Friday, January 26, 2024

غزل ( ماہ رخ علی ماہی )

 




غزل 

ہاتھ پھیلائے ہیں، آرزو چاہیے! 

رب سے کرنے کو کچھ گفتگو چاہیے! 


پُوچھتا ہے خدا تو بھی جلدی بتا!

تجھ کو کیا چاہیے؟ مجھ کو تُو چاہیے! 


لمسِ آخر ہی دے دے رفو گر مرے

اس دریدہ بدن کو رفو چاہیے


خامشی کی چڑھانی پڑی بھینٹ پھر

کیا کریں دل کو بس ہاؤ ہو چاہیے!! 


اپنی آنکھیں ذرا دیر کو کر عطا!

جام پینا ہے مجھ کو سبو چاہیے!!


تتلیاں کھو گئیں، رنگِ گل اڑ گیا، 

اب کے گلشن کو دادِ لہو چاہیے! 


دشت کی خاک چھانو، تیمم کرو! 

عشق میں جان و تن با وضو چاہیے


چار سو آندھیاں ہیں تغافل بھری

شجرِ الفت کو زورِ نمو چاہیے!


ماہ رخ علی ماہی

Wednesday, January 24, 2024

انسان میں شیطان (محمد داؤد پھول نگر )

 




انسان میں شیطان

کل رات میں ایک چاۓ کے سٹال پر چاۓ پینے کے لیے گیا روڈ پر ایک گاڑی سڑک پر  چلتی ہوئی نظر آئی جس سے سلنسر کی آواز آ رہی تھی وہ ایک چکر لگا کر عین اسی  ہوٹل کے سامنے رکی چند نوجوان اس گاڑی سے باہر نکلے کولڈ ڈرنک پینے میں مصروف اور گپیں ہانکنے میں لگے رہے ان میں ایک نے اپنی بوتل پی اور اسی بوتل کو سلنسر کے منہ میں رکھ دیا اور دوسرا گاڑی کا سلف مارنے کے گیا اور جیسے ہی اس نے ریس دی اسی سلنسر سے پڑ پڑ کی آواز آئی جس نے مجھے بہت تکلیف دی اور ساتھ ہی مجھے سوچنے پر مجبور کر دیا کہ ان نوجوانوں سے شیطان بھی پناہ مانگتا ہو گا کیوں کہ انسان میں چھپا شیطان بہت ہی خطر ناک ہوتا ہے اہل علم کہتےہیں دل کے چار خانے ہوتے ہیں ان میں سے ایک خانہ شیطان کا ہوتا ہے جس میں شیطان وسوسے ڈالتا ہے جو شیطان کے نرغے میں آ جاۓ اور وہ کر  گزرے جو شیطان نے کروانا چاہا تو شیطان قہقہ لگاتا اپنی اگلی منزل کی طرف لوٹ جاتا ہے شیطان نے اس لیے اللہ سے مہلت لی تھی کہ میں آسانی کے ساتھ انسان کو ورغلاٶں گا تو اللہ کے نیک بندے اولیإء صالحین انبیإء اس چالاک شیطان کے بہکاوے میں نہیں آئیں گے اہل علم بتاتے بروز قیامت شیطان کو خطاب کرے گا جب قیامت کا میدان لگا ہو گا تو اس وقت گنہگار کفار یہ کہیں گے کی ہمیں شیطان نے ورغلایا تو وہاں پر شیطان خطاب کرتے ہوۓ کہے گا کیا میں نے تم کو کہا تھا کہ میرے بہکاوے میں آٶ کیا تم اپنی سوچ نہیں رکتھے تھے کیا عقل مند نیھں تھے میں کب کہا کہ میرے بہکاوے آٶ جو جو کام تم اب بھگتو اس دن شیطان صاف انکار کردے گا 

تحریر محمد داٶد پھول نگر

نوسر بازی کے بڑھتے ہوئے واقعات اور ان سے بچاؤ ( یاسین یاس )

 





نوسربازی کے بڑھتے ہوئے واقعات اور ان سے بچاؤ


تحریر : یاسین یاس 


نوسربازی کےبڑھتے ہوئے واقعات  تشویش کا باعث ہیں جن پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے تاکہ ان واقعات کی روک تھام ممکن ہوسکے مگر سوال یہ ہے کہ اب ادارے ہر بندے کا خیال کس طرح رکھیں اور کس کس کو کہیں کہ بھائی ایسا نہ کرو اصل میں اس معاملے میں اویرنس کی ضرورت ہے اداروں کو چاہیے کہ وہ عوام کو اویرنس دیں تاکہ لوگ محتاط رہیں یہی اس کا بہترین حل ہے یہ صرف اداروں کی ہی ذمہ داری نہیں ہے بلکہ ہم سب کا فرض ہے کہ گاہے بگاہے ہم اپنے پیاروں بہنوں بیٹیوں اور بچوں کو یہ بتائیں کہ آپ دوران سفر کسی انجان بندے کے ساتھ اس کی گاڑی میں نہ بیٹھیں مطلب لفٹ نہ لیں اور حتی الامکان کوشش کریں کہ پبلک ٹرانسپورٹ میں جائیں اچھا  یہ نوسرباز آپ کو رش والی جگہوں پر ٹارگٹ نہیں کرتے ان کا شکار ہمیشہ الگ تھلگ کھڑے ہوئے لوگ بنتے ہیں جنہیں کہیں جانے کی جلدی ہوتی ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ کوئی ایسی سواری مل جائے جو کہیں نہ رکے بس سیدھا میری مطلوبہ جگہ پر جا کر ہی رکے اور مجھے پیسے یا تو دینا ہی نہ پڑیں یا دینے بھی پڑیں تو پبلک ٹرانسپورٹ جتنے دینا پڑیں خدا کے بندو کس دنیا میں جی رہے ہو جس دور میں آپ جی رہے ہیں اس میں اگر کوئی آپ سے پیسے لے کر بھی آپ کو منزل مقصود تک پہنچا دے تو غنیمت جانیے اور آپ ہیں کہ بنا پیسوں کے جانا چاہ رہے ہیں اس لیے احتیاط کیا کریں آپ کے ساتھ بہت سارے لوگ وابستہ ہیں کسی کے بھائی ہیں کسی کے باپ ہیں کسی کے بیٹے ہیں گھر سے نکلتے وقت پوری تسلی کر کے نکلیں کہ جہاں آپ جا رہے ہیں وہاں کے لیے مناسب کرایہ اور جیب خرچ آپ کے پاس ہے اگر صرف کرایہ ہے تو کرایہ ہی خرچ کریں ادھر ادھر کی چیزوں پر دھیان دینے کی بجائے منزل مقصود پر توجہ مرکوز رکھیں ہمارے گاؤں میں ایک عورت کی سونے بالیاں نوسرباز لے اڑے اور اس کو ایک ویران جگہ پر پھینک دیا جو ہمارے شہر سے پندرہ بیس کلومیٹر دور تھی وہ اس بے چارگی کو جب ہوش آیا تو وہ منت سماجت کرکے کسی رکشہ میں بیٹھ کر واپس پنہچی جب کے عورت  بازار سے سودا سلف لینے گئی تھی ہوا یہ کہ جب وہ بازار سے سودا سلف خرید رہی تھی تو وہ نوسربازوں کے ریڈار میں آگئی اب انہوں نے اپنی ساتھی عورت کو سگنل دے دیا جو ہی اسے سگنل ملا اس نے بازار میں چلتے ہوئے ایک گتھلی جس میں اکثر دیہات کی عورتیں روپیہ پیسہ رکھ کر پلو سے باندھ لیتی ہیں اس عورت کے سامنے گرا دی جونہی وہ اس گتھلی کو اٹھانے لگی پیچھے سے نوسربازوں کی  دوسری ساتھی عورت نے وہ گتھلی اٹھا لی اب یا تو وہ  دستبردار ہوجاتی یا اس سے اپنا حصہ مانگتی اس نے لالچ میں آکر اپنا حصہ مانگا تو اس نے رازداری سے اسے بتایا کہ یہاں نہیں بازار سے باہر نکل چلتے ہیں جلدی سے تاکہ جس کی گتھلی گری ہے وہ واپس نہ آجائے اور دونوں آدھا آدھا کرلیں گے وہ مان گئی اور اس نوسرباز عورت کے ساتھ چل دی تھوڑی دور جاکر اس نے پھر تقاضہ کیا کہ مجھے میرا حصہ دو تو اس نے کہا میں چور نہیں ہوں لیکن اس لیے کہہ رہی ہوں کہ کہیں گتھلی والی بی بی نہ جائے وہ سامنے میرے بھائی کی گاڑی کھڑی ہے اس میں بیٹھ کر دیکھ لیتی ہیں اور آدھا آدھا کرلیتی ہیں لالچ میں وہ بھی آندھی ہوئی تھی اس نے ایک بار بھی نہیں سوچا کہ میں اس عورت کو تو جانتی بھی نہیں تو پھر اس کے ساتھ کار میں کیوں بیٹھوں بس جونہی وہ کار میں بیٹھی ہے کار میں  پہلے سے موجود عورت نے اس نے ناک کے سامنے رومال کیا اور پھر اسے کچھ ہوش نہ رہا گاڑی شہر سے باہر نکل گئی چلتی ہوئی گاڑی میں انہوں نے بڑے آرام سے اس کی بالیاں اتار لیں اور ایک ویراں سی جگہ دیکھ کر اسے گاڑی سے نیچے پھینک دیا 

نوسرباز تو نوسر باز ہیں ان کا قلعہ قمع ہونا چاہیے مگر ہم لوگوں میں بھی اتنی سینس ہونی چاہیے کہ ہم کر کیا رہے ہیں کیوں کسی انجان پر اتنا بھروسہ کر لیتے ہیں صرف اس لیے کہ ہم لالچ میں آجاتے ہیں دوستو جس دور میں آپ جی رہے ہیں اس اپنی آنکھیں کھلی رکھیں ورنہ آپ کو پیر پیر پر نوسرباز ملیں گے آپ ان سے اسی وقت بچ سکتے ہیں جب آپ لالچ نہیں کریں گے ملتان روڈ پر  لاہور ٹھوکر سے لے کر پتوکی تک ایسے واقعات روز ہورہے ہیں اداروں کو ان گروہوں کا سراغ لگا کر انہیں پابند سلاسل کرنا چاہیے تاکہ سادہ لوح لوگ ان سے محفوظ رہ سکیں اپنا اور اپنے پیاروں کا خیال رکھیں ۔شکریہ

Tuesday, January 23, 2024

دیہاتی خوراک و رہن سہن ( یاسین یاس )

 





دیہاتی خوراک و رہن سہن  


تحریر : یاسین یاس 


ابھی لمبا چوڑا عرصہ نہیں گزرا پندرہ بیس سال پیچھے چلے جائیں تو دیہاتوں کی زندگی بڑی پر سکون و صحت مند تھی ہر گاؤں میں صحت مند سرگرمیاں زور شور سے ہوا کرتی تھیں دیہاتوں کی صبح تہجد سے بھی پہلے ہو جایا کرتی تھی بڑے  تہجد پڑھنے کے بعد اپنی اپنی جوگ نکال کر ہل چلانے نکل جاتے تھے بزرگ اپنے ہی بستر پر بیٹھے اللہ اللہ کرنے لگ جاتے  گھر کی بڑی عورتیں مدھانی ڈال کر دودھ رڑکنا شروع ہوجاتی تھیں بچوں کو اٹھا کر سپارہ پڑھنے کے لیے بھیج دیا جاتا تھا بچے سپارہ پڑھ کر باجماعت نماز ادا کرنے کے بعد گھر واپس آیا کرتے تھے پھر ناشتہ کر کے سکول کے لیے نکل جاتے پورا گاؤں نوبجے کا خبرنامہ سن کر سو جایا کرتا تھا جاگتے صرف وہی لوگ تھے جن کو کھیتوں میں پانی لگانا ہوتا یا گاؤں میں پہرہ وغیرہ دینا ہوتا پورے گاؤں میں ایک آدھ گھر میں ٹی وی ہوا کرتا تھا جو ڈیرے یا بیٹھک میں لگایا جاتا بڑے بزرگ چارپائیوں یا موڑھوں پر بیٹھے ہوتے اور بچے چٹائی یا توڑے بچھا کر زمین پر بیٹھتے تھے تب مشہوریاں بھی صاف ستھری ہوا کرتی تھیں اور ٹی وی ڈرامے بھی ناظرین کو کچھ نہ کچھ سکھایا کرتے تھے اردو ہو یا پنجابی زبان کے اتار چڑھاؤ اور گرائمر کا پورا خیال رکھا جاتا تھا خبریں پڑھنے والی لڑکی بھی سر پر دوپٹہ اوڑھ کر رکھتی تھی ہر ڈرامے کی کہانی ہوا کرتی تھی لچر پن کا دور دورہ نہیں تھا ہر کام ایک سلیقے سے ہوتا تھا پیسوں کی دوڑ سے زیادہ اچھے کام کی دوڑ ہوتی تھی بچے سکول سے واپس آتے ہی دوپہر کا کھانا کھا کر کھیل کود میں مصروف ہو جایا کرتے تھے یہ تب کی بات ہے جب بچوں کے بستے اس قدر وزنی نہیں تھے دو چار کتابیں دوچار کاپیاں سلیٹ اور ایک تختی ہوا کرتی تھی سارا رف کام سلیٹ پر اور خوشخطی اور املاء تختی پر لکھی جاتی اساتذہ کی حتی الامکان کوشش ہوتی کہ والدین پر بچوں کا بوجھ نہ ہو 

ٹیوشن کا کسی نے نام بھی نہیں سنا تھا ہر گاؤں میں ہر روز عصر کے وقت کسی کھلی جگہ پر میلے کا سا سماں ہوتا تھا جہاں ہر بچہ اپنی عمر کے حساب سے یعنی اپنے ہم عمروں کے ساتھ وانجو ، گلی ڈنڈا ، پٹھوگرم ،رسہ کشی ، والی بال ، فٹ بال ، چھلانگیں لگانا ،  دوڑ ،چینڈی چینڈا , دھپ چھاں کبڈی اور وینی پکڑنا کھیلتا تھا اور بڑے بوڑھے اسی میدان کے اردگرد بیٹھے ان بچوں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے تب تک کرکٹ کی چسکا دیہاتیوں کو نہیں لگا تھا اور شام ہوتے ہی سارے لوگ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے تھے شام کا کھانا کھانے کے بعد گھروں میں بچیاں کوکلا چھپاکی , دھپ چھاں ، اینڈیا منٹینڈیا , اور یسو پنجو جیسی گیمز کھیلتی اور لڑکے گلیوں بازاروں میں لکن میٹی کھیلا کرتے تھے کچھ بچے دن میں کینچے اور اخروٹ بھی کھیل لیا کرتے تھے لیکن کوئی بھی بڑا اور سمجھدار اسے اچھا نہیں سمجھتا تھا اور اسے کھیلنے سے بچوں کو منع کرتے تھے  اس وقت کسی کے علم میں بھی نہیں تھا کہ بلڈ پریشر کیا ہوتا ہے شوگر کیا ہوتی ہے یہ اٹیک کیا ہوتا ہے لوگ گرما گرم گڑ، چینڈ کھاتے اور پیٹ بھر کر گنے کی روہ پی جایا کرتے تھے آدھا آدھا کلو دیسی گھی پی جایا کرتے تھے دل کھول مکھن کھاتے تھے پراٹھے کھاتے تھے لسی پیتے تھے لیکن یہ بات ہے کہ پھر اسی حساب سے محنت بھی کرتے تھے سارا سارا دن مویشیوں کے لیے چارا بنانا کھیتی باڑی کرنی گندم کی کٹائی کرتے اور سبزیاں کاشت کرتے ان کی گوڈی کرتے کھال صاف کرتے تاکہ پانی آسانی سے فصلوں تک پنہچ سکے اور بھر پور طریقے سے کھیل کود بھی کرتے تاکہ ہر چیز ہضم ہو جائے اس وقت صرف دو ہی عام بیماریاں ہوتی تھیں جو موسمی تھیں گرمیوں میں مچھر کے کاٹنے سے ملیریا اور سردیوں میں نزلہ زکام اس کا بھی علاج گھروں میں ہی کرلیا جاتا تھا کسی کو ملیریا ہوتا تو وہ اجوائن کا گھوٹا کالی مرچ، بادام اورخشخاش ڈال  کر پی لیتا اور جسے نزلہ زکام ہوتا وہ گھر میں بنی ہوئی سیویاں پکا کر اس کی بھاپ لے لیتا اور انہیں سویوں کو پیٹ بھر کے کھا لیتا ہر گھر میں پانی ذخیرہ اور ٹھنڈا کرنے کے لیے مٹی کا ایک گھڑا رکھا ہوتا کہیں گھڑونجی پر اور کہیں اینٹوں سے ایک خاص بنی ہوئی جگہ پر جس سے چھوٹے بڑے سب پانی پی کر پیاس بجھاتے پسے ہوئے نمک کا رواج بھی کم تھا ڈلی والا گلابی نمک استعمال کیا جاتا اگر کھانا کھاتے ہوئے کسی کو نمک کم محسوس ہو تو وہ اس ڈلی کو دھو کر سالن میں گھما لیتا ہلدی اور لال مرچ بھی کونڈے میں یا پتھر کی ایک سل پر کوٹ کر دو چار دن کے لیے رکھ لی جاتی پسی ہوئی مشینی مرچ کو بالکل بھی پسند نہیں کیا جاتا تھا سل پر پسی ہوئی مرچ کا اپنا ایک ذائقہ ہوتا تھا جسے عموما بچے روٹی کے ساتھ بھی کھا لیتے تھے اور کئی تو بڑے شوق سے کھایا کرتے تھے گلی محلے یا پاس پڑوس سے کوئی لسی لینے آتا تو سو دو سو گرام مکھن کا پیڑا بھی بنا بتائے اس کی لسی میں ڈال دیا جاتا تاکہ ان کے بچے بھی مکھن کھا سکیں یا روٹی کو لگا سکیں جن کے گھر ( لیارا ) دودھ نہیں ہے دودھ بھی اسی طرح ایک دوسرے سے لے لیا جاتا تھا لوگ دودھ بیچنے کی بجائے مکھن بنایا کرتے تھے جو گھر والوں کے کھا لینے کے بعد بچ جاتا ہفتے ڈیڑھ ہفتے بعد اسی مکھن سے  گھی بنا کر محفوظ کر لیا جاتا جو سردیوں میں پنجیری اور پنیاں بنانے کے کام آتا ہاں البتہ عورتیں بھی وغیرہ بیچ کر اپنی ضرورت پوری کر کیا کرتی تھیں وہ بھی اگر کوئی لینے آ جاتا تو تاکہ جو بھی لینے آیا ہے اس کی بھی ضرورت پوری ہو جائے اور وہ بھی سردیوں میں پنجیری وغیرہ بنالیں امیر غریب ہر گھر میں پنجیری ( بھانڈا ) بنایا جاتا جس میں  سنھھاڑے کا آٹا , چنے کا آٹا , پھل مکھانہ , تل , السی، چاروں گوندیں , سہاگہ, گری بادام اخروٹ چھوہارے اور پستہ بادام وغیرہ بھی ڈالے جاتے جو کسی طرح بھی کسی معجون  سے کم نہ ہوتا عموما زچگی کے دوران عورتی چھ سات کلو گھی بنا کر کھا لیتی تھیں اس وقت لیڈی ڈاکٹروں اور نرسوں کی نہیں بلکہ گھر کی وڈیری ماں یا دادی کی سنی جاتی تھی جو پھر بھی نہ افورڈ کر پاتا وہ پنیاں تو ہر صورت بنا ہی لیتا کیونکہ ان میں گھی کم استعمال ہوتا تھا دوپہر کے وقت بھٹھی سے دانے بھنوا کر چبائے جاتے اور شام کو عورتیں آٹا گوندھ کر ایک بھٹھ ( کافی بڑا توا یا توی کہہ لیں جس پر بیک آٹھ سے دس روٹیاں پک سکیں ) پر لے جاتیں جہاں ایک دوسری سے گپ شپ بھی کرتیں اور روٹیاں بھی بنالیتں شام ہوتے ہی شادی شدہ مرد اور بچے گھروں میں اور لڑکے اور بابے باہر کھلی جگہ پر چوک یا چوراہے پر گھروں کے نزدیک ہی چارپایاں ڈال لیتے جہاں وہ نوجوانوں کو اپنی جوانی کے قصے کہانیاں اور دین و دنیا کی باتیں بتاتے بتاتے سو جاتے کیا ہی اچھے دن تھے وہ لیکن یہ تب کی بات ہے جب موبائل نہیں تھا کسی کو ضرورت سے زیادہ کی ہوس نہیں تھی ایک دوسرے کا احساس تھا بنا مانگے دوسروں کی ضرورت پوری کردی جاتی تھی محنت پر یقین کامل تھا اور اپنے رب پر پورا بھروسہ بھی۔

