نقطے وچ جہان ( ظفر اقبال )
تحریر : یاسین یاس
پنجابی کو صوفیاء کرام کی زبان کہا جاتا ہے
کیونکہ صوفیاء کرام نے برصغیر میں فروغ اسلام کے لیے پنجابی زبان کا انتخاب کیا اور یہاں کے لوگوں کے رہن سہن اور بود وباش کو مدنظر رکھتے ہوئے کلام لکھا جو پسند کیا گیا اور لوگ جوق در جوق حلقہ اسلام میں داخل ہوتے گئے ثبوت آپ کے سامنے موجود ہے برصغیر میں مسلمانوں کی تعداد صوفیاء کرام کی طفیل ہے ان کا پنجابی میں کیا گیا کام آج بھی لوگوں کو یاد ہے جسے لوگ محافل میں پڑھتے ہیں اور لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ فیض یاب بھی ہوتے ہیں پنجابی زبان میں کہیں حضرت بابا وارث شاہ جنڈیالوی براجمان ہیں تو کہیں حضرت بابا بلھے شاہ دھمال ڈالتے ہوئے نظر آتے ہیں کہیں حضرت بابا فرید الدین گنج شکر کے اشلوک زبان زد عام ہیں تو کہیں حضرت میاں محمد بخش کھڑی شریف والے راج کر رہے ہیں الغرض پنجابی زبان میں ایک سے بڑھ کر ایک ہیرا موجود ہے اور صوفیاء کرام کا مشن الحمد و للہ اسی طرح جاری و ساری ہے بے شمار درویش شاعروں نے اپنی ماں بولی کی زلفیں سنواریں اور اسے مضبوط کیا دوسری زبانوں کے ادب کو ترجمہ کرکے ماں بولی کو دان بھی کیا اور ماں بولی سے دوسری زبانوں میں تراجم کرکے دوسری زبانوں کو بھی سنبھالا دیا جہاں پرانی صنفوں کو سنبھالا دیا وہاں نئی صنفوں پر طبع آزمائی بھی کی جن میں غزل سرفہرست ہے بہت سارے نام ہیں جو اس صنف کو اپنا خون جگر دیتے رہے اور دے رہے ہیں میں اگر کسی ایک کا نام لوں گا تو احباب ناراضگی کا اظہار کریں گے سوشل میڈیا کا دور ہے جس نے جتنا کام کیا ہے یا جو جتنا کام کر رہا ہے آپ لوگ بخوبی جانتے ہیں میرے ہاتھوں میں ظفر اقبال کی جو کتاب ہے اس کا نام ہے " نقطے وچ جہان " بابا بلھے شاہ سرکار نے کہا تھا گل اک نقطے وچ مکدی اے اس میں کوئی شک نہیں اور ظفر اقبال بھی یہی کہہ رہا ہے کہ نقطے وچ جہان مطلب یہ ہوا کہ ظفر اقبال بھی بلھے شاہ کی سوچ اور وژن کو الحمد اللہ آگے بڑھ رہا ہے ظفر اقبال اک مزدور ہے دن رات بچوں کی روزی روٹی کمانے میں لگا رہتا ہے اس کا کلام دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ وہ اتنا اچھا کلام اور اتنا کچھ کیسے اور کب لکھ لیتا ہے ایسے ایسے مضامین باندھتا ہے کہ حیرت گم ہوجاتی ہے ظفر اقبال کا یہ دوسرا مجموعہ ہے کمالات تو اس نے پہلے مجموعہ ویکھن والی اکھ میں بھی کیے تھے لیکن اپنے حالیہ مجموعہ کلام میں تو وہ اپنے عروج پر نظر آتا ہے ضلع قصور کی دھرتی غزل کے حوالے سے بہت اہم ہے اس بات کو ظفر اقبال کی شاعری پڑھ کر مذید تقویت ملی ہے اور حوصلہ بھی بڑھا ہے ظفر اقبال کے چند اشعار میں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں یہ میں صرف آپ کے ذوق کی نذر کر رہا ہوں ورنہ اسی کالم میں ان کی پوری کتاب رکھی جاسکتی ہے میں نے ظفر اقبال کے بارے میں مبالغہ آرائی سے کام نہیں لیا انشاءاللہ پڑھ کر آپ بھی میری باتوں کی تائید کریں گے
نسلاں گروی ہوگیاں
منہ نہیں بھریا کاسے دا
اسیں تے ہارے وجود وچ آں
اسیں مقدر نوں کیہہ کہواں گے
اک تھاپڑی اے کنڈ نوں
لاسہ مذاق نئیں جے
ہن جیواں گا سر چڑھ کے
گونگی سوچ ہندا لئی میں
ہوس نے قبراں تک سی مینوں گھیریا
میں ویکھدا ساں نال دی زمین وی
حوصلے نوں کندھ بنا کے اٹھ ظفر
ہار دے دے ہار دی مٹھی دے وچ
فانی ہون دی گل ظفر ایس توں ودھ کیہہ کھلے گی
نقطے وچ اے اک جہان کل من علیہا فان
میں جس مٹی تے محنت کر رہیا واں
ایہہ میری جد نوں پورا جان دی اے
ظفر اقبال مشاعرے نہیں پڑھتا نہ اس کے پاس اتنا وقت ہے کہ وہ مشاعروں کے پیچھے بھاگتا پھرے وہ مزدور ہے یا شاعر اور یہ دونوں کام وہ ایمانداری سے کررہا ہے آپ حیران ہوں گے کہ وہ اپنے شہر میں ہونے والے مشاعروں میں بھی شرکت نہیں کرتا اور اس نے اپنی کوئی کتاب کسی ایوارڈ کے لیے کسی تنظیم یا ادارے کو نہیں بھیجی بلکہ شاعری کی کتاب چھپوائی اور قاری کے ہاتھ دے دی مجھے اس نے اپنی یہ کتاب ایک دوست کے ہاتھ بھیجی تھی جو مجھے کوئی تین چار ماہ بعد ملی اس کا حق بنتا تھا کہ اس پر لکھا جائے سو میں نے اپنے ٹوٹے پھوٹے انداز میں اپنے بھائی کی حوصلہ افزائی کرنے کی کوشش کی ہے میں ظفر اقبال کو ان کے دوسرے مجموعہ نقطے وچ جہان پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ اللہ رب العزت ان کے علم , قلم , آل اولاد , کاروبار ، نیک نامی ،صحت ، کام اور نام میں برکت عطا فرمائے ۔آمین
No comments:
Post a Comment