Friday, February 23, 2024

سعدیہ ہما شیخ ( شاعرہ / ادیبہ ) انٹرویو : صاحب زادہ یاسر صابری

 





سعدیہ ہما شیخ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 شاعرہ اور ادیبہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انٹرویو: صاحبزادہ یاسر صابری

03115311991


معروف شاعرہ اور ادیبہ سعدیہ ہما  شیخ 26 جنوری1989ء کو سرگودھا میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد واپڈا سے آر او ریٹائرڈ ہیں اور غلہ منڈی میں آڑھت کا کاروبار کرتے ہیں جبکہ والدہ ہاوس وائف ہیں۔ ایم سی گرلز ہائی سکول سے میٹرک ڈگری کالج سے بی ایس سی قائد اعظم لا کالج سے لا سرگودھا یونیورسٹی سے ایم اے  پولیٹیکل سائنس ایم اے پاک سٹڈیز اور النور انٹرنیشنل سے ڈپلومہ ان اسلامک ایجوکیشن کیا۔

سعدیہ ہما شیخ کا شمار سرگودھا کی معروف شخصیات میں کیا جاتا ہے۔زندگی کے تمام شعبوں میں ایک نمایاں مقام رکھتی ہیں وکالت شاعری اور معروف لکھاری ہونے کے علاوہ مختلف رفاعی وفلائی تنظیموں سے وابستہ ہیں اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ہر وقت سرگرم عمل رہتی ہیں۔سعدیہ عمر شیخ سے ایک تفصیلی گفتگو ہوئی جو نظر قارئین ہے۔  

سوال۔ آپ نے  لکھنے کا آغاز کب اور کیوں کیا؟ 

جواب۔ لکھنے کا آغاز سکول دور سے ہی ہو گیا جب اپنی تقریریں لکھنا شروع کیں ادیب پیدائشی طور پر ذہین یوتا یے آپ کے اندر ایک بے چینی ہوتی ہے اردگرد کے حالات آپ کو لب کھولنے پر مجبور کرتے ہیں اسی طرح معاشرتی نا انصافی اور ظلم ہوتا دیکھ کر میں نے آواز بلند کی اور لکھنے کا سلسلہ شروع کیا۔

سوال۔ آپ کی نثری تخلیقات؟ 

جواب۔ میں نے نثر میں افسانہ ناول کالم اور سفرنامہ لکھا یے میرے کالم اور افسانے رومانوی نہیں معاشرتی اور اصلاحی ہیں اسی طرح کالم میں بھی مسائل کی نشاندہی اور ان کا حل ہوتا ہے۔

سوال۔ آپ کی اب تک کتنی کتابیں شائع ہو چکی ہیں ؟

جواب۔ؔمیری اب تک 8 کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ وصل میں تشنگی۔ اقوال ہما۔ بال ہما۔ وادی کالام کا فسوں( افسانہ )۔خوابوں کے رنگ (ناول)۔تعزیر وحد( مختصر کہانیاں) ۔مشرک پیا( مجموعہ کلام) ۔ سیرت ہر امت کے وکیل۔

سوال۔ آپ شاعری میں نظم کی بجائے غزل کی طرف زیادہ مائل نظر آتی ہیں اس کی کوئی خاص وجہ؟

جواب۔ غزل مجھے اس لیے پسند ہے کہ یہ مکمل جزبات کی تشریح کر دیتی ہے اور اس میں ایک موسیقیت ایک ردھم ہوتا ہےمگر اب جدید نظم غزل سے آگے اس لیے جا رہی ہے کیونکہ نظم اوزان سے عاری ہوتی ہے اور غزل سے آسان ہے۔

سوال۔ شاعری میں باقاعدہ اصلاح آپ نے کس سے لی؟

جواب۔ اصلاح میں نے امجد اسلام امجد سے لی بہت گریٹ تھے وہ میری پہلی کتاب پر اپنی بھرہور رایے دی۔

سوال۔ افسانہ۔ ناول ۔کہانی اور ڈرامہ کے بارے میں آپ کیا کہیں گی؟

جواب۔ مجھے افسانہ پسند یے کیونکہ یہ مختصر ہوتا ہے اب لمبے طویل ناولوں کی فرصت کسی کے پاس نہیں اور ڈرامہ زیادہ اٹریکٹ کرتا ایک بہترین تفریح۔

سوال۔ شاعری کے لیے کیا علم عروض سیکھنا ضروری ہے ؟

جواب۔ عروض کے بغیر تو شاعری ایسے ہی ہے جیسے روح کے بغیر جسم جیسے سر کے بغیر سنگیت  جسے عروض کا نہیں پتہ اسے میں شاعر مانتی ہی نہیں۔ 

سوال۔ ڈاکٹر وزیر آغا کی تنقید ۔زبان۔ اسلوب اور افکار گہرے ہیں۔ آپ کے ان کے ساتھ قریبی روابط رہے ہیں ان کے بارے میں کیا کہیں گی؟ 

جواب۔  ڈاکٹر وزیر آغا سرگودھا کا بہت بڑا ادبی حوالہ ہیں اور مجے یہ فخر ہے کہ میری پہلی کتاب کا فلیپ آغا جی نے لکھا ان دنوں وہ بیمار تھے اور لاہور میں مقیم تھے ان کا خلاء جو ہے اسے کوئی  پورا نہیں کر سکتا مجھے ان کی شفقت ملی یہ میرا مان ہے میرے شعری مجموعے وصل میں تشنگی پر انہوں نے فلیپ لکھا۔

سوال۔آپ کی ہم عصر شاعرات؟ 

جواب۔ ہم عصر شاعرات سے میں یہ کہوں گی کہ دوسرے کو کاپی کرنے سرقہ کرنے اور نقل محض سے نکل کر اپنی پہچان بنائیں تا کہ  آپ کا کلام بولے۔

سوال۔ معروف شاعرہ ثمینہ گل کے ساتھ تعلق کا اظہار کس طرح کریں گی ؟

جواب۔ ثمینہ گل بہت اچھی شاعرہ اور نفیس خاتون ہیں اس کے ساتھ ساتھ استاد بھی ہیں اکثر مشاعروں میں ملاقات ہوتی رہتی ہے۔

سوال۔ آپ اپنی اقوال زریں کی  کتاب سے چند اقوال زریں قارئین کے لئے شامل کرنا چائیں گی؟  

جواب۔ اقوال ہما کو لوگوں نے بہت پسند کیا اس پسندیدگی کے لیے مشکور ہوں۔محبت چاند کی طرح گھٹتی بڑھتی  نہیں کہ وفا دیکھ کر زیادہ اور بے وفائ دیکھ کر کم ہو جایے یہ تو ایک میٹھا زہر ہے جو آپ کی رگوں میں سرائیت کر جاتا ہے۔ابلیس نےآدم کو سجدے سے انکار کر کے سب سے پہلے میری مرضی کا نعرہ لگایا اور جنت سے نکل کر زندہ درگور ہو گیا۔

رات کے تیسرے پہر شر اور خیر دونوں قوتیں زور پر ہوتی ہیں یہ انسان کے اپنے اختیار میں ہے کہ وہ رحمان کو چنتا ہے یا شیطان کو۔

سوال۔ شعبہ وکالت آپ نے کیوں اختیار کیا؟ 

جواب۔ شعبہ وکالت میری گھٹی میں یے میرے نانا چاچو اور بھائ سب وکیل ہیں خواتین کی بدتر حالت دیکھ کر میں نے سائنس چھوڑ کر وکالت کرنے کا فیصلہ کیاادیب پیدائشی ہوتا یے اور شعبہ آپ منتخب کرتے ہیں  نا انصافی اور عورت کی آواز بننے کے لیے یہ شعبہ منتخب کیا سپیشلی جیل کی خواتین کے لئے جو سب سے مظلوم ہیں جن کی کوی داد رسی نہیں کرتا۔میں جیل ریفارمر کمیٹی کی چئیر ہرسن بھی ہوں۔

سوال۔ گھر کے کاموں کے لیے کس طرح وقت نکالتی ہیں ؟

جواب۔ گھر میری پہلی زمہ داری ہے اپنے بچوں کی ڈرائیور اور کک بھی ہوں۔

سوال۔ آپ کی زندگی کے قابل فخر لمحات ؟

جواب۔ زندگی میں کوئی نہ کوئی ایسے لمحات ضرور آتے ہیں جنہیں انسان ہمیشہ یاد رکھتا ہے ایسے کچھ لمحات میری زندگی میں بھی آئے جنہیں میں ہمیشہ یاد رکھوں گی۔ جب میں نے گولڈ میڈل لیا۔ جب میں نے وکالت کی ڈگری لی اور جب میں نے سرگودھا بار کا الیکشن بھاری اکثریت سے جیتا۔

سوال۔ ہمارے قارئین کے لئے کلام؟ 

جواب۔ تازہ کلام پیش خدمت ہے جس کا عنوان ہے عورت :

کبھی سوچو تو رشتوں کی ہے پوری کہکشاں عورت

بہن،بیوی کہیں بیٹی کہیں دیکھو ہے ماں عورت


یہ ہر اک روپ میں پیاری یہ ہر اک رنگ میں اعلیٰ

کہیں نازک کلی سی ہے کہیں کوہِ گراں عورت


عدالت ہو کہ مکتب ہو شفاخانہ یا دفتر ہو

ہمیں آسانیاں بانٹے جہاں دیکھو وہاں عورت


کبھی گھر میں یہ ماں ہے تو کبھی جج ہے عدالت میں

سدا انصاف کرتی ہے بنے منصف جہاں عورت


ہمیشہ احترامِ باہمی ہے فلسفہ اس کا

غلط فہمی میں مت رہنا کہ ہو گی ناتواں عورت


کہیں پھولوں سے نازک ہے کہیں تصویر ہمت کی


کبھی جھرنا خوشی کا تو کبھی عزمِ جواں عورت


ہما تصویر چاہت کی وفا کا استعارہ ہے 

تو استبداد کے آگے ہے جرآت کا نشاں عورت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہماری بات کا ہوگا اثر آہستہ آہستہ 

نکل جائے گا تیرے دل سے ڈر آہستہ آہستہ 


ملک پر جو ستارے کہکشاں  بن کے چمکتے ہیں 

انہی کے خون سے ہوگی سحر آہستہ آہستہ 


ذرا سی بات پر یک دم نگاہیں پھیر لیں تم نے 

کیا کرتے ہیں اپنوں سے مفر آہستہ آہستہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment