Saturday, August 24, 2024

ڈاکٹر فضیلت بانو ( انٹرویو : صاحب زادہ یاسر صابری )

 







ڈاکٹر فضیلت بانو

افسانہ نگار،شاعرہ،

تحقیق و تنقید نگار

انٹرویو: یاسر صابری

03115311991


ڈاکٹر فضیلت بانو افسانہ نگار شاعرہ تحقیقی و تنقیدی مزاج رکھنے والی ایک عظیم سکالر ہونے کے ساتھ ساتھ درس و تدریس میں اپنا ایک مقام رکھتی ہیں۔ منہاج یونیورسٹی لاہور میں ایسی ایٹ پروفیسر اور صدر شعبہ اردو ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے اور جی سی یونیورسٹی فیصل آباد سے ایم فل اور پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کر چکی ہیں۔ بچوں کے ادب کی ایوارڈ یافتہ مصنفہ ہیں۔ ان کی اب تک نثر کی پانچ اور شاعری کی دو کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔بچوں کی کہانیوں کی کتاب مہکتے پھول پر ایوارڈ حاصل کیا۔ حال ہی میں بچوں کے لیے سیرت پاک پر لکھی گئی پنجابی کتاب پیارے بالاں دا پیارا رسول صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ  وَسَلَّم کو علی ارشد میر ایوارڈ دیا گیا مختلف لٹریری اور ایجوکیشن آرگنائزیشنز کی طرف  سے بے شمار ادبی اور ٹیلینٹ ایوارڈزاور تعریفی اسناد حاصل کر چکی ہیں۔ بچوں کے ساتھ ساتھ بڑوں کے ادب سے بھی وابستہ ہیں۔

س:ڈاکٹر فضیلت بانو صاحبہ سب سے پہلے آپ اپنے بارے میں کچھ بتائیں کہ آپ کا اصل نام کیا ہے اور آپ کے والدین کا تعلق کہاں سے ہے؟ 

ج:میں نے جب ہوش سنبھالا تو اپنا نام صبیحہ خانم سنا گھر باہر سب مجھے صبیحہ خانم ہی کہتے تھے۔ اس دور میں فلمی اداکارہ صبیحہ خانم کا بڑا طوطی بولتا تھا شاید اسی لیے گھر میں سے کسی صبیحہ خانم کے فین نے میرا نام بدل دیا تھا۔پرائمری جماعت تک میرا یہی نام لکھا اور پکارا جاتا رہا۔ 

میرے والدین قیام پاکستان کے وقت انڈیا سے ہجرت کر کے پاکستان آئے تھے اور میرے نانا اور پانچ ماموں ریلوے میں ملازم تھے۔ جب میری والدہ کی شادی ہوئی تو میرے نانا نے والد صاحب کو بھی ہوشیار پور ریلوے اسٹیشن میں ملازم کروا دیا۔قیام پاکستان کے وقت جب حالات بہت خراب ہو گئے تو یہ سب لوگ پاکستان بننے سے دو تین مہینے پہلے ہی ٹرانسفر کروا کے پاکستان آ گئے اور یہاں آ کر مختلف شہروں میں آباد ہو گئے۔

س:پاکستان آنے کے بعد آپ کے والد صاحب نے کہاں ملازمت کی؟ 

ج: میرے والد صاحب کی پہلی ملازمت لاہور ہر بنس پورہ ریلوے ورکشاب میں تھی وہ ہوشیار پور انڈیا سے ٹرانسفر ہو کے یہاں آئے تھے کچھ عرصہ لاہور رہنے کے بعد ان کا تبادلہ چیچہ وطنی ریلوے اسٹیشن پر ہو گیا چیچہ وطنی اس وقت بالکل جنگل اور بیابان سی جگہ تھی اور چیچہ وطنی کا ذخیرہ کے نام سے مشہور تھی۔ والد صاحب زیادہ دیر وہاں نہ رہے اور جلد ہی اپنا تبادلہ اوکاڑہ کروا لیا۔ریٹائرمنٹ کے بعد اوکاڑہ میں ہی ان کی وفات ہوئی۔ والد صاحب کی وفات کے بعد میری والدہ نے باقی ماندہ زندگی اوکاڑہ میں ہی گزاری۔

س:آپ نے ابتدائی تعلیم کہاں سے حاصل کی؟ 

ج:میری ایک بڑی بہن کو استانی بننے کا بہت شوق تھا۔ میٹرک کے بعد پی ٹی سی کا کورس کیا۔اس وقت اوکاڑہ میں کوئی ٹیچر ٹریننگ کورس نہیں ہوتا تھا۔ وہ پی ٹی سی چونیاں سے کر کے آئیں اور ایک پرائمری سکول کی ہیڈ بن گئیں۔ یہ سکول شہر سے کافی دور مضافات میں واقع تھا اس لیے ان کو سکول میں ہی رہائش رکھنا پڑی ان کے ساتھ ایک ملازمہ رہتی تھی۔ اس وقت میں بہت چھوٹی تھی اور کبھی کبھی ان کے پاس رہنے چلی جاتی۔ ہیڈ مسٹریس کی بہن ہونے کی وجہ سے مجھے سکول میں بڑی اہمیت ملتی تھی۔مجھے سکول کا ماحول اچھا لگا تو میں بہن کے پاس مستقل رہنے لگی وہیں سے میری ابتدائی تعلیم کا آغاز ہوا۔  

س:کیا یہ درست ہے کہ آپ نے تین کلاسیں ایک ہی سال میں پڑھ لی تھیں؟

ج:یہ بڑی دلچسپ صورتحال تھی کہ میں نے تین کلاسیں ایک ہی سال میں پڑھ لی تھیں۔  اس ترقی کا خمیازہ مجھے پانچویں جماعت میں وظیفہ کا امتحان دیتے ہوئے بھگتنا پڑا۔اس وقت داخلہ بھیجتے ہوئے بلدیہ کا پیدائش سرٹیفیکیٹ ساتھ لگتا تھا جب بلدیہ سے سرٹیفیکیٹ نکلوایا تو اس کے مطابق عمر ساڑھے تین سال کم تھی وظیفہ کے امتحان دینے کے لیے عمر بڑھانا پڑی وہاں نام بھی صبیحہ خانم نہیں بلکہ فضیلت بانولکھا تھا تب سے نام اور تاریخ پیدائش وہی چل رہے ہیں۔ 

س:ملازمت اور شادی کے بارے میں کچھ بتائیں؟ 

ج:کالج کی پڑھائی کے دوران ہی شادی ہو گئی لیکن پڑھائی کا سلسلہ باقاعدگی کے ساتھ جاری رہا۔ شادی کے بعد ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ میں ملازمت کر لی۔ایک ہی وقت میں گھر بچے ملازمت پڑھائی سب سلسلے چلتے رہے۔ چونکہ ہمیشہ سے ہی بہت محنت کرنے کی عادت ہے اس لیے سب مراحل خوش اسلوبی سے طے ہو گئے سکول اور کالج کے زمانے میں بہت لکھا مگر شائع نہیں کروایا شادی کے بعد مصرفیات ایک دم بڑھ گئیں اس لیے لکھنے کی رفتار کم ہوتے ہوتے وقتی طور پر ختم ہو گئی۔یونیورسٹی جا کے ماحول اور اساتذہ کی رہنمائی میں لکھنے کا سلسلہ پھر چل نکلا۔

س:آپ کن کن اصناف میں لکھتی ہیں؟ 

ج:میں اردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں لکھتی ہوں زیادہ تر کہانیاں اور افسانے ہی لکھے ہیں لکھنے کا اصل میدان ادب اطفال ہے اور یہی میری شناخت بھی ہے۔ بچپن سے ہی بچوں کے رسائل پڑھنے اور پھر لکھنے کا رجحان غالب رہا بچوں کی کہانیاں اور ان کے لیے چھوٹی چھوٹی نظمیں لکھنا ہمیشہ اچھا لگتا ہے۔

س:آپ کی کہانیوں اور افسانوں کے زیادہ تر موضوعات کیا ہوتے ہیں؟

ج:بچوں کی کہانیاں بچوں کے مسائل ان کی اخلاقی تربیت اور ان کی عمر کے لحاظ سے ان کی نفسیات سے متعلق ہوتی ہیں اور افسانے زیادہ تر عورت کی ساتھ معاشرتی رویوں کا عکس پیش کرتے ہیں۔ ہمارے معاشرے میں عورت کو زندگی کے ہر مقام پر مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ عورت معاشرے کے بدصورت رویوں کے ساتھ خوبصورتی کے ساتھ نبھا کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ اپنی تمام حدوں کے ساتھ اپنی جدوجہد جاری رکھتی ہے۔ کہیں وہ کامیاب ہو جاتی ہے اور کہیں ناکام لیکن وہ ہمت نہیں ہارتی۔زندگی کی حقیقتوں سے فرار کی کوشش نہیں کرتی۔ گھر اور بچوں کے لیے اپنا آپ تج دیتی ہے۔

س:آپ کی کتنی کتابیں زیر طبع ہیں؟ 

ج:سفر نامے اور تہذیبیں۔عکس قدیم ۔معیار صحافت ۔مہکتی کلیاں (بچوں کی کہانیاں)۔ کنڈیا وچ خشبو( پنجابی شاعری)۔ وختاں دے رنگ (پنجابی افسانے)۔ سرخ آنسو(اردو افسانے)۔تحقیق کے رنگ (مضامین)۔ تنقیدی دائرے ( مضامین)

س:آج شاعری میں جو نئے شاعر اور شاعرات سامنے آ رہی ہیں ان میں اوریجنل لوگوں کو چھوڑ کر ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو سرے سے شاعر تو کیا متشاعر بھی نہیں ہیں اس بارے میں آپ کیا کہیں گی؟

ج:شاعری ایک فطری جذبہ اور قدرتی صلاحیت ہے اور معاشرے میں اس کے اثرات کو بخوبی محسوس کیا جا سکتا ہے۔ انسان اپنی تمام جذباتی کیفیات میں شاعری کا سہارا لیتا ہے۔آج جدید دور میں سوشل میڈیا کی وجہ سے شاعری کی تمام اصناف میں بے حد اضافہ ہوا ہے۔شاعری کرنا یا لکھنا ہر کسی کے بس میں نہیں۔شاعری باقاعدہ ایک فن ہے اور اس کے اسرار و رموز آسانی سے ہاتھ نہیں آتے کیونکہ شاعری کے لیے مطالعہ مشاہدہ و تجربہ سے گزرنا ضروری ہے یہ سب مستعار نہیں لیا جا سکتا۔ شعرا میں متشاعر،  متشاعرات اور کمزور شعرا ہر عہد میں نظر آتے ہیں جو اپنی ظاہری شان و شوکت مالی حیثیت مرتبے اور عہدے کے بل بوتے پر اگلی صفوں پر براجمان ہو کر اصلی حقداروں کی حق تلفی کرتے ہیں اور ان کی اصلیت جاننے کے باوجود صرف اپنے مفادات کی خاطر ایسے لوگوں کی نہ صرف حوصلہ افزائی کرتے ہیں بلکہ انہیں پروموٹ کر کے حقیقی شعرا کے سروں پر بٹھا کر اپنے ذاتی فوائد حاصل کرتے ہیں لیکن قدرت کے اپنے اصول ہیں جلد یا بدیر ایسے لوگوں کی حقیقت آشکار ہو ہی جاتی ہے یہ لوگ جس تیزی سے کوئی مقام بناتے ہیں اتنی ہی تیزی سے اس مقام سے گر بھی جاتے ہیں۔

س:غزل کی بقا اور ترقی کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ یہ تخلیقی اذہان کے ذریعہ تب تک زندہ رہے گی جب تک اردو زبان زندہ ہے؟

ج:تمام اردو شعری اصناف میں سب سے زیادہ غزل لکھی گئی ہے۔ ہر نیا شاعر غزل سے ابتدا کرتا ہے ۔غزل بڑی بابرکت صنف سخن ہے  اسے ہر دور میں کوئی نہ کوئی بڑا شاعر مل ہی جاتا ہے غزل کی ہیت میں بے حد وسعت ہے دو مصروں میں ایک مکمل خیال کمپوز ہو جاتا ہے۔غزل میں مضامین کی تکرار ہونے کے باوجود طرز اظہار کی انفرادیت اور نیا پن اس کو تر و تازہ رکھتے ہیں۔  جدید تصورات عصری رجحانات و معاملات اور غیر مستمل الفاظ کا برتاؤ اور لہجوں کی انفرادیت کی بدولت غزل کے امکانات معدوم یا محدود ہونے کی بجائے وسعت آشنا ہوتے رہیں گے اس لیے غزل کے روشن مستقبل کو کسی قسم کے الفاظ کا کوئی خدشہ نہیں جب تک اردو زبان موجود ہے غزل کبھی فراموش نہیں ہو سکتی۔

س:آپ اپنی ادبی کاوشوں کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے کس نتیجے پر پہنچتی ہیں؟

ج:میرا انداز بیان سادہ مقصدی اور اصلاحی ہے میری تحریریں میرے سماجی علمی اور ادبی مشاہدے اور تجربے کی عکاس ہیں۔ ادب کبھی پرانا اور بوسیدہ نہیں ہوتا جب تک معاشرہ اور اس کی سماجی قدریں زندہ ہیں ۔ادب اور ادیب بھی زندہ رہے گا۔

س:آپ کے خاندان میں اور لوگ بھی شاعرو ادیب ہیں یا صرف آپ ہی کا طرہ امتیاز ہے؟

ج: میرا اصل میدان نثر ہے۔ شاعری سے واجبی سی دلچسپی ہے علمی ادبی گھرانے سے تعلق ہونے کی وجہ سے شاعرانہ ماحول بھی میسر رہا اور شاعر بھی۔ خاندان کے کئی افراد شاعری سے وابستہ ہیں اور صاحب کتاب بھی ہیں۔

س:برصغیر میں کس صنف سخن کو زیادہ پذیرائی حاصل ہے؟

ج:برصغیر میں زیادہ پذیرائی غزل کو ملی ہے۔ سوشل میڈیا ٹیکنالوجی کے دور میں بھی غزل کی اہمیت کم نہیں ہوئی۔ دوسری صنف افسانہ ہے جسے وقت نے کبھی فراموش نہیں کیا افسانہ ماضی کی طرح آج بھی پسندیدہ صنف ہے۔  افسانے کے بعد ناول معروف اور پسندیدہ صنف ہے۔

س:شاعر اور ادیب بیک وقت خاندان کا رکن معاشرے کا فرد اور معاشی عمل کا پرزہ ہوتا ہے ان سب سے آپ کس حد تک انصاف کر پاتی ہیں؟

ج: میری وقت کی تقسیم ہمیشہ شاندار رہی ہے۔ مجھے صبح بہت جلدی جاگنے اور رات کو جلدی سونے کی عادت ہے اس طرح وقت پہ سارے کام مکمل ہو جاتے ہیں کسی کام کے لیے کبھی بھی بے ترتیبی یا وقت کی کمی کا مسئلہ نہیں ہوا ملازمت گھر بچے اور باقی تدریسی اور ادبی مصروفیات سب ہم اکاب رہے اور بہت اچھے رہے۔ دوست احباب اور رشتہ داروں کے ساتھ بھی ہمیشہ اچھا میل ملاپ رہا رشتوں کو کبھی گلے شکوے کا موقع نہیں دیا ہمیشہ کام کی رفتار بہت تیز رہی مگر اب بیماری نے سست کر دیا ہے۔

No comments:

Post a Comment