ڈاکٹر خالد جاوید جان
ایم بی بی ایس ڈاکٹر
کالم نگار اردو اور پنجابی زبان کے شاعر
انٹرویو: صاحبزادہ یاسر صابری
03115311991
ڈاکٹر خالد جاوید جان لاہور باغبان پورہ میں 10 مئی 1953ء کو حضرت مادھو لال حسین کے مزار کے سامنے والی گلی میں پیدا ہوئے آپ نے گورنمنٹ کالج لاہور سے ایف ایس سی کرنے کے بعد راولپنڈی میڈیکل کالج میں جہاں جنرل ضیا کی بیٹی اور بیٹا بھی زیر تعلیم تھے مارشل لا کے خلاف اور بحالی جمہوریت کے حق میں زبردست تاریک چلائی۔
آپ اسلام اباد راولپنڈی کی مزدور تحریک کے ساتھ بھی وابستہ تھے جس کی وجہ سے مارشل لا انتظامیہ نے آپ پر بے پناہ تشدد کیے بازو اور ٹانگ کی ہڈیاں توڑ دی گئیں اور مارشل لا کے قوانین کے تحت مقدمات درج کیے گئے آپ جنرل ضیاء کے زمانہ بربریت میں جس ریاستی تشدد کا نشانہ بنے اگر اس کی تفصیل میں جایا جائے تو رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں آپ نے اس دور میں مزاحمتی شاعری اور ادب تخلیق کیا اور یوں عوامی جدوجہد میں نمایاں کردار ادا کیا۔
آپ کی شاعری جدوجہد کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ آپ کی شاعری سرحد پار بھارت تک کے محکوم طبقوں میں بھی ایک نئے انقلاب کی آبیاری کر رہی ہے۔آپ کی شاعری کے بھارت کی مختلف زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں۔آپ ادب اور مزاحمت کی ایک روشن مثال ہیں اور انے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ہیں۔
ڈاکٹر خالد جاوید جان کی نظم میں باغی ہوں مزاحمت کاروں کی نظم کے طور پر جانی جاتی ہے جب ریاستی پہرے اور صحافتی پابندیاں تھیں اس دور میں آپ کی نظم میں باغی ہوں زیر زمین سیاسی کارکنوں سے سفر کرتی برطانیہ تک پہنچ گئی یہ 1985ء کا ذکر ہے جب محترمہ بے نظیر بھٹو شہید نے یہ تاریخی نظم کانوائے حال لندن میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کی سالگرہ پر بڑھی جس کا ذکر انہوں نے اپنی کتاب دختر مشرق میں بھی کیا ہے 10 اپریل 1986 ء کو جب محترمہ بے نظیر بھٹو لاہور آئیں تو عوام نے ان کا تاریخ ساز استقبال کیا مینار پاکستان میں محترمہ بے نظیر بھٹو نے عظیم الشان عوامی جلسے میں اپنے خطاب میں ڈاکٹر خالد جاوید جان کی نظم میں باغی ہوں پڑھی جس کی وجہ سے اسے عالم گیر شہرت حاصل ہوئی۔
اس دور کی رسم و رواجوں سے
ان تختوں سے ان تاجوں سے
جو ظلم کی کوکھ سے جنتے ہیں انسانی خون سے پلتے ہیں
جو نفرت کی بنیادیں ہیں
اور خونی کھیت کی کھادیں ہیں
میں باغی ہوں میں باغی ہوں
جو چاہے مجھ پر ظلم کرو
سوال۔ آپ نے لکھنے کا آغاز کب اور کیوں کیا؟
