انا للہ وانا الہ راجعون
ساڈے بہت سوہنے متر شاعر ادبی سیوک تے سب متراں دے من بھاؤندے سید فراست بخاری اگلے جہان چلانا کرگئے ہر سجن دا دکھ ونڈن والے 2023 دے آخری دناں وچ سوگ وار کرگئے رب سوہنا شاہ جی دی اگلی منزل آسان کرے آمین
انا للہ وانا الہ راجعون
ساڈے بہت سوہنے متر شاعر ادبی سیوک تے سب متراں دے من بھاؤندے سید فراست بخاری اگلے جہان چلانا کرگئے ہر سجن دا دکھ ونڈن والے 2023 دے آخری دناں وچ سوگ وار کرگئے رب سوہنا شاہ جی دی اگلی منزل آسان کرے آمین
مذاق ( ڈاکٹر سعید اقبال سعدی )
طنز و مزاح سے بھرپور شعری مجموعہ " مذاق" ڈاکٹر سعید اقبال سعدی کی ایک لاجواب پیش کش ہے جو پڑھنے والے کو دنیا کے جھمیلوں سے دور ہنسی مذاق سے سجی دنیا میں لے جاتا ہے
کسی پر بھی مضمون لکھنا بہت مشکل کام ہے
لیکن اگر کسی ایسے بندے پر لکھنا ہو جو سرتاپا محبت ہو مسیحا ہو درد دل رکھنے والا ہو دوسروں کو ہنسانے والا ہو کسی کو تکلیف میں دیکھ کر تڑپ جانے والا ہو جس کو ملتے ہی دکھ درد دور ہوجائیں اور بندہ ایک دم فریش ہو جائے ایسے لوگ مسیحا ہوتے ہیں اور اگر کوئی سچ مچ ہی مسیحا ہو تو مضمون لکھنے والا مذید مشکل میں پھنس جاتا ہے اگر مضمون لکھنے والا جونئیر بھی ہو تو پھر اس کی مشکلوں کا اندازہ وہی کر سکتا ہے جو کبھی اس مشکل میں گھرا ہو الفاظ کا چناؤ ہی مشکل ترین مرحلہ ہبن جاتا ہے آج میں اسی مشکل میں گرفتار ہوں مجھے ایک ایسی ہستی پر مضمون لکھنا ہے جس کے کئی حوالے ہیں اور ہر حوالہ ایک کتاب کا تقاضہ کرتا ہے اور مجھے صرف دو چار سو الفاظ لکھنے ہیں ہوگئی نا سمندر کو کوزے میں بند کرنے والی بات اور یہی وہ ڈر ہے جو مجھے کئی دنوں سے مضمون لکھنے سے روک رہا تھا بہرحال کانپتے ہاتھوں سے قلم تھام لیا ہے کیونکہ اگر میں ان پر کچھ نہ لکھ سکا تو مجھے یہ لکھنے لکھانے والا کام چھوڑ دینا چاہیے ان کا حق بنتا ہے ہے کہ ان پر لکھا جائے اور حقدار کو اس کا حق ملنا چاہیے وہ میرے محسن بھی ہیں بڑے بھائی ہیں دوست ہیں ان سے جب بھی ملنا ہوا انہوں نے مجھ ناچیز پر شفقت فرمائی بچوں کی طرح پیار کیا ان کی محبت میرے لیے کسی سرمایے سے کم نہیں پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں سکن سپیشلسٹ ہیں اردو اور پنجابی کے معروف شاعر ہیں آپ اکثر انہیں ریڈیو ٹی وی کے مشاعروں میں دیکھتے ہیں سنتے ہیں بلکہ کسی بھی چینل پر مشاعرہ ہو ان کے بنا نامکمل ہے سنجیدہ کلام بہت کمال لکھتے ہیں اور مزاح میں ان کا اپنا رنگ ہے ان کا کلام آپ کو زبانی بھی یاد ہوگا ان کی حال ہی میں طنز و مزاح پر آئی کتاب جس کا نام مذاق ہے میں نے فرمائش کرکے ان سے منگوائی ہے ان کی محبت کہ انہوں نے اس فقیر کا مان رکھا اور بائی ڈاک مجھے اپنا مجموعہ کلام مذاق" عنائیت فرمایا یہ چند سطریں ان کے شایان شان تو نہیں لیکن میرا شکریہ کہنے کا انداز سمجھ لیں ڈاکٹر سعید اقبال سعدی صاحب سے میرا تعارف اس وقت سے ہے جب مجھے نظم اور غزل کے فرق کا بھی علم نہیں تھا بہرحال یہ ان کا بڑا پن ہے کہ وہ مجھے اس وقت بھی بچوں جیسی شفقت سے نوازتے تھے اور آج بھی ۔ ڈاکٹر سعید اقبال سعدی صاحب نے اپنی طنز و مزاح کی اس کتاب میں ہر اس مسئلے کو ڈسکس کیا ہے جو ہمیں درپیش ہیں بھلے وہ گھریلو مسائل ہوں یا ملکی مسائل ہوں انہوں ایک مستند ڈاکٹر کی طرح پورے معاشرے کا پوسٹ مارٹم کیا اور طنز و مزاح کے ہلکے پھلکے نشتر بڑی مہارت سے چلائے ہیں جس سے مسائل بھی اجاگر ہوئے ہیں ان کا حل بھی واضع ہوتا ہے کتاب کا انتساب انہوں نے اپنے استاد محترم طنز ومزاح کے معتبر حوالہ ڈاکٹر انعام الحق جاوید کے نام کیا ہے جو مزاح میں اپنا ثانی نہیں رکھتے ڈاکٹر سعید اقبال سعدی نے جو عنوان ڈسکس کیے ہیں ان میں بجلی , عیدالفطر ،میڈیکل مذاق ،کرونائی دور ،مولوی , شوہرانہ مذاق،عورتیں ،سیاسی مذاق ،دعاوں کے اثرات،خاطر مدارت،رشوت،جہیز،خوشامد،لوڈشیڈنگ،بجلی کی ہائی ریٹس،سیاسی قطعے،موقع پرست،خواجہ سراء کا الیکشن ،فیملی پلاننگ عطائی قصائی وغیرہ شامل ہیں آئیے ان کے کلام میں سے کچھ شگوفے آپ کی نذر کریں ۔
عمر بھی آہستہ آہستہ بڑھتی ہے
وقت کی لمحے بھی رک رک کر چلتے ہیں
اکیس سال کی ہونے تک اک لڑکی کو
تیس اکتیس سال تو اکثر لگتے ہیں
دیکھیے یہ ڈاکٹر سعید اقبال سعدی صاحب کا ہی خاصہ ہے کہ عورتوں کی عمر چھپانے کی عادت کو انہوں نے کس خوبصورتی سے نظم کر دیا اسی طرح ایک جگہ وہ بیوی کے غصے کا کامیاب علاج بھی بتاتے ہیں کہتے ہیں
آپ کی بیوی اگر غصے کی کافی تیز ہے
آپ کو دیتا ہوں اک تجویز اس بھونچال کی
اس سے کہہ دیں طیش میں لگتی ہے وہ بوڑھی تمہیں
مسکراتی ہو تو وہ لگتی ہے سولہ سال کی
بتائیے کیا میں نے غلط کہا ڈاکٹر سعید اقبال سعدی صاحب نے کس خوبصورتی سے اتنے بڑے مسئلے کا حل آپ کے سامنے پیش کردیا میں نے تو یہ نسخہ آزمایا ہے آپ بھی آزما سکتے ہیں کامیاب رہے گا
آرٹ پیپر پر ایک سو چھہتر صفحہ کی یہ کتاب پورا فرسٹ ایڈ باکس اور ہنسی کی پٹاری ہے یہ واحد کتاب ہے جسے میرے بچے بھی پڑھتے ہیں اور میں حیرت سے انہیں دیکھتا ہوں کہ اور رشک کرتا ہوں کہ شاید کبھی میرے بچے میری کوئی کتاب بھی اس طرح پڑھیں قاری کو کتاب دیتے وقت ڈاکٹر سعید اقبال سعدی صاحب نے ہر چیز کا خیال رکھا ہے اور ہر وہ مضمون اس میں شامل کیا ہے جسے قاری پڑھنا چاہتا ہے اک اور گھمبیر مسئلہ کس خوبصورتی سے نظم کرتے ہیں آپ بھی دیکھیے
ہوتی ہے جن کو فکر نمازوں کی ہر گھڑی
جاتے ہیں مسجدوں میں وہ پہلے اذان سے
کچھ لوگ عشق کرتے ہیں مسجد سے اس قدر
جوتا بھی چوز کرتے ہیں مسجد کے لان سے
میں اگر ان کی شاعری لکھنے لگ جاؤں تو مجھے پوری کتاب لکھنی پڑے گی یہ چند قطعے میں نے صرف طنز و مزاح کی دیگ میں سے نمک مرچ چیک کرنے کی غرض سے لکھے ہیں بہت اچھی کتاب ہے جسے ہر گھر اور ہر لائبریری میں ہونا چاہیے تاکہ مرجھائے چہروں پر ہنسی آسکے عظیم ہیں وہ لوگ جو لوگوں کے چہروں پر ہنسی بکھیرتے ہیں میں جناب سعید اقبال سعدی صاحب " مذاق " کی اشاعت پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور سلام پیش کرتا ہوں کہ وہ اس عظیم مشن کے ہراول دستے کا حصہ ہیں جو لوگوں میں خوشیاں بانٹ رہے ہیں
انتخاب : نادر فہمی
ارے آفتاب تری قسم! ترا حسن پایا ہے چاند نے،
بڑی دور سے, بڑی دیر تک, تجھے خوب دیکھا ہے چاند نے،
جو بھٹک سکے نہ اِدھر اُدھر، جو مدار سے نہیں ہٹ سکے،
تو زمین ہے جسے زاویوں میں جکڑ کے رکھا ہے چاند نے
مرا وہم ہی ہو بھلے مگر مجھے اب بھی لگتا ہے دوستا!
سبھی آب و تاب کو چھوڑ کر کسی دن دھڑکنا ہے چاند نے
کوئی عکس پانی پہ اشک باری کا، کپکپی کا شکار تھا
تمہیں ہے خبر سرِ رہ گزر کسے آج کھویا ہے چاند نے
وہ جو اک ستارا گرا تھا دامن عرش سے بڑے دیر قبل,
مری آنکھ میں تھا رکا ہوا، اسے گھر بلایا ہے چاند نے
وہ جو راز تو نے کہا تھا چاندنی شب میں چاند سے ایک دن،
ترا راز راز رہا نہیں! مجھے سب بتایا ہے چاند نے
ماہ رخ علی ماہی
بھائی پھیرو ( یاسین یاس ) آواز ادبی فورم پھول نگر پاکستان کے زیر اہتمام کھوج گڑھ للیانی( قصور ) میں ایک یادگار مشاعرے کا اہتمام کیا گیا جس کی صدارت معروف شاعر محمد علی صابری نے کی صاحب شام معروف شاعر صدیق جوہر تھے ۔ نقابت کی زمہ داری منظور شاہد ارواڑہ اور اشرف خاں شاذی نے احسن طریقہ سے نبھائی ۔ کھوج گڑھ کے روح رواں معروف شاعر اقبال قیصر نے آنے والے مہمانوں کا آواز ادبی فورم کے چیئرمین نزیر نذر اور آواز ادبی فورم کے صدر عبدالغفور قصوری کے ساتھ مل کر آنے والے مہمانوں کا استقبال کیا صاحب شام صدیق جوہر اور صاحب صدارت محمد علی صابری سے بھرپور کلام سنا گیا سامعین نے دل کھول کر داد دی اقبال قیصر نے کہا میری خواہش ہے کہ جس طرح آپ لوگ آج اکٹھے ہوئے ہیں اسی طرح یہاں آتے جاتے رہیں کھوج گڑھ کے دروازے آپ کے لیے ہروقت کھلیں ہیں جو دوست پہلی دفعہ آئے ہیں ان سے گذارش ہے کہ یہ آخری بار نہ ہو جو بھی دوست یہاں پروگرام کرنا چاہے کھوج گڑھ انتظامیہ حاضر ہے آواز ادبی فورم کے چیئرمین نزیر نذر نے آنے والے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا مشاعرہ کا آغاز تلاوت کلام سے کیا گیا جس کی سعادت عبدالشکور کے حصہ آئی اور نعت رسول مقبول کی سعادت نزیر نذر نے حاصل کی
صدارت محمد علی صابری نے فرمائی صاحب شام
صدیق جوہر تھے مہمان خصوصی فقیر کامل رائے ونڈ , یاسین یاس پھول نگر , وحید ناز لاہور ٫ احمد فہیم میو لاہور , نسیم گلفام اور شوکت علی ناز تھے ۔مہمان اعزاز آصف علی جٹ سرائے مغل اسد اللہ ارشد میو , رمضان رضوی , زاہد صدیقی پھول نگر , اور لیاقت لاہوری تھے۔ دیگر مہمان شعراء میں منظور شاہد ارواڑہ , میاں جمیل احمد جمیل رائے ونڈ , عبدالغفور قصوری , جی ایم ساقی , سلیم ماہی , سلیم شہزاد , یونس ساقی , اشفاق فخر ,
نزیر نذر ٫ عامر صدیقی اور منیر حسین منیر شامل تھے ۔انے والے مہمانوں کو آواز ادبی فورم پھول نگر کے چیئرمین نزیر نذر , آواز ادبی فورم پھول نگر کے صدر عبدالغفور قصوری , آواز ادبی فورم کے جنرل سیکرٹری عامر صدیقی ٫ کھوج گڑھ کے ڈائریکٹر اقبال قیصر اور منظور شاہد ارواڑہ نے خوش آمدید کہا مہمانوں کو پرتکلف عشائیہ بھی دیا گیا آنے والے مہمان کھوج گڑھ کے خوبصورت پھولوں سے لدے باغیچے میں تصاویر بناتے رہے ٹھنڈے اور دھند میں لپٹے دن کو کھوج گڑھ کی صحت افزا فضا نے ایک یادگار مشاعرے میں بدل دیا کامیاب اور خوبصورت مشاعرے کے اہتمام پر آواز ادبی فورم کے سارے منتظمین کو مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔
یاسین یاس
جنرل سیکرٹری
مجلس احباب ذوق بھائی پھیرو
تحریر : یاسین یاس
صادق فدا کا پنجابی مجموعہ " واہ
واہ منہ سے بے اختیار نکلنے والا لفظ ہے جسے سننے کے لیے فنکار کو عمر بھر کی ریاضت سال ہا سال کی محنت و مشقت درکار ہے پھر کہیں جا کر کسی سننے والے , پڑھنے والے یا دیکھنے والے کے منہ سے واہ کا لفظ نکلتا ہے جسے سن کر فنکار کو خوشی محسوس ہوتی ہے زندگی محسوس ہوتی ہے کیونکہ وہ اتنی محنت صرف زندہ رہنے کے لیے کرتا ہے اس زندگی کے لیے جو موت کا ذائقہ چکھنے کے بعد کی ہے اور اس نے سارے دکھ درد تکلیفیں قربانیاں اسی زندگی کے لیے دی ہیں جس کا دروازہ " واہ " ہے اسی واہ کے لیے اس نے اپنی نیندیں سکھ, چین ,محبت بھرے پل , وعدوں کی مٹھاس , وصل کی انگ انگ سے پھوٹتی ہوئی خوشیاں, پل پل مرتی ہوئی خواہشوں کو اپنے اوپر وارد کرکے پڑھنے اور سننے والوں کے لیے مصرعے ترتیب دیے پھر ان مصرعوں سے شعر تخلیق اور پھر ان شعروں کو غزلوں میں ڈھال کر ایک مجموعہ ترتیب دیا جس مجموعہ کی تقریب رونمائی میں آج ہم سب موجود ہیں ویسے تو بے شمار غزلیں میں نے صادق فدا سے سنی بھی ہیں کچھ میرے لیے بھی نئی ہی تھیں لیکن سارا مجموعہ پڑھنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ صادق فدا نے کہیں بھی اپنے فن میں ڈنڈی نہیں ماری میرا ایک شعر ہے
یاس جگر دا خون ملا ۔۔۔۔۔۔۔۔ فر غزلاں دی مٹی گو
صادق فدا اس پر پورا اترتا ہے اس نے سچ میں پنجابی غزل کو خون جگر دیا ہے اس کا مصرعہ مصرعہ سچ ہے صادق فدا نے اشعار کہے نہیں ہیں بلکہ جنے ہیں کمال صادق فدا نے یہ کیا کہ ماں بولی پنجابی غزلوں کی کتاب کا نام ماں جی سے رکھوایا اور ماں جی نے کیا کمال نام دیا " واہ " اس کا فائدہ صادق فدا کو یہ ہوا کہ کسی بھی شاعر کی کتاب پڑھ کر ہی بندہ واہ کرتا ہے لیکن صادق فدا خوش قسمت ہے کہ اس کی کتاب کو بندہ دیکھ کر بھی واہ کرسکتا ہے پنجابی غزل کی جھولی میں صادق فدا نے بہت عمدہ اور بہترین کتاب ڈالی ہے ماں جی کا دیا ہوا نام اور ماں بولی میں تخلیق کیا گیا صادق فدا کا مجموعہ " واہ " دو آتشہ ہے جس میں قاری کے لیے کو ہر وہ رنگ میسر ہے جس کی اس کو طلب ہے کیونکہ صادق فدا اک نڈر بےباک اور منجھا ہوا شاعر بن کر ابھرا ہے اور یہ واہ دیکھنے سے لے کر پڑھنے تک قاری واہ واہ واہ کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے لکھنے والا جب بھی لکھتا ہے تو اس کی کوشش ہوتی ہے سارے رنگ ساری خوشبوئیں اس میں شامل کرے لیکن پھر بھی ایک ڈر ہوتا ہے جو اسے عاجز رکھتا ہے اسی میں بہتری ہے اسی میں عزت ہے اسی میں بڑا پن ہے اور صادق فدا میں یہ ساریاں خوبیاں موجود
ہیں صادق فدا کا بھلے یہ پہلا مجموعہ ہے لیکن
سچ یہ ہے صادق فدا پنجابی ادب کا کوہ نور ہیرا ہے جس کی گونج پاکستان انڈیا کینیڈا اور جہاں جہاں پنجابی بولی جاتی ہے پڑھی جاتی ہے سنی جاتی ہے سنائی دے رہی ہے جو وقت کے ساتھ اپنے لیے نئی راہیں تلاش کرے گی جو ہمارے لیے باعث عزت اور باعث مسرت ہے کہ ہمارا بھائی ہمارا دوست جگہ جگہ پڑھا جارہا ہے سنا جارہا ہے سراہا جارہا ہے اور الحمد و للہ ہمارے شہر پھول نگر ہمارے ضلع قصور اور ہمارے پنجاب ہمارے پنجابی ادب کے لیے یہ بہت ہی خوشی کی بات ہے
اس کے پاس لفظوں کا تخیل کا وسیع ذخیرہ موجود ہے کیونکہ وہ آل رسول سے پیار کرنے والا ہے اور ایسے بندے کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں ہوسکتی میری دعا ہے کہ اللہ رب العزت صدقہ محمد و آل محمد صادق فدا کے قلم , علم , عمر, نام , کام اور عزت و مرتبے میں اضافی فرمائے اور اس کا پنجابی شعری مجموعہ واہ صادق فدا کو اک نئی زندگی دے ہر زبان پر صادق فدا کے لیے واہ واہ ہو اور اس کی نیک نامی میں اضافہ کرے ۔آمین