Saturday, February 24, 2024

احسان الٰہی احسان شاعر اردو ، پنجابی اور انگریزی( انٹرویو : صاحب زادہ یاسر صابری )

 





احسان الٰہی احسان

اردو۔ پنجابی اور انگریزی زبان کے شاعر

انٹرویو: صاحبزادہ یاسر صابری

03115311991

آج ہم جس ادبی شخصیت سے آپ

 کی ملاقات کرآئیں گے ان کا نام احسان الہی احسان ہے جن کا تعلق تترال نزد چکوال سے ہے۔ آپ اردو، پنجابی اور انگریزی میں شاعری و افسانہ نگاری کرتے ہیں۔ دو اردو شعری مجموعے ”یہ خواب میرے خیال میرے (1999)، سبھی رنگ میرے اپنے“ (2007) اور ایک انگریزی مجموعہ کلام The lost world (1999)شائع ہو چکے ہیں۔  سوال۔ سب سے پہلے آپ اپنی زندگی کے حالات و واقعات کا مختصر سا جائزہ لیتے ہوئے کیا کہیں گے؟

جواب۔  میری پیدائش موضع تتر ال چکوال کی ایک مڈل کلاس فیملی میں 15 مارچ 1941ء کو ہوئی۔با قاعدہ تعلیم میٹرک تک گورنمنٹ ہائی سکول چکوال سے حاصل کی اس کے بعد تمام تعلیم پرائیویٹ

حاصل کی۔ ایم اے انگلش پنجاب یونیورسٹی سے پرائیویٹ امیدوار کی حیثیت سے کیا۔ میرےوالد محترم حاجی اللہ داد معمار کا کام کرتے تھے۔ میٹرک کرنے کے بعد میری انتہائی خواہش تھی کہ باقاعدہ کالج سٹوڈنٹ کے طور پر تعلیم حاصل کروں لیکن والد صاحب کے مالی حالات ایسے نہیں تھے کہ تعلیم کو جاری رکھ سکوں۔ 1957میں میٹرک کرنے کے بعد ڈسٹرکٹ اکاؤنٹس آفس جہلم اور راولپنڈی میں ملازمت کی۔1967 میں ایم اے انگلش کیا پھر ملازمت سے استعفیٰ دینے کے بعد تعلیمی میدان میں آگیا۔ آر اے کالج پیر پھلا ہی بطور انگلش پروفیسر رہاوہاں کی انتظامیہ سے کسی وجہ سے اختلاف ہونے کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا اور پرائیویٹ ٹیچر کے طور پر کام شروع کر دیا۔ 1976 میں سعودی عرب چلا گیا

اور وہاں دو مرحلوں میں ایک ہی کمپنی میں بطور ایڈمینسٹریٹر دس سال مقیم رہا۔

واپسی پر میں نے دوبارہ تعلیمی سرگرمیاں شروع کیں اور آج میری اپنی اکیڈمی اقراء قائد اکیڈمی کے نام سے قائم ہے جہاں ایف اے، بی اے اور ایم اے کی کو چنگ کے ساتھ ساتھ پی وی پی۔سی

ایس اور سی ایس ایس کے امتحانات کی تیاری کراتا ہوں۔

سوال۔ سعودی عرب کی ادبی سرگرمیوں کے حوالے سے کوئی بات؟

 جواب۔ سعودی عرب میں قیام کے دوران بزم فانوس کا میں سرگرم کارکن رہا ہوں اور اس کے تقریباً تمام مشاعروں میں شرکت کرتا رہا اس تنظیم میں برصغیر پاک و ہند کے شعراشرکت فرماتے تھے۔ نسیم سحر صاحب سے میری ملاقات انہی مشاعروں میں ہوتی رہی۔ سعودی عرب میں یا کسی بھی مڈل ایسٹ میں اپنے لوگوں سے ملنے کا اپنی زبان کو سننے اور مشاعروں میں سامعین کی شرکت بڑےذوق وشوق سے ہوتی ہے کیونکہ دوسرے ملکوں میں جا کر پاکستانیوں کو اپنے وطن کے لوگوں اور زبان کا بے پناہ شوق پایا جاتا ہے اور ایسی تقریبات میں شامل ہونے کے لئے لوگوں میں ایک بہت پاکیزہ قسم کی بھوک پائی جاتی ہے بد قسمتی سے ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہوتا اس کی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ تو مالی ضرورتیں ہیں جو ہمارے سماج میں باقی تمام چیزوں پر حاوی ہیں۔

سوال۔  چکوال کے اندراد بی میدان میں آپ کی کیا خدمات ہیں؟

جواب۔ ادبی میدان میں ایوانِ ادب چکوال کا صدر ہوں یہ تنظیم میں نےاور باقروسیم نے 1994ء میں قائم کی جو آج تک چل رہی ہے جو کہ ادبی میدان میں ایک نمایاں حیثیت رکھتی ہے۔ ایوان ادب کے عہدے داران میں عابد جعفری چیئر مین، ناسک اعجاز اور اسلم ایوب نائب صدر، قاضی با قر وسیم سیکرٹری جنرل، ناطق جعفری جوائنٹ سیکرٹری فقیر عباس تاجر ایڈیشنل جوائنٹ سیکرٹری نعیم شاہد چیف آرگنائزر اور نور علی شکوری ایڈوکیٹ سپریم کورٹ لیگل ایڈوائزر ہیں۔

اس تنظیم کے ایک سو ممبران ہیں جن میں پچیس نمایاں شاعرہیں۔ تنظیم کا ایک شعبہ خواتین ونگ بھی ہے جس کی صدر شمیم جاوید اور سیکرٹری جنرل عظمیٰ صرف ہیں عصمت نورین جعفری ایڈیشنل سیکرٹری جنرل اور فرزانہ یاسمین سیمیں جوائنٹ سیکرٹری ہیں۔ ایوانِ ادب اب تک سولہ کتابیں شائع کر چکی ہے۔ میری تخلیقات میں دو کتابیں اردو شاعری کی خواب میرے خیال میرے بھی رنگ میرے اپنے اور ایک کتاب انگلش شاعری The lost world شامل ہیں۔ اس کے علاوہ جناب یحییٰ خان کی تمام کتابوں کا انگریزی میں ترجمہ کیا جس کو بین الاقوامی سطح پر پذیرائی ملی ہے۔

سوال۔  آپ اردو، پنجابی اور انگریزی تینوں زبانوں میں شاعری کرتے ہیں کیا یہ بتانا پسند کریں گےکہ آپ نے لکھنے کا آغاز کب اور کن حالات میں کیا؟

جواب۔ میں نے باقاعدہ لکھنے کا آغاز1959میں کیا۔ چکوال میں ادبی تحریک کی ابتدا کرنے کا سہرا چکوال کی دو تنظیموں بزم ثقافت اور اردو مجلس چکوال کے سر ہے۔ میں اردو مجلس چکوال کا ایک کارکن اور مجلس عاملہ کا ممبر رہا ہوں سب سے پہلے میری غزلیات اردو مجلس کی کتاب جو کہ1964 میں شائع ہوئی جس کا نام سبزہ بیگانہ ہے میں شائع ہوئیں۔

سوال۔ آپ اردو، پنجابی اور انگریزی شاعری میں سے کس کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں اور کیوں؟ جواب۔ اصل میں جو بنیادی چیز ہے وہ جذبات اور جذبات کی صحیح طرح سے ترتیب اور تنظیم ہوتی

ہے مجھے ان تینوں زبانوں میں شاعری کرنے میں کوئی زیادہ فرق محسوس نہیں ہوتا۔

سوال۔ کیا آپ آج کل کی شاعرات کی شاعری سے مطمئن ہیں؟

جواب۔ آج کل شاعری فنی لحاظ سے تو شاید اتنی مکمل نہیں ہے لیکن جذبہ اور جذبات ہوں تو فنی اکتساب سفر کے ساتھ ساتھ ہوتا رہتا ہے اس لحاظ سے شاعرات کی قدر کرنا اور ان کی حوصلہ افزائی

کرنا ضروری ہے اور ان کا جذ بہ اور جذبات حوصلہ افزا ہیں۔

سوال۔ آپ کے خیال میں ادب پہلے سے بہتر تخلیق ہو رہا ہے یا کم تر؟ جواب۔ میرے خیال میں موجودہ ادب پہلے سے بہتر تخلیق ہورہا کیونکہ زندگی کے اتار چڑھاؤ میں بڑا فرق آگیا ہے اور یہ فرق موجودہ شاعری میں بھر پور طور پر منعکس کیا جارہا ہے۔

سوال۔ آپ کے خاندان میں آپ سے پہلے بھی کوئی لکھتا تھا یا اب کوئی لکھتا ہے تو اس کا ذکر اگر آپ مناسب سمجھتے ہیں تو ہو جائے؟

 جواب۔ پہلے تو کوئی نمایاں نام نہیں تھا البتہ اب میرے خاندان میں نئے نام شامل ہیں جن میں میرا بیٹا سائل محمود سائل افسانہ لکھتا ہے اور اس کی بیوی عظمی صدف جو کہ میری بہو ہے شاعری کرتی ہے اس کے علاوہ نور علی شکوری اور شکیل احمد شکیل شامل ہیں۔

 سوال۔ نئے لکھنے والوں میں آپ کسی کو زیادہ پسند کرتے ہیں اور کیوں؟

جواب۔ میں شاعروں کے بجائے اشعار کو زیادہ اہمیت دیتا ہوں کیونکہ بنیادی حیثیت شعر کی ہوتی ہے، چاہے وہ کسی کا ایک ہی شعر کیوں نہ ہو۔ نئے لکھنے والوں میں قابل جعفری، اسلم ایوب، ناطق

جعفری اور حسین اختر نمایاں حیثیت رکھتے ہیں۔

سوال۔ آپ کا اپنا پسندیدہ کلام؟

جواب۔ دو شعر پیش خدمت ہیں۔ 

تمام عمر کا حاصل ہوا یہی احسان ہمیں جہاں میں کسی اور طرح جینا تھا


جو بات کرنے کی خاطر ہم عمر بھر ترسے

وہ بات پھر بھی ادھوری ہی رہ گئی اپنی

سوال۔ آپ کافی عرصہ ہو گیا ہے ادب سے وابستہ ہیں کیا وجہ ہے کہ آج کل ادیب اور شاعر کی اس

طرح قدر کیوں نہیں کی جاتی جیسے پہلے کی جاتی تھی؟

جواب۔ اس بارے میں سب سے بڑا ہا تھ بک پبلشرز کا ہے جو اپنی پسند کی شاعری کو شائع کرنے

کو اہمیت دیتے ہیں، دوسرا کتابوں کی اشاعت میں بہت زیادہ روپے کی ضرورت ہے، تیسرے پاکستان کے ہر صوبے کی طرح ادب میں اجارہ داریاں قائم ہیں جن کی وجہ سے اصل شعرا کو آگے آنے میں بہت دشواری آتی ہے حکومتی کوئی ادارہ ایسا نہیں ہے جس میں تخلیق کاروں کی تخلیقات کو سامنے لانے کا کوئی بندوبست ہو۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سارے لوگ حوصلہ شکنی کا شکار ہیں جو نام نہا د ادارے اس کام کے لئے مختص کئے گئے ہیں ان میں بھی دو نمبر کے لوگ آگئے ہیں جن کی اجارہ داریاں ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتی۔ الیکٹرانک میڈیا بھی شہروں اور مخصوص لوگوں تک محدود ہے۔ اصل شاعری مضافات شہر میں ہوتی ہے جس کی طرف کوئی رخ بھی نہیں کرتا۔ یہ اجارہ داریاں بھی زندگی کے دوسرے شعبہ جات میں قائم کی گئی اجارہ داریوں کی طرح ہیں اور ان اجارہ داریوں کو ختم کرنے کے لئے ہمیں صیح معنوں میں پورے سماجی ڈھانچہ میں تبدیلی کی ضرورت ہےجس کی ابتدا ابتدائی تعلیم اور سکولوں کی تعلیم سے کی جاسکتی ہے۔

سوال۔ انٹرویو کے آخر میں آپ کا پیغام کیا ہے؟

جواب۔  میرا پیغام تمام تخلیق کاروں کے لئے چاہے وہ شاعری سے تعلق رکھتے ہوں یا کسی بھی فن سے وابستہ ہیں یہ ہے کہ تقدیر پر بھروسہ رکھیں اور اپنے جس بھی مشن کو جاری کیا ہوئے ہیں اس کو پوری لگن کے ساتھ جاری رکھیں۔

No comments:

Post a Comment