Sunday, January 21, 2024

فرقان صدیقی ایک کردار ( محمد داؤد پھول نگر )







 فرقان صدیقی ایک کردار

فرقان کا ایک علمی گھرانے سے تعلق ہے فرقان کا دادا ایک عالم با عمل فقید المثال خطیب اور شیری بیان ولایت اور بزرگی کے حامل ٹلے والی مسجد کے احاطہ میں مزار پر انوار حضرت علامہ مولانا محمد اسحاق صدیقی انکے فرزند حکیم انعام الحسنین صدیقی جو ابا حضور کے نقش قدم پر چلتے ہوۓ اپنی حکمت کے مفید مشوروں سے مریض کو فیضیاب کرتے انکے فرزند فرقان صدیقی ایک ہونہار طالب علم اپنے دوستوں کا وفادار ساتھی اور ملنسار خوش اخلاق خوش گفتار اپنی خوشیاں دوسروں میں بانٹنے والا فرقان صدیقی فرقان کے دوستوں کی بات جاۓ محمد وقاص بھٹی جو فرقان کی طرح ہر محاز پر فرقان کا ساتھ دینے والا مخلص دوست ہے فرقان ثمر موباٸیل اینڈ کمپیوٹر پر کام کرتا ہے سہیل انور فرقان کو اپنے بچوں پر فوقیت دیتے ہیں اور ان بچوں سے شفقت سے پیش آتے ہیں سہیل انور فرقان کا کزن ہے سہیل خوش گفتار خوش مزاج مہمان نواز محبت اور اخلاص کا جامع انسان سہیل انور ہے میری ان سے وہی ملاقات ہوتی ہے

Friday, January 19, 2024

دھند میں سفر اور ہماری زمہ داری ( یاسین یاس )






 دھند میں سفر اور ہماری زمہ داری 

تحریر : یاسین یاس 

آج کل جس قدر دھند اور سردی پڑ رہی ہے بنا مجبوری کے گھر سے نکلنا بے وقوفی ہی کہلائے گا

لیکن پھر بھی ڈیوٹی کے لیے اور دیگر کام کاج کے بندے کو گھر سے باہر تو نکلنا ہی پڑتا ہے اسی لیے آپ اور ہم دیکھتے ہیں کہ ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا لیکن روڈز پر پھر بھی رش ہوتا ہے لوگ اپنے اپنے کام دھندے تے سلسلے میں روڈز پر رواں دواں ہے اور ہمارے سفر کو محفوظ بنانے کے لیے نیشنل ہائی وے اور موٹروے پولیس بھی جگہ جگہ نظر آتی ہے چاہے دن ہو چاہے رات یہ ہوتے ہیں اپنے ساتھ اس لیے ان کی بات تحمل سے سنا کریں 

پتہ نہیں ہمیں کس چیز کی جلدی ہے جہاں دیکھو

 دوڑ لگی ہوئی ہے جس کو کوئی کام نہیں ہوتا وہ بھی موٹرسائیکل نوے کی سپیڈ سے چلاتا ہے کئی نوجوان تو ایسے بھی دیکھے گئے ہیں کہ ان کو ان کی اپنی موٹرسائیکل گالیاں بک رہی ہوتی وہ جہاں جہاں سے گزرتے ہیں لوگ کانوں کو ہاتھ لگاتے سائلنسر سے بھی آگ نکل رہی ہوتی ہے  نہ وہ  اشارے پہ رکنے کی زحمت کرتے ہیں اور نہ ہارن کو تکلیف دیتے ہیں ان سے اگر بچنا ہے تو آپ کو خود ہی بچنا ہے اچھے بھلے سمجھدار نظر آنے والے بھی جاہلوں جیسا برتاؤ کرتے نظر آتے ہیں اتنا رش دودھ دہی کی دکان پر نہیں ہوتا جتنا سموسے پکوڑے اور برگر شوارمے والے کے پاس ہوتا ہے لوگوں کے پاس ڈھنگ سے بیٹھ کر کھانا کھانے کا وقت بھی نہیں ہے اور کام ہے کوئی نہیں آپ کسی بھی ایسے بندے کو روک کر پوچھیں لیں جو آپ کو لگے کہ یہ کچھ زیادہ ہی ایمرجنسی میں ہے تو آپ حیران ہوں گے کہ وہ بھی کچھ نہیں کرتا بالکل فارغ ہے کوئی کام دھندہ نہیں صبح سویرے جب آفس کے لیے نکلتے ہیں بے شمار لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے گاڑیوں کو دیکھتے ہیں عجیب سی بھیڑ اور بے ہنگم ٹریفک دفتر پہنچنے سے پہلے ہی تھکا دیتی ہے آج کل بہت زیادہ دھند ہے روزانہ کہیں نہ کہیں کوئی حادثہ دیکھنے کو ملتا ہے جس میں کئی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں لیکن مجال ہے ہم لوگ ٹس سے مس ہوتے ہوں حالانکہ سب جانتے ہیں کہ دھند ہے جس کی وجہ سے سڑک پر پھسلن ہوتی ہے حد نگاہ صفر ہے لیکن مجال ہے کوئی گھر سے چند منٹ پہلے نکل آئے یا کوئی اپنی سپیڈ کم کر لے سب نے دس سے پندرہ منٹ میں پہنچنا ہے وہاں جا کر بھلے موبائل پر گیم ہی کھیلنے لگ جائیں زندگی بہت خوبصورت چیز ہے اس کی قدر کریں آپ کو آفس آٹھ بجے پنہچنا ہے اگر آپ دھند سے پہلے سوا سات بجے نکلتے تھے تو آج کل سات بجے نکل آئیں سردی سے بچاؤ کے لیے ٹوپی ، پاجامہ، سویٹر اور مفلر استعمال کریں بائک پر ہیں تو ہیلمٹ ضرور پہنیں بائک کی سپیڈ ہلکی رکھیں اگر لوکل ٹرانسپورٹ پر ہیں تو ڈرائیور کو آہستہ گاڑی چلانے کا کہیں اپنی گاڑی پر ہیں تو گھر سے نکلتے وقت گاڑی کا تیل پانی چیک کرنے کے ساتھ ساتھ ہیڈ لائٹ اور انڈیکٹر چیک کرکے نکلیں تاکہ آپ کا سفر محفوظ ہو روڈ پر کسی دوسرے سے ریس لگانے سے گریز کریں لائن بنا کر ایک دوسرے کے پیچھے پیچھے مناسب فاصلہ رکھ کر چلیں نیشنل ہائی وے اور موٹر وے پولیس کی جانب سے بنائے گئے رولز فالو کریں روڈز پر سب سے رف ڈرائیونگ مرغیوں والے ڈالے اینٹوں والے ٹرک اور دودھ والے مزدے کرتے ہیں ان کی اپنی بھی کوئی مجبوری ہو سکتی ہے  اس لیے ان کو رستہ دے کر آپ اپنی جان چھڑائیں

