Wednesday, February 28, 2024

ڈاکٹر فاخرہ شجاع ( انٹرویو : صاحب زادہ یاسر صابری )

 




ڈاکٹر فاخرہ شجاع

تنقید نگار۔ کہانی نویس اور پنجابی زبان کی شاعرہ

انٹرویو: صاحبزادہ یاسر صابری 

03115311991


ڈاکٹر فاخرہ شجاع پوسٹ گریجویٹ کالج برائے خواتین سمن آباد لاہور میں تیس سال شعبہ پنجابی سے وابستہ رہی ہیں۔تنقید نگار کہانی نویس اور پنجابی زبان کی شاعرہ ہیں۔تنقید کے مضامین پر مشتمل آپ کی کتاب پنجابی ادب دے تارو 2008ء میں شائع  ہوئی جو کہ راقم کی لائبریری میں موجود ہے۔آج کل ایک شعری مجموعے پر کام کر رہی ہیں جو جلد شائع ہو کر منظر عام پر آ جائے گا۔انٹرویو سے پہلے آپ کے چند اشعار ملاحظہ کیجئے :

بسم اللہ پڑھ کے ہر کم آسان ہووے

آپئی سب ہوندا جاوے جے پکا ایمان ہووے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اقرا نوں سامنے رکھ کے میں پڑھن دا ول سکھیا 

پڑھن دے نال نال علم نوں ودھان دا ول سکھیا 


بسم اللہ نوں پڑھ کے میریاں اوکڑاں حل ہوئیاں

پڑھائی دے نال فاخرہ نے علم سکھان دا ول سکھیا 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رب باہجوں مینوں ترا سہارا کملی والیا سائیاں

کر میرا کوئی بھی چارہ کملی والیا سائیاں 


دکھوں نے ہن گھیرا پایا سمجھ نہ آوے مینوں 

موڑ دے ہن تو میرا دھارا کملی والیا سائیاں 


چنگا آکھاں چنگا کراں چنگا ای میں بولاں

فاخرہ نوں دس جا کوئی اشارہ کملی والیا سائیاں

سوال۔ آپ کی پیدائش کب اور کہاں ہوئی ؟

جواب۔ میں 21 ستمبر 1955ءکو ڈاکٹر عبدالمجید کے گھر لائل پور (فیصل اباد)میں پیدا ہوئی۔

سوال۔ آپ کے دیگر بہن بھائی کتنے ہیں اور وہ کیا کرتے ہیں؟

جواب۔ ہم پانچ بہنیں اور دو بھائی ہیں۔بڑی بہن طاہرہ جبین اس سے چھوٹی بہن ساجدہ جبین سکول ٹیچر ہیں۔مخمور اختر منہاس نے ایم اے انگلش کرنے کے بعد اسلامیہ کالج برائے خواتین کوتوالی روڈ فیصل آباد میں انگلش کی کلاسز لیں اور بطور پرنسپل ریٹائرڈ ہوئیں۔نصرت نسرین نے ایس وی ٹیچر ٹریننگ کے بعد سکول میں پڑھایا شادی کے بعد سروس چھوڑ دی۔ بڑے بھائی ضیا محمود نے سائل سائنس میں ایم ایس ای زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے کی اور فوجی فرٹیلائزر کمپنی میں اعلی عہدے پر فائض رہے۔ ان سے چھوٹے بھائی خالد مسعود نے بی کام کرنے کے بعد سوئی گیس کے محکمے میں بطور اکاؤٹنٹ کام کیا سروس کے دوران ایک روڈ اکسیڈنٹ میں مارے گئے میرا نمبر سب سے آخر میں ہے۔

