Tuesday, May 14, 2024

محمد یعقوب فردوسی ( انٹرویو : صاحب زادہ یاسر صابری )

 









محمد یعقوب فردوسی

انٹرویو: صاحبزادہ یاسر صابری

03115311991


محمد یعقوب فردوسی یکم فروری 1968ء کو محمد حسین کھیڑا کے ہاں چک نمبر دو شمالی بھلوال سرگودھا میں پیدا ہوئے۔ آپ اردو اور پنجابی ہر دو زبانوں میں اور ادب کی مختلف اصناف میں طبع آزمائی کرتے ہیں۔جس میں حمد، نعت، منقبت، مناجات غزل، ناول، ماہیا، افسانہ کالم، مقالہ، مکالمہ، گیت کہانی، دوہڑہ(پنجابی) شامل ہیں۔ 

میٹرک دیگر چند کورسز

ذریعۂ معاش:نائب صوبیدار

              کلرک پاک آرمی

شرفِ تلمذ:امین خیال، سرور انبالوی

           فقیر اجمل جنڈیالوی

           ڈاکٹر آرزو انبالوی

تخلیقات:شائع شدہ 60 کتب

           زیرِ اشاعت 10 کتب

           تشنۂ اشاعت 105 کتب

ایوارڈز

۔۔۔۔۔۔

۔   (1)ملٹری-10

۔   (2)سول-500

۔   (3)میڈلز-500

اعتراف

۔۔۔۔۔۔

۔   (1)افسانہ نگاری پر ایم فل

۔   (2)جدید نعت پر ایم فل

۔   (3)عالمی اردو کانفرس میں مقالہ

۔   (4)عساکر پاکستان کے نثر نگار

۔   (5)شعراء کے پی ایچ ڈی

۔        کے مقالہ میں شمولیت

۔   (6)گوجرانوالہ کے نعت گو شعراء پر

۔        ایم فل کے مقالہ میں شمولیت

۔   (7)اردو ماہیا کے حوالے سے

۔        پی ایچ ڈی کے مقالہ میں شمولیت

۔   (8)فن اور شخصیت پر (زندانِ قلندر)

۔   (9)ایم اے کے لیول کے

۔        3 مقالہ جات میں شمولیت

۔   (10)18 اخبارات و جرائد نے

۔        خصوصی گوشے شائع کیے

۔   (11)6 اخبارات و جرائد نے

۔        فردوسی نمبر شائع کیے

ورلڈ ریکارڈز

۔۔۔۔۔۔۔۔

۔   (1)مدینہ مدینہ پیارا مدینہ

۔        (نعتیہ اردو ماہیانگاری پر

۔        سب سے پہلا مجموعہ)

۔   (2)کن فیکون

۔        نعتیہ اردو ماہیا نگاری پر

۔        دنیا کا سب سے بڑا مجموعہ 

آپ کی مندرجہ ذیل کتب شائع ہو چکی ہیں۔ مدینہ مدینہ پیارا مدینہ آقا کملی والے۔ محمد کے نام سے۔ مینڈے لچپال آقا۔مینڈے سویٹ آقا۔  خواب مدینے کے۔ نور مدینے کا۔ حرف حرف خوشبو۔ پارسا لوگ۔ چورے والے باوا جی۔ دیوانہ دیدار کا۔ لجپال سخی لجپال۔ فیضان شاہ سلیمان۔ زیارت فقراں دی۔ گستاخ اکھیاں۔ چراغ الہی۔مرشد سائیں۔مولا حسین علیہ السلام لجپال غریباں دے۔لجپال زمانے کے۔سرتاج اولیا سچیار پاک۔اکو تیرا الف بڑا( دو مرتبہ) ۔مئے گلفام۔ میلے سانواں دے۔ چاہت کے پھول۔ اتھروں چاواں دے۔ ابھی قید پرندے ہیں۔ لبھنا نئیں لعل گنواچا۔ ساڈے ول مکھڑا موڑ(دو مرتبہ)ورفعنا لک زکرک۔درباری راج کمار۔دو نیناں دی جوگن۔ عشق دھمال۔ حمیدی قلندر۔ مرشد ماہم۔ کن فیکون(دو مرتبہ) باب الحواج۔ نوشہ سلطان۔ فضل شاہ کلیامی۔ پیرا شاہ قلندر۔ لعلاں دا ونجارا۔ اکھر پان دھمال۔ یاران ادب۔ ماہیا۔ کوڑی چھاں۔ می رقصم۔ ایاک نعبدو۔ سادھو ہوندے رب ورگے۔ فضائل درود و سلام۔ مرشد ماہم (ملتان) ۔  

نعتِ پاک

ہیں افضل تریں تاجدارِ مدینہ

کوئی جا کے دیکھے بہارِ مدینہ


پلٹ دی عرب کی محمد نے کایا

ہے قائم انھی سے وقارِ مدینہ


تڑپتا پے دل یادِ ختم الرسل میں

کہ آنکھوں کو ہے انتظارِ مدینہ


مقدر میں ہو ایک کٹیا عرب میں

ملے مولا مجھ کو دیارِ مدینہ


خدائی کے وارث بنے شاہِ شاہِ بطحا

حبیبِ خدا تاجدارِ مدینہ


ردائے کرم تان دیں مجھ پہ آقا

بنوں میں اک جانثارِ مدینہ

سوال۔ کچھ اپنے بارے بتائیں؟

جواب۔ میرا تعلق ایک زمیندار گھرانے سے ہے میرے والد کھیتی باڑی کیا کرتے تھے میرا نام محمد یعقوب ہے اور فردوسیؔ تخلص رکھتا ہوں آپ کو یہ جان کر خوشی ہو گی کہ میں پانچ قلمی ناموں سے لکھتا ہوں اور آج تک لکھ رہا ہوں میرے قلمی ناموں میں محمد یعقوب فردوسیؔ، قربان علی عادلؔ، عصمت یعقوب خاکیؔ، عصمت فردوسیؔ اور محمد یعقوب قلندرؔ شامل ہیں جبکہ ان دنوں میں ناصر علی دائم ؔنوشاہی کے نام سے بھی لکھ رہا ہوں۔  

سوال۔ آپ کا بچپن کہاں اور کیسے گزار وہاں کی کوئی یادیں ؟

جواب۔ جب میں نے ہوش سنبھالا اس وقت راولپنڈی میں تھا اور وہاں کی دو منزلہ بسیں جو آج نایاب ہو چکی ہیں ان پہ سفر کرنا میری زندگی کا قیمتی اثاثہ ہے۔ اس کے علاوہ تو بس الف انار سے اِکو تیرا الف بڑا تک بے شمار یادیں ہیں جن کو یکجا کرنے کے لئے بڑے بڑے دیوان لکھنا پڑیں گے۔

سوال۔ آپ نے تعلیم کہاں سے حاصل کی؟

جواب۔ درویش لوگوں کی درسگاہیں اولیائے کرام کے آستانے ہوتے ہیں جہاں سے وہ تعلیم حاصل کرتے ہیں اس حوالے سے ایک شعر آپ کی نذر کرتا ہوں:۔

عین شین قاف دی درسگاہ اندر ادب آداب فقر سکھائے جاندے

ایہہ جُوہ اے الف پڑھاکواں دی جتھے واحدت دے جام پلائے جاندے

گُرو رہندے عشق دھمال پاندے جشن پیار پریت منائے جاندے

فردوسیؔ ایہہ در نیں اللہ والیاں دے جتھے غوث، قطب، ابدال بنائے جاندے

تاہم دنیاوی تعلیم کے حوالے سے ہم نے ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں چک نمبر 2 شمالی بھلوال سے حاصل کی اور پھر میڑک کا امتحان گورنمنٹ ھائی سکول بھلوال سے پاس کیا اور پھر ایف ایس سی کے لئے گورنمنٹ ڈگری کالج بھمبر آزاد کشمیر چلے گئے اور پھر کالج چھوڑ کر پاکستان آرمی جائن کر لی اور مختلف جگہوں سے پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کی جن کا یہاں زکر کرنا مناسب نہیں۔

سوال۔ آپ اپنے لئے لکھتے ہیں یا دوسروں کے لئے؟

جوان۔ ہم نے آج تک ایک لفظ بھی اپنی زات کے لئے نہیں لکھا اس بات کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ ہم نے آج تک کوئی کتاب فروخت نہیں حتیٰ کہ دو ہزار دو سو بہترصفحات کی کتاب  کن فیکون تک جو آج ورلڈ ریکارڈ قائم کر چکی ہے سب کی سب دوسروں کی لئے ہیں گویا میں اپنے لئے ہر گز نہیں دوسروں کے لئے لکھتا ہوں اور یہ بھی میرا منفرد اعزاز ہے

سوال۔ پہلے شاعری وجود میں آئی یا علم عروض؟

جواب۔ حضور شاعری کا وجود قرآن مجید میں موجود ہے اور شاعری ایک عطیہ خداوندی ہے اس طرح شاعری پہلے وجود میں آئی اور پھر علم عروض کی جب ضرورت محسوس کی گئی تو اس پہ صاحب علم و دانش نے کا شروع کیا جو ہر دور میں جاری رہا اور آج تک جاری ہے۔ 

سوال۔ علم عروض کی ابتداء کیسے ہوئی اور ان اوزان کو کیسے بنایا گیا؟

جواب۔ علم عروض کی ابتداء میرے ناقص علم میں نہیں اور نہ ہی میں علم عروض کا کوئی ماہر ہوں اور نہ ہی علم عروض کا کوئی استاد میں تو ایک ادنیٰ سا قلمکار ہوں اس لئے میں اس حوالے سے میں معذرت خواہ ہوں۔

سوال۔ کیا آپ کے زہن میں نئی نسل کی بہتری رہتی ہے؟

جواب۔ جی ہاں میں نے جب سے لکھنا شروع کیا اور آج تک نئی نسل کی بہتری کی سوچ لئے محو رقص ہوں۔یہی وجہ ہے کہ نئی نسل سے میرے چاہنے والوں کی تعداد لاکھوں میں ہے اگر میرے زہن میں یہ سوچ نہ ہوتی تو آج میں گمنامی کی زندگی بسر کر رہا ہوتااور گمنامی تو تاریکی کا دوسرا نام ہے جس کی کبھی صبح نہیں ہوتی۔

سوال۔ کیا آپ فن پارے کی پہلی شکل سے مطمئن ہو جاتے ہیں؟

جواب، کسی بھی فن پارے کا تخلیق ہو جانا ہی اس کے مطمئن ہو نے کی دلیل ہوتی ہے تاہم اس پہ نظرثانی کی گنجائش باقی رہتی ہے کیوں کہ بعض اوقات لفظی غلطیاں رہ جاتی ہیں جن کو دور کرنا ضروری ہوتا ہے۔

سوال۔ اب تک کی اپنی تخلیقات کے بارے میں بتائیں؟

جواب۔ حضرت صاحب اس وقت تک میرے ساٹھ کے قریب شعری مجموعے منظر عام پر آچکے ہیں جن میں پچاس کے قریب حمدو نعت، منقبت اور مناجات کے صنف ماہیا پر مشتمل ہیں جبکہ دس شعری مجموعے اشاعت کے مراحل میں ہیں اور ایک سو ایک سے زائد کتب پائپ لائن میں ہیں۔ پائپ لائن میں موجود تمام تر کتب اخبارات و رسائل میں شائع ہو چکی ہیں۔ اور یہ بھی مولا کے مجھ پہ احسان اور کرم کی کوئی حد نہیں، ہم نہیں آج تک جو لکھا اس کو لوگوں نے اس حد تک پسند کیا کہ ہم حمد، نعت،منقبت، مناجات، غزل، نظم،کہانی، افسانہ، ناول، مراسلہ،گیت نگار، ماہیانگار بن گئے اور آپ کو یہ جان کر بھی خوشی ہو گی کہ ہم نے تقریباََ ادب کی تمام تر اصناف میں طبع آزمائی کی اور خوب داد سمیٹی۔ 

سوال۔ اب تک کی اپنی تخلیقات سے آپ مطمئن ہیں؟

جواب۔ مالک کائنات کے کرم ہیں کہ ہم درویش لوگ اپنی تخلیقات سے مطمئن ہیں اور یہ اسی بات کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ آج ہم پوری دنیا میں اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔

سوال۔ کیا آپ نے کوئی بڑا ادبی کارنامہ سر انجام دیا ہے؟

جواب۔ اردوماہیا نگاری پر اس درویش کا ایک بڑا ادبی کارنامہ دنیا قبول کر رہی ہے وہ یہ ہے کہ اردو ادب کی تاریخ میں صنف ماہیا پر دنیا کاسب سے پہلا نعتیہ مجموعہ مدینہ مدینہ پیار ا مدینہ اور نعتیہ و منقبتیہ ماہیا پر دنیا کی سب سے بڑی کتاب کن فیکون ہے اور مجموعی طور پرماہیانگاری میں ایک لاکھ کا ہندسہ ہم عبور کر چکے ہیں جو ایک عالمی ریکارڈ ہے اور ماہیا کی تخلیقات پر ابھی کام جاری و ساری ہے جو ہمارا عالمی ریکارڈ قائم رکھنے میں مدد گار ثابت ہو گا۔

سوال۔ کیاآپ اپنی سابقہ تخلیقات پر نظر ثانی کرتے رہتے ہیں؟

جواب۔ نہیں حضور میں سابقہ تخلیقات پر نظرثانی نہیں کرتا کیونکہ جو چیز ایک محقق، نقاد یا تبصرہ نگار کے ہاتھ میں ہو اس پر نظر ثانی چہ معنی دارد۔

سوال۔ کیا آپ لکھنے سے پہلے غوروخوض کرتے ہیں؟

جواب۔ جی مُرشد بعض اوقات تو سال ھا سال گزر جاتے ہیں اور پھرقلم حرکت میں آتا ہے اور پھر جب قلم حرکت میں ہے تو وہ لکھتا ہی چلا جاتا ہے اور لفظ اس کی نوک پہ دھمال ڈالتے ہیں تو ایک شاہکار جنم لیتا ہے۔ 

سوال۔ کیا تخلیقی عمل کے لئے مطالعہ ضروری ہے؟

جواب۔ مطالعہ کے بغیر تخلیقی عمل ادھورا ہی نہیں بلکہ  نا ممکن ہے کیوں کہ مطالعہ کے بغیر کوئی نئی چیز تخلیق ہو ہی نہیں سکتی اور ہر دور میں مطالعہ بہت اہمیت کا حامل رہا ہے۔ میرے نزدیک بھی مطالعہ بہت ضروری ہے چاہے وہ قرآن مجید کی ایک آیت یا احادیث مبارکہ ہی کیوں نہ ہو اور پھر مطالعہ کے بغیرتو زندگی ہی ادھوری ہے۔

سوال۔ ماہیا کے حوالے سے آپ اب سند کا مقام رکھتے ہیں ماہئے کی بعض خصوصیات بتائیں گے؟

جواب۔ ماہیا کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ آپ صرف تین مصرعوں میں پوری تاریخ یا اپنے دل کی بات بیان کر سکتے ہیں جو شاعر حضرات بیان کرنے کے لئے سینکڑوں اشعار کا سہارا لیتے ہیں اور پھر بھی دل کی بات پوری نہیں کہہ پاتے۔

سوال۔ آپ کے نزدیک ماہیا کا مستقبل کیا ہے؟

جواب۔ ماہیا کا مستقبل بہت روشن ہے دراصل ماہیا کی بنیاد تین مصرعی صدیوں پُرانی ہے اور اس کا وجود ہمیں عربوں میں بھی ملتا ہے یہاں میں صرف سورت کوثر کا حوالہ دینا ہی کافی سمجھوں گا اور میری ماہیا نگاری کا محور ہی قرآن مجید کی یہ سورت ہے۔اس ضمن میں آپ تاریخ سے استفادہ کرسکتے ہیں۔

سوال۔ آپ نے اردو میں ماہیا نگاری کا رخ پنجابی ماہیا کے وزن کے مطابق کرنے میں اہم کردار کیا ہے اس سلسلے میں اب کیا صورتحا ل ہے؟

جواب۔ نہیں حضور اردو ماہیا اور پنجابی ماہیا ہئیت کے اعتبار سے مختلف ہے۔اردو ماہیا تو ابھی نومولود ہے جب کہ پنجابی ماہیا صدیوں پرانی تاریخ کا حامل ہے۔اردو ماہیا کی ابھی تک تاریخ لکھی ہی نہیں گئی میں یہ عرض کرتا چلوں کہ اردو ماہیا سب سے پہلے ایک ہندو شاعر ہمت رائے شرما نے 1934 میں پہلی بار اپنی فلم خاموش کے لئے لکھے اور اگر آج کی بات کی جائے تو حیدر قریشی، علامہ امین خیال، ڈاکٹر مناظرہرگانوی، نذیر فتح پوری اور ڈاکٹر عارف فرہاد صاحب نے اس حوالے سے بہت  زیادہ کام کیا ہے جس سے اردو ماہیا ایک تحریک کی صورت اختیار کر چکا ہے جبکہ اردو ادب میں میرے ناقص علم کے مطابق ابھی اردو ماہیا کو الگ صنف تسلیم ہی نہیں کیا گیا۔ پاکستان سے ہٹ کر بھی دنیا کے پیشتر ممالک میں اردو ماہیا اور اس کی تحریک پرخوب کام ہو رہاہے۔اردو ماہیا تین مصرعی ہئیت میں ہے جبکہ پنجابی ماہیا کی تاریخ تو صدیوں پرانی ہے اور اس کی ہئیت ڈیڑھ مصرعی ہے اس طرح اردو اور پنجابی ماہیا ابھی تک یکجان نہیں ہو پائے اور ماہیا کی ہئیت کے اعتبار سے مختلف نقاد کی آر ا مختلف ہے جو آپ ڈاکٹر عارف فرہاد  صاحب کی کتاب اردو ماہئے کے خدوخال میں ملاحظہ کر سکتے ہیں۔تاہم میں نے پنجابی اور اردو ماہیا کو تین مصرعی ہئیت میں پروان چڑھایا جس کے خاطر خواہ نتائج  آج آپ کے سامنے ہیں۔

سوال۔ کس مکتبہ فکر سے آپ کی شاعری متاثر ہے کیا ادب اور شاعری کو نظریاتی ہونا چاہئے؟

جواب۔ حضور والا اِن دنوں ہم درویش لوگ تصوف کی دنیا میں غوطہ زن ہیں اور ہم مکتبہ عشق سے جم لینے والی شاعری سے متاثر ہیں جس میں حضرت بابا بلھے شاہؒ، سید وارث شاہؒ، بابا غلام فریدؒ، میاں محمد بخشؒ اور بابا گُرونانک کے اسما گرامی نمایاں ہیں جبکہ میں ادب اور شاعری میں کسی خاص نظریہ کا قائل نہیں ہوں اور آپ بھی میری اس بات سے اتفاق کریں گے

سوال۔ ماہیا میں آپ نے بھرپور تخلیقی کام کیا ہے۔ اس تحریک کو آگے بڑھانے میں آپ کی کاوشوں کا اعتراف ضروری ہے۔موجودہ ادبی حالات کے تناظر میں مختلف آراکے ساتھ ماہئے کے مستقبل کا تعین کس طرح کریں گے؟

جواب۔ حضور والا کل تک جو نقاد اردو ماہیا کو ایک صنف نہیں مانتے تھے آج وہی اردو ماہیا کے گن گاتے دکھائی دیتے ہیں اس کے ثبوت میں، میں ایک بار پھر ڈاکٹر عارف فرہاد صاحب کی کتاب اردو ماہئے کے خدوخال کا حوالہ دینا چاہوں گا جس کو آپ دیکھیں تو آپ پر آشکار ہو جائے گا کہ اردو ماہیا کے اوّلین ماہیا نگاروں میں صرف نام لکھونے کی دوڑ میں کون کون شامل ہیں لیکن وہ لوگ یہ سمجھے تھے کہ یہ ایک نومولود صنف ہے اور اس کا کوئی مستقبل نہیں مگر آج دنیا کے نقاد نے اردو ماہیا کو ایک صنف تسلیم کر لیا ہے اور اس کی پذئرائی عالمی سطح پر ہو رہی ہے جبکہ اردو ماہیا کی تحریک کے حوالے سے دنیا بھر کے شاعر، نقاد اور محقق اس بات پر متفق ہیں کہ اردو ماہیا ادب کی ایک الگ صنف ہے جس کا مستقبل بہت روشن ہے آپ دیکھیں گے کہ مستقبل قریب میں حکومتی سطح پر بھی اسے خوب پذیرائی ملے گی۔

سوال۔ آپ کس روحانی سلسلہ سے تعلق رکھتے ہیں؟

جواب۔ آپ ادبی دنیا سے روحانیت کی دنیا میں پڑاؤ لگانے جا رہے ہیں، مرے لئے یہ بہت خوش آئند بات ہے کہ لوگ میرے سلسلہ طریقت کے بارے میں بھی لوگ جان سکیں۔سب سے پہلے اور سب سے بڑی بات جان کر آپ کو خوشی ہوگی اور حیرت بھی وہ یہ کہ میں طریقت کی دنیا میں ایک سو ایک سے زائد دستاریں سر پہ سجائے ہو ئے ہوں اور میں ہر سلسلے سے صاحب لباس ہوں یہ مالک کائنات کے مجھ پا کرم ہی کرم ہیں میں جس سلسلے کا چاہوں لباس زیب تن کر لوں جہاں تک میرے سلسلے کا تعلق ہے تو میں حضرت سخی لعل شہباز قلندر ؒسائیں کی نسل پاک میں سید آغا شوکت علی شاہ سرکار کا مُرید خاص ہوں اور پھر میں چشتی صابری سلسلے میں بھی مردِ با صفا حضرت سید دیدار حسین شاہ لجپال کا مُرید بھی ہوں اور پھر امام سلسلہ نوشاہیہ حضرت حاجی محمد نوشہ گنج بخش ؒسرکار کی نسلِ پاک میں بھی میں سید محمد زمان شاہ المعروف  نوشاہی دولے شاہ کی آنکھوں کا تارا ہوں۔اور پھر مجھے حضرت سید مالن شاہ قلندر ؒ، حضرت امام بری شاہ قلندرؒ، حضرت پیرے شاہ قلندر المعروف دمڑی والی سرکارؒ، حضرت کانواں والی سرکارؒ، حضرت خواجہ معین الدین چشتی سرکار، حضرت حاجی بہادر باباؒ سرکار الغرض سینکڑوں اولیائے کرام سے نہ کہ مجھے پیار ہے بلکہ ہم درویشوں نے ان  ہستیوں سے روحانی فیض پایا ہے اور پا رہے ہیں اورتا قیامت پاتے رہیں گے۔حضور بہتر ہو گا کہ اس موضوع پر الگ سے نشست رکھی جائے تاکہ تصوف کے دیوانوں کو کچھ حاصل ہو پائے اور وہ اولیائے کرام کے بارے میں کچھ جان سکیں۔ اس حوالے سے میری ایک کتاب می رقصم بھی منظر عام پر آ رہی ہے۔   

سوال۔ شعر و ادب کے حوالے سے آپ کا آئندہ کا کیا پروگرام ہے؟

جواب۔ حضرت صاحب اس وقت میری دس کتابیں پریس میں اشاعت کے مراحل میں ہیں جو سال رواں میں منظر عام پر آ جائیں گی۔ انشاء اللہ ان کی اشاعت کے بعد ہم چاہتے ہیں کہ اپنی پانچ بڑی کتابیں پھر سے منظر عام پر لائیں جو کہ درجہ ذیل ہیں یاد رہے کہ یہ ساری کتابیں نعتیہ و منقبتیہ اردو، پنجابی ماہیا نگاری پر مشتمل ہیں:۔

1 باغ عدن ایڈیشن نمبر 1 اِکو تیرا الف بڑا 1072 صفحات

(اس کتاب کا یہ تیسرا ایڈیشن ہو گا)

2 باغ عدن ایڈیشن نمبر2 ساڈے ول مکھڑا موڑ1712 صفحات

(اس کتاب کا یہ تیسرا ایڈیشن ہو گا)

3 باغ عدن ایڈیشن نمبر 3 ورفعنا لک زکرک 2048 صفحات

(اس کتاب کا یہ دوسرا ایڈیشن ہو گا)

4 باغ عدن ایڈیشن نمبر4 کن فیکون 2272 صفحات

(اس کتاب کا یہ تیسرا ایڈیشن ہو گا)

5 باغ عدن ایڈیشن نمبر5 ایاک نعبد 2080 صفحات

(اس کتاب کا یہ  دوسرا ایڈیشن ہو گا)

سوال۔ محمد یعقوب فردوسی صاحب آخری سوال کی جسارت کر رہا ہوں آپ اپنے معترفین کے لئے کیا پیغام دینا پسند فرمائیں گے؟

جواب۔ حضرت صاحب درویش لوگ کیا پیغام دے سکتے ہیں یہ تو حضرت عشق ہی بتائے گا تاہم ہمیں اپنے پیار کرنے والوں سے بس اتنا ہی کہنا ہے کہ نفرتوں کو دفن کر دیں، پیار کرنا سکھیں، پیار کرنا سیکھائیں، پیار کرنا بانٹیں، پیار کو فروغ دیں، محبت کو عام کریں، امن کو زندگی کا منشور بنا لیں کیوں کہ انبےأکرام اور اولیائے کرام کا یہی مشن تھا اور تا قیامت یہی مشن جاری و ساری رہے گا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment