Sunday, May 26, 2024

گل نسرین ( شاعرہ و نثر نگار ) انٹرویو : صاحب زادہ یاسر صابری

 










گل نسرین

شاعرہ و نثر نگار

انٹرویو:صاحبزادہ یاسر صابری

03115311991

گل نسرین کا اصلی نام نسرین اختر ہے۔ملتان میں3 نومبر 1966ء کو پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم ملتان سے حاصل کی۔ میٹرک گورنمنٹ ہائی سکول ملتان سے کیا۔گریجویشن زکریا یونیورسٹی ملتان سے اور ایم اے اردو سرگودھا یونیورسٹی سے کیا۔ آپ نے شاعری کا آغاز 1980ء میں کیا۔پہلی کتاب آنکھیں خواب لکھتی ہیں شاعری 2004ءمیں شائع ہوئی۔دوسری نثر کی کتاب ماسی نامہ طنز و مزاح 2019ء میں شائع ہوئی۔ تیسری کتاب تم سے گزارش ہے شاعری 2023ء میں شائع ہوئی۔ 

س: شاعری میں آپ کی ترجیحات کیا ہیں؟ 

ج:شاعری میں غزل میری پسندیدہ صنف سخن ہے۔شعری مجموعہ ہم نے محبت گروی رکھ دی زیر طبع ہے۔ 

س:آپ کی نثری تخلیق میں کیا کچھ شامل ہے؟

ج: نثری اصناف میں طنز و مزاح،

سماجی اقدار،افسانہ اورناول کی طرف زیادہ رجحان ہے۔ناول کی کتاب من گزیدہ زیر طبع ہے۔ 

س: آپ کے کلام  میں تنہائی جا بجا بکھری ہوئی نظر آتی ہے؟

ج: میری شاعری میں تنہائی کے عنصر کی وجہ ناکام ازدواجی زندگی ہے۔

س:کیا راستوں کی دشواریاں کامیابیوں کی دلیل ہیں؟ 

ج:راستے کی تکالیف و مصائب منزل کا تعین کرتے ہیں گعکہ مشکلات پیش آتی ہیں تاہم یہی مشکلات منزل کا پتہ بھی دیتی ہیں۔

س:آپ کو زمانے سے جو  شکایتیں در پیش ہیں ان کا ذکر کیسے کریں گی؟   

ج:مجھے زمانے سے شکایت نہیں۔

کیونکہ میں ایک سچی کھری انتہائی صاف دل اور باضمیر خاتون ہونے کی وجہ سے  مشرق کے زوال شدہ معاشرے میں باقی کھرے انسانوں کی طرح  جلد اپنا مقام نہ بنا سکی تاہم آج میں ایک کامیاب ماں، ایک  نیک نام شاعرہ  کے طور پر مستحکم سماجی حیثیت رکھتی ہوں 

س:آپ کی یہ خوش نصیبی ہے کہ ڈوڈہ یونیورسٹی مقبوضہ جموں و کشمیر(بھارت) میں پہلی رائٹر کانفرنس میں شرکت کا اعزاز ہوا۔ اس حوالے سے کیا کہنا چاہیں گی؟ 

ج:جی ہاں یہ میری خوش نصیبی ہے کہ مجھے ڈوڈہ یونیورسٹی جموں کشمیر انڈیا میں ورلڈ رائٹرزاردو کانفرنس میں شرکت کا اعزاز حاصل ہوا۔ 

س:آپ پی ٹی وی،ریڈیو پاکستان اور ملک گیر مشاعروں میں بھر پور شرکت کرتی ہیں۔یہ بتا دیں کہ مشاعروں میں شعرا کا رویہ شاعرات کے ساتھ کیسا ہوتا ہے؟ 

ج: جی آپ نے ٹھیک کہا مجھے پی ٹی وی اور ریڈیو پاکستان کے ساتھ ساتھ ملک بھر کی ادبی تنظیموں کے منعقدہ مشاعروں میں شرکت کا اعزاز حاصل ہے۔مجموعی طور پر شاعرات کے ساتھ شعرا کا رویہ  اچھا ہوتا یے مگر انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ دو نمبر خواتین کی پروجیکشن میں شاعر حضرات بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور شریف النفس قسم کی جینیوئن شاعرات کی شدید حق  تلفیوں کی باعث دو نمبر خواتین سرکاری و غیر سرکاری تنظیموں و محکموں میں اعلی عہدے حاصل کرتی ہیں اور  جینوین شاعرات  کی ترقی کا سفر رک جاتا ہے۔

س: کیا شاعر حضرات کسی کی شاعری سے حسد کرتے ہیں؟

ج: شاعر حضرات میں عام طور پر ایک دوسرے سے  سخت حسد و اختلاف پایا جاتا ہے۔تاہم اچھے با ضمیر و باشعور شاعروں کی بھی کمی نہیں ہے۔ 

س: آپ کے خیال میں پاکستانی خواتین ادب میں کیا کردار ادا کر رہی ہیں؟ 

ج:خواتین شاعرات صحت مند ادبی خدمات کے زریعے پاکستان کی    اسلامی اخلاقی اقدار کی شناخت و فروغ میں اہم  کردار ادا کرتی ہیں تاہم اس کے لیے جینوئن  و باضمیر ہونا کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔ 

س:آج کل کی شاعری سے آپ کس حد تک مطمئن ہیں۔ میری مراد شاعرات سے ہے؟   

ج: پاکستانی شاعرات میں سنجیدہ شعر کہنے والی خواتین کی بھی کمی نہیں جن  پر مکمل اعتماد و بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔

س:آج کل بہت سی تنظیمیں بنی ہوئی ہیں،ادب کی ترویج و اشاعت میں ان کا کیا کردار ہے؟ 

ج:آج کل پاکستان بھر میں نیشنل و انٹرنیشنل سطح پر بے شمار ادبی تنظیمیں ادب کی ترقی و ترویج میں دن رات کوشاں ہیں اور

 برصغیر پاک و ہند کے صحت مندانہ ادبی رجحانات کی ترجمان  ہیں۔ 

س:آپ کی اپنی پسندیدہ شاعری اور وجہ پسند؟ 

ج:میری پسندیدہ شاعری غزل ہے 

اور پسندیدگی کی وجہ یہی ہے کہ شاعری کی اصل روح غزل ہے۔

میری  پسندیدہ غزل:


 گردشیں سدا رہیں عشق کے امور میں

زندگی بسر ہوئ صبر کے شعور میں 


سوچ کے پروں پہ تھیں وصل کی اطاعتیں 

آنکھ پھر جھکی رہی آپ کے حضور میں 


اشک جب رواں ہوئے ہجر کے عذاب میں

پانیوں نے کر دیا دشت بھی سرور میں 


چھو لیا عروج کو ،جستجو تمام تھی 

حسن نے جلا دیا وصل کوہِ طور میں


دھوپ سے سنور اٹھیں چائے کی پیالیاں 

قرب سے بھری رہی میز بھی غرور میں


وصل میں کہاں ہوا دیکھنا  جناب کو آسماں نے کر دیا حسن کو وفور میں


اب کبھی نہ آئے گا موسم ِ بہار گل 

باغباں جلا گیا گلستاں قصور میں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  

میرے بچے تری ہی خاطر تو میں نے اپنوں سے چوٹ کھائی ہے 


حسن تیرے لئے گنوایا ہے عمر تیرے لئے بتائی ہے

  

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔

No comments:

Post a Comment