غزل
ہاتھ پھیلائے ہیں، آرزو چاہیے!
رب سے کرنے کو کچھ گفتگو چاہیے!
پُوچھتا ہے خدا تو بھی جلدی بتا!
تجھ کو کیا چاہیے؟ مجھ کو تُو چاہیے!
لمسِ آخر ہی دے دے رفو گر مرے
اس دریدہ بدن کو رفو چاہیے
خامشی کی چڑھانی پڑی بھینٹ پھر
کیا کریں دل کو بس ہاؤ ہو چاہیے!!
اپنی آنکھیں ذرا دیر کو کر عطا!
جام پینا ہے مجھ کو سبو چاہیے!!
تتلیاں کھو گئیں، رنگِ گل اڑ گیا،
اب کے گلشن کو دادِ لہو چاہیے!
دشت کی خاک چھانو، تیمم کرو!
عشق میں جان و تن با وضو چاہیے
چار سو آندھیاں ہیں تغافل بھری
شجرِ الفت کو زورِ نمو چاہیے!
ماہ رخ علی ماہی
No comments:
Post a Comment