سوال۔ آپ کا بچپن کہاں گزرا اور آپ نے تعلیم کہاں سے حاصل کی؟

جواب۔بچپن محلہ شریف پورہ فیصل آباد میں کھیل کود میں گزرا۔میرا ننھیال اسی محلے میں تھا۔میری بڑی بہن کی بیٹی میری ہم عمر  تھی اور ہم دونوں ایک کلاس میں تھیں۔ ماموں کی بیٹیاں اور کچھ گلی کی لڑکیاں مل کر پیدل سکول چلی جاتی تھی۔میری دوستی میری بھانجی ثمر سے تھی میں نے میٹرک ایم سی ہائی سکول جھال خانوآنہ فیصل آباد سے 1971ء میں کیا۔ ایف اے اسلامیہ کالج برائے خواتین کوتوالی روڈ فیصل آباد سے 1973ء میں اور بی اے بھی1976ء میں اسی کالج سے کیا۔ ایم اے 1980ء میں پنجاب یونیورسٹی لاہور سے کیا میرے استاد محترم حمید اللہ شاہ ہاشمی پروفیسر جی سی یونیورسٹی فیصل آباد کے تھے اور بہت سی کتابوں کے لکھنے والے لائق پروفیسر ہیں ان کی محنت اور میری لگن سے مجھے یونیورسٹی میں دوسری پوزیشن ملی لڑکیوں میں پہلی تھی۔ پی ایچ ڈی دوران سروس 2008ء میں کی اور میرے مقالے کا عنوان تھا پنجابی تحریکی تے سیرتی ادب وچ عبدالطیف عارف دا حصہ۔

سوال۔ اپنی ازدواجی زندگی کے بارے میں کچھ بتائیں؟

جواب۔میری شادی یکم جنوری 1982ء کو اپنے خاندان میں رشتے میں میرے چچا تھے ان کے بڑے بیٹے طارق شجاع سے ہوئی اور 

میں دلہن بن کر لاہور چچا کے گھر آئی۔میری بیٹی کرن شجاع یکم جنوری 1983ء کو پیدا ہوئی اور بیٹا جہانزیب شجاع 4 فروری 1985ء کو پیدا ہوا اسی دوران میں نے پی۔ پی ایس کا امتحان پاس کیا اور بطور پروفیسر میری پہلی تقرری ہیڈھاک ٹوبہ ٹیک سنگھ ڈگری کالج میں ہوئی۔ بیٹے کی پیدائش کے بعد بطور پنجابی لیکچرار سمن آباد کالج برائے خواتین لاہور میں میری تقرری ہوئی۔ میں نے پنجابی زبان کو پروان چڑھانے کے لیے ہر کام کیا۔

پنجابی شعبے کا کوئی بھی کام ہوتا  تو میرا کالج سمن آباد ڈگری کالج ہر کام میں شامل ہوتا۔پنجابی ادبی سوسائٹی کی میں انچارج تھی۔ سٹاف روم کا کام میرے سپرد تھا۔ سٹاف روم کا فنڈ میرے پاس تھا۔ گرل گائیڈ میں گائیڈ ہاؤس لاہور والوں نے مجھے ستارہ امتیاز دیا۔ گرل گائیڈ کے بہت سے کیمپ میرے کالج میں لگے جس میں لڑکیوں کو کام سیکھائے جاتے تھے ادبی سوسائٹی کی انچارج ہونے کے ناطے بہت سے مباحثے کروائے 2000ء سے 2015ء تک پنجاب کی پنجابی مباحثے کی ٹرافیاں سمن آباد کالج کی الماری گواہ ہے پڑی ہوئی ہیں۔

سوال۔ لکھنے کا شوق کب پیدا ہوا ؟

جواب۔ بچپن میں بہت زیادہ نہیں تھا ویسے بھی پنجاب کی عورت نے کیا لکھنا ہوتا تھا وہ جو بھی لکھتی ہے اپنے تکیے کے نیچے رکھ دیتی ہے یہ تو میری خوش قسمتی ہے پڑھے لکھے گھرانے میں پیدا ہوئی اور میری دوسری خوش قسمتی یہ ہے کہ میرے خاوند نے میرا ساتھ دیا تو میرا لکھنے کی طرف زیادہ رجحان ہو گیا ۔اس 