اور آرام سے سفر کریں  خدانخواستہ  روڈ پر کسی کا کہیں کوئی ایکسیڈنٹ ہوجاتا ہے تو تحمل کا مظاہرہ کریں زخمیوں کو 1122 اور موٹروے پولیس کے آنے تک طبی امداد دینے کی کوشش کریں اور ٹریفک جام ہو جانے کی صورت میں موٹروے پولیس سے بھرپور تعاون کریں کیونکہ وہ صرف آپ کے لیے روڈز پر موجود ہیں جن کا مقصد صرف اور صرف آپ کے سفر کو محفوظ بنانا ہے آپ کی جان بہت قیمتی ہے آپ کے لیے اور آپ کے گھر والوں کے لیے اسے ایسے ہی ضائع نہ کریں احتیاط کیجئے 

Tuesday, January 16, 2024

راوی کا راٹھ عمران سحر ( یاسین یاس )




  

راوی کا راٹھ عمران سحر 

تحریر : یاسین یاس 

دریاؤں کے نزدیک آبادی کی تاریخ کافی پرانی ہے جب انسان اتنا ترقی یافتہ نہیں تھا تب وہ اپنی ضرورت کے لیے پانی دریاؤں سے ہی حاصل کیا کرتا تھا اور آج بھی دریا اتنے ہی اہم ہیں جتنے کہ پہلے ہوا کرتے تھے بس فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت آبادی دریاؤں کے ساتھ ساتھ نظر آتی تھی اور اب انہی دریاؤں سے نہریں نکال کر ان نہروں سے راجباہے اور راجباہوں سے کھال بنا کر انسان دریا  کا پانی جہاں جہاں ضرورت ہوتی ہے استعمال کر رہا ہے اور جہاں اس کا جی چاہتا ہے رہائش رکھ لیتا ہے کیونکہ پینے کا پانی وہ ٹیوب ویل اور نلکے سے حاصل کر لیتا ہے بہرحال دریاؤں کی اہمیت آج بھی اتنی ہی ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ کہہ سکتے ہیں ان دریاؤں کے دونوں طرف کی آبادی قدیم زمانے سے چلی آرہی ہے اور اب بھی ویسے کی ویسی ہے بلکہ اب تو دریاؤں کے پشتوں پر لوگوں کا رہن سہن دیکھ کر  بھی شہروں کا گماں ہوتا ہے دریائے راوی کے بھی دونوں کناروں پر آبادی ہے لاہور سے نکلیں تو اس کے ایک طرف ملتان روڈ ہے جو دریائے راوی کے ساتھ ساتھ چلتا ہے تو دوسری فیصل آباد روڈ بھی بالکل ایسے ہی چلتا ہے لاہور سے نکلیں تو دریا کے ایک طرف ضلع قصور اور دوسری طرف ضلع ننکانہ صاحب ہے دونوں اضلاع کی زمین بہت ہی زرخیز ہے ایک طرف حضرت بابا بلھے شاہ کی نگری ہے تو دوسری طرف بابا جی گرو نانک کا جنم استھان اور ان دو روڈز کے درمیان بسنے والے لوگ پنجابی ہیں لیکن دونوں کے لہجے مختلف ہیں ایک ماجھی لہجہ ہے اور دوسرا جانگلی یا راوی لہجہ کہہ سکتے ہیں  پنجابی زبان صوفیاء کی زبان ہے اس لیے اس میں مٹھاس کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اگر راوی کے لہجہ کی بات کریں تو اس کی مٹھاس کچھ زیادہ ہی  ہے یہاں کے مرد کرتہ اور تہبند اور عورتیں کرتہ اور لاچا پہنتی تھیں جو کہ اب شلوار قمیض میں بدل گیا ہے سیدھے سادھے اور محنتی لوگ ہیں اس دھرتی کے چھوٹے سے قصبہ موڑ کھنڈا میں بسنے والے ایک مزدور نوجوان عمران سحر کا حال ہی میں ایک پنجابی مجموعہ کلام شائع ہوا جس کا نام " چپ تے میں " ہے عمران سحر ایک مزدور ہے کبھی وہ مونجی لگا رہا ہوتا ہے اور کبھی گندم کاٹ رہا ہوتا ہے تو کبھی سیلر پر پلے داری کرتا نظر آتا ہے سپننگ مل کے رنگ کھاتہ میں اس کی پھرتیاں دیدنی ہوتی ہیں مزدور بہرحال مزدور ہی ہوتا ہے اور موجودہ دور میں کسی مزدور کا مجموعہ چھپ کر آجانا ایک معجزہ ہے بہرحال یہ معجزہ ہوچکا اور اس معجزے کا سہرا عابد بھائی کے سر جاتا ہے جسے میں ملا تو نہیں ہوں لیکن عمران سحر مجموعہ دیکھ کر اتنا جان چکا ہوں کہ وہ ادب پرور بندہ ہے انشاءاللہ کسی دن اس سے ملاقات بھی کرونگا اور اس نیک کام کے لیے اس کا شکریہ ادا کرو نگا کتاب میں شاعری بہت ہی عمدہ اور بہترین ہے پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے اور کتاب کی پرنٹنگ کوالٹی اعلی درجہ کی ہے آرٹ پیپر پر چھپی بہترین کتاب ہے آپ کسی بھی اعلی سطح کی لائبریری میں بلا جھجک نہیں بلکہ فخر سے رکھ سکتے ہیں پنجابی زبان و ادب کی بھلے یہ عمران سحر کی پہلی کوشش ہے لیکن یہ ہر حوالے سے ایک بہترین کتاب ہے جس میں غزلوں کے ساتھ ساتھ بولیاں بھی شامل ہیں عمران سحر کی کے کلام سے چند اشعار اور کچھ بولیاں میں آپ کی نظر کروں گا تاکہ آپ کو اندازہ ہوسکے کہ میں جو کچھ عمران سحر کے بارے میں کہا ہے اس میں کتنا سچ ہے عمران سحر ہوری لکھدے نیں 

