محبتوں کا سفر
تحریر۔ عابد محمود عابد ۔ ڈسکہ
(رپورٹ سالانہ اجلاس بزم امروز 2024)
مجھے یاد ہے کہ امروز کے زمانے میں میری ایک تحریر بچوں کی دنیا امروز میں شائع ہوئی ، جس کا نام ۔۔۔ اجلاسی بیماری تھا۔۔۔ وہ تحریر تو اب میرے پاس محفوظ نہیں ، بہرحال اسکا لب لباب میرے ذہن میں ہے کہ یہ امروز کے تقریباً سب لکھاریوں کو اجلاسی بیماری کیوں لاحق ہوگئی ہے اور سب ہر وقت اجلاس اجلاس کیوں کرتے رہتے ہیں ۔۔۔۔ اب جب برسوں بعد سوشل میڈیا کے ذریعے امروز کے لکھاریوں کا ایک دوسرے سے رابطہ ہوا اور بزم امروز کے نام سے ایک واٹس ایپ گروپ تشکیل پایا اور پھر 2020 میں اسکا پہلا اجاس لاہور میں منعقد ہوا تو اس وقت میں ابھی گروپ کا حصہ نہ بننے کی وجہ سے اس میں شرکت نہ کر سکا اور پھر دوسرا اجلاس 2022 میں منعقد ہوا تو میں بوجہ بیماری اس میں شرکت نہ کرسکا لیکن جب 2023 میں میں نے پہلی دفعہ بزم امروز کے اجلاس میں شرکت کی تو اسکے بعد تو جیسے میں اپنی سب بیماریاں بھول گیا اور صرف ایک بیماری میں مبتلا ہوگیا ، جس کا نام اجلاسی بیماری تھا، بس پھر پورا سال انتظار رہا کہ وہ لمحہ آئے کہ دوبارہ اجلاس منعقد ہواور پھر اپنے دوستوں سے ملنے کا موقع ملے ، آخر وہ لمحہ آن پہچا اور 4 فروری بروز اتوار کو انڈیگو ہوٹل لاہور میں اجلاس کا اعلان ہوگیا ، 3 فروری کی رات کو میں پوری تیاری کر کے سویا تو بار بار جاگ آرہی تھی ٹائم دیکھتا تھا کہ جلدی سے صبح ہو اور میں محبتوں کے اس سفر پر روانہ ہوجاوں اور پھر صبح ہوئی اور تیاری کرنے کے ساتھ ہلکا سا ناشتہ کرکے جلدی سے ڈائیوو کے ٹرمینل پر جا پہنچا اور 9 بجے والی بس میں بیٹھ گیا جس نے 10.45 پر لاہور پہنچا دیا اور ہھر جب 11.15 پر انڈیگو ہوٹل میں پہنچا تو ایسا لگا کہ میں بہت پہلے آگیا ہوں ، لیکن پھر اندر داخل ہوتے ہی ظفر اللہ ضیا صاحب پر نظر پڑی اور دل کو حوصلہ ہوا ، وہ بھی شاید اکیلے بیٹھ کر بور ہورہے تھے ، مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور بہت پرتپاک انداز میں ملے ، پھر ہماری گپ شپ شروع ہوگئی ، تھوڑی دیر بعد مسعود سیفی صاحب بھی آگئے ، پھر کچھ دیر گذری تو آپی روبینہ ناز روبی بھی آگئیں ،پھر اسد بخاری بھائی آئے تو اسکے بعد تو جیسے لگاتار دوستوں کی آمد شروع ہوگئی اور آہستہ آہستہ سب دوست اکٹھے ہونے لگے ، جہاں اس مرتبہ اس بات سے تھوڑی پریشانی تھی کہ تقریب کے میزبان رانا گلزار احمد نہیں آسکے تھے تو وہاں ایک خوشگوار سرپرائز بھی ملا کہ آپی ثمرینہ جمال ثمر جلدی آگئیں اور انہوں نے اپنے مزاج کے عین مطابق پوری تقریب میں رونق لگائے رکھی ، 1 بجے کھانے کا دور شروع ہوا تو سب دوست کھانا بھی کھا رہے تھے اور ساتھ ساتھ ایک دوسرے سے گپ شپ بھی چلتی رہی ، میں تو کھانے کے اس دور میں میاں چنوں کے سجاد بھائی کے ساتھ ہی رہا تاکہ مجھے بھی انہی کے انداز میں کھانے کے ساتھ انصاف کرنے کا پورا موقع مل سکے ، 3 بجے تک کھانے کا دور چلا اور اسکے بعد بیسمنٹ میں باقاعدہ طور پر اجلاس کی کاروائی کا آغاز ہوا ، فیصل آباد کے راشد قمر بھائی نے اجلاس کی نظامت کی ذمہ داری سنبھالی، تلاوت مسعود سیفی صاحب نے کی اور نعت پڑھنے کی سعادت الحمدللہ مجھے نصیب ہوئی ، دیپالپور کے اختر جاوید بھائی حسب روایت اپنی فلیکسوں کے ساتھ موجود تھے ، ان کے ساتھ اس مرتبہ سیلم ایاز اور سید موج دریا بھائی بھی موجود تھے ، ان سے مل کر بہت خوشی ہوئی ، ایک اور پہلی ملاقات اپنے ایک پرانے لکھاری دوست عمر فاروق ناز آف گوجرانوالہ سے ہوئی جو تقریب میں بہت دیر سے پہنچے اور پیار سے ملے ، ثمرینہ جمال ثمر آپی نے حسب وعدہ کلاک کے گفٹ پیش کیے جو مجھے بھی ملا ،تقریب میں موجود انکی بہن موجودہ دور کی نامور لکھاری آئینہ مثال کا نام بھی کلاک پر موجود تھا جو کہ گفٹ وصول کرنے والوں کے لیے یقینی طور پر فخر کی بات تھی ، فاروق ندیم کی اے ٹی الفا کی جانب سے موبائل اسیسریز کے گفٹ سب کو بدست جناب فضل احمد فانی پیش کے گئے ، فانی بھی حسب روایت تقریب کے روح رواں تھے اور سب کو اپنی محبتوں اور مسکراہٹوں سے نواز رہے تھے ، آپی ثمرینہ کی جانب سے یش کی گئیں ، رانا گلزار احمد اور فانی بھائی کی تصاویر بہت شاندار تھی، ہمیشہ کی طرح سجاد بھائی کی خوشی کی برفی سب کی خوشیوں کا محور تھی ، اسی طرح خوشی کی برفی کے ساتھ ساتھ خوشیاں بانٹتے اور محبتیں بکھیرتے یہ تقریب اپنے اختتام پر پہنچی اور سب شرکائے تقریب اس دعا کے ساتھ اپنے گھروں کو چل دیے کہ محبتوں کا یہ سفر یوں ہی رواں دواں رہے ، آمین
No comments:
Post a Comment