
اک غزل۔۔۔
رابطہ گر بحال ہو جائے
تم جو آؤ کمال ہو جائے
تجھ پہ پڑ جائے ایک بار کبھی وہ نظر بھی سوال ہو جائے
مرے اندر ہے وجد کی حالت
اے فقیروں دھمال ہو جائے
زندگی سے تجھے نکال جو دوں تیرا جینا محال ہو جائے
سوال۔ پاکستان کی جدید ترین شاعرات کے نام ؟
جواب۔ پاکستان میں کئی ایک شاعرات ہیں جو بہت اچھا کلام کہہ رہی ہیں بہت اچھا لکھ رہی ہیں۔۔
ایسا نہ ہو کہ وہ کہتے ہیں نا کہ ناموں کے انتخاب نے رسوا کیا مجھے
ساری ہی خواتین بہت اچھا کلام کہہ رہی ہیں نغمگی بھی ہے شائستگی کے ساتھ بھی ہے نسوانیت بھرے لہجے بھی ہیں سب ہی کا بہت زبردست کلام ہے
”پروفیسر رضیہ سبحان“ کا ایک خوبصورت شعر جو شاید ہر عورت کی اواز ہے۔۔۔
میں نے جس گھر کو سجایا تھا بڑی چاہت سے
آج دیکھا تو وہاں میری ہی تصویر نہ تھی
سوال۔کوئی خوبصورت کام جو منظر عام پر آنے کے باوجود ارباب علم و فن کی نظر میں دیر سے آیا ہو اور پھر آپ کو کھل کر داد ملی ہو؟
جواب۔ ویسے تو میں اپنے پروردگار کی شکر گزار ہوں کہ میرا پہلا کلام ہی منظر پر ایا اور شہرت و کامیابی ملی
اورنہ صرف پروفیسر مقصود جعفری نے بہت ہی دادو تحسین سے نواز۔۔ بلکہ انٹرویوز وغیرہ اور اس کا ایک سلسلہ جاری و ساری ہو گیا مگر میرے خیال میں ابھی میرا کوئی کام بھی منظر پر آیا نہیں ہے جو میں منظر پہ لانا چاہتی ہوں یا میرے پاس ہے ان شاءاللہ آئے گا بہت جلد۔
سوال۔ آپ کی ذات کی کون سی ایسی کمزوری ہے جسے آپ دور کرنا چاہتی ہیں؟
جواب۔۔۔میں سمجھتی ہوں کہ بس جس کام کے پیچھے لگ جاؤں تو وہ چھوڑ نہیں سکتی۔
سوال۔ کیا آپ خود کو کامیاب سمجھتی ہیں؟
جواب۔ کامیاب تو کوئی بھی نہیں ہوتا کوئی نہ کوئی خامی کوئی نہ کوئی ادھورا پن رہ جاتا ہے رب کی ذات کے علاوہ کوئی بھی ذات مکمل نہیں۔۔۔
اج بھی کام محبت کے بہت نازک ہیں
دل کا انداز وہی خانہ خرابوں والا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔باغ میں پھول ڈھونڈنے ہیں تو
میری خوشبو تلاش کر لینا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment