دیہاتی خوراک و رہن سہن
تحریر : یاسین یاس
ابھی لمبا چوڑا عرصہ نہیں گزرا پندرہ بیس سال پیچھے چلے جائیں تو دیہاتوں کی زندگی بڑی پر سکون و صحت مند تھی ہر گاؤں میں صحت مند سرگرمیاں زور شور سے ہوا کرتی تھیں دیہاتوں کی صبح تہجد سے بھی پہلے ہو جایا کرتی تھی بڑے تہجد پڑھنے کے بعد اپنی اپنی جوگ نکال کر ہل چلانے نکل جاتے تھے بزرگ اپنے ہی بستر پر بیٹھے اللہ اللہ کرنے لگ جاتے گھر کی بڑی عورتیں مدھانی ڈال کر دودھ رڑکنا شروع ہوجاتی تھیں بچوں کو اٹھا کر سپارہ پڑھنے کے لیے بھیج دیا جاتا تھا بچے سپارہ پڑھ کر باجماعت نماز ادا کرنے کے بعد گھر واپس آیا کرتے تھے پھر ناشتہ کر کے سکول کے لیے نکل جاتے پورا گاؤں نوبجے کا خبرنامہ سن کر سو جایا کرتا تھا جاگتے صرف وہی لوگ تھے جن کو کھیتوں میں پانی لگانا ہوتا یا گاؤں میں پہرہ وغیرہ دینا ہوتا پورے گاؤں میں ایک آدھ گھر میں ٹی وی ہوا کرتا تھا جو ڈیرے یا بیٹھک میں لگایا جاتا بڑے بزرگ چارپائیوں یا موڑھوں پر بیٹھے ہوتے اور بچے چٹائی یا توڑے بچھا کر زمین پر بیٹھتے تھے تب مشہوریاں بھی صاف ستھری ہوا کرتی تھیں اور ٹی وی ڈرامے بھی ناظرین کو کچھ نہ کچھ سکھایا کرتے تھے اردو ہو یا پنجابی زبان کے اتار چڑھاؤ اور گرائمر کا پورا خیال رکھا جاتا تھا خبریں پڑھنے والی لڑکی بھی سر پر دوپٹہ اوڑھ کر رکھتی تھی ہر ڈرامے کی کہانی ہوا کرتی تھی لچر پن کا دور دورہ نہیں تھا ہر کام ایک سلیقے سے ہوتا تھا پیسوں کی دوڑ سے زیادہ اچھے کام کی دوڑ ہوتی تھی بچے سکول سے واپس آتے ہی دوپہر کا کھانا کھا کر کھیل کود میں مصروف ہو جایا کرتے تھے یہ تب کی بات ہے جب بچوں کے بستے اس قدر وزنی نہیں تھے دو چار کتابیں دوچار کاپیاں سلیٹ اور ایک تختی ہوا کرتی تھی سارا رف کام سلیٹ پر اور خوشخطی اور املاء تختی پر لکھی جاتی اساتذہ کی حتی الامکان کوشش ہوتی کہ والدین پر بچوں کا بوجھ نہ ہو
ٹیوشن کا کسی نے نام بھی نہیں سنا تھا ہر گاؤں میں ہر روز عصر کے وقت کسی کھلی جگہ پر میلے کا سا سماں ہوتا تھا جہاں ہر بچہ اپنی عمر کے حساب سے یعنی اپنے ہم عمروں کے ساتھ وانجو ، گلی ڈنڈا ، پٹھوگرم ،رسہ کشی ، والی بال ، فٹ بال ، چھلانگیں لگانا ، دوڑ ،چینڈی چینڈا , دھپ چھاں کبڈی اور وینی پکڑنا کھیلتا تھا اور بڑے بوڑھے اسی میدان کے اردگرد بیٹھے ان بچوں کی حوصلہ افزائی کرتے تھے تب تک کرکٹ کی چسکا دیہاتیوں کو نہیں لگا تھا اور شام ہوتے ہی سارے لوگ اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے تھے شام کا کھانا کھانے کے بعد گھروں میں بچیاں کوکلا چھپاکی , دھپ چھاں ، اینڈیا منٹینڈیا , اور یسو پنجو جیسی گیمز کھیلتی اور لڑکے گلیوں بازاروں میں لکن میٹی کھیلا کرتے تھے کچھ بچے دن میں کینچے اور اخروٹ بھی کھیل لیا کرتے تھے لیکن کوئی بھی بڑا اور سمجھدار اسے اچھا نہیں سمجھتا تھا اور اسے کھیلنے سے بچوں کو منع کرتے تھے اس وقت کسی کے علم میں بھی نہیں تھا کہ بلڈ پریشر کیا ہوتا ہے شوگر کیا ہوتی ہے یہ اٹیک کیا ہوتا ہے لوگ گرما گرم گڑ، چینڈ کھاتے اور پیٹ بھر کر گنے کی روہ پی جایا کرتے تھے آدھا آدھا کلو دیسی گھی پی جایا کرتے تھے دل کھول مکھن کھاتے تھے پراٹھے کھاتے تھے لسی پیتے تھے لیکن یہ بات ہے کہ پھر اسی حساب سے محنت بھی کرتے تھے سارا سارا دن مویشیوں کے لیے چارا بنانا کھیتی باڑی کرنی گندم کی کٹائی کرتے اور سبزیاں کاشت کرتے ان کی گوڈی کرتے کھال صاف کرتے تاکہ پانی آسانی سے فصلوں تک پنہچ سکے اور بھر پور طریقے سے کھیل کود بھی کرتے تاکہ ہر چیز ہضم ہو جائے اس وقت صرف دو ہی عام بیماریاں ہوتی تھیں جو موسمی تھیں گرمیوں میں مچھر کے کاٹنے سے ملیریا اور سردیوں میں نزلہ زکام اس کا بھی علاج گھروں میں ہی کرلیا جاتا تھا کسی کو ملیریا ہوتا تو وہ اجوائن کا گھوٹا کالی مرچ، بادام اورخشخاش ڈال کر پی لیتا اور جسے نزلہ زکام ہوتا وہ گھر میں بنی ہوئی سیویاں پکا کر اس کی بھاپ لے لیتا اور انہیں سویوں کو پیٹ بھر کے کھا لیتا ہر گھر میں پانی ذخیرہ اور ٹھنڈا کرنے کے لیے مٹی کا ایک گھڑا رکھا ہوتا کہیں گھڑونجی پر اور کہیں اینٹوں سے ایک خاص بنی ہوئی جگہ پر جس سے چھوٹے بڑے سب پانی پی کر پیاس بجھاتے پسے ہوئے نمک کا رواج بھی کم تھا ڈلی والا گلابی نمک استعمال کیا جاتا اگر کھانا کھاتے ہوئے کسی کو نمک کم محسوس ہو تو وہ اس ڈلی کو دھو کر سالن میں گھما لیتا ہلدی اور لال مرچ بھی کونڈے میں یا پتھر کی ایک سل پر کوٹ کر دو چار دن کے لیے رکھ لی جاتی پسی ہوئی مشینی مرچ کو بالکل بھی پسند نہیں کیا جاتا تھا سل پر پسی ہوئی مرچ کا اپنا ایک ذائقہ ہوتا تھا جسے عموما بچے روٹی کے ساتھ بھی کھا لیتے تھے اور کئی تو بڑے شوق سے کھایا کرتے تھے گلی محلے یا پاس پڑوس سے کوئی لسی لینے آتا تو سو دو سو گرام مکھن کا پیڑا بھی بنا بتائے اس کی لسی میں ڈال دیا جاتا تاکہ ان کے بچے بھی مکھن کھا سکیں یا روٹی کو لگا سکیں جن کے گھر ( لیارا ) دودھ نہیں ہے دودھ بھی اسی طرح ایک دوسرے سے لے لیا جاتا تھا لوگ دودھ بیچنے کی بجائے مکھن بنایا کرتے تھے جو گھر والوں کے کھا لینے کے بعد بچ جاتا ہفتے ڈیڑھ ہفتے بعد اسی مکھن سے گھی بنا کر محفوظ کر لیا جاتا جو سردیوں میں پنجیری اور پنیاں بنانے کے کام آتا ہاں البتہ عورتیں بھی وغیرہ بیچ کر اپنی ضرورت پوری کر کیا کرتی تھیں وہ بھی اگر کوئی لینے آ جاتا تو تاکہ جو بھی لینے آیا ہے اس کی بھی ضرورت پوری ہو جائے اور وہ بھی سردیوں میں پنجیری وغیرہ بنالیں امیر غریب ہر گھر میں پنجیری ( بھانڈا ) بنایا جاتا جس میں سنھھاڑے کا آٹا , چنے کا آٹا , پھل مکھانہ , تل , السی، چاروں گوندیں , سہاگہ, گری بادام اخروٹ چھوہارے اور پستہ بادام وغیرہ بھی ڈالے جاتے جو کسی طرح بھی کسی معجون سے کم نہ ہوتا عموما زچگی کے دوران عورتی چھ سات کلو گھی بنا کر کھا لیتی تھیں اس وقت لیڈی ڈاکٹروں اور نرسوں کی نہیں بلکہ گھر کی وڈیری ماں یا دادی کی سنی جاتی تھی جو پھر بھی نہ افورڈ کر پاتا وہ پنیاں تو ہر صورت بنا ہی لیتا کیونکہ ان میں گھی کم استعمال ہوتا تھا دوپہر کے وقت بھٹھی سے دانے بھنوا کر چبائے جاتے اور شام کو عورتیں آٹا گوندھ کر ایک بھٹھ ( کافی بڑا توا یا توی کہہ لیں جس پر بیک آٹھ سے دس روٹیاں پک سکیں ) پر لے جاتیں جہاں ایک دوسری سے گپ شپ بھی کرتیں اور روٹیاں بھی بنالیتں شام ہوتے ہی شادی شدہ مرد اور بچے گھروں میں اور لڑکے اور بابے باہر کھلی جگہ پر چوک یا چوراہے پر گھروں کے نزدیک ہی چارپایاں ڈال لیتے جہاں وہ نوجوانوں کو اپنی جوانی کے قصے کہانیاں اور دین و دنیا کی باتیں بتاتے بتاتے سو جاتے کیا ہی اچھے دن تھے وہ لیکن یہ تب کی بات ہے جب موبائل نہیں تھا کسی کو ضرورت سے زیادہ کی ہوس نہیں تھی ایک دوسرے کا احساس تھا بنا مانگے دوسروں کی ضرورت پوری کردی جاتی تھی محنت پر یقین کامل تھا اور اپنے رب پر پورا بھروسہ بھی۔
No comments:
Post a Comment