Sunday, May 26, 2024

گل نسرین ( شاعرہ و نثر نگار ) انٹرویو : صاحب زادہ یاسر صابری

 










گل نسرین

شاعرہ و نثر نگار

انٹرویو:صاحبزادہ یاسر صابری

03115311991

گل نسرین کا اصلی نام نسرین اختر ہے۔ملتان میں3 نومبر 1966ء کو پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم ملتان سے حاصل کی۔ میٹرک گورنمنٹ ہائی سکول ملتان سے کیا۔گریجویشن زکریا یونیورسٹی ملتان سے اور ایم اے اردو سرگودھا یونیورسٹی سے کیا۔ آپ نے شاعری کا آغاز 1980ء میں کیا۔پہلی کتاب آنکھیں خواب لکھتی ہیں شاعری 2004ءمیں شائع ہوئی۔دوسری نثر کی کتاب ماسی نامہ طنز و مزاح 2019ء میں شائع ہوئی۔ تیسری کتاب تم سے گزارش ہے شاعری 2023ء میں شائع ہوئی۔ 

س: شاعری میں آپ کی ترجیحات کیا ہیں؟ 

ج:شاعری میں غزل میری پسندیدہ صنف سخن ہے۔شعری مجموعہ ہم نے محبت گروی رکھ دی زیر طبع ہے۔ 

س:آپ کی نثری تخلیق میں کیا کچھ شامل ہے؟

ج: نثری اصناف میں طنز و مزاح،

سماجی اقدار،افسانہ اورناول کی طرف زیادہ رجحان ہے۔ناول کی کتاب من گزیدہ زیر طبع ہے۔ 

س: آپ کے کلام  میں تنہائی جا بجا بکھری ہوئی نظر آتی ہے؟

ج: میری شاعری میں تنہائی کے عنصر کی وجہ ناکام ازدواجی زندگی ہے۔

س:کیا راستوں کی دشواریاں کامیابیوں کی دلیل ہیں؟ 

ج:راستے کی تکالیف و مصائب منزل کا تعین کرتے ہیں گعکہ مشکلات پیش آتی ہیں تاہم یہی مشکلات منزل کا پتہ بھی دیتی ہیں۔

س:آپ کو زمانے سے جو  شکایتیں در پیش ہیں ان کا ذکر کیسے کریں گی؟   

ج:مجھے زمانے سے شکایت نہیں۔

کیونکہ میں ایک سچی کھری انتہائی صاف دل اور باضمیر خاتون ہونے کی وجہ سے  مشرق کے زوال شدہ معاشرے میں باقی کھرے انسانوں کی طرح  جلد اپنا مقام نہ بنا سکی تاہم آج میں ایک کامیاب ماں، ایک  نیک نام شاعرہ  کے طور پر مستحکم سماجی حیثیت رکھتی ہوں 

س:آپ کی یہ خوش نصیبی ہے کہ ڈوڈہ یونیورسٹی مقبوضہ جموں و کشمیر(بھارت) میں پہلی رائٹر کانفرنس میں شرکت کا اعزاز ہوا۔ اس حوالے سے کیا کہنا چاہیں گی؟ 

ج:جی ہاں یہ میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے ڈوڈہ یونیورسٹی جموں کشمیر انڈیا میں ورلڈ رائٹرزاردو کانفرنس میں شرکت کا اعزاز حاصل ہوا۔ 

س:آپ پی ٹی وی،ریڈیو پاکستان اور ملک گیر مشاعروں میں بھر پور شرکت کرتی ہیں۔یہ بتا دیں کہ مشاعروں میں شعرا کا رویہ شاعرات کے ساتھ کیسا ہوتا ہے؟ 

ج: جی آپ نے ٹھیک کہا مجھے پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کے ساتھ ساتھ ملک بھر کی ادبی تنظیموں کے منعقدہ مشاعروں میں شرکت کا اعزاز حاصل ہے۔مجموعی طور پر شاعرات کے ساتھ شعرا کا رویہ  اچھا ہوتا یے مگر انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ دو نمبر خواتین کی پروجیکشن میں شاعر حضرات بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور شریف النفس قسم کی جینیوئن شاعرات کی شدید حق  تلفیوں کی باعث دو نمبر خواتین سرکاری و غیر سرکاری تنظیموں و محکموں میں اعلی عہدے حاصل کرتی ہیں اور  جینوین شاعرات  کی ترقی کا سفر رک جاتا ہے۔

س: کیا شاعر حضرات کسی کی شاعری سے حسد کرتے ہیں؟

ج: شاعر حضرات میں عام طور پر ایک دوسرے سے  سخت حسد و اختلاف پایا جاتا ہے۔تاہم اچھے با ضمیر و باشعور شاعروں کی بھی کمی نہیں ہے۔ 

س: آپ کے خیال میں پاکستانی خواتین ادب میں کیا کردار ادا کر رہی ہیں؟ 

ج:خواتین شاعرات صحت مند ادبی خدمات کے زریعے پاکستان کی    اسلامی اخلاقی اقدار کی شناخت و فروغ میں اہم  کردار ادا کرتی ہیں تاہم اس کے لیے جینوئن  و باضمیر ہونا کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ 

س:آج کل کی شاعری سے آپ کس حد تک مطمئن ہیں۔ میری مراد شاعرات سے ہے؟   

ج: پاکستانی شاعرات میں سنجیدہ شعر کہنے والی خواتین کی بھی کمی نہیں جن  پر مکمل اعتماد و بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔

س:آج کل بہت سی تنظیمیں بنی ہوئی ہیں،ادب کی ترویج و اشاعت میں ان کا کیا کردار ہے؟ 

ج:آج کل پاکستان بھر میں نیشنل و انٹرنیشنل سطح پر بے شمار ادبی تنظیمیں ادب کی ترقی و ترویج میں دن رات کوشاں ہیں اور

 برصغیر پاک و ہند کے صحت مندانہ ادبی رجحانات کی ترجمان  ہیں۔ 

س:آپ کی اپنی پسندیدہ شاعری اور وجہ پسند؟ 

ج:میری پسندیدہ شاعری غزل ہے 

اور پسندیدگی کی وجہ یہی ہے کہ شاعری کی اصل روح غزل ہے۔

میری  پسندیدہ غزل:


 گردشیں سدا رہیں عشق کے امور میں

زندگی بسر ہوئ صبر کے شعور میں 


سوچ کے پروں پہ تھیں وصل کی اطاعتیں 

آنکھ پھر جھکی رہی آپ کے حضور میں 


اشک جب رواں ہوئے ہجر کے عذاب میں

پانیوں نے کر دیا دشت بھی سرور میں 


چھو لیا عروج کو ،جستجو تمام تھی 

حسن نے جلا دیا وصل کوہِ طور میں


دھوپ سے سنور اٹھیں چائے کی پیالیاں 

قرب سے بھری رہی میز بھی غرور میں


وصل میں کہاں ہوا دیکھنا  جناب کو آسماں نے کر دیا حسن کو وفور میں


اب کبھی نہ آئے گا موسم ِ بہار گل 

باغباں جلا گیا گلستاں قصور میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  

میرے بچے تری ہی خاطر تو میں نے اپنوں سے چوٹ کھائی ہے 


حسن تیرے لئے گنوایا ہے عمر تیرے لئے بتائی ہے

  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔

Saturday, May 18, 2024

شبیر احمد بھٹی ( افسانہ نگار ، کالم نگار ، ڈرامہ نگار )انٹرویو : صاحب زادہ یاسر صابری

 









شبیر احمد بھٹی 

افسانہ نگار،کالم نگار اور ڈرامہ نگار

انٹرویو: صاحبزادہ یاسر صابری

03115311991


معروف افسانہ نگار،کالم نگاراور ڈرامہ نگار شبیر احمد بھٹی ضلع اسلام آباد کے نواحی علاقےبھارکہو میں پیدا ہوا۔آپ نے گریجویشن تک تعلیم حاصل کی ہے۔آپ کے افسانوں اور کہانیوں کی کتاب  تیرھواں ستارا شائع ہو چکی ہے۔ 

افسانے/ کہانیاں لکھنے کا آغاز کب اور کیوں کیا؟

          اس سوال کا جواب بہت طویل ہے۔ پہلے کب اور پھر کیوں کا جواب دوں گا۔ ادبا اور شعرا کی اگر زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ عموماً ادیب اور شاعر اوائل عمری میں ہی لکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ گریجویشن تک میرے علم میں بھی نہ تھا کہ میں بطور نثر نگار یا شاعر بن کے ابھروں گا۔ میں نے تقریباً 25 سال کی عمر میں پہلا ٹوٹا پھوٹا شعر کہا تھا۔ جو مجھے آج بھی یاد ہے۔

چاہتوں کا فاصلہ عجیب پایا 

 دور رہ کے تجھے قریب پایا 

کون کہتا ہے تنہا ہے شبیر 

 میرے ساتھ ہے تیرا مہیب سایا 

اور اس سوال کا جواب میرے پاس نہیں ہے۔ کہ میرے اندر کے چھپے ہوئے ادیب نے ظاہر ہونے میں اتنی دیر کیوں لگا دی۔ ہاں ایک بات میں ضرور کہوں گا۔ 1982ء میں ہمارے گھر پہلا بلیک اینڈ وائٹ فائبر باڈی 14 انچ کا ہٹاچی ٹی وی آیا۔ جو اس دور کا جدید ٹی وی تھا۔ میں جب بھی ٹی وی ڈرامہ دیکھتا۔میرے اندر یہ خواہش جنم لیتی کاش میں بھی ایک ڈرامہ نگار ہوتا۔ اور جب میں اخبار میں چھپا ہوا کوئی کالم پڑھتا۔ تو میں خود سے کہتا کاش میں کوئی کالم نگار ہوتا۔ جب میں کسی محفل میں جاؤں تو لوگ کہیں کہ یہ شخص کالم نگار/ ڈرامہ نگار ہے۔ 

          1996ء میں مجھے بھارہ کہو کے ایک مقامی پرائیویٹ تعلیمی ادارے کا انتظام سنبھالنے کا موقع ملا۔ میرے لیے یہ پہلا پلیٹ فارم تھا۔ جہاں مجھے اپنی تخلیقی صلاحیتیں اجاگر کرنے کا موقع ملا۔ میں بچوں کے سالانہ فنکشنز کے لیے چھوٹے چھوٹے خاکے اور مشاعرے تیار کیا کرتا تھا۔ مگر میرے تخلیقی ارتقاء کا سفر سست روی کا شکار رہا۔ اس کی ایک بنیادی وجہ ہم خیال ادبی حلقہء احباب کی عدم دستیابی بھی تھی۔ 2005ء سے میرا ادبی سلسلہ آگے بڑھنا شروع ہوا۔ یہ میرے ادبی ارتقاء کی پہلی سیڑھی تھی۔ جب میں نے چند صفحوں سے نکل کر افسانہ کہانی اور کالم لکھنا شروع کر دیا۔ پھر اپنے ہی علاقے کے کچھ ادبی دوستوں سے ملاقات ہو گئی۔ جن کی مشاورت سے 2013ء میں مقامی سطح پر پہلی ادبی تنظیم "بزم تخلیق و تحقیق" کی بنیاد رکھی۔ پھر میں نے بلا جھجھک لکھنا شروع کر دیا۔

             لفظ کیوں سے مراد حادثہ ہے۔ یہ جملہ زبان زد عام سننے کو ملتا ہے۔ کہ شاعر یا ادیب کسی حادثے کی پیداوار ہے۔ میرے نزدیک یہ خیال 75 فی صد غلط ہے۔ ماحول سے تحریک مل سکتی ہے۔ شاعری یا نثرنگاری ایک فطری صلاحیت ہے۔ اور قلم کار جب تک اپنے خیالات کا اظہار کسی کورے کاغذ پر منتقل نہ کر لے وہ چین سے نہیں بیٹھ سکتا۔

آپ کی اب تک کتنی تصانیف منظر عام پر آ چکی ہیں؟

          میری اب تک ایک ہی تصنیف "تیرھواں ستارا" افسانے/ کہانیاں  منظر عام پر آئی ہے. اور دوسری تصنیف "ریوڑ" افسانے/ کہانیاں بعید نہیں کہ انٹرویو چھپنے تک منظر عام پر آ جائے۔

کیا آج کا ادیب اپنی ذمہ داریاں خوب نبھا رہا ہے؟

          اس سوال کا سب سے بہتر جواب ایک قاری دے سکتا ہے۔ کہ ایک ادیب اپنی ذمہ داریوں سے کس قدر مخلص ہے۔ بہرکیف ادیب اپنی اپنی استطاعت کے مطابق اپنے حصے شمیں جلائے جا رہے ہیں۔

آپ افسانے کے علاوہ کالم بھی لکھتے ہیں؟

          جی میں نہ صرف افسانہ بلکہ بچوں کے لیے کہانیاں، کالم، ڈرامے اور ہلکی پھلکی شاعری بھی کرتا ہوں۔

آپ کے کالم کن اخبارات میں شائع ہوئے؟ 

        میرے زیادہ تر کالم مقامی اخبارات نوائے مری، روزنامہ جاگیر میں شائع ہوئے۔ آج کل روزنامہ گرفت اور میڈیا زون میں شائع ہو رہے ہیں۔

آپ کے ادبی اعزازات و اسناد کی تفصیل؟

          مجھے اپنی پہلی تصنیف پر انٹرنیشنل رائٹرز فورم سے اعزازی شیلڈ،

تنظیم کار خیر پاکستان سے گولڈ میڈل اور اعزازی سند،

الوکیل کتاب ایوارڈ سے گولڈ میڈل اور سند اعزاز،

سرتاج سخن وارث شاہ گولڈ میڈل مل چکا ہے۔

اس کے علاوہ میری یہ تصنیف "سردار ادب" ایوارڈ لاہور کے لیے منتخب ہو چکی ہے.

اور "گلوبل رائٹرز ایسوسی ایشن اٹلی" گرینڈ ایوارڈ سند امتیاز کے لیے منتخب ہو چکی ہے۔

آپ کس کے لیے لکھتے ہیں؟

          قہقہ لگاتے ہوئے۔ دیکھیے صابری صاحب میں کسی محبوبہ کے لیے تو لکھ نہیں رہا۔ میں نے اب تک 52 افسانے کہانیاں لکھے ہیں۔ ان میں صرف ایک افسانہ "گڈا" رومانوی افسانہ ہے۔ قلم کی نوک لکھاری کے اختیار میں ہوتی ہے جدھر چاہے موڑ لے۔ میرے نزدیک خاطر خواہ رومانس محض جذبات خراب کرنے کے مترادف ہے۔ میرا فوکس سماجی اور قومی نوعیت کے مسائل ہیں۔

شعر و ادب کے فروغ کے لیے اخبارات کا کیا کردار ہے؟

           میں اخبارات کو الزام تو نہیں دے رہا۔ شاید عوام کی عدم دلچسپی سوشل میڈیا اور اینڈرائڈ موبائل کے آنے کی وجہ سے پہلے جیسا نہیں رہا۔ باقی آپ خود صحافی ہیں۔ یقیناً مجھ سے بہتر جانتے ہوں گے۔

ادب کی ترویج  و اشاعت کے لیے کیا اقدامات کرنے چاہیں۔

          موجودہ نوجوان نسل کو فروغ ادب کے لیے کالجز اور یونیورسٹیوں کی سطح پر زیادہ سے زیادہ ادبی تقریبات منعقد ہونی چاہیں۔

اس وقت جو تنظیمیں قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے ان کو شیلڈز اور میڈلز وغیرہ دے رہی ہیں۔ میرا ان کو یہ صائب مشورہ ہے کہ ہر ضلعے کی آرٹس کونسل قلم کار کی تصنیف کی تقریب پذیرائی اپنے ذمے لے لیں۔ اور کسی بھی لکھاری کی تصنیف کی پورے پاکستان کی آرٹس کونسلز میں تقریب پذیرائی کی تقاریب منعقد کرانی چاہیں۔

خطہ پوٹھوہار میں نثری ادب کے حوالے سے آپ کیا کہنا پسند کریں گے؟

          خطہ پوٹھوہار کے ادیب اپنی ذمہ داریاں بااحسن و خوبی نبھا رہے ہیں۔ ہر لکھاری میرا فخر ہے۔ لیکن جب میں کسی انعامی تقریب میں شرکت کے لیے جاتا ہوں۔ وہاں جب خطہء پوٹھوہار کے ادیب کا نام پکارا جاتا ہے۔ تو دل کو ایک تسکین سی ہوتی ہے۔

آپ کے خیال میں اس وقت اسلام آباد کا نمائندہ افسانہ نگار کون ہے؟

         ہو سکتا ہے میری جانچ کا معیار اتنا معقول نہ ہو۔ میرے نزدیک ایک بڑے افسانہ نگار سے بھی پھیکی تحریر لکھی جا سکتی ہے۔ اور ایک نئے لکھاری سے شاہکار تحریر بھی لکھی جا سکتی ہے۔ میری نظر ذاتی طور پر لکھاری کی تخلیق پر ہوتی ہے۔ میرے نزدیک ہر شاہکار تحریر کو نمائندہ تحریر کا مقام دینا بہتر ہے۔

شاعرہ دوی سدھو ( انتخاب : امرجیت سنگھ جیت )

 









چڑھدے پنجاب دی نامور شاعرہ دوی سِدھو ہوراں دی قلم دا ادبی رنگ:


1

کِہڑی اُنگل


باپو دی اُنگل تے

وجّی داتری

فون کر پتہ لَینی آں۔


کِہڑی اُنگل تے

سٹّ وجّی باپو؟


اگّوں

سہِج متے

پتہ کیہ کہِندا؟


جِہڑی اُنگل نوں

پھڑھ کے توں

تُرنا سِکھیا سی پُتّ۔


تے اگّوں

مینوں کوئی گلّ نہ آئی۔




2

دعوہ


اوہ کردا ہے

دعوہ

کہ

دُنیا دی

ہر خوبصورت عورت 

بےوفا ہے


میں

کہِنی آں

قائم رہیں

آپنے اس دعوے تے

میں بھجن نئیں دینا

جاں تاں کہِدے

تیری ماں سوہنی نئیں

جاں

کہِدے

اوہ بےوفا ہے۔


3




گُڈّیاں


مینھ

نہ پوے

گُڈّیاں ساڑدیاں نے

نیانیاں کُڑیاں

کردیاں نے

ناٹک

پٹّ سیاپا کرن دا

آکھے لگکے

سیانیاں

دادیاں ماواں دے


سوچیا

کیوں نہ میں

گُڈّا ساڑ کے دیکھاں

تے کراں

خوب پِٹّ سیاپے دا

ناٹک


فیر

سوچیا

رہن دے منا

ایویں

غصہ کرنگیاں

سیانیاں

دادیاں ماواں

پہُنچیگی ٹھیس

کومل مناں نوں

بھولیاں

آساں نوں...


دوی سِدّھو

Tuesday, May 14, 2024

محمد یعقوب فردوسی ( انٹرویو : صاحب زادہ یاسر صابری )

 









محمد یعقوب فردوسی

انٹرویو: صاحبزادہ یاسر صابری

03115311991


محمد یعقوب فردوسی یکم فروری 1968ء کو محمد حسین کھیڑا کے ہاں چک نمبر دو شمالی بھلوال سرگودھا میں پیدا ہوئے۔ آپ اردو اور پنجابی ہر دو زبانوں میں اور ادب کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کرتے ہیں۔جس میں حمد، نعت، منقبت، مناجات غزل، ناول، ماہیا، افسانہ کالم، مقالہ، مکالمہ، گیت کہانی، دوہڑہ(پنجابی) شامل ہیں۔ 

میٹرک دیگر چند کورسز

ذریعۂ معاش:نائب صوبیدار

              کلرک پاک آرمی

شرفِ تلمذ:امین خیال، سرور انبالوی

           فقیر اجمل جنڈیالوی

           ڈاکٹر آرزو انبالوی

تخلیقات:شائع شدہ 60 کتب

           زیرِ اشاعت 10 کتب

           تشنۂ اشاعت 105 کتب

ایوارڈز

۔۔۔۔۔۔

۔   (1)ملٹری-10

۔   (2)سول-500

۔   (3)میڈلز-500

اعتراف

۔۔۔۔۔۔

۔   (1)افسانہ نگاری پر ایم فل

۔   (2)جدید نعت پر ایم فل

۔   (3)عالمی اردو کانفرس میں مقالہ

۔   (4)عساکر پاکستان کے نثر نگار

۔   (5)شعراء کے پی ایچ ڈی

۔        کے مقالہ میں شمولیت

۔   (6)گوجرانوالہ کے نعت گو شعراء پر

۔        ایم فل کے مقالہ میں شمولیت

۔   (7)اردو ماہیا کے حوالے سے

۔        پی ایچ ڈی کے مقالہ میں شمولیت

۔   (8)فن اور شخصیت پر (زندانِ قلندر)

۔   (9)ایم اے کے لیول کے

۔        3 مقالہ جات میں شمولیت

۔   (10)18 اخبارات و جرائد نے

۔        خصوصی گوشے شائع کیے

۔   (11)6 اخبارات و جرائد نے

۔        فردوسی نمبر شائع کیے

ورلڈ ریکارڈز

۔۔۔۔۔۔۔۔

۔   (1)مدینہ مدینہ پیارا مدینہ

۔        (نعتیہ اردو ماہیانگاری پر

۔        سب سے پہلا مجموعہ)

۔   (2)کن فیکون

۔        نعتیہ اردو ماہیا نگاری پر

۔        دنیا کا سب سے بڑا مجموعہ 

آپ کی مندرجہ ذیل کتب شائع ہو چکی ہیں۔ مدینہ مدینہ پیارا مدینہ آقا کملی والے۔ محمد کے نام سے۔ مینڈے لچپال آقا۔مینڈے سویٹ آقا۔  خواب مدینے کے۔ نور مدینے کا۔ حرف حرف خوشبو۔ پارسا لوگ۔ چورے والے باوا جی۔ دیوانہ دیدار کا۔ لجپال سخی لجپال۔ فیضان شاہ سلیمان۔ زیارت فقراں دی۔ گستاخ اکھیاں۔ چراغ الہی۔مرشد سائیں۔مولا حسین علیہ السلام لجپال غریباں دے۔لجپال زمانے کے۔سرتاج اولیا سچیار پاک۔اکو تیرا الف بڑا( دو مرتبہ) ۔مئے گلفام۔ میلے سانواں دے۔ چاہت کے پھول۔ اتھروں چاواں دے۔ ابھی قید پرندے ہیں۔ لبھنا نئیں لعل گنواچا۔ ساڈے ول مکھڑا موڑ(دو مرتبہ)ورفعنا لک زکرک۔درباری راج کمار۔دو نیناں دی جوگن۔ عشق دھمال۔ حمیدی قلندر۔ مرشد ماہم۔ کن فیکون(دو مرتبہ) باب الحواج۔ نوشہ سلطان۔ فضل شاہ کلیامی۔ پیرا شاہ قلندر۔ لعلاں دا ونجارا۔ اکھر پان دھمال۔ یاران ادب۔ ماہیا۔ کوڑی چھاں۔ می رقصم۔ ایاک نعبدو۔ سادھو ہوندے رب ورگے۔ فضائل درود و سلام۔ مرشد ماہم (ملتان) ۔  

نعتِ پاک

ہیں افضل تریں تاجدارِ مدینہ

کوئی جا کے دیکھے بہارِ مدینہ


پلٹ دی عرب کی محمد نے کایا

ہے قائم انھی سے وقارِ مدینہ


تڑپتا پے دل یادِ ختم الرسل میں

کہ آنکھوں کو ہے انتظارِ مدینہ


مقدر میں ہو ایک کٹیا عرب میں

ملے مولا مجھ کو دیارِ مدینہ


خدائی کے وارث بنے شاہِ شاہِ بطحا

حبیبِ خدا تاجدارِ مدینہ


ردائے کرم تان دیں مجھ پہ آقا

بنوں میں اک جانثارِ مدینہ

سوال۔ کچھ اپنے بارے بتائیں؟

جواب۔ میرا تعلق ایک زمیندار گھرانے سے ہے میرے والد کھیتی باڑی کیا کرتے تھے میرا نام محمد یعقوب ہے اور فردوسیؔ تخلص رکھتا ہوں آپ کو یہ جان کر خوشی ہو گی کہ میں پانچ قلمی ناموں سے لکھتا ہوں اور آج تک لکھ رہا ہوں میرے قلمی ناموں میں محمد یعقوب فردوسیؔ، قربان علی عادلؔ، عصمت یعقوب خاکیؔ، عصمت فردوسیؔ اور محمد یعقوب قلندرؔ شامل ہیں جبکہ ان دنوں میں ناصر علی دائم ؔنوشاہی کے نام سے بھی لکھ رہا ہوں۔  

سوال۔ آپ کا بچپن کہاں اور کیسے گزار وہاں کی کوئی یادیں ؟

جواب۔ جب میں نے ہوش سنبھالا اس وقت راولپنڈی میں تھا اور وہاں کی دو منزلہ بسیں جو آج نایاب ہو چکی ہیں ان پہ سفر کرنا میری زندگی کا قیمتی اثاثہ ہے۔ اس کے علاوہ تو بس الف انار سے اِکو تیرا الف بڑا تک بے شمار یادیں ہیں جن کو یکجا کرنے کے لئے بڑے بڑے دیوان لکھنا پڑیں گے۔

سوال۔ آپ نے تعلیم کہاں سے حاصل کی؟

جواب۔ درویش لوگوں کی درسگاہیں اولیائے کرام کے آستانے ہوتے ہیں جہاں سے وہ تعلیم حاصل کرتے ہیں اس حوالے سے ایک شعر آپ کی نذر کرتا ہوں:۔

عین شین قاف دی درسگاہ اندر ادب آداب فقر سکھائے جاندے

ایہہ جُوہ اے الف پڑھاکواں دی جتھے واحدت دے جام پلائے جاندے

گُرو رہندے عشق دھمال پاندے جشن پیار پریت منائے جاندے

فردوسیؔ ایہہ در نیں اللہ والیاں دے جتھے غوث، قطب، ابدال بنائے جاندے

تاہم دنیاوی تعلیم کے حوالے سے ہم نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں چک نمبر 2 شمالی بھلوال سے حاصل کی اور پھر میڑک کا امتحان گورنمنٹ ھائی سکول بھلوال سے پاس کیا اور پھر ایف ایس سی کے لئے گورنمنٹ ڈگری کالج بھمبر آزاد کشمیر چلے گئے اور پھر کالج چھوڑ کر پاکستان آرمی جائن کر لی اور مختلف جگہوں سے پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کی جن کا یہاں زکر کرنا مناسب نہیں۔

سوال۔ آپ اپنے لئے لکھتے ہیں یا دوسروں کے لئے؟

جوان۔ ہم نے آج تک ایک لفظ بھی اپنی زات کے لئے نہیں لکھا اس بات کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ ہم نے آج تک کوئی کتاب فروخت نہیں حتیٰ کہ دو ہزار دو سو بہترصفحات کی کتاب  کن فیکون تک جو آج ورلڈ ریکارڈ قائم کر چکی ہے سب کی سب دوسروں کی لئے ہیں گویا میں اپنے لئے ہر گز نہیں دوسروں کے لئے لکھتا ہوں اور یہ بھی میرا منفرد اعزاز ہے

سوال۔ پہلے شاعری وجود میں آئی یا علم عروض؟

جواب۔ حضور شاعری کا وجود قرآن مجید میں موجود ہے اور شاعری ایک عطیہ خداوندی ہے اس طرح شاعری پہلے وجود میں آئی اور پھر علم عروض کی جب ضرورت محسوس کی گئی تو اس پہ صاحب علم و دانش نے کا شروع کیا جو ہر دور میں جاری رہا اور آج تک جاری ہے۔ 

سوال۔ علم عروض کی ابتداء کیسے ہوئی اور ان اوزان کو کیسے بنایا گیا؟

جواب۔ علم عروض کی ابتداء میرے ناقص علم میں نہیں اور نہ ہی میں علم عروض کا کوئی ماہر ہوں اور نہ ہی علم عروض کا کوئی استاد میں تو ایک ادنیٰ سا قلمکار ہوں اس لئے میں اس حوالے سے میں معذرت خواہ ہوں۔

سوال۔ کیا آپ کے زہن میں نئی نسل کی بہتری رہتی ہے؟

جواب۔ جی ہاں میں نے جب سے لکھنا شروع کیا اور آج تک نئی نسل کی بہتری کی سوچ لئے محو رقص ہوں۔یہی وجہ ہے کہ نئی نسل سے میرے چاہنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے اگر میرے زہن میں یہ سوچ نہ ہوتی تو آج میں گمنامی کی زندگی بسر کر رہا ہوتااور گمنامی تو تاریکی کا دوسرا نام ہے جس کی کبھی صبح نہیں ہوتی۔

سوال۔ کیا آپ فن پارے کی پہلی شکل سے مطمئن ہو جاتے ہیں؟

جواب، کسی بھی فن پارے کا تخلیق ہو جانا ہی اس کے مطمئن ہو نے کی دلیل ہوتی ہے تاہم اس پہ نظرثانی کی گنجائش باقی رہتی ہے کیوں کہ بعض اوقات لفظی غلطیاں رہ جاتی ہیں جن کو دور کرنا ضروری ہوتا ہے۔

سوال۔ اب تک کی اپنی تخلیقات کے بارے میں بتائیں؟

جواب۔ حضرت صاحب اس وقت تک میرے ساٹھ کے قریب شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں جن میں پچاس کے قریب حمدو نعت، منقبت اور مناجات کے صنف ماہیا پر مشتمل ہیں جبکہ دس شعری مجموعے اشاعت کے مراحل میں ہیں اور ایک سو ایک سے زائد کتب پائپ لائن میں ہیں۔ پائپ لائن میں موجود تمام تر کتب اخبارات و رسائل میں شائع ہو چکی ہیں۔ اور یہ بھی مولا کے مجھ پہ احسان اور کرم کی کوئی حد نہیں، ہم نہیں آج تک جو لکھا اس کو لوگوں نے اس حد تک پسند کیا کہ ہم حمد، نعت،منقبت، مناجات، غزل، نظم،کہانی، افسانہ، ناول، مراسلہ،گیت نگار، ماہیانگار بن گئے اور آپ کو یہ جان کر بھی خوشی ہو گی کہ ہم نے تقریباََ ادب کی تمام تر اصناف میں طبع آزمائی کی اور خوب داد سمیٹی۔ 

سوال۔ اب تک کی اپنی تخلیقات سے آپ مطمئن ہیں؟

جواب۔ مالک کائنات کے کرم ہیں کہ ہم درویش لوگ اپنی تخلیقات سے مطمئن ہیں اور یہ اسی بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ آج ہم پوری دنیا میں اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔

سوال۔ کیا آپ نے کوئی بڑا ادبی کارنامہ سر انجام دیا ہے؟

جواب۔ اردوماہیا نگاری پر اس درویش کا ایک بڑا ادبی کارنامہ دنیا قبول کر رہی ہے وہ یہ ہے کہ اردو ادب کی تاریخ میں صنف ماہیا پر دنیا کاسب سے پہلا نعتیہ مجموعہ مدینہ مدینہ پیار ا مدینہ اور نعتیہ و منقبتیہ ماہیا پر دنیا کی سب سے بڑی کتاب کن فیکون ہے اور مجموعی طور پرماہیانگاری میں ایک لاکھ کا ہندسہ ہم عبور کر چکے ہیں جو ایک عالمی ریکارڈ ہے اور ماہیا کی تخلیقات پر ابھی کام جاری و ساری ہے جو ہمارا عالمی ریکارڈ قائم رکھنے میں مدد گار ثابت ہو گا۔

سوال۔ کیاآپ اپنی سابقہ تخلیقات پر نظر ثانی کرتے رہتے ہیں؟

جواب۔ نہیں حضور میں سابقہ تخلیقات پر نظرثانی نہیں کرتا کیونکہ جو چیز ایک محقق، نقاد یا تبصرہ نگار کے ہاتھ میں ہو اس پر نظر ثانی چہ معنی دارد۔

سوال۔ کیا آپ لکھنے سے پہلے غوروخوض کرتے ہیں؟

جواب۔ جی مُرشد بعض اوقات تو سال ھا سال گزر جاتے ہیں اور پھرقلم حرکت میں آتا ہے اور پھر جب قلم حرکت میں ہے تو وہ لکھتا ہی چلا جاتا ہے اور لفظ اس کی نوک پہ دھمال ڈالتے ہیں تو ایک شاہکار جنم لیتا ہے۔ 

سوال۔ کیا تخلیقی عمل کے لئے مطالعہ ضروری ہے؟

جواب۔ مطالعہ کے بغیر تخلیقی عمل ادھورا ہی نہیں بلکہ  نا ممکن ہے کیوں کہ مطالعہ کے بغیر کوئی نئی چیز تخلیق ہو ہی نہیں سکتی اور ہر دور میں مطالعہ بہت اہمیت کا حامل رہا ہے۔ میرے نزدیک بھی مطالعہ بہت ضروری ہے چاہے وہ قرآن مجید کی ایک آیت یا احادیث مبارکہ ہی کیوں نہ ہو اور پھر مطالعہ کے بغیرتو زندگی ہی ادھوری ہے۔

سوال۔ ماہیا کے حوالے سے آپ اب سند کا مقام رکھتے ہیں ماہئے کی بعض خصوصیات بتائیں گے؟

جواب۔ ماہیا کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ آپ صرف تین مصرعوں میں پوری تاریخ یا اپنے دل کی بات بیان کر سکتے ہیں جو شاعر حضرات بیان کرنے کے لئے سینکڑوں اشعار کا سہارا لیتے ہیں اور پھر بھی دل کی بات پوری نہیں کہہ پاتے۔

سوال۔ آپ کے نزدیک ماہیا کا مستقبل کیا ہے؟

جواب۔ ماہیا کا مستقبل بہت روشن ہے دراصل ماہیا کی بنیاد تین مصرعی صدیوں پُرانی ہے اور اس کا وجود ہمیں عربوں میں بھی ملتا ہے یہاں میں صرف سورت کوثر کا حوالہ دینا ہی کافی سمجھوں گا اور میری ماہیا نگاری کا محور ہی قرآن مجید کی یہ سورت ہے۔اس ضمن میں آپ تاریخ سے استفادہ کرسکتے ہیں۔

سوال۔ آپ نے اردو میں ماہیا نگاری کا رخ پنجابی ماہیا کے وزن کے مطابق کرنے میں اہم کردار کیا ہے اس سلسلے میں اب کیا صورتحا ل ہے؟

جواب۔ نہیں حضور اردو ماہیا اور پنجابی ماہیا ہئیت کے اعتبار سے مختلف ہے۔اردو ماہیا تو ابھی نومولود ہے جب کہ پنجابی ماہیا صدیوں پرانی تاریخ کا حامل ہے۔اردو ماہیا کی ابھی تک تاریخ لکھی ہی نہیں گئی میں یہ عرض کرتا چلوں کہ اردو ماہیا سب سے پہلے ایک ہندو شاعر ہمت رائے شرما نے 1934 میں پہلی بار اپنی فلم خاموش کے لئے لکھے اور اگر آج کی بات کی جائے تو حیدر قریشی، علامہ امین خیال، ڈاکٹر مناظرہرگانوی، نذیر فتح پوری اور ڈاکٹر عارف فرہاد صاحب نے اس حوالے سے بہت  زیادہ کام کیا ہے جس سے اردو ماہیا ایک تحریک کی صورت اختیار کر چکا ہے جبکہ اردو ادب میں میرے ناقص علم کے مطابق ابھی اردو ماہیا کو الگ صنف تسلیم ہی نہیں کیا گیا۔ پاکستان سے ہٹ کر بھی دنیا کے پیشتر ممالک میں اردو ماہیا اور اس کی تحریک پرخوب کام ہو رہاہے۔اردو ماہیا تین مصرعی ہئیت میں ہے جبکہ پنجابی ماہیا کی تاریخ تو صدیوں پرانی ہے اور اس کی ہئیت ڈیڑھ مصرعی ہے اس طرح اردو اور پنجابی ماہیا ابھی تک یکجان نہیں ہو پائے اور ماہیا کی ہئیت کے اعتبار سے مختلف نقاد کی آر ا مختلف ہے جو آپ ڈاکٹر عارف فرہاد  صاحب کی کتاب اردو ماہئے کے خدوخال میں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔تاہم میں نے پنجابی اور اردو ماہیا کو تین مصرعی ہئیت میں پروان چڑھایا جس کے خاطر خواہ نتائج  آج آپ کے سامنے ہیں۔

سوال۔ کس مکتبہ فکر سے آپ کی شاعری متاثر ہے کیا ادب اور شاعری کو نظریاتی ہونا چاہئے؟

جواب۔ حضور والا اِن دنوں ہم درویش لوگ تصوف کی دنیا میں غوطہ زن ہیں اور ہم مکتبہ عشق سے جم لینے والی شاعری سے متاثر ہیں جس میں حضرت بابا بلھے شاہؒ، سید وارث شاہؒ، بابا غلام فریدؒ، میاں محمد بخشؒ اور بابا گُرونانک کے اسما گرامی نمایاں ہیں جبکہ میں ادب اور شاعری میں کسی خاص نظریہ کا قائل نہیں ہوں اور آپ بھی میری اس بات سے اتفاق کریں گے

سوال۔ ماہیا میں آپ نے بھرپور تخلیقی کام کیا ہے۔ اس تحریک کو آگے بڑھانے میں آپ کی کاوشوں کا اعتراف ضروری ہے۔موجودہ ادبی حالات کے تناظر میں مختلف آراکے ساتھ ماہئے کے مستقبل کا تعین کس طرح کریں گے؟

جواب۔ حضور والا کل تک جو نقاد اردو ماہیا کو ایک صنف نہیں مانتے تھے آج وہی اردو ماہیا کے گن گاتے دکھائی دیتے ہیں اس کے ثبوت میں، میں ایک بار پھر ڈاکٹر عارف فرہاد صاحب کی کتاب اردو ماہئے کے خدوخال کا حوالہ دینا چاہوں گا جس کو آپ دیکھیں تو آپ پر آشکار ہو جائے گا کہ اردو ماہیا کے اوّلین ماہیا نگاروں میں صرف نام لکھونے کی دوڑ میں کون کون شامل ہیں لیکن وہ لوگ یہ سمجھے تھے کہ یہ ایک نومولود صنف ہے اور اس کا کوئی مستقبل نہیں مگر آج دنیا کے نقاد نے اردو ماہیا کو ایک صنف تسلیم کر لیا ہے اور اس کی پذئرائی عالمی سطح پر ہو رہی ہے جبکہ اردو ماہیا کی تحریک کے حوالے سے دنیا بھر کے شاعر، نقاد اور محقق اس بات پر متفق ہیں کہ اردو ماہیا ادب کی ایک الگ صنف ہے جس کا مستقبل بہت روشن ہے آپ دیکھیں گے کہ مستقبل قریب میں حکومتی سطح پر بھی اسے خوب پذیرائی ملے گی۔

سوال۔ آپ کس روحانی سلسلہ سے تعلق رکھتے ہیں؟

جواب۔ آپ ادبی دنیا سے روحانیت کی دنیا میں پڑاؤ لگانے جا رہے ہیں، مرے لئے یہ بہت خوش آئند بات ہے کہ لوگ میرے سلسلہ طریقت کے بارے میں بھی لوگ جان سکیں۔سب سے پہلے اور سب سے بڑی بات جان کر آپ کو خوشی ہوگی اور حیرت بھی وہ یہ کہ میں طریقت کی دنیا میں ایک سو ایک سے زائد دستاریں سر پہ سجائے ہو ئے ہوں اور میں ہر سلسلے سے صاحب لباس ہوں یہ مالک کائنات کے مجھ پا کرم ہی کرم ہیں میں جس سلسلے کا چاہوں لباس زیب تن کر لوں جہاں تک میرے سلسلے کا تعلق ہے تو میں حضرت سخی لعل شہباز قلندر ؒسائیں کی نسل پاک میں سید آغا شوکت علی شاہ سرکار کا مُرید خاص ہوں اور پھر میں چشتی صابری سلسلے میں بھی مردِ با صفا حضرت سید دیدار حسین شاہ لجپال کا مُرید بھی ہوں اور پھر امام سلسلہ نوشاہیہ حضرت حاجی محمد نوشہ گنج بخش ؒسرکار کی نسلِ پاک میں بھی میں سید محمد زمان شاہ المعروف  نوشاہی دولے شاہ کی آنکھوں کا تارا ہوں۔اور پھر مجھے حضرت سید مالن شاہ قلندر ؒ، حضرت امام بری شاہ قلندرؒ، حضرت پیرے شاہ قلندر المعروف دمڑی والی سرکارؒ، حضرت کانواں والی سرکارؒ، حضرت خواجہ معین الدین چشتی سرکار، حضرت حاجی بہادر باباؒ سرکار الغرض سینکڑوں اولیائے کرام سے نہ کہ مجھے پیار ہے بلکہ ہم درویشوں نے ان  ہستیوں سے روحانی فیض پایا ہے اور پا رہے ہیں اورتا قیامت پاتے رہیں گے۔حضور بہتر ہو گا کہ اس موضوع پر الگ سے نشست رکھی جائے تاکہ تصوف کے دیوانوں کو کچھ حاصل ہو پائے اور وہ اولیائے کرام کے بارے میں کچھ جان سکیں۔ اس حوالے سے میری ایک کتاب می رقصم بھی منظر عام پر آ رہی ہے۔   

سوال۔ شعر و ادب کے حوالے سے آپ کا آئندہ کا کیا پروگرام ہے؟

جواب۔ حضرت صاحب اس وقت میری دس کتابیں پریس میں اشاعت کے مراحل میں ہیں جو سال رواں میں منظر عام پر آ جائیں گی۔ انشاء اللہ ان کی اشاعت کے بعد ہم چاہتے ہیں کہ اپنی پانچ بڑی کتابیں پھر سے منظر عام پر لائیں جو کہ درجہ ذیل ہیں یاد رہے کہ یہ ساری کتابیں نعتیہ و منقبتیہ اردو، پنجابی ماہیا نگاری پر مشتمل ہیں:۔

1 باغ عدن ایڈیشن نمبر 1 اِکو تیرا الف بڑا 1072 صفحات

(اس کتاب کا یہ تیسرا ایڈیشن ہو گا)

2 باغ عدن ایڈیشن نمبر2 ساڈے ول مکھڑا موڑ1712 صفحات

(اس کتاب کا یہ تیسرا ایڈیشن ہو گا)

3 باغ عدن ایڈیشن نمبر 3 ورفعنا لک زکرک 2048 صفحات

(اس کتاب کا یہ دوسرا ایڈیشن ہو گا)

4 باغ عدن ایڈیشن نمبر4 کن فیکون 2272 صفحات

(اس کتاب کا یہ تیسرا ایڈیشن ہو گا)

5 باغ عدن ایڈیشن نمبر5 ایاک نعبد 2080 صفحات

(اس کتاب کا یہ  دوسرا ایڈیشن ہو گا)

سوال۔ محمد یعقوب فردوسی صاحب آخری سوال کی جسارت کر رہا ہوں آپ اپنے معترفین کے لئے کیا پیغام دینا پسند فرمائیں گے؟

جواب۔ حضرت صاحب درویش لوگ کیا پیغام دے سکتے ہیں یہ تو حضرت عشق ہی بتائے گا تاہم ہمیں اپنے پیار کرنے والوں سے بس اتنا ہی کہنا ہے کہ نفرتوں کو دفن کر دیں، پیار کرنا سکھیں، پیار کرنا سیکھائیں، پیار کرنا بانٹیں، پیار کو فروغ دیں، محبت کو عام کریں، امن کو زندگی کا منشور بنا لیں کیوں کہ انبےأکرام اور اولیائے کرام کا یہی مشن تھا اور تا قیامت یہی مشن جاری و ساری رہے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Thursday, May 9, 2024

نظم ( میں دریا بن گیا ) ہرجِندر سِنگھ پتّڑ مونٹریال

 





میں دریا بن گیا


مینوں تاں ایہی پتہ سی

دریا وگدے ہُندے نے

برساتاں وِچ چڑھ جاندے

ہاڑھاں وِچ لہِ جاندے

دریا رُکدے نہیں کدے

شاید ایہی دیکھ

میں دریا بن گیا

وگن وی لگّ پیا

تے وگدا وگدا آخر

اِک دِن کینیڈا پہُنچ گیا

ایتھے پہُنچدا ہی جمّ گیا

وگدا اِک دریا 

ایس طرح کُجھ تھمّ گیا

جِویں وگنا ہی بھُلّ گیا

 ہاں جد کِتے تاپمان چڑھدا

تاں وگ وی پئیدا ہے

 ایتھے دریا ایداں ہی وگدے نے


ہرجِندر  سِنگھ پتّڑ

اظہر سجاد ( شاعر و افسانہ نگار ) انٹرویو : صاحب زادہ یاسر صابری

 









اظہر سجاد

شاعر اور افسانہ نگار

انٹرویو:صاحبزادہ یاسر صابری

03115311991


اظہر سجاد کا تعلق کھوڑ کمپنی تحصیل پنڈی گھیپ ضلع اٹک سے ہے۔ آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے انگریزی ادب ماسٹرز کیا ہے۔محکمہ سپیشل کمیونیکیشن آرگنائزیشن ((SCOسے ریٹائرمنٹ کے بعد دی ایجوکیٹرز کھوڑ کیمپس میں درس و تدرس سے وابسطہ ہیں۔  اکتوبر2017 ء سے جنوری 2022ء تک حلقہ اربابِ ذوق کھوڑ کی جائنٹ سیکریٹری رہے۔ اُس کے بعد تا حال حلقہ اربابِ ذوق کھوڑ کے سیکریٹری ہیں۔حلقہ اربابِ ذوق کھوڑ ایک فعال ادبی تنظیم ہے جس کی میں بنیاد 04   اپریل 2004 ء  میں معروف شاعر اختر عثمان اور منظر نقوی نے کھوڑ میں ابرار حسین باری، ضامن جعفری اور عقیل ملک کی ادبی سرگرمیوں اور خدمات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے رکھی۔

اظہر سجاد  حمد، نعت، سلام، نظم اور غزل کہتے ہیں۔اس کے علاوہ افسانہ نگار بھی ہیں۔  اِن کی غزلیں،نظمیں اور افسانے مختلف اخبارات اورجرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ”حلقہ اربابِ ذوق انٹرنیشنل“ کے فورم پر اِن کے متعدد افسانے تنقید کے لیے پیش ہو کر معروف ادیبوں سے داد و تحسین پا چُکے ہیں۔

 سوال۔ آپ ادب کی طرف کب آئے اور شروع شروع میں کِن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟

جوا ب۔ ادب سے وابستگی تو بچپن سے ہی تھی۔  دوران ِ ملازمت بھی لکھنے لکھانے کا عمل جاری رہا۔  شروع شروع میں دوسرے کئی لکھاریوں کی طرح مناسب ادبی ماحول میّسر نہ آنا میرے لیے سب سے بڑا مسئلہ تھا۔  لیکن حلقہ اربابِ ذوق کھوڑ سے منسلک ہونے کے بعدیہ کمی پوری ہو گئی۔

سوال۔ آپ نے لکھنے کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا پھِر آپ شاعری کی طرف کیسے آئے؟

جواب۔ میں نے لکھنے کا آغازافسانہ لکھنے سے کیا،  میں نے پہلا افسانہ تیرہ سال کی عمر میں لکھا۔  شاعری کی طرف رغبت ایک فطری عمل ہے، کیوں کہ شاعری احساسات، جذبات اور تخیلات کا جامع، منظم اور خوبصورت اظہار ہے۔  اِس لیے جلد ہی میں نے شعر کہنا شروع کر دیا۔

سوال۔ برِ صغیر پاک و ہند کی عصری شعریات میں اردو شاعری کہاں کھڑی ہے؟

جواب۔ اُردو شاعری مُسلسل ترقی کی منازل طے کر رہی ہے۔ نظم اور غزل میں نئے نئے تجربات کیے جا رہے ہیں، نئے نئے اور منفرد مضامین لائے جا رہے ہیں۔  میرے خیال میں اِ س میں اب بھی وسعت کی کافی گنجائش موجود ہے۔  اُردو شاعری کا مستقبل تابناک ہے۔

سوال۔ آپ کو اپنی ابتدائی شاعری یاد ہے؟

جواب۔ میر ی پہلی غزل جو پنجابی میں تھی اُس کے چند اشعار:

تیرے پیار نوں دِلوں بُھلا کے ویکھاں گا

دِل دا اُجڑیا شہر وسا کے ویکھا ں گا

سِدھیاں سِدھیاں راہواں تے میں ٹُرناں واں 

پتھراں دی نَگری چہ جا کے ویکھاں گا

سارے سنگی ساتھی رُس رُس جاندے نیں 

تینوں وی ہِک وار منا کے ویکھاں گا

ابتدائی شاعری میں سے ایک قطعہ

بحرِ خرد میں جھانک کے دیکھا تھا کِس لیے

خود آگہی کے شوق میں کیا ڈھونڈتا پِھرا

ڈرتا ہوں اب تو اپنے خدو خال دیکھ کر

اِک آئینوں کے شہر میں ہی گھومتا پھِرا


سوال۔ کیا مستقبل میں اُردو نظم اُردو غزل سے آگے بڑھتی نظر آ رہی ہے؟

جواب۔ میرے خیال میں غزل اپنے شعری جمال،  جامعیت  اور اختصار کی وجہ سے ہمیشہ سے شعراء کی پسندیدہ صنفِ سُخن اور پہلی ترجیح رہی ہے جوبیک وقت مشکل بھی ہے اور آسان بھی۔  جہاں تک نظم کا تعلق ہے تو ہم یہ کَہ سکتے ہیں کہ نظم نے اُردو ادب کو نئے نئے موضوعات سے روشناس کرایا ہے۔  علامہ اقبا ل، جوش، میرا جی، ابنِ انشا،  وغیرہ نے باکمال نظمیں لکھیں۔ ن۔م راشد،  مجید امجد اور رفیق سندیلوی نے نظم کو نئے جہانوں سے روشناس کرایا۔  بعض بہت اعلیٰ غزل گو شاعروں نے بھی دل کو چُھو لینے والی نظمیں تخلیق کیں۔ جِس طرح غزل نے داخل سے خارج کے طرف سفر کیا بالکل اُسی طرح نظم میں بھی خارجی رجحانات سے باطنی اکتساب کا رجحان اُبھرا۔  میرے خیال میں ابھی امکانات کا ایک خوبصورت منظر نامہ ہمارے پیشِ نظر ہے۔  لہٰذا آنے والا وقت ہی طے کرے گا کہ اُردو نظم اوراُردو غزل کیا رُخ اختیار کرتی ہیں۔

سوال۔ آپ اپنی شناخت غزل کو بنائیں گے یا نظم کو؟

جواب۔ دیکھیں! لکھیں کی صلاحیت خداداد ہوتی ہے۔ انسان کے اندر کا لکھاری جب مچلتا ہے تو وہ کسی بھی صنفِ سُخن پر طبع آزمائی کر سکتا ہے۔  ہاں بعد میں وہ اپنی کوئی خاص سمت معیّن کر سکتا ہے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں نے غزل کہی،  نظم  میں حمد، نعت، منقبت اور سلام بھی لکھے،  اس کے علاوہ افسانے بھی لکھے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ایک لکھاری کا کام لکھنا ہے۔ اب یہ قاری پر منحصر ہے کہ وہ کِس صنف کو ہماری شناخت قرار دیتا ہے۔

سوال۔ کیا آپ نے کِسی شاعر سے اثر نہیں لیا؟

جواب۔ ہم جس ماحول میں سانس لیتے ہیں اور جس معاشرے میں پروان چڑھتے ہیں یقینا اُس سے متاثر ہوتے ہیں۔  بِعَینہٖ کلاسیکی شعراء سے ہم بہت کچھ سیکھتے ہیں اور عصرِ حاضر کے شعراء سے متاثر ہونابھی ایک فطری عمل ہے۔  تاہم ہر تخلیق کار کی کوشش اور خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی ایک الگ پہچان بنائے۔

سوال۔ آپ نے اب تک اپنی کوئی کتاب شائع کیوں نہیں کرائی؟

جواب۔ چند وجوہات کی بنا پر ایسا ممکن نہ ہوسکا۔ تاہم بہت جلد میرے افسانوں کا مجموعہ شائع ہو گا۔

سوال۔ آپ کے علاقے کی اہم ادبی شخصیات؟

جواب۔ اگرچہ میرا تعلق ایک پسماندہ علاقے سے ہے۔  تاہم یہاں علم و ادب سے محبت رکھنے والوں کی ہر گز کمی نہیں۔  مرحوم کوثر جعفری کھوڑ کی معروف ادبی شخصیت تھے،  وہ باقاعدگی سے مشاعروں کا اہتمام کرتے تھے اور اُن کی متعدد کُتب بھی شائع ہو چکی ہیں۔ اسی طرح ابرار حسین باری مرحوم اور عقیل ملک نے ہمارے علاقے میں ادب کی ترویج کے لیے بہت کام کیا۔  اس کے علاوہ ضامن جعفری، عمران بشیر، جان عنایت فہمید، محمد صفی الدین، طاہر شہزاد، راجہ عرفان، محمد نور باغی، تقی رضا،جابر حسین، ابراہیم خلیل، شہزاد شناور، حسن رضا فاروق وہ لوگ ہیں جو ادب سے منسلک ہیں اور عمدہ شاعری کر رہے ہیں۔

سوال۔ معاشرے میں نثر زیادہ مؤثر ہے یا شعر زیادہ اثر رکھتا ہے؟

جواب۔ در اصل نثر ہی طویل مباحثوں اور اپنی بات عام لوگوں تک سادگی اور سلاست سے پہنچانے کی متحمل ہو سکتی ہے۔  اِسی طرح ناول، ڈرامہ اور افسانہ اپنے مخصوص طرز ِبیان کی وجہ سے ہمیشہ سے با اثر رہے ہیں۔  تاہم شعر بھی اپنے اختصار، جامعیت اور جمال کی بنا پر کافی اثر انگیز ہے۔  اِس لیے نثر اورشعر دونوں مؤثر ہو سکتے ہیں۔  اب یہ لکھاری پر منحصر ہے کہ کو کِس انداز میں اپنا مدعا بیان کرتاہے۔

سوال۔ غزل اپناعروج دیکھ چُکی ہے آپ کیا فرماتے ہیں؟

جواب۔ دیکھیں! سائنسی، اقتصادی اور معاشرتی تغّیر و تبدل انسانی نفسیات پر اپنا گہرا اثر رکھتا ہے۔  چوں کہ شاعر معاشرے کا حساس فردہوتا ہے،  اس لیے وہ اِن تغّیرات کو ذرا مختلف انداز سے دیکھتا اور محسوس کرتا ہے۔  اِس کا اندازہ ہم اِس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ماضی کے سیاسی اور اقتصادی حالات کی تبدیلی سے ہماری غزل بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر متاثر ہوئی ہے۔  لہٰذا  میں سمجھتا ہوں کہ غزل ہر لمحہ بدلتی دُنیا اور حالات کے تناظر میں عروج کی  نئی راہیں اورترقی کی نئی منزلیں تلاش کرے گی۔

سوال۔ آپ کی غزلیں اور افسانے کہاں کہاں شائع ہوتے رہے؟

جواب۔ میری غزلیں اور افسانے  مختلف اخبارات اور جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ افسانے فیس بُک پہ  ”حلقہ اربابِ ذوق انٹرنیشنل“ کے فورم سے بھی شائع ہوتے رہے ہیں۔

سوال۔ کِسی ادبی شخصیت کا نام جس نے علمی سطح پر آپ کو بہت متاثر کیا ہو؟

جواب۔ جان کیٹس اور ارنسٹ ہمنگوے وہ لکھاری ہیں جن کی تحریریں مجھے بہت زیادہ متاثر کرتی ہیں۔

سوال۔ بعض لوگ طرحی مشاعروں کے حق میں نہیں؟

جواب۔ ہمارے ہاں مشاعروں کی روایت کافی قدیم ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اِ س میں بہت سے تبدیلیاں بھی رونما ہوئی ہیں۔مشاعرے تہذیب کی اشاعت کا کام کرتے ہیں اور شعراء میں ادبی تخلیق کی تحریک بھی پیدا کرتے ہیں۔  مشاعرے اصلاحِ سُخن کے سا تھ ساتھ ادب اور عوام کے درمیان رابطے کا ذریعہ بھی ہیں۔جہاں تک طرحی مشاعروں کا تعلق ہے تو میرے خیال میں طرحی مشاعروں کو نوجوان شعراء کو راغب کرنے اور مشقِ سخن کے لیے جاری رکھا جانا چاہیے۔

سوال۔ کہا جاتا ہے کہ علامتی افسانے کے باعث پیدا ہونے والے خلا کو جدید سفرنامے نے پُر کیا ہے۔ اِس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

جواب۔ میں سمجھتا ہوں کہ سفرنامہ کسی طور بھی کِسی بھی قسم کے افسانے کا نعم البدل نہیں ہوسکتا۔  اگر سفر نامے میں افسانوی رنگ پیدا کیا جائے تو سفر نامہ اپنا اعتبار کھودے گا۔

سوال۔ آپ کے نزدیک اُردو افسانے کا مستقبل کیا ہے؟

جواب۔ افسانے کا مرکز و محور انسان،  داخلی  و  خارجی عوامل اور اُن کا ردِعمل ہے۔ انسان جس قدر نئے نئے مسائل سے دوچار ہو رہا ہے اُسی قدر اُس کے ہمہ جہت نفسیاتی اور سماجی  رویے سامنے آ رہے ہیں۔  اُردو افسانہ اِن بدلتے ہوئے انسانی مسائل کی پیچیدہ تہوں کو کُھول رہا ہے۔  اُردو افسانے نے بیانیہ سے علامت اور تجرید کے بعد اب مائیکرو فکشن تک کا سفر طے کر لیا ہے۔  میرے خیال میں اُردو افسانے نے ابھی بہت آگے جانا ہے۔

سوال۔ کیا افسانوں کا دیگر زبانوں میں ترجمہ ہونا چاہیے؟

جواب۔ جی ہاں! ہونا چاہیے۔ کیوں کہ جس طرح ہم دوسری ثقافتوں اور علاقوں کے ادب سے اُن کے تراجم کی وجہ سے آشنا ہوئے ہیں،  اسی طرح ہمارے افسانوں کے تراجم سے دُنیا ہماری فِکری سطح اور سمت سے بھی روشناس ہو گی۔

سوال۔ کہا جاتا ہے کہ ہماری غزل کے شعر جیسا تاثر انگریزی شاعری میں نہیں؟

جواب۔ میرے خیال میں یہ کہنا بالکل بھی درست نہیں کہ ہماری غزل کے شعر جیسا تاثر انگریزی شاعری میں نہیں۔ ہم طرزِ فکر اورداخلی و خارجی میلانات کے اظہار میں اب بھی بہت پیچھے ہیں۔  ابھی اُردو زبان بعض جذبات واحساسات کی عکاسی میں تشنہ نظر آتی ہے۔  میں سمجھتا ہوں کہ اُردو زبان پہ ابھی بہت سا کام کرنے کی گنجائش موجود ہے۔

سوال۔ یورپ میں افسانہ کم کیوں لکھا جا رہا ہے؟جواب۔ سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ سے کتابیں پڑھنے والوں کی تعداد بڑی حد تک کم ہو گئی ہے۔  یہی وجہ ہے کہ لوگ لکھنے کی بجائے اظہار کے دوسرے ذرائع استعمال کر رہے ہیں اور نثری ادب بشمول افسانہ بہت کم لکھا جا رہا ہے۔  پاکستان اور یورپ سمیت پوری دُنیا میں یہی صورتِ حال ہے۔ اگر کچھ لکھا بھی جا رہا ہے تو سیاسی، تفریحی اور سائنسی موضوعات کو زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے۔  تاہم میرا خیال ہے کہ یہ جمودبہت جلد ٹوٹ جائے گا اور لوگ کتاب کی طرف لوٹیں گے۔

سوال۔ آپ کی اپنی پسندیدہ شاعری؟

جواب۔

مدحتِ صاحبِ اقرا کی سند چاہتے ہیں 

ہم درِ شاہِ مدینہ سے مدد چاہتے ہیں 


وہ سما جائیں نگاہوں میں یہ ممکن ہی نہیں 

دیکھ لے جو پسِ ادراک وہ قد چاہتے ہیں 


ہم بھی فطرس کی طرح در پہ کھڑے ہیں اظہر

اب زمانے سے فرشتوں سا حسد چاہتے ہیں 

۔،۔،۔،۔،

اُکتا گئے کچھ ایسے دلِ لخت لخت سے

بیٹھے ہیں خانقاہ پہ مُردہ پرست سے


دیوار چاٹنے کی سزا ہم پہ آ پڑی

معدوم ہو گئے ہیں وہی لوگ پست سے


اظہر میں جنگلوں میں بھٹکتا رہا مگر

کوئی صدا نہ آئی کسی بھی درخت سے

۔،۔،۔،۔۔

کچھ درختوں کو ڈھا دیا میں نے

کچھ پرندے بھی بے وفا نکلے

۔،۔،۔،۔،،۔

لوٹ آئیں گے دبے پاؤں بلائیں تو سہی

وہ خطا کار جو جنت سے نکالے ہوئے ہیں 

۔،۔،۔،۔،۔،

ہم تو رونے کی روایت سے جُڑے ہیں کب سے

یہ نہ سوچو کہ جدا ہوں گے تو مر جائیں گے

۔،۔،۔،۔،۔،۔،۔.............................................

Wednesday, May 8, 2024

نظم ( درد اولے ) گربندر کور گل بدھنی کلاں انڈیا ( شاہ مکھی : سلیم آفتاب سلیم قصوری )

 








نظم 

درد اولّے


دل ساڈے وچ درد اولّے ہوندے نہیں بیان کدے۔

ہر پل سوچاں دے وچ توہی  ہٹدا ناہی دھیان کد ے

کِویں کیہ دییے دِتّییاں تیریاں چوبھاں کریاں نے پریشان کدے۔

تیرے وی تاں بوجھے دے وچ ہوندی  نہیں کمان کدے۔

بڑے پیارے چاء تے سدھراں  ساڈے ہوندے سی مہمان کدے۔

دل دے ویہڑے پھیرا پاون ہُن آوندی نہیں ارمان کدے۔

اوہناں نے ساڈا ہوکے رہنا کریا نہیں پروان کدے۔

ساڈے دل دے اندر جیہڑا اُترے سی شر عام کدے۔

شاعرہ

گُربِندر کور گِل 

بدھنی کلاں انڈیا

شاہ مُکھی لپّی 

سلیم آفتاب سلیم قصوری

"ਦਰਦ ਅਵੱਲੇ"   ਨਜ਼ਮ



ਦਿਲ ਸਾਡੇ ਵਿੱਚ ਦਰਦ ਅਵੱਲੇ ਹੁੰਦੇ ਨਹੀ ਬਿਆਨ ਕਦੇ


ਹਰ ਪਲ ਸੋਚਾਂ ਦੇ ਵਿੱਚ ਤੁਹੀ ਹੱਟਦਾ ਨਹੀ ਧਿਆਨ ਕਦੇ


ਕਿਵੇਂ ਕਹਿ ਦੇਈਏ ਦਿੱਤੀਆਂ ਤੇਰੀਆ ਚੌਭਾ ਕਰਦੀਆ ਨੇ ਪਰੇਸ਼ਾਨ ਕਦੇ


ਤੇਰੇ ਵੀ ਤਾਂ ਬੋਝੇ ਦੇ ਵਿੱਚ ਹੁੰਦੀ ਨਹੀਂ ਕਮਾਨ ਕਦੇ


ਬੜੇ ਪਿਆਰੇ,ਚਾਅ ਤੇ ਸੱਧਰਾਂ ਸਾਡੇ ਹੁੰਦੇ ਸੀ ਮਹਿਮਾਨ ਕਦੇ


ਦਿਲ ਦੇ ਵਿਹੜੇ ਫੇਰਾ ਪਾਵਣ ਹੁਣ ਆਉਦੇ ਨਹੀ ਅਰਮਾਨ ਕਦੇ


ਉਨਾਂ ਨੇ ਸਾਡਾ ਹੋਕੇ ਰਹਿਣਾ ਕਰਿਆ ਨਹੀ  ਪਰਵਾਨ ਕਦੇ


ਸਾਡੇ ਦਿਲ ਦੇ ਅੰਦਰ ਜਿਹੜੇ ਉਤਰੇ ਸੀ ਸ਼ਰੇਆਮ ਕਦੇ

ਗੁਰਬਿੰਦਰ ਕੌਰ ਗਿੱਲ ਬੱਧਨੀ ਕਲਾਂ

Thursday, May 2, 2024

نظم ( سجناں دی محفل )نرمل ماڈل پتوں شاہ مکھی : سلیم آفتاب سلیم قصوری

 







نظم 

سجناں دی محفل


سجناں دی محفل وچ

ہو اسیں اج غیر گئے

ایسی تکنی نیناں تک لئی

مُڑ پِچھاں نوں پیر گئے۔


جھڑ گئے کھنب بھروسے والے

اُڈ گیے طوطے چاواں دے۔

روشن چار چفیرے تائیں

نھیرے آ دے زہر گئے۔


غم دی ایسی دلدل لوکو

نِگھّردا ہی جاواں میں

غرضاں والے غرضاں کڑھکے

پِچھوں کڈھ فِر ویر گئے۔


امبروںٹُٹّے تارے وانگوں

نِرمل ٹُٹ کے بیٹھ گئے۔

طعنے مارے روح دیاں یاراں

یار وی کی کر خیر گئے۔

پتّوں دل چوں پیار نی مِٹدا

پہلا پہلا ہوندا جو

کرماں مارے رُڑھ جاندے نے

کئی چناں نوں تیر گئے۔


سجناں دی محفل وچ

ہو اسیں اج غیر گئے۔

ایسی تکنی نیناں تک لئی

مُڑ پِچھاں نوں پیر گئے۔

شاعر 



نرمل ماڈل پتّوں

انڈیا

شاہ مُکھی لپّی 

سلیم آفتاب سلیم قصوری

ਰਚਨਾਂ (ਸੱਜਣਾਂ ਦੀ ਮਹਿਫ਼ਲ)


ਸੱਜਣਾਂ ਦੀ ਮਹਿਫ਼ਲ ਵਿੱਚ,

ਹੋ ਅਸੀਂ ਅੱਜ ਗ਼ੈਰ ਗ‍ਏ,

ਐਸੀ ਤੱਕਣੀ ਨੈਣਾਂ ਤੱਕ ਲਈ,

ਮੁੜ ਪਿਛਾਂਹ ਨੂੰ ਪੈਰ ਗ‌ਏ।


ਝੜ ਗਏ ਖੰਭ ਭਰੋਸੇ ਵਾਲੇ,

ਉੱਡ ਗਏ ਤੋਤੇ ਚਾਵਾਂ ਦੇ,

ਰੌਸ਼ਨ ਚਾਰ-ਚੁਫੇਰੇ ਤਾਈਂ,

ਨੇਰ੍ਹੇ ਆ ਦੇ ਜ਼ਹਿਰ ਗ‌ਏ।


ਗ਼ਮ ਦੀ ਐਸੀ ਦਲਦਲ ਲੋਕੋ,

ਨਿੱਘਰਦਾ ਹੀ ਜਾਵਾਂ ਮੈਂ,

ਗ਼ਰਜ਼ਾਂ ਵਾਲੇ, ਗ਼ਰਜ਼ਾਂ ਕੱਢਕੇ,

ਪਿੱਛੋਂ ਕੱਢ ਫਿਰ ਵੈਰ ਗ‌ਏ।


ਅੰਬਰੋਂ ਟੁੱਟੇ ਤਾਰੇ ਵਾਂਗੂੰ,

'ਨਿਰਮਲ' ਟੁੱਟ ਕੇ ਬੈਠ ਗਿਆ,

ਤਾਅਨੇ ਮਾਰੇ ਰੂਹ ਦਿਆਂ ਯਾਰਾਂ,

ਯਾਰ ਵੀ ਕੀ ਕਰ ਖ਼ੈਰ ਗ‌ਏ।


'ਪੱਤੋ' ਦਿਲ ਚੋਂ ਪਿਆਰ ਨੀ ਮਿਟਦਾ,

ਪਹਿਲਾ-ਪਹਿਲਾ ਹੁੰਦਾ ਜੋ,

ਕਰਮਾਂ ਮਾਰੇ ਰੁੜ੍ਹ ਜਾਂਦੇ ਨੇ,

ਕ‌ਈ ਝਨਾਂ ਨੂੰ ਤੈਰ ਗ‌ਏ।


ਸੱਜਣਾਂ ਦੀ ਮਹਿਫ਼ਲ ਵਿੱਚ,

ਹੋ ਅਸੀਂ ਅੱਜ ਗ਼ੈਰ ਗ‍ਏ,

ਐਸੀ ਤੱਕਣੀ ਨੈਣਾਂ ਤੱਕ ਲਈ,

ਮੁੜ ਪਿਛਾਂਹ ਨੂੰ ਪੈਰ ਗ‌ਏ।

        -----੦----

 ਨਿਰਮਲ ਮਾਡਲ 'ਪੱਤੋ'

  98887-29664

  99143-29664