Wednesday, April 3, 2024

محمد شیراز ( مصنف, موٹیویشنل سپیکر , گرافکس ڈیزائننگ ) انٹرویو : صاحب زادہ یاسر صابری

 






محمد شیراز

موٹیویشنل سپیکر، گرافکس ڈیزائننگ، کمپیوٹر انجینئر، مصنف، ٹیچر

انٹرویو: صاحبزادہ یاسر صابری

03115311991


اپنے جذبات و احساسات کو ضبط تحریر میں لانا ایک قسم کانفسیاتی علاج بھی ہے کیوں کہ اس سے انسان اپنے غم و غصہ اور فرط انبساط کی صورت حال کو اگل سکتا ہے۔ جس کے نتیجے میں انسان کی ٹینشن میں کمی واقع ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض لوگ اسے ٹینشن رفع کرنے کے علاج کا درجہ بھی دیتے ہیں۔ اسے رائٹنگ تھراپی کا نام دیا گیا ہے۔ امریکہ میں اس پر تحقیق ہو رہی ہے اور تحریر کے ذریعے علاج کا کام شروع کر دیا گیا ہے۔.  نیو یارک کے ایک تھراپسٹ کا کہنا ہے کہ اگر ایک مریض سے اس کے حالات زندگی تحریر کی صورت میں اگلوائے جائیں تو اس کا علاج بے حد آسان ہو جاتا ہے۔ ایسے ایسے ماہرین بھی موجود ہیں جو کسی کی تحریر دیکھ کر اس کی اندرونی بیماری جان جاتے ہیں۔ تحریر کا انداز یہ پتہ دیتا کہ یہ شخص کسی بیماری میں مبتلا ہے مگر یہ صرف ماہر تحریر شناس ہی کر سکتا ہے۔ عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے۔

         آج میں ایک نوجوان لکھاری محمد شیراز کا انٹرویو قارئین کی خدمت میں لے کر آیا ہوں جو 27 فروری 2007ء میں شاہینوں کے شہر ضلع سیالکوٹ کی تحصیل ڈسکہ کے گاؤں منڈیکی میں پیدا ہوئے۔ جنہوں نے ساتویں جماعت سے دوران کرونا لکھنے کا کام شروع کیا اور نہایت ہی کم عمری میں آئی ٹی کی دنیا میں نام پیدا کیا ہے۔

سوال۔ آپ اپنی تعلیم اور لکھنے کے بارے میں کچھ بتائیں کہ لکھنے کا آغاز کب اور کیسے ہوا؟

جواب۔ میں نے میٹرک تک کی تعلیم گورنمنٹ ہائی سکول ڈسکہ کوٹ سے حاصل کی اور اب پنجاب کالج ڈسکہ سے آئی سی ایس جاری ہے۔ میں اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر سیکھنے کے لئے اپنے والد صاحب کے دوست کی دوکان پر جایا کرتا تھا۔ پڑھائی کے ساتھ ساتھ 2022ء میں لکھنے کا آغاز کیا تا کہ جولوگ مہنگائی کی وجہ سے اتنے مہنگے کورسز نہیں کر پاتے وہ گھر بیٹھے کتابوں کی صورت میں سیکھ کر کچھ نہ کچھ کما کر اپنی زندگی کو اچھے طریقے سے گزار سکیں۔ میں کمپیوٹر میں بے حد ذہین تھا، مجھے ڈسکہ کے نامور اداروں نے کہا کہ آپ ہمارے ادارے میں آکر بچوں کو کمپیوٹر کی تعلیم دیں، میں ایک ادارے کے بہت اصرار کرنے پر تقریباً ایک سال وہاں ایک ٹیچر کی حیثیت سےطلباء کو کمپوٹر سیکھاتا رہا.

سوال۔  کیا آپ نے اپنے گھر میں کوئی ادارہ بھی کھول رکھا ہے؟

جواب۔ میں نے 2020ء میں ایس اے گرافکس اینڈ گروپ آف انسٹیٹیوشنز کے نام سے اپنے گھر میں ہی ایک ادارہ کھولا ، جس میں بچوں کو انتہائی مناسب فیس میں کورسز بھی کروا رہا ہوں اور ساتھ فلیکس پر نٹنگ، ڈیزائننگ وغیرہ بھی کرارہا ہوں۔

سوال۔ آپ کی اب تک کتنی کتابیں شائع ہو چکی ہیں؟

جواب۔ میں نے اپنی پہلی کتاب ڈیجیٹل مارکیٹنگ پر لکھی جو 2022 ء کے آخر میں شائع ہوئی ۔ اس کے کل 80 کے قریب صفحات ہیں۔ جس میں ہم اپنے کاروبار کو ڈیجیٹل طریقے سے کیسے تشہیر کر سکتے ہیں ، سب کچھ تفصیل کے ساتھ لکھا گیا۔ اس کتاب کو لوگوں نے بہت پسند کیا۔ دوسری کتاب آؤ یوٹیوب سیکھیں 2024ء کے بالکل شروع میں شائع ہوئی جس میں یوٹیوب چینل کے بنانے سے لے کر یوٹیوب سے پیسے کس طرح کمائے جاسکتے ہیں۔ تمام تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ اس کے بعد تیسری کتاب میں نے گرافکس ڈیزائننگ کے کورس میں سے ایک سوفٹ ویئر ان پیچ پر شائع کی۔

سوال۔ آپ کس لئے لکھتے ہیں؟

جواب۔ میں ان عظیم نوجوانوں کے لئے لکھتا ہوں جن کے پاس اتنے وسائل نہیں ہیں کہ جو اتنے مہنگے کورسز کر سکیں ، وہ یہ کتابیں خرید کر بہت اچھے طریقے سے سیکھ سکتے ہیں۔ مختصر یہ کہوں گا کہ اپنے ملک کے نوجوانوں میں خودی کو بیدار کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہوں۔

سوال۔ دوران تعلیم آپ نے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا جو مشکل بھی ہے اور نوجوان طبقے کے لئے ایک سبق آموز بات بھی ہے؟

جواب۔ جی بالکل ایک عام انسان کے لئے پڑھائی کے ساتھ اپنی عملی زندگی کا آغاز کرنا ایک مشکل

مرحلہ ہوتا ہے۔ مشکلات نہیں آتیں اگر کوئی بڑا سہی سمجھانے والا ہو۔ ہمیں کوئی گائیڈ کرنے والا ہو۔ لیکن ایک بات یہ بھی ہے کہ سمجھانے والا مخلص کوئی کوئی ملتا ہے اس لئے میں کہتا ہوں کہ سنوں سب کی مگر مانوں من کی ۔ یعنی سب کے مشورے لیں مگر اپنے لئے وہی انتخاب کریں جو آپ کو اچھا لگے جس میں آپ کا دل چاہے۔

سوال۔ آپ کی کتابوں سے کیا طلباء مستفیض ہو رہے ہیں؟

جواب۔ جی الحمدللہ! مختلف کمپیوٹر کالجز کے اساتذہ کرام نے بھی یہ کتابیں خریدی ہیں اور وہ اپنے طلباء کو خرید کر دے رہے ہیں۔ الحمدللہ مختلف شہروں سے لوگ رابطہ کر رہے ہیں کہ یہ کتابیں ہمیں بھی دیں، تو ان شاءاللہ جلد ہی پاکستان کے ہر شہر میں یہ کتابیں موجود ہو گی۔

جواب۔ آپ کے مشاغل؟

جواب۔ لکھنا، کمپیوٹر پر کوئی ایسا کام جو کوئی فائدہ مند ہو۔ یعنی گیمز وغیرہ کھیلنا پسند نہیں ، اور نہ ہی کوئی فلم وغیرہ ، اس لئے جب فارغ ہوں تو کچھ نیا سے نیا سیکھتا ہوں ۔

سوال۔ کیا آپ کے ذہن میں کوئی ایسا خیال ہے جسے آپ نے تخلیق نہیں کیا ہے؟

جواب۔ جی ۔ ان شاءاللہ ایک ایسا روبوٹ تیار کریں گے جو انسانوں کی طرح ان کو فری کورسز کروائے گا،خود مختار بنانے میں مددگار ثابت ہوگا۔

سوال۔ کوئی قابل ذکر شخصیت؟

جواب۔ خادم حسین رضوی ایک ایسے مرد قلندر تھے جنہوں نے صرف مدرسے میں پڑھنے والے طلباء کو دین سمجھنے تک محدود نہیں رکھا بلکہ انہوں نے دین ایسے بیان کیا کہ ہر بندہ وہ چاہیے بچہ ہو، نوجوان ہو یا بوڑھا ہو ۔ ان کے سمجھانے کا انداز نہایت ہی نرالا تھا اور شاید ہی کوئی اور خادم حسین رضوی پیدا ہو۔

سوال۔ کیا الیکٹرانک میڈیا پرنٹ میڈیا پر حاوی ہو گیا ہے؟

جواب۔  جی بالکل الیکٹرانک میڈیا لوگوں کے زیادہ دیکھنے کی وجہ سے پرنٹ میڈیا کم پڑھا جاتا ہے۔

سوال۔ کیا انگریزی کی تعلیم ضروری ہے؟

جواب۔ غیر ملکی افراد سے بات جیت کرنے کے لئے انگریزی کی تعلیم ضروری ہے۔

سوال۔ کیا کسی عالمی ادبی چینل کی ضرورت ہے؟

جواب۔ جی ایسے چینل کی نہایت ضرورت ہے تاکہ نوجوانوں میں اس تخلیقی جذبہ ابھرے۔

سوال۔ طلباء کے لئے کوئی پیغام؟

جواب۔ طلباء کے لئے یہی پیغام ہے کہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ عملی زندگی میں قدم رکھنا شروع کریں تا کہ آنے والا وقت آسان ہو سکے اور کچھ نہ کچھ سوچ کر کسی موضوع پر لکھا کریں ۔ جدید ٹیکنالوجی پر تحقیق کرتے رہیں ۔

☆☆☆

No comments:

Post a Comment