جتھے راج وڈیرے دا  

اوتھے کمی سولی تے 

دوری موت دا دوجا ناں ایں 

ایویں رنگ نئیں پیلا ہندا 

عشقا! تیری جت اے ہر تھاں 

 تیتھوں ودھ کھڈکاری کوئی نئیں 

مینوں مارن لگا ایں تے 

دے اوہ مار ،تماشہ بن جائے 

بھکھ شکلاں نوں کھاہدی جاوے 

شکلاں شیشے کھا گیئاں نیں 

جنہے پڑھیاں پتھر ہویا 

کیہڑے اکھر سی دو اکھاں 

اوہ سوہنا تے ایناں سوہنا 

شیشہ پڑھنے کا دیندا اے 

بسم اللہ اج راوی دی وی 

سجناں ورگی ٹور اے ویکھو 

مینوں تیری یاد نے قسمے ایسراں پاگل کیتا 

بھل جاناں واں اکثر ہتھیں چیزاں رکھیاں ہویاں 

ویلا کیہہ انہونی کردا جاندا اے 

ساڈے مکھ توں ساول چر دا جاندا اے 

دوویں اتھرو پیندے رہے 

میرا خالی جام تے میں 

بمب نئیں لقمہ روٹی دا 

شالا ہووی خیر بنا 

یہ تھا عمران سحر کا غزل رنگ "چپ تے میں" کا پہلا حصہ دوسرےحصہ بولیوں پر مشتمل ہے آئیے اس میں سے بھی کچھ بولیاں آپ کی نذر کرتے ہیں 

انج ازلوں میں کوئی ناہ گونگا 

آہ ویلے میری جبھ ودھ لئی 

ایتھے جثیاں تے کھل نئیں راہندی 

توں لیڑیاں دی گل کرنا ایں 

تیرے سر اتوں ماہیا وار چھڈیاں 

میں سدھراں جوان کر کے 

کل بھٹھی توں بھنا کے دانے 

میں جندڑی مرونڈا کر لئی 

مینوں اک دے نیں دو دو دسدے 

تے لوکی کہندے گھٹ دسدا 

ساڈے گل چوں پنجالی کنج نکلے 

جے نکلے کھراس رکدا 

میں عمران سحر کو ان کے پہلے شعری مجموعہ " چپ تے میں " کی اشاعت پر دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ ان کا یہ مجموعہ ان کی نیک نامی میں اضافے کا سبب بنے گا 




 

Friday, January 12, 2024

کوئل کی دانائی ( فاکہہ قمر )

 




شہر اقبال سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والی نوجوان ادب اطفال ادیبہ فاکہہ قمر کی بچوں کے لئے لکھی گئی کہانیوں کا دوسرامجموعہ ”کوئل کی دانائی“ شائع ہو گیا ہے۔ اس کتاب میں تیس سے زائد کہانیاں شامل ہیں جو کہ دل چسپ پیرائے میں لکھی گئی ہیں جو معلومات کے ساتھ تفریح فراہم کرتی ہیں۔ ان کہانیوں کے عنوانات بھی دل چسپ ہیں جیسے کہ سنہری بال،چار دن کی چاندنی،جنم دن کا قصہ،سکول کا پہلا دن،کتابستان،خون آشام،پری کا پیزا وغیرہ۔اس مجموعے کو ادبی تنظیم سرائے اُردو، پاکستان نے بچوں کو کتب بینی کی جانب مائل کرنے کے لئے بطورخاص شائع کیا ہے۔کتاب میں معروف پاکستا نی ناول نگار کاوش صدیقی صاحب،ادب اطفال شاعر و ادیبہ ڈاکٹر سیما شفیع، ذوالفقار علی بخاری اورنامور بھارتی ادب اطفال ادیب سراج عظیم صاحب کی رائے بھی شامل ہے۔بچوں کے لئے شائع ہونے والے کہانیوں کے مجموعے ”کوئل کی دانائی“ کو گھر بیٹھے مبلغ چارسو روپے ایزی پیسہ اکاونٹ03425088675پربھیجوا کرمنگوایا جا سکتا ہے۔

Thursday, January 11, 2024

تیر بہدف نسخہ ( یاسین یاس )

 





تیر بہدف نسخہ 

تحریر : یاسین یاس 

سردی بہت زیادہ ہے اور اس سردی میں بہت سارے ایسے کام ہیں جو بالکل بند ہو جاتے ہیں یا بالکل سلو ہو جاتے ہیں جیسا کہ کنسٹرکشن کا کام ہے اور اس کام سے جڑے ہوئے بہت سارے لوگ بے روزگار ہو جاتے ہیں جن میں مستری مزدور پلمبر الیکٹریشن رنگ والے اس لیے اپنے اردگرد کا جائزہ لے کر ایسی جگہوں پر کام کرنے والے لوگوں کا جس قدر ممکن ہوسکے خیال رکھیں انہیں جس چیز کی ضرورت ہو پوری کرنے کی کوشش کریں اپنے گلی محلے تک تو ہر بندہ ایسا کرسکتا ہے اور اس انداز سے کریں کہ اس کو محسوس بھی نہ ہو کہ یہ میری مدد کر رہا ہے بالکل اس طرح جس طرح ایک ہاتھ دے تو دوسرے ہاتھ کو بھی علم نہ ہو مثال کے طور پر آپ نے گھر میں مچھلی بنائی ہے یا کوئی ایسی چیز جو آپ کا پڑوسی افورڈ نہیں کرسکتا تو پکا ہوا سالن کسی برتن میں ڈالیں اور بالکل اسی طرح  جس طرح تہواروں میں ہم ایک دوسرے کے گھر دینے جاتے ہیں ان کے دروازے پر دستک دیں اور انہیں دے آئیں اور ساتھ اسے کہیں یار یہ مجھے ایک دوست نے دریا کی مچھلی کا  تحفہ بھیجا تھا خرید تو آپ بھی سکتے ہیں لیکن دریائی مچھلی تو قسمت سے ملتی ہے اس لیے آپ کے لیے لایا ہوں یا  اس کو کچھ بھی کہہ دیں یا ویسے ہی دے آئیں ایسا آپ ہر روز بھی کرسکتے ہیں اور وقفے وقفے سے بھی ایک گھر کے لیے بھی اور زیادہ گھروں کے لیے جتنا آپ کی جیب اجازت دے  کسی کو سویٹر جرسی یا گرم چادر لے دیں ضروری نہیں بہت مہنگی ہی ہو آپ اپنی حیثیت کے مطابق خرید سکتے ہیں  ہسپتالوں یا لیبارٹریوں کا چکر لگائیں وہاں کچھ ایسے لوگ نظر آئیں گے جو سچ میں ضرورت مند ہوں گے ان کی مدد کریں تاکہ وہ اپنا اور اپنے پیاروں کا علاج کروا سکیں لوگوں کو خوشیاں دینا شروع کردیں یقین مانیں آپ کو اتنی خوشیاں ملیں گی کہ آپ سوچ بھی نہیں سکتے آپ کو اپنا ہر عید جیسا لگنے لگے گا اور اس پہ کچھ خاص خرچ نہیں ہوگا شدید سردی اور دھند میں پرندوں کے لیے بہت زیادہ مشکلات ہیں ان کے کھانے پینے کا بندوبست کریں پارکوں میں چلے جائیں سڑکوں کے درمیان گرین بیلٹ پر اپنے گھروں کی چھتوں پر صحن میں جہاں پرندوں کا آنا جانا ہو ان کے دانہ دنکا ڈال آئیں اسی طرح کتے اور بلیوں کا بھی خیال رکھیں ان کو بھی خوراک کا مسئلہ درپیش ہے الغرض آپ جس کے لیے جو کرسکتے ہیں جتنا کرسکتے ہیں ضرور کریں ایسا کرنے سے آپ کو ذہنی سکون بھی ملے اور انشاءاللہ رزق میں برکت بھی ہوگی وہ سکون جو ہزاروں روپے خرچ کرنے کے بعد بھی نہیں ملتا ایک دفعہ ٹرائی کر کے دیکھ لیں تیر بہدف نسخہ ہے ایسے بہت سے چھوٹے چھوٹے کام ہیں جن کو آپ اور ہم آسانی سے کرسکتے ہیں اور اپنی زندگی کو پر سکون بنا سکتے ہیں کسی سے کوئی ناراضگی ہوجائے بھلے غلطی اسی کی کیوں نہ ہو تو اسے معاف کردیں آپ شاید نہیں جانتے کہ غصہ آپ کی صحت کا دشمن ہے اس سے جتنا ہوسکے بچیں ۔ رزق اور خوشیاں آپ جتنی بانٹیں گے اتنی زیادہ آپ کو ملیں گی اس لیے کسی دوسرے کو آسانی اور خوشی دینے کے معاملے میں ہچکچائیں مت 

کیوں کہ اس کے ساتھ ہی آپ کی خوشیاں بھی جڑی ہوئی ہیں اب یہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ آپ کتنا خوش رہنا چاہتے ہیں 

Monday, January 8, 2024

نقطے وچ جہان ( ظفر اقبال ) تحریر : یاسین یاس

 




نقطے وچ جہان ( ظفر اقبال ) 


تحریر  :  یاسین یاس 

پنجابی کو صوفیاء کرام کی زبان کہا جاتا ہے

 کیونکہ صوفیاء کرام نے برصغیر میں فروغ اسلام کے لیے پنجابی زبان کا انتخاب کیا اور یہاں کے لوگوں کے رہن سہن اور بود وباش کو مدنظر رکھتے ہوئے کلام لکھا جو پسند کیا گیا اور لوگ جوق در جوق حلقہ اسلام میں داخل ہوتے گئے ثبوت آپ کے سامنے موجود ہے برصغیر میں مسلمانوں کی تعداد صوفیاء کرام کی طفیل ہے ان کا پنجابی میں کیا گیا کام آج بھی لوگوں کو یاد ہے جسے لوگ محافل میں پڑھتے ہیں اور لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ فیض یاب بھی ہوتے ہیں پنجابی زبان میں کہیں حضرت بابا وارث شاہ جنڈیالوی براجمان ہیں تو کہیں حضرت بابا بلھے شاہ دھمال ڈالتے ہوئے نظر آتے ہیں کہیں حضرت بابا فرید الدین گنج شکر کے اشلوک زبان زد عام ہیں تو کہیں حضرت میاں محمد بخش کھڑی شریف والے راج کر رہے ہیں  الغرض پنجابی زبان میں ایک سے بڑھ کر ایک ہیرا موجود ہے اور صوفیاء کرام کا مشن الحمد و للہ اسی طرح جاری و ساری ہے بے شمار درویش شاعروں نے اپنی ماں بولی کی زلفیں سنواریں اور اسے مضبوط کیا دوسری زبانوں کے ادب کو ترجمہ کرکے ماں بولی کو دان بھی کیا اور ماں بولی سے دوسری زبانوں میں تراجم کرکے دوسری زبانوں کو بھی سنبھالا دیا جہاں پرانی صنفوں کو سنبھالا دیا وہاں  نئی صنفوں پر طبع آزمائی بھی کی جن میں غزل سرفہرست ہے بہت سارے نام ہیں جو اس صنف کو اپنا خون جگر دیتے رہے اور دے رہے ہیں میں اگر کسی ایک کا نام لوں گا تو احباب ناراضگی کا اظہار کریں گے سوشل میڈیا کا دور ہے جس نے جتنا کام کیا ہے یا جو جتنا کام کر رہا ہے آپ لوگ بخوبی جانتے ہیں میرے ہاتھوں میں ظفر اقبال کی جو کتاب ہے اس کا نام ہے " نقطے وچ جہان " بابا بلھے شاہ سرکار نے کہا تھا گل اک نقطے وچ مکدی اے اس میں کوئی شک نہیں اور ظفر اقبال بھی یہی کہہ رہا ہے کہ نقطے وچ جہان مطلب یہ ہوا کہ ظفر اقبال بھی بلھے شاہ کی سوچ اور وژن کو الحمد اللہ آگے بڑھ رہا ہے ظفر اقبال اک مزدور ہے دن رات بچوں کی روزی روٹی کمانے میں لگا رہتا ہے اس کا کلام دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ وہ اتنا اچھا کلام اور اتنا کچھ کیسے اور کب لکھ لیتا ہے ایسے ایسے مضامین باندھتا ہے کہ حیرت گم ہوجاتی ہے ظفر اقبال کا یہ دوسرا مجموعہ ہے کمالات تو اس نے پہلے مجموعہ ویکھن والی اکھ میں بھی کیے تھے لیکن اپنے حالیہ مجموعہ کلام میں تو وہ اپنے عروج پر نظر آتا ہے ضلع قصور کی دھرتی غزل کے حوالے سے بہت اہم ہے اس بات کو ظفر اقبال کی شاعری پڑھ کر مذید تقویت ملی ہے اور حوصلہ بھی بڑھا ہے ظفر اقبال کے چند اشعار میں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں یہ میں صرف آپ کے ذوق کی نذر کر رہا ہوں ورنہ اسی کالم میں ان کی پوری کتاب رکھی جاسکتی ہے میں نے ظفر اقبال کے بارے میں مبالغہ آرائی سے کام نہیں لیا انشاءاللہ پڑھ کر آپ بھی میری باتوں کی تائید کریں گے 

نسلاں گروی ہوگیاں  

  منہ  نہیں بھریا  کاسے دا 

اسیں تے ہارے وجود وچ آں   

  اسیں مقدر نوں کیہہ کہواں گے 

اک تھاپڑی اے کنڈ نوں 

لاسہ مذاق نئیں جے 

ہن جیواں گا سر چڑھ کے 

گونگی سوچ ہندا لئی میں 

ہوس نے قبراں تک سی مینوں گھیریا 

میں ویکھدا ساں نال دی زمین وی 

حوصلے نوں کندھ بنا کے اٹھ ظفر 

ہار دے دے ہار دی مٹھی دے وچ 

فانی ہون دی گل ظفر ایس توں ودھ کیہہ کھلے گی 

نقطے وچ اے اک جہان کل من علیہا فان 

میں جس مٹی تے محنت کر رہیا واں 

ایہہ میری جد نوں پورا جان دی اے 

ظفر اقبال مشاعرے نہیں پڑھتا نہ اس کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ مشاعروں کے پیچھے بھاگتا پھرے وہ مزدور ہے یا شاعر اور یہ دونوں کام وہ ایمانداری سے کررہا ہے آپ حیران ہوں گے کہ وہ اپنے شہر میں ہونے والے مشاعروں میں بھی شرکت نہیں کرتا اور اس نے اپنی کوئی کتاب کسی ایوارڈ کے لیے کسی تنظیم یا ادارے کو نہیں بھیجی بلکہ شاعری کی کتاب چھپوائی اور قاری کے ہاتھ دے دی مجھے اس نے اپنی یہ کتاب ایک دوست کے ہاتھ بھیجی تھی جو مجھے کوئی تین چار ماہ بعد ملی اس کا حق بنتا تھا کہ اس پر لکھا جائے سو میں نے اپنے ٹوٹے پھوٹے انداز میں اپنے بھائی کی حوصلہ افزائی کرنے کی کوشش کی ہے میں ظفر اقبال کو ان کے دوسرے مجموعہ نقطے وچ جہان پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ رب العزت ان کے علم , قلم , آل اولاد , کاروبار ، نیک نامی ،صحت ، کام اور نام میں برکت عطا فرمائے ۔آمین 



Monday, January 1, 2024

بانس کا مربہ ( حکیم مختار احمد قادری )

 




بانس کا مربہ بنانے کا طریقہ اور فوائد 

بانس کے مربہ سے سانس کی تنگی ، دمہ ختم ہو جاتا ہے بانس کا مربہ جن بچوں کی صحت نہیں بنتی ان کے لیے بہترین ہے بانس کا مربہ قد تیزی سے قد بڑھاتا ہے بانس کا مربہ روز کھانے سے بچہ صحت مند خوش باش موٹا تازہ نظر ائے گا۔

 جس طرح بانس کی بڑھوتری ہوتی ہے اسی تیزی سے بانس کا مربہ کھانے والے کا قد بڑھتا اور دماغ کو تیز ہوتا ہے ۔ جوڑوں میں کڑکڑ کی آواز آتی ہے تو بانس کا مربہ استعمال کریں جوڑوں سے آوازیں آنا بند ہو جائیں گی۔ 

ریڑھ کی ہڈی کو مضبوط کرنے کے لیے ۔ کیلشیم کی کمی دور کرے۔ 

اچھی کوالٹی کا بانس کا مربہ آپ کے امیونٹی سسٹم کو بڑھاتا ہے۔

: بانس کا مربہ بنانے کا آسان طریقہ

کچے بانس جو ابھی ابتدائی مرحلے میں ہوں لیکر انکے چھلکے اتارلیں۔

پھر انکے گول گول ٹکڑے کاٹ لیں چھری کی مدد سے جو درمیانے سائز کے ہوں اسکے بعد ان ٹکڑوں میں چھوٹے چھوٹے سوراخ بنائیں دندانے دار چمچ کی مدد سے۔۔پھر پانی ابالیں جب ابلنے لگے تو بانس کے ٹکڑیں اس میں ڈال دیں اور پکائیں ۔۔

اور الگ سے چینی کی چاشنی تیار کریں مناسب مقدار میں اور ابلے ہوۓ بانس کے ٹکڑے اس چاشنی میں ڈال ہلکی آنچ پر دو سے تین۔منٹ ہلائیں۔۔۔( لذت و ذائقہ میں اضافہ کیلۓ ایک دن رات ڈھانپ کر رکھ دیں) 

لیجیۓ آپکا مربہ تیار ہے 

ٹھنڈا کر کے کسی برتن میں محفوظ کرلیں

ایک ٹکڑا مربہ کا روزانہ صبح نہار منہ کھلایا کریں۔ دو ماہ کھلائیں پھر دیکھیے کتنا قد میں اضافہ ھوتا ہے۔ ضروری نہیں گھر میں ہی بنائیں آپ پنسار سٹور سے بھی لے سکتے ہر پنسار سے آسانی سے مل جاتا ہے صحت مند اشیاء کو اپنی خوراک کا حصہ بنائیں اور صحت مند زندگی گزاریں ۔