جواب۔ میں جب سکول میں تھا تو سب سے پہلے چھٹی کلاس میں میں نے ایک نظم لکھی تھی اس کا نام تھا میرے وطن کے نونہال اور اس کے ساتھ 1965ءکی جنگ ابھی ختم ہوئی تھی تو حب الوطنی کے جذبے کے تحت ایک نظم لکھی۔
سوال۔ آپ کی اب تک کتنی کتابیں شائع ہو چکی ہیں اور کتنی زیر طبع ہیں؟
جواب۔ میری سب سے پہلے جو کتاب چھپی تھی جب میں گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھتا تھا یہ 1972ء کی بات ہے وہ ایک ناول تھا داستان حسرت اس زمانے میں میں تعلیم و تربیت جو رسالہ ہے اس میں بچوں کی کہانیاں لکھتا تھا اور اسی زمانے میں میری بچوں کی تین کتابیں فیروز سنز سے شائع ہوئیں آخری بار۔دس لاکھ کا آدمی اور بستی کا سورج اس کے بہت سارے ایڈیشن شائع ہوئے۔
ابھی حال ہی میں سنگ میل پبلی کیشنز نے یہ تینوں بچوں کی کتابیں دوبارہ شائع کی ہیں اس کے علاوہ میں نے میڈیکل کی کتابیں Human Body (انسانی جسم) ان کا اردو میں ترجمہ کیا تھا۔ میں بنیادی طور پر ایم بی بی ایس ڈاکٹر ہوں تو یہ بھی 1985ء میں شائع ہوئیں تھیں ابھی تک وہ بھی نرسسز کے کورس میں پڑھائی جا رہی ہیں اس کے علاوہ میں نے لیون ٹراسکی کی کتاب
فاشزم کیا ہے اور اس سے کیسے لڑا جائے کا ترجمہ کیا تھا وہ چھپی تھیں اس کے بعد میری جو نظم بہت مشہور ہوئی"میں باغی ہوں" کتاب 27 نومبر 1992ء کو شائع ہوئی تھی۔
محترمہ بے نظیر بھٹو اس تقریب کی مہمان خصوصی تھیں یہ کتاب پھر انڈیا میں بھی ہندی میں شائع ہوئی پنجابی میں بھی منی پوری زبان میں شائع ہوئی اور وہاں شسما سوراج نے اس کا افتتاح کیا تھا اس وقت وہ منسٹری اف انفارمیشن کی منسٹر تھی اس کے بعد میری پھر شاعری کی اور کتابیں شائع ہوئیں زنداں میں کوئی دیوانہ ۔آؤ مجھ کو مصلوب کرو عشق سلامت پنجابی شاعری تھی جو 2011ء میں شائع ہوئی اور اس کو پنجاب رائٹر گلڈ اور مسعود کھدر پوش ایوارڈ ملا ۔
سوال۔ آپ پنجابی زبان میں لکھنے کے ساتھ ساتھ اردو زبان میں بھی کچھ لکھتے ہیں ؟
جواب۔ جی ہاں میں نے آپ کو بتایا پنجابی زبان میں میری صرف ایک ہی کتاب ہے عشق سلامت باقی سارا کچھ میں نے اردو زبان میں لکھا ہے اور میں روزنامہ جنگ میں 2009 ءسے کالم لکھتا ہوں وہ بھی اردو میں ہیں باقی ساری تحاریر اردو میں ہیں ابھی میری جو نئی کتابیں آ رہی ہیں اس شہر سنگ میں شاعری۔آو راستے بدل لیں شاعری۔باغی نامہ کالموں کا مجموعہ سب اردو میں ہیں۔
سوال۔ نصف صدی قبل شاعر ہونا بڑی قابل فخر بات تھی لیکن آج ایسا نہیں ہے کیوں؟
جواب۔ نصف صدی پہلے شاعر ہونا بڑی قابل فخر بات تھی میرا خیال ہے آج بھی قابل فخر بات ہے۔ اچھے شعر جو اج بھی لکھ رہے ہیں ان کا نام ہے ان کی عزت ہے میرا نہیں خیال کہ کوئی فرق پڑا ہے ظاہر ہے اب آبادی بھی زیادہ ہو گئی ہے تو شاعروں کی تعداد بھی زیادہ ہو گئی ہے اس لیے ایسا محسوس ہوتا ہے لیکن پہلے ٹائم کچھ اچھے شاعر ہوتے تھے کچھ اتنے اچھے شاعر نہیں ہوتے تھے تو اچھی چیز جو ہوتی ہے اس کی ہر دور میں عزت کی جاتی ہے۔
سوال۔ میڈیکل کا شعبہ اپ نے کیسے اختیار کیا؟
جواب۔ میڈیکل کا شعبہ میں نے اپنے ماں باپ کی خواہش پوری کرنے کے لیے اختیار کیا اور اس زمانے میں کچھ اتنے اور زیادہ شعبے بھی نہیں ہوتے تھے یا میڈیکل ہوتا تھا یا انجئنرنگ ہوتی تھی یا وکالت اور آرمی تو وکالت وغیرہ اس وقت اتنے اہم نہیں سمجھے جاتے تھے ڈاکٹری یا انجئنرنگ کو زیادہ اہمیت دی جاتی تھی تو اس لیے میں میڈیکل میں آ گیا۔
سوال۔ میڈیکل کے شعبے سے وابستہ ہونے کے ادب کے لیے وقت نکالنا مشکل نہیں ہوتا؟
جواب۔ جہاں تک وقت نکالنے کی بات ہے میڈیکل کے شعبے کے ساتھ وابستہ ہونے کے باوجود ادب کے لیے تو وہ جو کام آپ نے کرنا ہوتا ہے میرا خیال ہے وقت سب کے پاس کافی ہوتا ہے کچھ وقت ہم ادھر ادھر اپنے شغلوں میں لگا دیتے ہیں ضائع کر دیتے ہیں اور اگر ان میں سے کوئی تخلیقی کام کرنا چاہیں تو آپ کے پاس وقت نکل ہی آتا ہے۔ سوال۔ ہمارے ہاں نثر کے مقابلہ میں شعر زیادہ کیوں کہے جاتے ہیں؟
جواب۔ ہمارے ہاں نثر کے مقابلے میں شعر زیادہ اس لیے کہے جاتے ہیں یہ ذرا سمٹا ہوا کام ہے نثر کے لیے آپ کو بہت لمبا لکھنا پڑتا ہے اور ایک شعر بھی وہ چیز بیان کر
لیتے ہیں جو آپ پوری ایک کتاب میں بیان کرنا چاہتے ہیں۔بشرط کہ شعر اچھا ہو۔
سوال۔ پنجابی غزل کے مستقبل کے بارے میں اپ کیا کہیں گے؟
جواب۔ پنجابی غزل کا مستقبل بہت اچھا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اگر پاکستان بننے کے بعد ہم نے کسی شعبے میں بھی ترقی نہیں کی اگر ہم نے ترقی کی ہے تو وہ ادب کے میدان میں ہے کیونکہ جن لوگوں کے حالات جتنے زیادہ خراب ہوتے ہیں وہ اتنا ہی اچھا ادب تخلیق کرتے ہیں اور اس میں اردو بھی ہے پنجابی بھی ہے علاقائی زبان بھی ہے ہاں پنجابی کے بارے میں یہ ضرور افسوس کی بات ہے کہ ہم پنجابی زبان کی طرف اتنے راغب نہیں ہوتے زیادہ فخر کرتے ہیں اردو میں لکھیں لیکن میرے خیال میں جو بات اپنی مادری زبان میں کہی جا سکتی ہے وہ دوسری زبان میں نہیں کہی جا سکتی خاص طور پر تصوف کی شاعری ہے صوفی شاعری ہے اس کے لیے پنجابی سے بہتر کوئی زبان نہیں۔
سوال۔ آپ کے ہم عصر شعراء؟
جواب۔ ہمارے بہت پیارے دوست عباس تابش عرفان صادق اور ہم سے کچھ سینئر نذیر قیصر ہیں کافی اچھے شاعر ہیں اچھا لگتا ان کے ساتھ مشاعرے پڑ ھ کے اور ان کے شعر سن کر۔
سوال۔آپ شعر اور کالم کے علاوہ کیا لکھتے ہیں؟
جواب۔شعر اور کالم کے علاوہ میں نے ناول لکھے ہیں تین بچوں کے ناول ہیں ایک بڑوں کا ناول ہے میڈیکل سائنس اور پولیٹکل سائنس کی کتابوں کے تراجم کیے ہیں۔
سوال۔ کیا یہ درست ہے کہ آپ کا زیادہ تر رجحان عوامی شاعری کی طرف ہے؟
جواب۔ عوامی شاعری آپ اس کو کہتے ہیں جو عوام کے مسائل سے تعلق رکھتی ہے میری زیادہ تر شاعری تو عوامی شاعری ہوتی ہے میری کتاب میں باغی ہوں وہ اردو کی پہلی کتاب ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مکمل طور پر عوامی شاعری کی کتاب ہے اس میں غزلیں وغیرہ نہیں ہیں اس میں عوامی مسائل کے بارے میں بات کی گئی ہے میرا زیادہ تر جو رجحان عوامی شاعری کی ہی طرف ہوتا ہے۔
سوال۔عوام کس قسم کی شاعری کو پسند کرتی ہے؟
جواب۔ عوام ہر طرح کی اچھی جو شاعری ہے اس کو پسند کرتی ہے اچھی شاعری سے مراد یہ ہے کہ جو ان کے جذبات کی ترجمانی کرتی ہو۔جذبات جو ہیں اس میں رومانی جذبات بھی ہوتے ہیں عوامی مسائل کے حوالے سے بھی جذبات ہوتے ہیں اور معاشرتی جو رویے ہیں ان کے حوالے سے بھی جذبات ہوتے ہیں تو جو شاعری ہے وہ ہر طرح کی اچھی جو ہے پسند کی جاتی ہے خاص طور پر باغیانہ یا انقلابی شاعری جس میں رومانس بھی ہو جس میں عوامی مسائل کو اجاگر کیا جائے وہ لوگوں کو یقینا ہمیشہ اچھی لگتی ہے۔
سوال۔ آپ مشاعروں میں شرکت کرنے کو پسند کرتے ہیں یا نہیں؟
جواب۔ میں دوسرے شاعروں کی نسبت مشاعروں میں کم جاتا ہوں اس لیے کہ میرے اور بہت سارے کام ایسے ہوتے ہیں جس کی وجہ سے میں مصروف رہتا ہوں بہرحال مشاعروں میں جاتا ہوں مگر بہت زیادہ نہیں بہت اچھی جگہ ہو جہاں دعوت نامہ ملے اور اچھے لوگ شریک ہوں تو میں وہاں ضرور چلا جاتا ہوں البتہ بیرون ملک بہت سارے مشاعروں میں گیا ہوں جہاں سے مجھے دعوت ملی امریکہ دبئی اور انگلینڈ گیا تو باہر کے مشاعرے میں شرکت کا موقع بھی ملتا رہتا ہے ۔
سوال۔ آپ نے شاعری میں اصلاح کس سے لی؟
جواب۔ میں ایک عام سا انسان ہوں نہ میں فرشتہ ہوں نہ شیطان ہوں بس ایک علم اور ادب کا متلاشی ہوں میری خواہش ہوتی ہے کہ کوئی چیز ہمیشہ اچھی سیکھوں میں ایک عاجزانہ رویے کا مالک ہوں میرے نزدیک انسان کی سب سے بڑی خوبی وہ ہے جو دوسروں کے لیے ہوتی ہے باقی تو ساری چیزیں اپ کے اپنے لیے ہوتی ہیں پیسہ شہرت اور اپ کی آسائش اپنے لیے ہوتی ہے دوسروں کے لیے جو چیز ہوتی ہے وہ اچھا اخلاق ہوتا ہے وہ ان کے احساسات ان کے معیار پر آ کر بات کرنا ہوتا ہے اور ان کے مسائل کو سمجھنا ہوتا ہے میں ایک عام سا انسان ہوں بلکہ یوں کہوں کہ ایک عام سا آدمی ہوں جو کوشش کر رہا ہوں ایک بہتر انسان بن سکوں۔
سوال۔ کیا لکھنے کے لیے کسی خاص ماحول کا ہونا ضروری ہے؟
جواب۔ لکھنے کے لیے ماحول تو خاص ہوتا ہی ہے کیونکہ ہر جگہ پہ تو نہیں لکھا جا سکتا اس کے لیے انسان کے ارد گرد سکون ہو کوئی پریشانی نہ ہو کیونکہ یہ جو فرمائشی طور پر چیزیں لکھی جاتی ہیں یہ مشہور نہیں ہوتیں نہ وہ لوگوں کے دلوں میں جگہ بناتی ہیں وہی چیزیں جگہ بناتی ہیں جو آپ کوشش کر کے خاص ماحول میں لکھتے ہیں جیسے میں باغی ہوں میری نظم جو تھی وہ ایک خاص ماحول تھا اور وہاں بیٹھے بیٹھے لکھی گی تنہائی تھی پھر ملک کے حالات ایسے تھے تو وہ لکھی گئی۔
سوال۔ ہمارے قارئین کے لیے تازہ کلام عنایت فرمائیں؟
جواب۔ چند اشعار کا قارئین کی بصارتوں کی نظر کرتا ہوں ؛
ہم آگ میں پھینکے گئے یا دار پہ لائے
ہر حال میں سچ کو لب گفتار پہ لائے
اب مجھ سے طلب کرتے ہیں اقرار اطاعت
جو لوگ مجھے کوفہ انکار پہ لائے
کاندھے پہ تو ہر شخص لیے پھرتا ہے سر کو
سردار وہی ہے کہ جو سر دار پہ لائے
*
کوئی دولت کوئی شہرت کوئی عزت مانگے
مانگنے والے میری جان یہ کیا مانگتے ہیں
میں نے اس رات بھی مانگا ہے خدا سے تجھ کو
لوگ جس رات میں بخشش کی دعا مانگتے ہیں
*
محبت اس گھڑی پہلے دنوں والی نہیں رہتی
پرانے دوستوں کے لب پہ جب گالی نہیں رہتی
چلے آؤ کوئی قابض نہ تخت دل پہ ہو جائے
زیادہ دیر تک مسند کوئی خالی نہیں رہتی
مناسب ہے قحط سالی کو بھی تم دھیان میں رکھو
کہ شہر حسن میں دائم یہ خوشحالی نہیں رہتی
بھرم کھلنے سے پہلے تم بلندی سے اتر آؤ
چٹانوں پر تو سارا سال ہریالی نہیں رہتی
بہاروں کا زمانہ بھی کبھی تو آ ہی جاتا ہے
ہمیشہ ہی خزاں تو باغ کی مالی نہیں رہتی
دئیے بارہ مہینے جلتے رہتے ہیں گھروں میں جان
مگر بارہ مہینے گھر میں دیوالی نہیں رہتی
*
جاتے جاتے بھی تری خاموشی کیا کچھ کہہ گئی
تو بتا ایسے کوئی انجان بھی ہو سکتا ہے؟
**
جس سجدے میں عشق کی آب و تاب نہیں
ماتھے پر اک داغ ہے وہ محراب نہیں
دل میں اترنے والے سوچ سمجھ کر آ
دل تو ایک سمندر ہے تالاب نہیں
کتنا تجھ کو لہو پلایا ہے ہم نے
دیس کی مٹی پھر بھی تو سیراب نہیں
*
غرض نہ تھی کسی کے ملنے اور ملانے سے
تجھے ہی دیکھنے آئے تھے ہم بہانے سے
میرا وجود بھی تحلیل ہو کے رہ جائے
نکال دوں تیرا گر نام میں فسانے سے
*
دنیا نے اس طرح مجھے بھلا دیا ہے جان
میرے پتے پہ خط بھی میرے نام کا نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment