راوی کا راٹھ عمران سحر
تحریر : یاسین یاس
دریاؤں کے نزدیک آبادی کی تاریخ کافی پرانی ہے جب انسان اتنا ترقی یافتہ نہیں تھا تب وہ اپنی ضرورت کے لیے پانی دریاؤں سے ہی حاصل کیا کرتا تھا اور آج بھی دریا اتنے ہی اہم ہیں جتنے کہ پہلے ہوا کرتے تھے بس فرق صرف اتنا ہے کہ اس وقت آبادی دریاؤں کے ساتھ ساتھ نظر آتی تھی اور اب انہی دریاؤں سے نہریں نکال کر ان نہروں سے راجباہے اور راجباہوں سے کھال بنا کر انسان دریا کا پانی جہاں جہاں ضرورت ہوتی ہے استعمال کر رہا ہے اور جہاں اس کا جی چاہتا ہے رہائش رکھ لیتا ہے کیونکہ پینے کا پانی وہ ٹیوب ویل اور نلکے سے حاصل کر لیتا ہے بہرحال دریاؤں کی اہمیت آج بھی اتنی ہی ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ کہہ سکتے ہیں ان دریاؤں کے دونوں طرف کی آبادی قدیم زمانے سے چلی آرہی ہے اور اب بھی ویسے کی ویسی ہے بلکہ اب تو دریاؤں کے پشتوں پر لوگوں کا رہن سہن دیکھ کر بھی شہروں کا گماں ہوتا ہے دریائے راوی کے بھی دونوں کناروں پر آبادی ہے لاہور سے نکلیں تو اس کے ایک طرف ملتان روڈ ہے جو دریائے راوی کے ساتھ ساتھ چلتا ہے تو دوسری فیصل آباد روڈ بھی بالکل ایسے ہی چلتا ہے لاہور سے نکلیں تو دریا کے ایک طرف ضلع قصور اور دوسری طرف ضلع ننکانہ صاحب ہے دونوں اضلاع کی زمین بہت ہی زرخیز ہے ایک طرف حضرت بابا بلھے شاہ کی نگری ہے تو دوسری طرف بابا جی گرو نانک کا جنم استھان اور ان دو روڈز کے درمیان بسنے والے لوگ پنجابی ہیں لیکن دونوں کے لہجے مختلف ہیں ایک ماجھی لہجہ ہے اور دوسرا جانگلی یا راوی لہجہ کہہ سکتے ہیں پنجابی زبان صوفیاء کی زبان ہے اس لیے اس میں مٹھاس کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے اگر راوی کے لہجہ کی بات کریں تو اس کی مٹھاس کچھ زیادہ ہی ہے یہاں کے مرد کرتہ اور تہبند اور عورتیں کرتہ اور لاچا پہنتی تھیں جو کہ اب شلوار قمیض میں بدل گیا ہے سیدھے سادھے اور محنتی لوگ ہیں اس دھرتی کے چھوٹے سے قصبہ موڑ کھنڈا میں بسنے والے ایک مزدور نوجوان عمران سحر کا حال ہی میں ایک پنجابی مجموعہ کلام شائع ہوا جس کا نام " چپ تے میں " ہے عمران سحر ایک مزدور ہے کبھی وہ مونجی لگا رہا ہوتا ہے اور کبھی گندم کاٹ رہا ہوتا ہے تو کبھی سیلر پر پلے داری کرتا نظر آتا ہے سپننگ مل کے رنگ کھاتہ میں اس کی پھرتیاں دیدنی ہوتی ہیں مزدور بہرحال مزدور ہی ہوتا ہے اور موجودہ دور میں کسی مزدور کا مجموعہ چھپ کر آجانا ایک معجزہ ہے بہرحال یہ معجزہ ہوچکا اور اس معجزے کا سہرا عابد بھائی کے سر جاتا ہے جسے میں ملا تو نہیں ہوں لیکن عمران سحر مجموعہ دیکھ کر اتنا جان چکا ہوں کہ وہ ادب پرور بندہ ہے انشاءاللہ کسی دن اس سے ملاقات بھی کرونگا اور اس نیک کام کے لیے اس کا شکریہ ادا کرو نگا کتاب میں شاعری بہت ہی عمدہ اور بہترین ہے پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے اور کتاب کی پرنٹنگ کوالٹی اعلی درجہ کی ہے آرٹ پیپر پر چھپی بہترین کتاب ہے آپ کسی بھی اعلی سطح کی لائبریری میں بلا جھجک نہیں بلکہ فخر سے رکھ سکتے ہیں پنجابی زبان و ادب کی بھلے یہ عمران سحر کی پہلی کوشش ہے لیکن یہ ہر حوالے سے ایک بہترین کتاب ہے جس میں غزلوں کے ساتھ ساتھ بولیاں بھی شامل ہیں عمران سحر کی کے کلام سے چند اشعار اور کچھ بولیاں میں آپ کی نظر کروں گا تاکہ آپ کو اندازہ ہوسکے کہ میں جو کچھ عمران سحر کے بارے میں کہا ہے اس میں کتنا سچ ہے عمران سحر ہوری لکھدے نیں
جتھے راج وڈیرے دا
اوتھے کمی سولی تے
دوری موت دا دوجا ناں ایں
ایویں رنگ نئیں پیلا ہندا
عشقا! تیری جت اے ہر تھاں
تیتھوں ودھ کھڈکاری کوئی نئیں
مینوں مارن لگا ایں تے
دے اوہ مار ،تماشہ بن جائے
بھکھ شکلاں نوں کھاہدی جاوے
شکلاں شیشے کھا گیئاں نیں
جنہے پڑھیاں پتھر ہویا
کیہڑے اکھر سی دو اکھاں
اوہ سوہنا تے ایناں سوہنا
شیشہ پڑھنے کا دیندا اے
بسم اللہ اج راوی دی وی
سجناں ورگی ٹور اے ویکھو
مینوں تیری یاد نے قسمے ایسراں پاگل کیتا
بھل جاناں واں اکثر ہتھیں چیزاں رکھیاں ہویاں
ویلا کیہہ انہونی کردا جاندا اے
ساڈے مکھ توں ساول چر دا جاندا اے
دوویں اتھرو پیندے رہے
میرا خالی جام تے میں
بمب نئیں لقمہ روٹی دا
شالا ہووی خیر بنا
یہ تھا عمران سحر کا غزل رنگ "چپ تے میں" کا پہلا حصہ دوسرےحصہ بولیوں پر مشتمل ہے آئیے اس میں سے بھی کچھ بولیاں آپ کی نذر کرتے ہیں
انج ازلوں میں کوئی ناہ گونگا
آہ ویلے میری جبھ ودھ لئی
ایتھے جثیاں تے کھل نئیں راہندی
توں لیڑیاں دی گل کرنا ایں
تیرے سر اتوں ماہیا وار چھڈیاں
میں سدھراں جوان کر کے
کل بھٹھی توں بھنا کے دانے
میں جندڑی مرونڈا کر لئی
مینوں اک دے نیں دو دو دسدے
تے لوکی کہندے گھٹ دسدا
ساڈے گل چوں پنجالی کنج نکلے
جے نکلے کھراس رکدا
میں عمران سحر کو ان کے پہلے شعری مجموعہ " چپ تے میں " کی اشاعت پر دلی مبارک باد پیش کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ ان کا یہ مجموعہ ان کی نیک نامی میں اضافے کا سبب بنے گا
No comments:
Post a Comment