رجحان میں میری زیادہ مدد لہراں کے مدیر اختر حسین اختر نے کی ان کی سب سے چھوٹی بیٹی ام کلثوم نے سائنس کو خیر باد کہہ دیا اور وہ میری طالب علم بن گئی اس طرح میری اختر بھائی سے ملاقات ہوئی اور انہوں نے مجھے زور دیا کہ لہراں رسالے کے لیے کچھ پنجابی میں لکھوں اس طرح میرا شوق زیادہ پروان چڑھا ان کے رسالے میں میری پنجابی شاعری چھپی میں نے اپنی شاعری ڈاکٹر یونس احقر صاحب کو دکھائی تو انہوں نے کہا غزل بھی لکھا کریں اس طرح اختر بھائی اور یونس بھائی میرے استاد شاعر بنے۔ 

سوال۔ آپ کے تنقیدی مضامین اور شاعری کہاں کہاں شائع ہوتی رہی؟

جواب۔ میری کہانیاں اور تنقیدی مضامین زیادہ لہراں رسالے میں چھپے۔ان کو بعد میں میں نے کتابی شکل دی۔ کالج کا ادبی مجلہ کوئی ایسا نہیں تھا جس میں میں نے کچھ نہ لکھا ہو وارث شاہ تنقیدی مضامین اور شاعری لکھتی رہتی تھی۔ پنجابی میں میری پہلی کتاب 2008ءمیں پنجابی ادب دے تارو کے نام سے آئی۔دوسری شاعری کی کتاب ان شاء اللہ جلد مارکیٹ میں آ جائے گی۔

سوال۔ آپ کے بیٹے اور بیٹیاں کیا کرتے ہیں؟

جواب۔ الله تعالیٰ نے دو بیٹیاں اور دو بیٹیاں عطا فرمائے جن کے نام کرن شجاع جہانزیب شجاع حسن شجاع اور مریم شجاع یکم اگست 1990ء کو پیدا ہوئی سب بچوں نے اعلی تعلیم حاصل کی ہے کرن شجاع نے میری سیٹ سنبھالی وہ سرائے عالمگیر کے ڈگری کالج برائے خواتین میں بچیوں کو تعلیم دے رہی ہے اس نے ڈبل ایم اے ایم فل کیا اور پی ایچ ڈی کر رہی ہے جہانزیب شجاع نے یو۔ ای۔ٹی کی یونیورسٹی سے سول انجینئرنگ کی ہے حسن شجاع شہباز شریف ہسپتال میں معذور افراد کا علاج کرتا ہے۔مریم شجاع ابھی تک گھرداری میں پھنسی ہوئی ہے ماشاءاللہ اس نے بھی ایم فل کیا ہوا ہے سارے بچے ایم فیل ہیں شادی میں نے سب بچوں کی کر دی ہے دونوں بہویں بھی ماشاءاللہ ایم فل ہیں بڑی بہو ایم فل اسلامیات ایل سی ڈبلیو لاہور یونیورسٹی کی پڑھی ہوئی ہے چھوٹی بہو نے ایم فل جی سی یونیورسٹی لاہور سے کیا اور فیڈرل ڈگری کالج لاہور میں فزکس کا مضمون پڑھا رہی ہے۔ 

سوال۔ تنقید و تحقیق ایک مشکل مرحلہ ہوتا ہے آپ نے اس میدان میں قدم کیسے جمایا؟

جواب۔ تحقیق کا میدان بہت بڑا ہے اور تحقیق واقعی بہت مشکل کام ہے اگر ہم کسی لکھاری کے واسطے تنقید نہ کریں تو ان کی کتابیں بالکل بند پڑی رہیں گی اور جب تحقیق اور تنقید کرنے والا کوئی کتاب کو تلاش کر کے اس کے اوپر لکھتا ہے تو پھر دوسرے لوگوں کو پتہ لگتا ہے کہ لکھنے والے نے کیا لکھا ہے اور میں نے تنقید اور تحقیق کا میدان اس لیے چنا ہے کہ مجھے بہت اچھا لگتا ہے کہ پرانا کام کوئی ہاتھ آئے تو لکھاری کو لوگ جانے کی اس نے کیا لکھا ہے۔

سوال۔ پنجابی کے علاوہ آپ نے اردو زبان میں بھی کچھ لکھا ہے؟

جواب۔ اردو زبان میں لکھنے والے بہت زیادہ تھے مجھے پنجابی زبان سے اتنی زیادہ محبت ہے کہ میں نے پنجابی زبان کو ہی اپنایا ہے اسی میں زیادہ شاعری کی ہے کیونکہ مجھے اس زبان پر ابھور حاصل ہے حالانکہ میں نے بی اے  تک اردو پڑھی تھی۔

سوال۔ آپ اردو پنجابی فارسی یا سرائیکی کس زبان میں بہتر اظہار کر لیتی ہیں؟

جواب۔ میری زبان کا اظہار ہے پنجابی ماجھی بولی جو زیادہ فیصل آباد اور لاہور میں بولی جاتی ہے اور زیادہ تر لوگ ماجھی بولی کو ہی سمجھتے ہیں۔

سوال۔ پنجابی زبان کے مستقبل کے بارے میں آپ کیا کہیں گی؟

جواب۔ پنجابی زبان کا مستقبل میں تو روشن سمجھوں گی اس لیے کہ پنجابی ختم نہیں ہو سکتی پنجابی ہمیشہ چلی ہے اور ہمیشہ رہے گی اور آنے والا زمانہ بھی اس کے لیے بہترین ہے پنجابی شاعری میں پنجابی غزل بھی لکھی جاتی ہے اور غزل ایک ماہر شخص ہی لکھ سکتا ہے چونکہ پڑھے لکھے لوگ زیادہ تر پنجابی کی طرف توجہ دے رہے ہیں اس لیے غزل زیادہ اہم اور بہترین ہوئی ہے۔

سوال۔ پنجابی تنقید کیسی لکھی جا رہی ہے اور پنجابی تنقید کے نمایاں نام؟

جواب۔ موجودہ ناموں میں ڈاکٹر ناصر رانا اور ڈاکٹر شہباز ملک اور اس سے پہلے عبدالغفور قریشی شریف کنجائی ڈاکٹر سید اختر جعفری ڈاکٹر عبداللہ اور بہت سارے نام ایسے ہیں جو تنقید کر رہے ہیں تنقید اس لیے کی جاتی ہے کہ ادب جو ہے وہ غلط نہ ہو جائے اور ادب کے دائرے میں رہے تاکہ نئی نسل تباہ نہ ہو۔

سوال۔پنجابی نثر کیوں کم لکھی جا رہی ہے؟

جواب۔نثر میں بہت زیادہ کام ہو رہا ہے نثر میں ناول افسا نے اور نثر کی مختلف کتابیں سامنے آرہی ہیں۔ زاہد حسن بالکل نئے لکھنے والے ہیں کیونکہ ان کے بہت سارے ناول آئے ہیں اور اسی طرح مستنصر حسین تارڑ دیکھ لیں انہوں نے پنجابی میں لکھا ہے ادب کی جتنی بھی اصناف ہیں ان میں پنجابی زبان کسی بھی میدان میں پیچھے نہیں رہی یہ الگ بات ہے کہ لوگ اردو یا انگریزی کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں لیکن پنجابی زبان بھی کسی زبان سے کم نہیں ہے بلکہ تھوڑے دن ہوئے ہیں میں نے لکھا ہے ڈاکٹر شہباز ملک صاحب نے پنجابی زبان کو دوسری زبانوں کے ساتھ کندھے کے ساتھ کندھا ملا کر کھڑا کیا ہے انہوں نے پنجابی کی بہت زیادہ کتابیں لکھی ہیں اور پنجابی زبان کا مستقبل روشن کیا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment