فلک زاہد
کہانی نویس ۔افسانہ نگار تبصرہ نگار اور ناول نگار .
انٹرویو۔ صاحبزاد یاسر صابری۔03115311991
فلک زاہد نے نہایت کم عمری میں ہی ادب کی دنیا میں اپنا نمایاں مقام اور ایک منفرد شناخت قائم کی۔ خداداد صلاحیتوں کی مالک اس کم عمر مصنفہ کا تعلق زندہ دلوں کے شہر لاہور سے ہے۔ جہاں آپ 2دسمبر 1999ءکوپیدا ہوئیں۔آپ نے بچوں کے لیے ہارر کہانیاں لکھنے سے آغاز کیا اور بچوں اور بڑوں دونوں کے لیے بےشمار طبع زاد ہارر کہانیاں لکھیں۔ آپ تراجم بھی خوب کر لیتی ہیں۔ کہانیوں سے شروع ہونے والا یہ سفر افسانہ نگاری، تبصرہ نگاری، ناول نگاری، آرٹیکلز، سوانح حیات اور سفرنامے تک پہنچا۔ اکادمی ادبیات اطفال کی جانب سے آپ کو پاکستان کی کم عمر ترین مصنفہ ہونے کے اعزاز میں ایوارڈ اور کیش پرائز دیا گیا کیونکہ آپ نے بارہ سال کی عمر سے لکھنے کا آغاز کیا اور پہلی کتاب سترہ سال کی عمر میں منظر عام پر آئی۔
آپ کی تحاریر پاکستان کے کئ معیاری جرائد و رسائل، اخبارات اور قومی اور بین الاقوامی ویب سائٹس کی زینت بن چکی ہیں۔ جن میں اخبار جہاں، ڈر ڈائجسٹ کراچی، خوفناک ڈائجسٹ لاہور، مارگلہ نیوز انٹرنیشنل، بچوں کا باغ، بچوں کی دنیا، جگنو اور پھول قابلِ ذکر ہیں۔ کئ نامور کتابوں کے اندر آپ کے ثاثرات بھی محفوظ ہیں۔
آپ گولڈ میڈلسٹ ہونے کے ساتھ ساتھ کئ اعزازات، اعزازی سند اور متعدد ایوارڈز حاصل کر چکی ہیں جن کی تعداد چالیس کے لگ بھگ ہے۔ جن میں بہترین مصنفہ، بہترین کتاب، بہترین ہارر رائٹر جیسے ایوارڈز شامل ہیں۔آپ کی اب تک پانچ کتب منظز عام پر آ چکی ہیں ۔پہلی کتاب 15 پراسرا کہانیاں(ایورڈ و کیش پرائز ونر) کے باعث آپ کو پاکستان کی کم ترین مصنفہ ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔دوسری کتاب بھوتوں کا تاج محل تیسری کتاب قدیم چرچ ایوارڈ یافتہ ناول چوتھی کتاب داستان ہو شربہ اور پانچویں کتاب وادی سیر کمراٹ ایوارڈ و کیش پرائز سفرنامہ ہیں ۔آپ کو ہارر رائٹر کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ آپ سے ہونے والی گفتگو ملاحظہ کیجئے۔
س۔تعلیم کہاں سے حاصل کی؟
ج۔علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی سے پرائیویٹ تعلیم جاری ہے۔
س۔بچوں کی کہانیاں لکھنے کے علاوہ کس کس زبان میں تراجم کیے ہیں؟
ج۔میں انگریزی سے اردو میں ترجمے کرتی ہوں۔
س۔پلاٹ ذہن میں آنے کے بعد کس وقت لکھتی ہیں؟
ج۔موڈ پر انحصار کرتا ہے کوئی مخصوص وقت نہیں ہے۔
س۔آپ کے افسانے کیا آپ کی شناخت بن چکے ہیں؟
ج۔میں افسانے نہیں ہارر کہانیاں لکھتی ہوں جو میری پہچان ہیں۔ افسانے فی الحال دو تین سے زیادہ نہیں لکھے۔
س۔۔پسندیدہ ادبی شخصیت۔؟
ج۔چھوٹے بھائی ایڈووکیٹ مصنف مقرر نعت خواں حذیفہ اشرف عاصمی
س۔ادبی جریدے ادب کو پروان چڑھانے میں کس طرح اپنا کردار ادا کر رہے ہیں؟
ج۔آج کے دور میں جب کاغذ مہنگا اور پڑھنے والے کم ہیں ایسے میں مسلسل ماہانہ بنیادوں پر ادبی جریدوں کی اشاعت اردو ادب میں گراں قدر خدمات ہیں جن سے ادب سے لگاؤ رکھنے والے قارئین بھرپور فایدہ اٹھاتے ہیں۔
س۔تبصرہ نگاری میں کیا کچھ لکھا؟
ج۔جن کتابوں کا بھی مطالعہ کرتی ہوں ان پر مختصراً اپنے خیالات کا اظہار تبصرے کی صورت ضرور کرتی ہوں۔ اس کے علاوہ کئی کتب کے اندرونی صفحات پر میرے تاثرات بھی محفوظ ہیں۔
س۔آج کل کس موضوع پر لکھ رہی ہیں؟
ج۔حال ہی میں سفرنامہ کشمیر مکمل کیا ہے۔ اس کے علاوہ بچوں اور بڑوں کے لیے ہارر کہانیاں لکھنے کے ساتھ ساتھ رومانوی افسانہ بھی قلمبند کر رہی ہوں۔
س۔لکھنے کے لیے ادبی ماحول کا ہونا ضروری ہے؟
ج۔ہرگز نہیں! لکھنے کے لیے ادبی یا کسی قسم کے بھی مخصوص ماحول کی قطعاً ضرورت نہیں۔ جب الفاظ کسی دریا کی طرح آپ پر بہنا شروع ہوتے ہیں تو پھر وہ راہ میں آئی کوئی رکاوٹ نہیں دیکھتے بلکہ تواتر سے بہتے چلتے جاتے ہیں۔
س۔آپ کس سے متاثر ہیں؟
معروف مافوق الفطرت عناصر پر مبنی ناولز لکھنے والے مصنف انوار علیگی سے بہت متاثر ہوں۔
س۔ناول کا کینوس بہت وسیع ہوتا ہے اور بہت محنت طلب کام ہے اس کے لیے آپ کو وقت کیسے میسر آیا؟
ج۔انسان اپنے شوق کے لیے وقت نکال ہی لیتا ہے۔ اپنے پسندیدہ مشاغل کو وقت دینا درحقیقت خود کو وقت دینا ہے۔
س۔لکھنے کے لیے تنہائی کا ہونا ضروری ہے؟
ج۔بیشک لکھنے کے لیے تنہائی خاموشی اور یکسوئی ضروری ہے تاہم میں پہلے بھی کہہ چکی ہوں جب الفاظ ہاتھ باندھ کر آپ کے سامنے کھڑے ہوں پھر وہ کوئی وقت یا ماحول نہیں دیکھتے۔
س۔لاہور کی ادبی محفلوں کے حوالے سے کیا کہیں گی؟
ج۔لاہور ادب کا شہر ہے یہاں ادب کی خوشبو چار سو پھیلی ہوئی ہے۔ آئے روز ایک سے بڑھ کر ایک ادبی تقریبات و محافل لاہور کا حسن بڑھاتی ہیں جن میں شرکت کر کے ادبی شوق کو تسکین ملتی ہے۔
س۔اپنے ہم عصر لکھنے والوں کو کیا پیغام دیں گی۔؟
ج۔ہمیشہ مخلص رہیں۔ جھوٹ فریب سے گریز کریں۔
No comments:
Post a Comment