ہمارے عہد کے بچے
ایک وقت تھا جب والدین بچوں کو فجر کی اذان سے پہلے ہی اٹھا دیا کرتے تھے تاکہ وہ نہا دھو کر مسجد جائے اور باجماعت نماز ادا کرنے کے بعد سپارہ پڑھے اور اس کے بعد سات بجے تک واپس آکر ناشتہ کرے اور سکول کے لیے نکل جائے اس وقت سکول بھی پیدل ہی جانا ہوتا تھا اور سکولوں کی اکثریت دو تین کلومیٹر دور ہی تھی سکول میں پڑھائی کے ساتھ ساتھ کچھ وقت کھیل کو بھی دیا جاتا تھا تاکہ بچوں کی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوں سکول سے واپسی پر بچہ دوپہر کا کھانا کھاکر تھوڑی دیر سکون کرتا اس کے بعد دوبارہ فریش ہوکر ہوم ورک کرتا اور عصر کی نماز پڑھ کر میدانوں کارخ کرتا جہاں اس کے ہم عمر پنہچنا شروع ہوچکے ہوتے وہ میدان گراؤنڈ ہی نہیں کوئی بھی زمین جو خالی پڑی ہوتی وہی ان کے گراؤنڈ ہوتے جہاں طرح طرح کی کھیلیں ان کی منتظر ہوتی گلی ڈنڈا پٹھو گرم، کانچے، اخروٹ ،کبڈی، للا بتی ، وانجو، رسہ کشی، پیڑی کڈھنا، کوکلا چھپاکی، چینڈا چینڈی، گھڑمس گھوڑی، دھپ چھاں، لکڑ کڑانگا، وینی پکڑنا، پڑل پر چھلانگیں لگانا، نیزا بازی مطلب یہ کہ عمر تجربے اور جند جان کے حساب سے سارے بچے کھیلوں میں مصروف ہوجاتے جن کی گاؤں یا دیہہ کے بڑے بزرگ وہاں بیٹھ کر نگرانی بھی کرتے اور حوصلہ افزائی بھی کرتے عشاء تک یہ کھیل ختم ہوجاتا سب بچے گھر واپس جاکر نہاتے اور رات کھانا کھا کر لکن میٹی کھیلنے کے لیے نکل پڑتے جو رات دس گیارہ بجے تک جاری رہتی اس کے بعد تھکے ہارے بچے آکر سو جاتے اور اگلے دن دوبارہ وہی روٹین شروع ہوجاتی اس وقت بچوں کی صحت قابل رشک تھی بیماریوں کا نام و نشان تک نہیں تھا ذہن فریش ہوتے تھے آگر آپ میری بات سے متفق نہ ہوں تو آج سے بیس پچیس سال سروس کرکے ریٹائر ہونے والے فوجیوں سااہیوں اور دوسرے لوگوں کو خود دیکھ ان کا قد کاٹھ موجودہ نسل سے بہت اچھا ہے اس کی یہی وجہ ہے آج کے بچے کو وہ سب میسر ہی نہیں ہے وہ تو سہما ہوا مدرسے جاتا ہے کئی تو مسجد مدرسے بھی نہیں جاتے قاری صاحب گھر ہی سبق دے جاتے ہیں یا آن لائن پڑھ لیا جاتا ہے سکول ہم اسے گاڑی یا بائک پر خود چھوڑنے جاتے ہیں سکول میں اسے پڑھائی کے نام پر سارا دن چھوٹے چھوٹے ڈربہ نما کمروں میں بند رکھا جاتا ہے جہاں نہ کھیل کا میدان ہوتا ہے تفریح کا کوئی موقع صرف کھانے پینے کے لیے آدھا گھنٹہ ریسٹ دی جاتی اور اس میں بھی بچہ سکول سے باہر نہیں جاسکتا بلکہ سکول کی ہی بنی ہوئی کنٹین سے جو کھانا ہے کھا سکتا ہے تاکہ سکول کی ہی آمدنی میں اضافہ ہو جہاں پانچ روپے والی شے بھی دس کی ملتی ہے ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اچھے سے اچھا سکول اور اس کا تعلیمی ریکارڈ تو دیکھتے ہیں لیکن کھیل کا میدان نہیں دیکھتے گلی محلے میں کھلنے والے نامور ادارے بھی کھیل کا گراؤنڈ نہیں رکھتے حالانکہ ان کی فیسیں عام آدمی کی پنہچ سے دور ہیں بچہ وہاں سے آکر ذہنی طور پر اتنا تھک چکا ہوتا ہے کہ وہ آکر صرف آرام ہی کرسکتا ہے کھیل کود نہیں سکتا اگر کوئی بچہ کھیلنا بھی چاہے تو اس کو کھیلنے والے اس کے ہم عمر ہی میسر نہیں ہیں ہم سب کی کوشش ہوتی ہے کہ بچے پر اتانا خرچہ کیا جارہا ہے فیسوں کی مد اس کے بعد ٹیوشن کی مد تو بچہ کتابوں کے سوا نہ کچھ دیکھے نہ ٹیچر کے علاوہ کسی کی آواز سنے بچے کی سب سے بڑی تفریح آ جا کے ٹیلی وژن بچتا ہے یا موبائل فون پر گیم کھیلتے ہیں جسے دیکھ کر / کھیل کر وہ سو جاتا ہے بچے کو روزانہ ایک گھنٹہ بھی ہم اس کی مرضی کے مطابق نہیں گزارنے دیتے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہمارے عہد کے بچے بچے نییں رہے بلکہ وہ بڑوں کی طرح سنجیدہ ہوگئے ہیں اپنی عمر سے بڑے نظر آنے لگے ہیں بہت سارے بچوں کو جسمانی کمزوری کا سامنا ہے قد چھوٹے ہیں جسم دبلے پتلے ہیں نظر کمزور ہے خود اعتمادی کی کمی ہے کئی تو لڑکے ہوکر بھی لڑکیوں کی طرح شرمیلے دکھائی دیتے ہیں یہ سارے مسائل اس لیے ہیں کہ بچوں کھیلنے کے مواقع میسر نہیں رہے میں سمجھتا ہوں یہ ہم والدین کی غلطی ہے جسے سدھارنے کی ضرورت ہے کیونکہ جب تک بچہ بچوں جیسی حرکتیں نہ کرے اسے بچہ نہیں کہا جاسکتا آج ہم سب اپنے بچپن کو یاد کرکے ٹھنڈی آہیں بھرتے ہیں تو اس کی وجہ صرف ہمارا بچپن کا گزرا وقت ہی ہے جسے ہم نے بچوں کی طرح خوب انجوائے کیا کھیلے کودے موج مستی کی تو پھر سوچیں کیا ایسا کرنا ہمارے بچوں کا حق نہیں ہے امید ہے آپ اپنے بچوں کو ان کا بچپن ضرور لوٹائیں گے
تحریر : یاسین یاس
No comments:
Post a Comment