Sunday, March 12, 2023

شاعر بمقابلہ نثرنگار ( عابد محمود عابد )


 شاعر بمقابلہ نثر نگار

تحریر۔ عابد محمود عابد

1988 میں جب میں نے 13 سال کی عمر میں اخبارات و رسائل میں لکھنا شروع کیا تو شروع سے لے کر ایک چیز کی کمی ہمیشہ محسوس کی کہ کوئی راہنمائی کرنے والا نہیں تھا کہ جو ایک نو آموز لکھاری کی حوصلہ افزائی کرتا ، ایسے ہی آگے بڑھتے گئے تو ہمیشہ یہ محسوس کیا کہ میرے شہر میں لکھنے لکھانے والے نہ ہونے کے برابر ہیں اور کوئی ایسی ادبی تنظیم بھی نہیں کہ جو نئے لکھنے والے کی راہنمائی اور حوصلہ افزائی کرے ، میں یہ بھی سوچتا تھا کہ شاید ادبی تنظیم کے نہ ہونے کا ہی نتیجہ ہے کہ میرے شہر میں لکھنے لکھانے والے لوگ نہ ہونے کے برابر ہیں کیونکہ ہوسکتا ہے کہ کئی بچوں یا نوجوانوں میں تخلیقی صلاحیتیں ہوں لیکن انکو کوئی گائیڈ کرنے والا نہ ملا ہو تو اسی وجہ سے وہ لکھنے لکھانے کے میدان میں آگے نہ بڑھ سکے ہوں ، اسی سوچ کے ساتھ میں نے ہمیشہ کوشش کی کی کہ ڈسکہ میں ایک ادبی تنظیم کا قیام عمل لایا جائے لیکن ہر مرتبہ یہ کوشش ناکام ہی ہوئی ، ابھی کوئی چار سال پہلے کی بات ہے کہ میری ملاقات ڈسکہ کچھ شاعر دوستوں سے ہوئی ، ایسے گفت و شنید اور خیالات کے تبادلے کے دوران میں نے ان کے آگے یہ تجویز پیش کی کہ کیوں نہ ہم ڈسکہ میں ایک ادبی تنظیم کی بنیاد رکھیں جو مشاعرے بھی منعقد کروائے اور دوسری ادبی سرگرمیاں بھی سرانجام دینے کے ساتھ ساتھ نئے لکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کرے ، تو اسی منصوبے کے تحت میرے سکول میں ایک مشاعرے کا انعقاد کیا گیا ، باقی سب شاعر تھے اور میں اکیلا ہی نثر نگار تھا ، اس لیے مجھے مشاعرے کی نظامت کے فرائض انجام دینے کے لیے کہا گیا اور ظاہر ہے اس پوری تقریب کا میزبان بھی میں ہی تھا، مشاعرے میں سب شاعر ایک دوسرے کے لیے واہ واہ کرتے رہے ، مشاعرے کے بعد سب نے مل کر طے کیا کہ تنظیم کے عہدے اور عہدے کون کون سے ہوں گے ، ایک شاعر صاحب کے لیے سب متفق تھے کہ ان کو تنظیم کا صدر بنایا جائے اور مجھے تنظیم کا بانی ہونے کی حیثیت سے فنانس سیکرٹری کا عہدہ سنبھالنے کے لیے کہا گیا ، مجھے عہدے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی ، خوشی اس بات کی تھی کہ ڈسکہ میں ایک ادبی تنظیم کا میرا دیرینہ خواب پورا ہو رہا ہے ، لیکن پھر چند دن بعد ہی مجھ پر یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ شاعر دوست تو جاتے جاتے تنظیم کو ہائی جیک کرکے لے گئے ہیں اور اس طرح ادبی تنظیم کا میرا یہ خواب ایک مرتبہ پھر  چکناچور ہوگیا اور چند دنوں بعد ہی شاعر لوگوں کی جانب سے مجھے یہ پیغام موصول ہوا کہ یہ تنظیم صرف شاعر لوگوں کی ہوگی اور تم چونکہ نثر نگار ہو ، اس لیے تمہارا اس تنظیم میں کوئی کام نہیں ، وہ دن اور آج کا دن میں بطور نثر نگار شاعروں کے مقابلے میں ہمیشہ احساس کمتری کا شکار رہتا ہوں اور اسی احساس کمتری میں دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے میں نے دو عدد آرٹیکل لکھ ڈالے جن میں ایک کا نام " کچھ شاعروں کے بارے میں " تھا اور ایک کا نام " شاعری سے چھیڑ چھاڑ " تھا ، جیسے ہی یہ دونوں آرٹیکل اخبارات میں شائع ہوئے تو تب سے لے کر یہ دشمنی دو طرفہ ہوگئی حالانکہ مجھے تو ابھی بھی شاعروں پر رشک آتا ہے اور اس بات پر جیلسی بھی محسوس ہوتی ہے کہ شاعر ایک آرام سے ایک مشاعرہ منعقد کرکے ایک معاہدے کے تحت باری باری ایک دوسرے کی شاعری پر واہ واہ کرلیتے ہیں جبکہ ایک نثر نگار بے چارہ ہمیشہ تحریر شائع ہونے کے بعد بھی یہ سوچتا رہتا ہے کہ پتہ نہیں اس کی یہ تحریر کسی نے پڑھی بھی ہے یا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment