Thursday, May 9, 2024

اظہر سجاد ( شاعر و افسانہ نگار ) انٹرویو : صاحب زادہ یاسر صابری

 









اظہر سجاد

شاعر اور افسانہ نگار

انٹرویو:صاحبزادہ یاسر صابری

03115311991


اظہر سجاد کا تعلق کھوڑ کمپنی تحصیل پنڈی گھیپ ضلع اٹک سے ہے۔ آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے انگریزی ادب ماسٹرز کیا ہے۔محکمہ سپیشل کمیونیکیشن آرگنائزیشن ((SCOسے ریٹائرمنٹ کے بعد دی ایجوکیٹرز کھوڑ کیمپس میں درس و تدرس سے وابسطہ ہیں۔  اکتوبر2017 ء سے جنوری 2022ء تک حلقہ اربابِ ذوق کھوڑ کی جائنٹ سیکریٹری رہے۔ اُس کے بعد تا حال حلقہ اربابِ ذوق کھوڑ کے سیکریٹری ہیں۔حلقہ اربابِ ذوق کھوڑ ایک فعال ادبی تنظیم ہے جس کی میں بنیاد 04   اپریل 2004 ء  میں معروف شاعر اختر عثمان اور منظر نقوی نے کھوڑ میں ابرار حسین باری، ضامن جعفری اور عقیل ملک کی ادبی سرگرمیوں اور خدمات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے رکھی۔

اظہر سجاد  حمد، نعت، سلام، نظم اور غزل کہتے ہیں۔اس کے علاوہ افسانہ نگار بھی ہیں۔  اِن کی غزلیں،نظمیں اور افسانے مختلف اخبارات اورجرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ ”حلقہ اربابِ ذوق انٹرنیشنل“ کے فورم پر اِن کے متعدد افسانے تنقید کے لیے پیش ہو کر معروف ادیبوں سے داد و تحسین پا چُکے ہیں۔

 سوال۔ آپ ادب کی طرف کب آئے اور شروع شروع میں کِن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟

جوا ب۔ ادب سے وابستگی تو بچپن سے ہی تھی۔  دوران ِ ملازمت بھی لکھنے لکھانے کا عمل جاری رہا۔  شروع شروع میں دوسرے کئی لکھاریوں کی طرح مناسب ادبی ماحول میّسر نہ آنا میرے لیے سب سے بڑا مسئلہ تھا۔  لیکن حلقہ اربابِ ذوق کھوڑ سے منسلک ہونے کے بعدیہ کمی پوری ہو گئی۔

سوال۔ آپ نے لکھنے کا آغاز افسانہ نگاری سے کیا پھِر آپ شاعری کی طرف کیسے آئے؟

جواب۔ میں نے لکھنے کا آغازافسانہ لکھنے سے کیا،  میں نے پہلا افسانہ تیرہ سال کی عمر میں لکھا۔  شاعری کی طرف رغبت ایک فطری عمل ہے، کیوں کہ شاعری احساسات، جذبات اور تخیلات کا جامع، منظم اور خوبصورت اظہار ہے۔  اِس لیے جلد ہی میں نے شعر کہنا شروع کر دیا۔

سوال۔ برِ صغیر پاک و ہند کی عصری شعریات میں اردو شاعری کہاں کھڑی ہے؟

جواب۔ اُردو شاعری مُسلسل ترقی کی منازل طے کر رہی ہے۔ نظم اور غزل میں نئے نئے تجربات کیے جا رہے ہیں، نئے نئے اور منفرد مضامین لائے جا رہے ہیں۔  میرے خیال میں اِ س میں اب بھی وسعت کی کافی گنجائش موجود ہے۔  اُردو شاعری کا مستقبل تابناک ہے۔

سوال۔ آپ کو اپنی ابتدائی شاعری یاد ہے؟

جواب۔ میر ی پہلی غزل جو پنجابی میں تھی اُس کے چند اشعار:

تیرے پیار نوں دِلوں بُھلا کے ویکھاں گا

دِل دا اُجڑیا شہر وسا کے ویکھا ں گا

سِدھیاں سِدھیاں راہواں تے میں ٹُرناں واں 

پتھراں دی نَگری چہ جا کے ویکھاں گا

سارے سنگی ساتھی رُس رُس جاندے نیں 

تینوں وی ہِک وار منا کے ویکھاں گا

ابتدائی شاعری میں سے ایک قطعہ

بحرِ خرد میں جھانک کے دیکھا تھا کِس لیے

خود آگہی کے شوق میں کیا ڈھونڈتا پِھرا

ڈرتا ہوں اب تو اپنے خدو خال دیکھ کر

اِک آئینوں کے شہر میں ہی گھومتا پھِرا


سوال۔ کیا مستقبل میں اُردو نظم اُردو غزل سے آگے بڑھتی نظر آ رہی ہے؟

جواب۔ میرے خیال میں غزل اپنے شعری جمال،  جامعیت  اور اختصار کی وجہ سے ہمیشہ سے شعراء کی پسندیدہ صنفِ سُخن اور پہلی ترجیح رہی ہے جوبیک وقت مشکل بھی ہے اور آسان بھی۔  جہاں تک نظم کا تعلق ہے تو ہم یہ کَہ سکتے ہیں کہ نظم نے اُردو ادب کو نئے نئے موضوعات سے روشناس کرایا ہے۔  علامہ اقبا ل، جوش، میرا جی، ابنِ انشا،  وغیرہ نے باکمال نظمیں لکھیں۔ ن۔م راشد،  مجید امجد اور رفیق سندیلوی نے نظم کو نئے جہانوں سے روشناس کرایا۔  بعض بہت اعلیٰ غزل گو شاعروں نے بھی دل کو چُھو لینے والی نظمیں تخلیق کیں۔ جِس طرح غزل نے داخل سے خارج کے طرف سفر کیا بالکل اُسی طرح نظم میں بھی خارجی رجحانات سے باطنی اکتساب کا رجحان اُبھرا۔  میرے خیال میں ابھی امکانات کا ایک خوبصورت منظر نامہ ہمارے پیشِ نظر ہے۔  لہٰذا آنے والا وقت ہی طے کرے گا کہ اُردو نظم اوراُردو غزل کیا رُخ اختیار کرتی ہیں۔

سوال۔ آپ اپنی شناخت غزل کو بنائیں گے یا نظم کو؟

جواب۔ دیکھیں! لکھیں کی صلاحیت خداداد ہوتی ہے۔ انسان کے اندر کا لکھاری جب مچلتا ہے تو وہ کسی بھی صنفِ سُخن پر طبع آزمائی کر سکتا ہے۔  ہاں بعد میں وہ اپنی کوئی خاص سمت معیّن کر سکتا ہے۔ جہاں تک میرا تعلق ہے تو میں نے غزل کہی،  نظم  میں حمد، نعت، منقبت اور سلام بھی لکھے،  اس کے علاوہ افسانے بھی لکھے۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ ایک لکھاری کا کام لکھنا ہے۔ اب یہ قاری پر منحصر ہے کہ وہ کِس صنف کو ہماری شناخت قرار دیتا ہے۔

سوال۔ کیا آپ نے کِسی شاعر سے اثر نہیں لیا؟

جواب۔ ہم جس ماحول میں سانس لیتے ہیں اور جس معاشرے میں پروان چڑھتے ہیں یقینا اُس سے متاثر ہوتے ہیں۔  بِعَینہٖ کلاسیکی شعراء سے ہم بہت کچھ سیکھتے ہیں اور عصرِ حاضر کے شعراء سے متاثر ہونابھی ایک فطری عمل ہے۔  تاہم ہر تخلیق کار کی کوشش اور خواہش ہوتی ہے کہ وہ اپنی ایک الگ پہچان بنائے۔

سوال۔ آپ نے اب تک اپنی کوئی کتاب شائع کیوں نہیں کرائی؟

جواب۔ چند وجوہات کی بنا پر ایسا ممکن نہ ہوسکا۔ تاہم بہت جلد میرے افسانوں کا مجموعہ شائع ہو گا۔

سوال۔ آپ کے علاقے کی اہم ادبی شخصیات؟

جواب۔ اگرچہ میرا تعلق ایک پسماندہ علاقے سے ہے۔  تاہم یہاں علم و ادب سے محبت رکھنے والوں کی ہر گز کمی نہیں۔  مرحوم کوثر جعفری کھوڑ کی معروف ادبی شخصیت تھے،  وہ باقاعدگی سے مشاعروں کا اہتمام کرتے تھے اور اُن کی متعدد کُتب بھی شائع ہو چکی ہیں۔ اسی طرح ابرار حسین باری مرحوم اور عقیل ملک نے ہمارے علاقے میں ادب کی ترویج کے لیے بہت کام کیا۔  اس کے علاوہ ضامن جعفری، عمران بشیر، جان عنایت فہمید، محمد صفی الدین، طاہر شہزاد، راجہ عرفان، محمد نور باغی، تقی رضا،جابر حسین، ابراہیم خلیل، شہزاد شناور، حسن رضا فاروق وہ لوگ ہیں جو ادب سے منسلک ہیں اور عمدہ شاعری کر رہے ہیں۔

سوال۔ معاشرے میں نثر زیادہ مؤثر ہے یا شعر زیادہ اثر رکھتا ہے؟

جواب۔ در اصل نثر ہی طویل مباحثوں اور اپنی بات عام لوگوں تک سادگی اور سلاست سے پہنچانے کی متحمل ہو سکتی ہے۔  اِسی طرح ناول، ڈرامہ اور افسانہ اپنے مخصوص طرز ِبیان کی وجہ سے ہمیشہ سے با اثر رہے ہیں۔  تاہم شعر بھی اپنے اختصار، جامعیت اور جمال کی بنا پر کافی اثر انگیز ہے۔  اِس لیے نثر اورشعر دونوں مؤثر ہو سکتے ہیں۔  اب یہ لکھاری پر منحصر ہے کہ کو کِس انداز میں اپنا مدعا بیان کرتاہے۔

سوال۔ غزل اپناعروج دیکھ چُکی ہے آپ کیا فرماتے ہیں؟

جواب۔ دیکھیں! سائنسی، اقتصادی اور معاشرتی تغّیر و تبدل انسانی نفسیات پر اپنا گہرا اثر رکھتا ہے۔  چوں کہ شاعر معاشرے کا حساس فردہوتا ہے،  اس لیے وہ اِن تغّیرات کو ذرا مختلف انداز سے دیکھتا اور محسوس کرتا ہے۔  اِس کا اندازہ ہم اِس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ماضی کے سیاسی اور اقتصادی حالات کی تبدیلی سے ہماری غزل بھی بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر متاثر ہوئی ہے۔  لہٰذا  میں سمجھتا ہوں کہ غزل ہر لمحہ بدلتی دُنیا اور حالات کے تناظر میں عروج کی  نئی راہیں اورترقی کی نئی منزلیں تلاش کرے گی۔

سوال۔ آپ کی غزلیں اور افسانے کہاں کہاں شائع ہوتے رہے؟

جواب۔ میری غزلیں اور افسانے  مختلف اخبارات اور جرائد میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ کچھ افسانے فیس بُک پہ  ”حلقہ اربابِ ذوق انٹرنیشنل“ کے فورم سے بھی شائع ہوتے رہے ہیں۔

سوال۔ کِسی ادبی شخصیت کا نام جس نے علمی سطح پر آپ کو بہت متاثر کیا ہو؟

جواب۔ جان کیٹس اور ارنسٹ ہمنگوے وہ لکھاری ہیں جن کی تحریریں مجھے بہت زیادہ متاثر کرتی ہیں۔

سوال۔ بعض لوگ طرحی مشاعروں کے حق میں نہیں؟

جواب۔ ہمارے ہاں مشاعروں کی روایت کافی قدیم ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اِ س میں بہت سے تبدیلیاں بھی رونما ہوئی ہیں۔مشاعرے تہذیب کی اشاعت کا کام کرتے ہیں اور شعراء میں ادبی تخلیق کی تحریک بھی پیدا کرتے ہیں۔  مشاعرے اصلاحِ سُخن کے سا تھ ساتھ ادب اور عوام کے درمیان رابطے کا ذریعہ بھی ہیں۔جہاں تک طرحی مشاعروں کا تعلق ہے تو میرے خیال میں طرحی مشاعروں کو نوجوان شعراء کو راغب کرنے اور مشقِ سخن کے لیے جاری رکھا جانا چاہیے۔

سوال۔ کہا جاتا ہے کہ علامتی افسانے کے باعث پیدا ہونے والے خلا کو جدید سفرنامے نے پُر کیا ہے۔ اِس بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟

جواب۔ میں سمجھتا ہوں کہ سفرنامہ کسی طور بھی کِسی بھی قسم کے افسانے کا نعم البدل نہیں ہوسکتا۔  اگر سفر نامے میں افسانوی رنگ پیدا کیا جائے تو سفر نامہ اپنا اعتبار کھودے گا۔

سوال۔ آپ کے نزدیک اُردو افسانے کا مستقبل کیا ہے؟

جواب۔ افسانے کا مرکز و محور انسان،  داخلی  و  خارجی عوامل اور اُن کا ردِعمل ہے۔ انسان جس قدر نئے نئے مسائل سے دوچار ہو رہا ہے اُسی قدر اُس کے ہمہ جہت نفسیاتی اور سماجی  رویے سامنے آ رہے ہیں۔  اُردو افسانہ اِن بدلتے ہوئے انسانی مسائل کی پیچیدہ تہوں کو کُھول رہا ہے۔  اُردو افسانے نے بیانیہ سے علامت اور تجرید کے بعد اب مائیکرو فکشن تک کا سفر طے کر لیا ہے۔  میرے خیال میں اُردو افسانے نے ابھی بہت آگے جانا ہے۔

سوال۔ کیا افسانوں کا دیگر زبانوں میں ترجمہ ہونا چاہیے؟

جواب۔ جی ہاں! ہونا چاہیے۔ کیوں کہ جس طرح ہم دوسری ثقافتوں اور علاقوں کے ادب سے اُن کے تراجم کی وجہ سے آشنا ہوئے ہیں،  اسی طرح ہمارے افسانوں کے تراجم سے دُنیا ہماری فِکری سطح اور سمت سے بھی روشناس ہو گی۔

سوال۔ کہا جاتا ہے کہ ہماری غزل کے شعر جیسا تاثر انگریزی شاعری میں نہیں؟

جواب۔ میرے خیال میں یہ کہنا بالکل بھی درست نہیں کہ ہماری غزل کے شعر جیسا تاثر انگریزی شاعری میں نہیں۔ ہم طرزِ فکر اورداخلی و خارجی میلانات کے اظہار میں اب بھی بہت پیچھے ہیں۔  ابھی اُردو زبان بعض جذبات واحساسات کی عکاسی میں تشنہ نظر آتی ہے۔  میں سمجھتا ہوں کہ اُردو زبان پہ ابھی بہت سا کام کرنے کی گنجائش موجود ہے۔

سوال۔ یورپ میں افسانہ کم کیوں لکھا جا رہا ہے؟جواب۔ سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے استعمال کی وجہ سے کتابیں پڑھنے والوں کی تعداد بڑی حد تک کم ہو گئی ہے۔  یہی وجہ ہے کہ لوگ لکھنے کی بجائے اظہار کے دوسرے ذرائع استعمال کر رہے ہیں اور نثری ادب بشمول افسانہ بہت کم لکھا جا رہا ہے۔  پاکستان اور یورپ سمیت پوری دُنیا میں یہی صورتِ حال ہے۔ اگر کچھ لکھا بھی جا رہا ہے تو سیاسی، تفریحی اور سائنسی موضوعات کو زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے۔  تاہم میرا خیال ہے کہ یہ جمودبہت جلد ٹوٹ جائے گا اور لوگ کتاب کی طرف لوٹیں گے۔

سوال۔ آپ کی اپنی پسندیدہ شاعری؟

جواب۔

مدحتِ صاحبِ اقرا کی سند چاہتے ہیں 

ہم درِ شاہِ مدینہ سے مدد چاہتے ہیں 


وہ سما جائیں نگاہوں میں یہ ممکن ہی نہیں 

دیکھ لے جو پسِ ادراک وہ قد چاہتے ہیں 


ہم بھی فطرس کی طرح در پہ کھڑے ہیں اظہر

اب زمانے سے فرشتوں سا حسد چاہتے ہیں 

۔،۔،۔،۔،

اُکتا گئے کچھ ایسے دلِ لخت لخت سے

بیٹھے ہیں خانقاہ پہ مُردہ پرست سے


دیوار چاٹنے کی سزا ہم پہ آ پڑی

معدوم ہو گئے ہیں وہی لوگ پست سے


اظہر میں جنگلوں میں بھٹکتا رہا مگر

کوئی صدا نہ آئی کسی بھی درخت سے

۔،۔،۔،۔۔

کچھ درختوں کو ڈھا دیا میں نے

کچھ پرندے بھی بے وفا نکلے

۔،۔،۔،۔،،۔

لوٹ آئیں گے دبے پاؤں بلائیں تو سہی

وہ خطا کار جو جنت سے نکالے ہوئے ہیں 

۔،۔،۔،۔،۔،

ہم تو رونے کی روایت سے جُڑے ہیں کب سے

یہ نہ سوچو کہ جدا ہوں گے تو مر جائیں گے

۔،۔،۔،۔،۔،۔،۔.............................................

No comments:

Post a Comment