Saturday, June 29, 2024

پنجابی غزل ( یاسین یاس ) گرمکھی : امرجیت سنگھ جیت

 








غزل/ ਗ਼ਜ਼ਲ


سچے دل دے نال محبت کر دے نیں 

اکدوجے نوں بال محبت کردے نیں

ਸੱਚੇ ਦਿਲ ਦੇ ਨਾਲ਼ ਮੁਹੱਬਤ ਕਰਦੇ ਨੇਂ

ਇਕ ਦੂਜੇ ਨੂੰ ਬਾਲ ਮੁਹੱਬਤ ਕਰਦੇ ਨੇਂ


اوہناں بارے کل دا کجھ نئیں کہہ سکدا 

اج تائیں فی الحال محبت کردے نیں 

ਉਨ੍ਹਾਂ ਬਾਰੇ ਕੱਲ੍ਹ ਦਾ ਕੁੱਝ ਨਈਂ ਕਹਿ ਸਕਦਾ

ਅੱਜ ਤਾਈਂ ਫ਼ਿਲਹਾਲ ਮੁਹੱਬਤ ਕਰਦੇ ਨੇਂ


یاراں بارے بالاں بارے دسدا جاں

جے نیں تیری ڈھال محبت کردے نیں 

ਯਾਰਾਂ ਬਾਰੇ ਬਾਲਾਂ ਬਾਰੇ ਦੱਸਦਾ ਜਾਂ

ਜੇ ਨੀਂ ਤੇਰੀ ਢਾਲ਼ ਮੁਹੱਬਤ ਕਰਦੇ ਨੇਂ


دکھ تے سکھ وی انج محبت کر دے نیں 

جسراں سر تے تال محبت کردے نیں

ਦੁੱਖ ਤੇ ਸੁੱਖ ਵੀ ਇੰਜ ਮੁਹੱਬਤ ਕਰਦੇ ਨੇਂ

ਜਿਸਰਾਂ ਸੁਰ ਤੇ ਤਾਲ ਮੁਹੱਬਤ ਕਰਦੇ ਨੇਂ


یاس جی اوڑک سجن وچھڑ جاندے نیں

بھاویں جنے سال محبت کر دے نیں 

ਯਾਸ ਜੀ ਓੜਕ ਸੱਜਣ ਵਿਛੜ ਜਾਂਦੇ ਨੇਂ

ਭਾਵੇਂ ਜਿੰਨੇ ਸਾਲ ਮੁਹੱਬਤ ਕਰਦੇ ਨੇਂ


یاسین یاس 

پھول نگر پنجاب پاکستان

ਯਾਸੀਨ ਯਾਸ

ਫੂਲ ਨਗਰ ਪੰਜਾਬ ਪਾਕਿਸਤਾਨ


Thursday, June 13, 2024

نظم ( غریبی ) شاعر پال جالندھری

 








نظم

غریبی

اوہ منگے سونے دی مُندری یارا

اوکھا میرا ہوندا گُزارا

کم کار کوئی سِرۓ نہ چڑھدا

شِکر دوپہر میں دُھپے مردا

سارا دِن میں پانی پی  پی

بھکھ اپنی نوں رہندا جردا

رات نوں گھر جان لگے جد

دِل میرا اے رہندا ڑردا

پتہ نہیں نصیب چ ہونی وی اے

جِس روٹی لئی میں تِل تِل مردا

اج وی کِدھرے لڑھ نہ جاوے

غریبی والے اِس سپ توں ڈردا

پیسے بِنا کوئی پُچھدا نہی جالندھری

پال توں اوس دا جِناں مرضی کردا

شاعر

پال جالندھری

چیف ایڈیٹر

حرفاں دی نگری

شاہ مُکھی لپّی

سلیم آفتاب سلیم قصوری

(ਗਰੀਬੀ) 


ਉਹ ਮੰਗੇ ਸੋਨੇ ਦੀ ਮੁੰਦਰੀ ਯਾਰਾਂ, 

ਔਖਾ ਮੇਰਾ ਹੁੰਦਾ ਗੁਜਾਰਾ |

ਕੰਮ ਕਾਰ ਕੋਈ ਸਿਰੇ ਨਾ ਚੜ੍ਹਦਾ, 

ਸਿਖਰ ਦੁਪਹਿਰੇ ਮੈਂ ਧੁੱਪੇ ਮਰਦਾਂ|

ਸਾਰਾ ਦਿਨ ਮੈਂ ਪਾਣੀ ਪੀ ਪੀ, 

ਭੁੱਖ ਆਪਣੀ ਨੂੰ ਰਹਿੰਦਾ ਜਰਦਾ|

ਰਾਤ ਨੂੰ ਘਰ ਜਾਣ ਲੱਗੇ ਜੱਦ, 

ਦਿਲ ਮੇਰਾ ਏ ਰਹਿੰਦਾ ਡਰਦਾ |

ਪਤਾ ਨਈ ਨਸੀਬ ਚ ਹੋਣੀ ਵੀ ਏ , 

ਜਿਸ ਰੋਟੀ ਲਈ ਮੈਂ ਤਿਲ ਤਿਲ ਮਰਦਾ |

ਅੱਜ ਵੀ ਕਿੱਧਰੇ ਲੜ ਨਾ ਜਾਵੇ, 

ਗਰੀਬੀ ਵਾਲੇ ਇਸ ਸੱਪ ਤੋਂ ਡਰਦਾ |

ਪੈਸੇ ਬਿਨਾਂ ਕੋਈ ਪੁੱਛਦਾ ਨੀ ਜਲੰਧਰੀ , 

ਪਾਲ ਤੂੰ ਉਸ ਦਾ ਜਿਨਾਂ ਮਰਜੀ ਕਰਦਾ |

Tuesday, June 11, 2024

رشتے ( جگتار فتح پور ) شاہ مکھی : سلیم آفتاب سلیم قصوری

 







رشتے

جو مطلب رکھّن نال پیسے

اوہناں اپنیاں دا کیہ کرنا

جیہڑے چاہ کے وی نہ ہون پُورے

اوہناں سپنیاں دا کیہ کرنا


جو گل گل تے دین طعنے

اوہناں اپنیاں توں چنگے غیر نے

منزل تے بندہ اوہ کدے نہ پہنچے

جِس دے اپنے ہی کھیچ دے پیر نے 


نیواں دیکھاون لئی اپنیاں نوں

ہرطراں دا کھیڑدے سجّن چال نے

دل وچ ہی لے کے مر جانا

لکھاں جو دِل وچ سجناں سوال نے۔


میں ررشتے  نوں بچاون لئی سجناں

ہر اک کوشش کردا رہیا

کیہ دسّاں میں اندرو اندری 

کِناں مردا رہیا۔


اج پتہ لگیا دِل مرجانے نوں

ہر رشتہ پیسے تے ٹِکیا اے

پال رشتے بچاون لئی

جالندھری کِنّی واری وِکِیا اے


پیسے بنا اوہ وی پاسہ وٹدے

جو رشتے دل دے قریب ہووے

یاں تاں ربّا دنیا بنانی بند کر دے

یاں فِر کوئی نہ ایتھے غریب ہووے۔


کڈھ دیندا اے پیسہ بھرم بندے دا

کیہ اپنے کِنّے اوہندے قریب ہوندے

 جگتار سب اوسدا ساتھ چھڈ جاون

فتح پُر جو پیسے دے نہ امیر ہووے

شاعر








جگتار فتح پور

شاہ مُکھی لپّی

سلیم آفتاب سلیم قصوری

(ਰਿਸ਼ਤੇ)

ਜੋ ਮਤਲਬ ਰੱਖਣ  ਨਾਲ  ਪੈਸੇ, 

ਉਹਨਾ ਆਪਣਿਆ ਦਾ  ਕੀ ਕਰਨਾ, 

ਜਿਹੜੇ ਚਾਹਕੇ  ਵੀ ਨਾ ਹੋਣ  ਪੂਰੇ, 

ਉਹਨਾ ਸੁਪਨਿਆ ਦਾ ਕੀ ਕਰਨਾ |


ਜੋ  ਗੱਲ  ਗੱਲ  ਤੇ ਦੇਣ ਤਾਹਨੇ,

ਉਨਾ ਆਪਣਿਆ ਤੋ ਚੰਗੇ ਗੈਰ ਨੇ, 

ਮੰਜਿਲ  ਤੇ ਬੰਦਾ ਉਹ ਕਦੇ ਨਾ ਪਹੁੰਚੇ, 

ਜਿਸਦੇ ਆਪਣੇ ਹੀ ਖਿੱਚ ਦੇ ਪੈਰ ਨੇ|


ਨੀਵਾਂ  ਦਿਖਾਉਣ ਲਈ ਆਪਣੀਆਂ ਨੂੰ, 

ਹਰ ਤਰਾਂ ਦੀ ਖੇਡਦੇ ਸੱਜਣ ਚਾਲ ਨੇ| 

ਦਿਲ ਵਿੱਚ ਹੀ ਲੈ ਕੇ ਮਰ ਜਾਣਾ, 

ਲੱਖਾਂ ਜੋ ਦਿਲ ਵਿੱਚ ਸੱਜਣਾਂ ਸਵਾਲ  ਨੇ |


ਮੈ ਰਿਸ਼ਤੇ ਨੂੰ ਬਚਾਉਣ ਲਈ ਸੱਜਣਾਂ, 

ਹਰ ਇੱਕ  ਕੋਸ਼ਿਸ਼  ਕਰਦਾ ਰਿਹਾ|

ਕੀ ਦੱਸਾਂ ਮੈ ਅੰਦਰੋ ਅੰਦਰੀ, ਕਿਨਾਂ ਮਰਦਾ ਰਿਹਾ|


ਅੱਜ  ਪਤਾ ਲੱਗਿਆ ਦਿਲ ਮਰਜਾਣੇ ਨੂੰ, 

ਹਰ ਰਿਸਤਾ ਪੈਸੇ ਤੇ ਟਿਕਿਆ  ਏ|

ਪਾਲ ਰਿਸ਼ਤੇ ਬਚਾਉਣ ਲਈ, 

ਜਲੰਧਰੀ ਕਿੰਨੀ ਵਾਰੀ ਵਿਕਿਆ ਏ|


ਪੈਸੇ ਬਿਨਾਂ ਉਹ ਵੀ ਪਾਸਾ ਵੱਟਦੇ,

ਜੋ ਰਿਸ਼ਤੇ ਦਿਲ ਦੇ ਕਰੀਬ ਹੋਵੇ |

ਜਾਂ ਤਾਂ ਰੱਬਾਂ ਦੁਨੀਆ ਬਣਾਉਣੀ ਬੰਦ ਕਰਦੇ, 

ਜਾ ਫੇਰ ਕੋਈ ਨਾ ਏਥੇ ਗਰੀਬ ਹੋਵੇ| 


ਕੱਢ ਦਿੰਦਾ ਏ ਪੈਸਾ ਭਰਮ ਬੰਦੇ ਦੇ, 

ਕੀ ਆਪਣੇ ਕਿੰਨੇ ਉਹਦੇ ਕਰੀਬ ਹੋਵੇ 

ਜਗਤਾਰ ਸਭ ਉਸ ਦਾ ਸਾਥ ਛੱਡ ਜਾਵਣ,

ਫਤਿਹਪੁਰ ਜੋ ਪੈਸੇ ਦੇ ਨਾ ਅਮੀਰ ਹੋਵੇ|

Saturday, June 8, 2024

ہمارے عہد کے بچے ( یاسین یاس )








ہمارے عہد کے بچے 


ایک وقت تھا جب والدین بچوں کو فجر کی اذان سے پہلے ہی اٹھا دیا کرتے تھے تاکہ وہ نہا دھو کر مسجد جائے اور باجماعت نماز ادا کرنے کے بعد سپارہ پڑھے اور اس کے بعد سات بجے تک واپس آکر ناشتہ کرے اور سکول کے لیے نکل جائے اس وقت سکول بھی پیدل ہی جانا ہوتا تھا اور سکولوں کی اکثریت دو تین کلومیٹر دور ہی تھی سکول میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ کچھ وقت کھیل کو بھی دیا جاتا تھا تاکہ بچوں کی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوں سکول سے واپسی پر بچہ دوپہر کا کھانا کھاکر تھوڑی دیر سکون کرتا اس کے بعد دوبارہ فریش ہوکر ہوم ورک کرتا اور عصر کی نماز پڑھ کر میدانوں کارخ کرتا جہاں اس کے ہم عمر پنہچنا شروع ہوچکے ہوتے وہ میدان گراؤنڈ ہی نہیں کوئی بھی زمین جو خالی پڑی ہوتی وہی ان کے گراؤنڈ ہوتے جہاں طرح طرح کی کھیلیں ان کی منتظر ہوتی گلی ڈنڈا پٹھو گرم، کانچے، اخروٹ ،کبڈی، للا بتی ، وانجو، رسہ کشی،  پیڑی کڈھنا، کوکلا چھپاکی،  چینڈا چینڈی، گھڑمس گھوڑی، دھپ چھاں،  لکڑ کڑانگا، وینی پکڑنا، پڑل پر چھلانگیں لگانا، نیزا بازی مطلب یہ کہ عمر تجربے اور جند جان کے حساب سے سارے بچے کھیلوں میں مصروف ہوجاتے جن کی گاؤں یا دیہہ کے بڑے بزرگ وہاں بیٹھ کر نگرانی بھی کرتے اور حوصلہ افزائی بھی کرتے عشاء تک یہ کھیل ختم ہوجاتا سب بچے گھر واپس جاکر نہاتے اور رات کھانا کھا کر لکن میٹی کھیلنے کے لیے نکل پڑتے جو رات دس گیارہ بجے تک جاری رہتی اس کے بعد تھکے ہارے بچے آکر سو جاتے اور اگلے دن دوبارہ وہی روٹین شروع ہوجاتی اس وقت بچوں کی صحت قابل رشک تھی بیماریوں کا نام و نشان تک نہیں  تھا ذہن فریش ہوتے تھے آگر آپ میری بات سے متفق نہ ہوں تو آج سے بیس پچیس سال سروس کرکے ریٹائر ہونے والے فوجیوں سااہیوں اور دوسرے لوگوں کو خود دیکھ ان کا قد کاٹھ موجودہ نسل سے بہت اچھا ہے اس کی یہی وجہ ہے آج کے بچے کو وہ سب میسر ہی نہیں ہے وہ تو سہما ہوا مدرسے جاتا ہے کئی تو مسجد مدرسے بھی نہیں جاتے قاری صاحب گھر ہی سبق دے جاتے ہیں یا آن لائن پڑھ لیا جاتا ہے سکول ہم اسے گاڑی یا بائک پر خود چھوڑنے جاتے ہیں سکول میں اسے پڑھائی کے نام پر سارا دن چھوٹے چھوٹے ڈربہ نما کمروں میں بند رکھا جاتا ہے جہاں نہ کھیل کا میدان ہوتا ہے تفریح کا کوئی موقع صرف کھانے پینے کے لیے آدھا گھنٹہ ریسٹ دی جاتی اور اس میں بھی بچہ سکول سے باہر نہیں جاسکتا بلکہ سکول کی ہی بنی ہوئی کنٹین سے جو کھانا ہے کھا سکتا ہے تاکہ سکول کی ہی آمدنی میں اضافہ ہو جہاں پانچ روپے والی شے بھی دس کی ملتی ہے ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اچھے سے اچھا سکول اور اس کا تعلیمی ریکارڈ تو دیکھتے ہیں لیکن کھیل کا میدان نہیں دیکھتے گلی محلے میں کھلنے والے نامور ادارے بھی کھیل کا گراؤنڈ نہیں رکھتے حالانکہ ان کی فیسیں عام آدمی کی پنہچ سے دور ہیں بچہ وہاں سے آکر ذہنی طور پر اتنا تھک چکا ہوتا ہے کہ وہ آکر صرف آرام ہی کرسکتا ہے کھیل کود نہیں سکتا اگر کوئی بچہ کھیلنا بھی چاہے تو اس کو کھیلنے والے اس کے ہم عمر ہی میسر نہیں ہیں ہم سب کی کوشش ہوتی ہے کہ بچے پر اتانا خرچہ کیا جارہا ہے فیسوں کی مد اس کے بعد ٹیوشن کی مد تو بچہ کتابوں کے سوا نہ کچھ دیکھے نہ ٹیچر کے علاوہ کسی کی آواز سنے بچے کی سب سے بڑی تفریح آ جا کے ٹیلی وژن بچتا ہے یا موبائل فون پر گیم کھیلتے ہیں  جسے دیکھ کر / کھیل کر وہ سو جاتا ہے بچے کو روزانہ ایک گھنٹہ بھی ہم اس کی مرضی کے مطابق نہیں گزارنے دیتے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہمارے عہد کے بچے بچے نییں رہے بلکہ وہ بڑوں کی طرح سنجیدہ ہوگئے ہیں اپنی عمر سے بڑے نظر آنے لگے ہیں بہت سارے بچوں کو جسمانی کمزوری کا سامنا ہے قد چھوٹے ہیں جسم دبلے پتلے ہیں نظر کمزور ہے خود اعتمادی کی کمی ہے کئی تو لڑکے ہوکر بھی لڑکیوں کی طرح شرمیلے دکھائی دیتے ہیں یہ سارے مسائل اس لیے ہیں کہ بچوں کھیلنے کے مواقع میسر نہیں رہے میں سمجھتا ہوں یہ ہم والدین کی غلطی ہے جسے سدھارنے کی ضرورت ہے کیونکہ جب تک بچہ بچوں جیسی حرکتیں نہ کرے اسے بچہ نہیں کہا جاسکتا آج ہم سب اپنے بچپن کو یاد کرکے ٹھنڈی آہیں بھرتے ہیں تو اس کی وجہ صرف ہمارا بچپن کا گزرا وقت ہی ہے جسے ہم نے بچوں کی طرح خوب انجوائے کیا کھیلے کودے موج مستی کی تو پھر سوچیں کیا ایسا کرنا ہمارے بچوں کا حق نہیں ہے امید ہے آپ اپنے بچوں کو ان کا بچپن ضرور لوٹائیں گے 


تحریر :  یاسین یاس

Saturday, June 1, 2024

خبراں والی مائی تحریر = یاسین یاس

 








خبراں والی مائی 


ہمارے گاؤں میں ایک دو کردار ایسے ہیں بلکہ ہر گلی محلے اور گاؤں میں ہوتے ہیں آپ کے ہاں بھی ہوں گے وہ عورت بھی ہوسکتی اور مرد بھی جن کی ہر آنے جانے والے پر نظر ہوتی ہے جس کو مرد ہو تو بلاشبہ کسی چینل کا نام دیا جاسکتا ہے اور عورت ہوتو خبراں والی مائی کہا جاسکتا ہے جو ہر وقت نئی سے نئی خبر بریک کرنے کی تگ و دو میں ہوتے ہیں کسی کے ہاں بچہ پیدا ہوا ہو کسی کی بیوی سے لڑائی ہوگئی ہو کسی کو لڑکے والے دیکھنے آرہے ہوں کسی کی کسی کے ساتھ سیٹنگ چل رہی ہو کسی بہو ساس کا جھگڑا ہوگیا ہو ان کو سب سے پہلے خبر ہوتی ہے اور ایسے کردار پیٹ کے بہت ہلکے ہوتے ہیں کوئی پوچھے نہ پوچھے وہ لوگوں کو بتانا اپنا فرض سمجھتے ہیں ایسے کردار ملوں اور سرکاری و نیم سرکاری دفتروں میں بھی پائے جاتے ہیں جو ہر وقت کسی نہ کسی کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں لہجے کے بڑے میٹھے نظر آتے ہیں لیکن وہ آپ سے کوئی نہ کوئی ایسی بات اگلوائیں گے چاہے اس کے لیے انہیں خود باس کو گالیاں ہی کیوں نہ دینا پڑیں لیکن اگر آپ نے اس کی ہاں میں ملا دی تو اس کا کام ہوگیا اس نے یہ نہیں بتانا کہ میں نے بھی گالیاں دی تھیں اس نے یہی کہنا ہے کہ وہ آپ کو گالیاں دیتا ہے جو میں نے خود سنی ہیں ایسے لوگ بہت خطرناک ہوتے اس بی کئیر فل ایسے ہی ایک کردار نے مجھے صبح سویرے روکا اور بتایا کہ کچھ پتہ چلا رات کو کیا ہوا ہے میں نے کہا نہیں تو اس نے بتایا کہ فلاں کی لڑکی فلاں کے یٹے کے ساتھ بھاگ گئی تھی رات کو صبح ہونے سے پہلے پہلے اسے واپس لے آئے ہیں میں نے خود انہیں دیکھا ہے ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ میں صبح صبح پھر اس کے ہتھے چڑھ گیا اس نے مجھ سے پوچھا کہ ذرا ذہن پر زور دے کر سوچنا کہ فلاں لڑکی کی شادی کب ہوئی تھی میں نے کہا مجھے کیا معلوم کب ہوئی تھی ویسے بھی مجھے کیا پڑی ہے کہ میں دوسروں کی شادی کی تاریخ یاد رکھوں مجھے تو اپنی شادی کی تاریخ یاد نہیں ہے میرے ایسا کہنے پر اس نے مجھے یاد دلایا کہ اسـکی شادی کا نیودرا تم نے لکھا تھا پھر تمھیں تاریخ یاد کیوں نہیں آرہی میں نے جان چھڑانے کے لیے اندازہ لگایا اور اسے تاریخ بتا دی کہ چلو اسـسے تو جان چھڑاؤں لیکن وہ کہاں ایسا کرنے والا تھا اس نے فٹ سے تاریخ کے حساب سے گنتی شروع کردی اور کہا اس حساب سے آٹھ مہینے بنتے ہیں میں نے کہا کس کے اس نے کہا اسی لڑکی کے ہاں لڑکا پیدا ہوا ہے بڑی حاجن بنتی تھی میں توبہ توبہ کرتا وہاں سے کھسک لیا شام تک وہی بات چھوٹے بڑے سب کی زبان پر تھی ایسے کردار چوبیس گھنٹے دوسروں کی ٹوہ میں لگے رہتے ہیں حالانکہ ان کا خود کا بھی یہی حال ہوتا ہے کسی ساس کی بہو سے نہ بنتی ہو یا بہو سے ساس سے نہ بنتی ہو یا کسی کا ہلکا پھلکا پڑوسی  یاـمحلے دار جھگڑا ہوگیا ہو ایسے گھر یا لوگ ان کرداروں کے پسندیدہ ہوتے ہیں وہ گاہے بگاہے ان کے ہاں چکر لگاتے ہیں اور لگائی بجھائی کرتے ہیں ایسے ہی ایک کو کہہ دیں گے وہ تمھارے بارے میں ایسا کہہ رہا تھا میں نے تمھیں بتانا ضروری سجھا تاکہ محتاط رہو وہ کوئی غلط قدم نہ اٹھا لے اور پھر دوسرے کو مل کر اسے بھی ایسا ہی کہیں گے اسی طرح ساس کو الگ میں ملیں گی اور بہو کو الگ سے اور اپنا کام صفائی سے کرجائیں گی ایسے کردار ہمارے معاشرے کے لیے ناسور ہیں جن کی وجہ سے کئی زندگیاں تباہ ہوچکی ہیں کئی گھر برباد ہوچکے ہیں کئی گھروں کے سہاگ اجڑ چکے ہیں کئی ماؤں کی گودیں اجڑ چکی ہیں ہمیں ان پر کڑی نظر رکھنی چاہیے اور ان سے خود بھی بچ کے رہنا چاہیے اور دوسروں کو بھی بچانا چاہیے یہ سب وہ تھوڑے بہت لالچ یا اپنی پھوں پھاں بنانے کے لیے کرتے ہیں یا کرتی ہیں تاکہ وہ سب سے نمایاں نظر آئیں ایسے لوگ ذہنی مریض ہوتے ہیں ایسے لوگ کسی کو نئے کپڑے پہنے ہوئے دیکھ لیں تو اس کی ٹوہ میں لگ جاتے ہیں کہ اس نے نیا سوٹ کیسے سلوا لیا اس کی تو اتنی آمدنی ہی نہیں کہیں اس نے کوئی دونمبر دھندہ تو نہیں شروع کردیا اگر سچ میں ایسا ہے تو اس کی تو ہوا خراب ہوجائے گی آج اسـنے کپڑے لیے ہیں کل کو بائک لے گا پرسوں گاڑی لے لےگا پھر تو یہ مجھ سے سلام دعا بھی نہیں کرے گا اس لیے اس کا ابھی سے بندوبست کرنا ہوگا حالانکہ ہوسکتا ہے اس بے چارے کسی نے تحفہ دیا ہو ہمارے ہاں تو دو تین لوگ ایسے ہیں اور آپ کے ہاں؟  بتائیے گا ضرور 


تحریر :  یاسین یاس