Monday, February 20, 2023

پنجابی ماں بولی زبان


 پنجابی ماں بولی زبان 


سید زاہد علی کاظمی 

کالم نویس 


یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی قوم کو مٹانا ہو تو اس کی زبان مٹا دو تو قوم کی روایات تہذیب ثقافت تاریخ اور اس کی قومیت غرض سب کچھ مٹ جائے گا مادری زبان انسان کی شناخت ابلاغ  تعلیم اور ترقی کا بنیادی ذریعہ ہے لیکن جب زبان ناپید ہوتی ہے تو اس کے ساتھ تہذیب و تمدن اور ثقافت کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے اسی لئے دنیا بھر میں ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دیے جانے کا انتظام ہوتا ہے مادری زبان میں تعلیم سے بچے بہت جلد نئی باتوں کو سمجھ جاتے ہیں اور اس سے بچوں کی تعلیمی صحت پر خوشگوار اثرات مرتب ہوتے ہیں جس سے زبان کی آبیاری ہوتی ہے اس کے برعکس جن اقوام کا اپنی ہی مٹی سے تعلق کمزور ہو جاتا ہے شکست اور ذلت و پستی ان کا مقدر بن جاتی ہے اس لیے ضروری ہے کہ پرائمری سے تمام صوبوں میں مقامی مادری زبانوں کو لازمی مضمون کے طور پر پڑھایا جائے ماں بولی کی اہمیت انسانی زندگی میں کلیدی مقام رکھتی ہے کیونکہ یہی زبان ہے جو کہ بچہ جس کی مدد سے ماحول کے ساتھ اپنے تعلق کو شناخت کرتا ہے یا انسان کا اس کے ساتھ تعلقات کا آغاز ہوتا ہے اوائل عمر میں سکول جانے سے پہلے ہر بچہ اڑھائی سے تین ہزار الفاظ سے واقفیت کر چکا ہوتا ہے یعنی سکول جانے سے پہلے وہ اپنی ماں سے بہت کچھ سیکھ چکا ہوتا ہے اور بعد میں اس کا واسطہ کتاب اور استاد سے پڑتا ہے اس کے پاس الفاظ کا ذخیرہ ماں بولی کی صورت میں موجود ہوتا ہے وہ ممالک جہاں پر بچوں کو ابتدائی تعلیم ماں بولی میں دی جاتی ہے دراصل بچوں کے ماں بولی میں حاصل شدہ علم کو سکول کی تعلیم کا حصہ بنا لیتے ہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بچہ سکول میں اجنبیت محسوس نہیں کرتا ہے اور کتابیں اسے اپنی اپنی لگتی ہیں اور پڑھائی اس کے لئے روز مرہ کا معمول بن جاتی ہے جن ممالک میں تعلیم ماں بولی میں نہیں دی جاتی ہے وہاں بچوں کو ابتدا کے الفاظ کو ترک کرنا پڑتا ہے جس سے بچے کی ذہنی نشو نما پر اثر پڑتا ہے پھر دوسری زبانوں میں کتابیں اچھی  نہیں لگتی ہیں جن کے ساتھ قلبی تعلقات ہونے سے مشکلات حائل رہتی ہیں اور بہت سے بچے اس اجنبیت کی وجہ سے سکول سے بھاگ جاتے ہیں اکیس فروری مادری زبان کا دن بنگال کی سیاسی جدو جہد کی یادگار ہے بنگالیوں کو اپنی زبان اور کلچر پر ہمیشہ بڑا فخر رہا ہے ان کی اس جدوجہد کو عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا اور آج یہ دن پوری دنیا میں منایا جاتا ہے اکیس فروری 1952کی یاد میں منایا جانے والا عالمی ماں بولی کا دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ڈھاکہ میں کی جانے والی غلطی کو جاری رکھنا غیر ضروری ہے پاکستان کے پالیسی ساز اداروں کو جان لینا چاہیے کہ آج تک کسی بھی ملک نے ماں بولی کے علاوہ 100 فیصد شرح خواندگی ٹارگٹ حاصل نہیں کیا ہے دنیا میں کوئی بھی ایسا ملک نہیں ہے جس نے علم سائنس ٹیکنالوجی میں بڑا مقام حاصل کیا ہو اور وہاں ابتدائی تعلیم ماں بولی میں نہ ہو اس لئے اگر پاکستان کو آگے بڑھنا ہے تو زمینی حقیقتوں کو مان کر چلنا ہوگا ورنہ غلطی پر غلطی اور ناکامی کے بعد ناکامی مقدر بن جائے گی  عالمی دن جگہ جگہ مختلف تنظیموں کے لوگ مادری زبانوں کی اہمیت اور ضرورت کے لیے حکومت سے اپیل کرتے نظر آتے ہیں اگر یہ تمام لوگ ایک جگہ پر اکٹھے ہو جائیں تو نتیجہ زیادہ بہتر آ سکتا ہے ہم لوگوں میں اتحاد کی کمی ہے جس کا ہونا بہت ضروری ہے جب تمام لوگ آپس میں مل کر کام کریں گے تو حکومت بھی سوچنے پر مجبور ہو گی کہ یہ سب ایک ہیں اور ان کا مقصد بھی ایک ہےمادری زبان کسی بھی شخص کی وہ زبان ہوتی ہے جو اسے اپنے گھر اور خاندان سے ورثے میں ملتی ہے جب والدین اپنے بچوں کو مادری زبان نہیں سکھاتے تو زبانوں کے متروک ہونے کا عمل شروع ہو جاتا ہے پاکستانی ماہرین لسانیات کے مطابق ملک میں مختلف لہجوں کے فرق سے 74 زبانیں بولی جاتی ہے ںسب سے زیادہ بولی جانے والی زبان پنجابی ہے جسے 48 فیصد افراد بولتے ہیں جبکہ 12 فیصد سندھی 10 فیصد سرائیکی  انگریزی اردو 8 فیصد پشتو  بلوچی 3 فیصد  ہندکو 2 فیصد اور ایک فیصد براہوی زبان کا استعمال کرتے ہیں مادری زبان نہ صرف انسان کی شناخت اور اظہار کا ذریعہ ہیں بلکہ بیش قیمت روایات بھی رکھتی ہیں ماہرین لسانیات کا کہنا ہے کہ ختم ہونے والی زبانوں کو جدید طریقوں سے ریکارڈ کر کے محفوظ بنایا جانا ضروری ہے تاکہ مستقبل میں ان زبانوں اور ان سے منسلک تہذیب و تمدن کو سمجھنے میں مدد لی جا سکے

No comments:

Post a Comment